حمید سہروردی(گلبرگہ)
عزیز الحق کسی انجانے خوف کی وجہ سے پریشان لگ رہے تھے۔ افراد خاندان، ان کی یہ حالت دیکھ کر گھبرا گئے تھے۔ انہوں نے گھر کے کسی فرد سے کوئی ایسی بات نہیں کی تھی جس سے یہ اندازہ کر لیا جائے کہ آخر وہ کس پریشانی سے دو چار ہیں۔
عزیز الحق علی الصبح پانچ بجے اٹھتے اور خاندان کے بڑوں اور چھوٹوں کو بھی نیند سے بیدا رکرنے کی کوشش کرتے۔ وہ جلدی جلدی تیار ہو کر فجر کی نماز کے لئے مسجد کی طرف چل پڑتے۔ ان کے ساتھ بڑے اور بچے بھی رہتے۔ نماز ادا کرنے کے بعد وہ کبھی مسجد ہی میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے یا پھر گھر آکر۔ تلاوت کلام پاک کے بعد وہ بچوں کے ساتھ، خاص طور پر آداب و اخلاق کی باتیں کرتے۔ پھر اخبار کا مطالعہ کرتے اور اپنے آفس جانے کی تیاری کرنے لگتے۔
پتہ نہیں کیوں ادھر کچھ عرصے سے جیسے ان کے اندر کوئی چیز گم ہوتی جارہی تھی یا کسی خاص بات کا عرفان ہونے والا تھا۔ بس ایک بے چینی کے ساتھ ’’گم‘‘ کی سی کیفیت، ان کے قلب و ذہن پر طاری رہتی۔ ماں اور باپ، جب بھی ان سے دریافت کرتے، ان کی، اس کیفیت کے بارے میں، وہ مسکرا کر خاموش ہوجاتے تھے۔ والدین بھی، ان کے، اس رویے سے پریشان سے تھے۔ایک دن، ان کی خالہ نے ان کی ماں سے کہا ’’رقیہ تم عزیز الحق کو ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں لے جاتیں۔ آخر انہیں ایسی کون سی فکر کھائے جارہی ہے کہ وہ دن پہ دن اپنے آپ میں سکڑے ، سمٹے جارہے ہیں۔ ان کے چہرے کی رونق بھی کم ہوتی جارہی ہے‘‘۔
ماں نے کہا ’’میں نے بارہا عزیز میاں سے کہا ہے، مگر وہ صرف مسکرا کر ہی رہ جاتے ہیں۔ اور ڈاکٹر کے پاس جانے کو تیار نہیں ہوتے‘‘۔۔۔خالہ نے پلوسر پر درست کرتے ہوئے بڑے راز دارانہ انداز میں کہا ’’کہیں وہ اپنی شادی کے بارے میں تو نہیں سوچ رہا ہے‘‘۔
ماں نے پاندان اپنی بہن کی طرف سرکاتے ہوئے کہا ’’شادی کے لئے تو تم خود جانتی ہو، میں کب سے کہہ رہی ہوں، زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ ہے۔ بہو کے اچانک ڈیلیوری میں مرجانے کے بعد سے، میں انہیں سمجھا رہی ہوں مگر وہ کچھ بولتے ہی نہیں۔ پتہ نہیں کیوں وہ بہو کی موت کی ذمہ داری اپنے سر لیتے ہیں۔ عزیز میاں نے ذرین سے کچھ ایک لفظ بھی ایسا نہیں کہا کہ اس کی دل آزاوری ہوئی ہو۔ اب اکیلے میں ان کی کیا باتیں ہوتی تھیں میں تو جاننے سے رہی ، زرین بھی کبھی لب پر شکایت نہیں لائی‘‘۔
خالہ فکر مند ہوگئیں ’’اور کون سی ایسی بات ہو سکتی ہے۔ عزیز میاں اپنے آپ میں گم رہتے ہیں۔ کسی عامل سے رجوع کر کے ان کی کیفیت معلوم کرو‘‘۔
ماں چھالیہ کترتے ہوئے کہنے لگیں ’’ایسی کوئی بات نہیں۔ عزیز میاں اللہ کی ذات پر یقین کامل رکھتے ہیں اور اسلامی تعلیمات پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ اگر میں کسی عامل کی بات، عزیز میاں سے کروں گی تو پورے گھر کو سرپراٹھا لیں گے‘‘۔
‘‘ایسا کرتے ہیں کل جمعرات ہے۔ ہماری درگاہ میں ایک عامل صاحب رہتے ہیں۔ ان سے غائبانے میں، عزیز میاں کی حالت بتا کر تمام حالات معلوم کر لیں گے‘‘۔
ماں نے بے یقینی کے انداز میں کہا ’’ٹھیک مگر مجھے لگتا ہے کہ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا‘‘۔
ابھی ان دونوں بہنوں کے درمیان عزیز میاں کے بارے میں باتیں ہو رہی تھیں کہ عزیز میاں، ماں اور خالہ کے درمیان آکر کرسی پر بیٹھ گئے۔ خالہ کے گھریلو حالات پوچھنے لگے، خالہ نے سوچا، چلو عزیز میاں آج ان سے اتنے لگاؤ سے باتیں کر رہے ہیں۔ خالہ نے جہاں دیدہ نظروں سے عزیز میاں کو دیکھا۔ اور ان سے پوچھا۔
’’کیوں عزیز میاں تم دلہن کے انتقال کے بعد سے گم صم سے رہتے تھے۔ آخر کیا ماجرا ہے؟‘‘
’’نہیں خالہ جان ایسی تو کوئی بات نہیں۔ اللہ کی دی ہوئی چیز واپس لوٹ گئی۔ ہر جاندار اپنی اصل کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اس پر مایوس اور پریشان ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے درمیان سے جو شخص اٹھ جاتا ہے۔ اس کی یادیں خوشگوار بھی ہو سکتی ہیں اور ہماری سوچ کے منفی انداز کی وجہ سے ناخوشگوار بھی۔ مگر یہ ضرور ہے کہ ہر شخص زندگی میں اپنی ایک جگہ بنا لیتا ہے اور اس کے بعد وہ جگہ خالی ہی رہتی ہے۔ اسے دوسرا کوئی پر نہیں کر سکتا۔ زرین کو ہی دیکھئے اس کے ساتھ شب و روز اچھے گزرتے رہے کبھی نہ کوئی تکرار نہ جھگڑا۔ وہ سچ مچ بردباری اور اخلاق کا پیکر تھی۔ میں نہیں سمجھتا کہ خاندان کے کسی فرد سے وہ بے ادبی سے پیش آئی ہو۔ آپ خود بھی تو جانتی ہیں نا۔ آپ نے کبھی اس کے لہجے میں ناشائستگی محسوس کی……درمیان میں ہی عزیز میاں کی ماں بول اٹھیں۔
’’میں نے کبھی بہو کی زبان سے ایسا کوئی لفظ نہیں سنا جو بار خاطر ہو…… اور نہ ایسی کوئی حرکت، اس سے سرزد ہوئی جو کسی کی ناراضگی کا سبب بنے۔ میں نے بھی اس کو بیٹی کی طرح رکھا‘‘
خالہ نے پہلو بدلتے ہوئے کہا ’’میں بھی اس کی تعریف کئے بنا نہیں رہ سکتی…… مگر بیٹے تم اتنے گم صم کیوں رہتے ہو، تمہاری یہ کیفیت ہمارے لئے باعث تشویش ہے‘‘۔
خالہ آپ بھی عجیب باتیں کرتی ہیں، آپ تو جانتی ہیں میں ویسے بھی کم ہی بولتا ہوں۔ یوں تو زرین کے انتقال کے بعد بھی میرا دل، اس کی موجودگی سے خالی نہیں ہوا ہے۔ لیکن ہم ایک عرصے تک دو قالب ایک جان بن کر رہے پھر وہ اچانک ہمیشہ کے لئے دور چلی گئی یہ خلا تو محسوس ہوتا رہا ہے گا۔ اس کی یاد تو مجھے کچو کے لگاتی رہے گی۔ اس کی اور میری بیٹی…… خالہ آپ میری کیفیت نہیں سمجھ سکیں گی‘‘۔
’’پھر بھی عزیز میاں کوشش کرو کہ اس صورتحال سے نکل آؤ‘‘۔ خالہ نے بڑے معنی خیز انداز میں کہا اور پھر اپنی بہن سے مخاطب ہوئیں ’’بہت دیر ہوگئی ہے۔ میں گھر چلتی ہوں‘‘۔
دونوں بہنیں ایک ساتھ اٹھیں، دونوں کے قدم آگے بڑھنے گلے۔ خالہ مکان کے باہر نکل گئیں اور عزیز میاں کی ماں گھر میں واپس چلی آئیں۔ عزیز میاں اپنے کمرے میں چلے گئے۔عزیز میاں سوچنے لگے۔ کیا واقعی مجھ پر ’’گم‘‘ ہونے والی کیفیت اس قدر طاری ہوگئی ہے کہ افراد خاندان محسوس کر رہے ہیں۔ حالانکہ میں گھر میں ہر ایک کے ساتھ ویسی ہی باتیں کرتا ہوں جیسی پہلے کیا کرتا تھا۔ امی اور خالہ کے ذہن میں یہ بات کیوں سرایت کر رہی ہے کہ میں گم ہوتا جارہا ہوں؟‘‘۔ کیا واقعی زرین، میری شخصیت میں اتنی شریک تھی کہ اس کے بغیر میری اپنی ذات خالی خالی ہو کر رہ گئی ہے؟ ابا بھی مجھ سے بار بار ایسا کیوں کہتے رہے ہیں کہ عزیز میاں تم اپنے دوستوں سے ملا کرو اور ان کے ساتھ خوش گپیاں کیا کرو تو وقت کے گزرنے کا احساس نہیں ہوگا۔ رہی بچی تو اس کی دادی، اس کی دیکھ بھال کرتی رہیں گی۔ اور میں خود بھی تو دن بھر گھر پر رہتا ہوں۔ تم بچی کی فکر بالکل ہی مت کرو‘‘۔
عزیز میاں اپنے لکھنے پڑھنے کی میز پر آبیٹھے۔ میز پر رکھا ہوا اخبار اٹھایا۔ ان کی نظر میں اخبار کی سرخیوں پر پڑیں۔ آج کی شاہ سرخی تھی۔’’سرکاری دفاتر نذر آتش۔ گاڑیوں پر پتھراؤ۔ پانچ بسیں جلا دی گئیں۔ فوج کا فلیگ مارچ‘‘۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ آج کل اخباروں میں قتل و خون، غارت گری ، لوٹ مار کی خبریں ہی شائع ہو رہی ہیں۔ کہیں سکون نہیں…… وہ کرسی پر سیدھے ہو کر ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اخبار ٹیبل پر رکھ دیا۔ اب ان کی نظریں کمرے کی چھت کو گھور رہی تھیں۔ خارجی صورتحال اور داخلی کیفیات کے دمیان ایک سنگھرش جاری تھا۔ ان کی آنکھیں بد ستور، چھت کو گھور رہی تھیں، مگر ان کے ذہن میں کئی طرح کی تصویریں آرہی تھیں اور جارہی تھیں۔ بظاہر وہ ساکت و جامد تھے۔ لیکن ان کے چہرے پر آتے جاتے رنگ ان کی دلی حالت کا اظہار کر رہے تھے وہ ایک بار پھر کرسی پر سیدھے ہوئے اور بڑ بڑانے لگے کہ زمین پیروں کے نیچے سے کھسک رہی ہے اور سر سے آسمان سرک رہا ہے۔ پتہ نہیں کون سی سمت سے کون آئے گا اور گمشدہ زمین اور آسمان کو ان کی اپنی اپنی جگہ پر محفوظ کردے گا؟ کیا یہ ممکن ہے؟ یا پھر ظلمتوں کے پردے آن پڑیں، گے؟۔
’’بیٹا تم کب تک اپنے آپ میں گم رہو گے؟ اجالے کی طرف قدم بڑھاؤ اب بہت ہو چکا‘‘۔ اچانک ان کے ابا نے کمرے میں داخل ہوتے رہے کہا۔عزیز میاں نے اپنے ابا کو حیرت زدہ ہو کر دیکھا۔ اور ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ ان کا سارا بدن لڑ کھڑا ساگیا۔ پھر انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا۔
’’ابا آپ شاید سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ ہم نے اپنی ’’اصل‘‘ سے ناطہ توڑ لیا ہے۔ اور میں ہی نہیں ہم سبھی ’’گم‘‘ ہوجانے کے اندیشوں سے دو چار ہیں‘‘۔