میں نے تمہاری آنکھ کی پُتلی میں بینائی ڈال دی ہے۔ میں نے تمہارے باطن میں ایک نئی دنیا پیدا کر دی ہے۔ سارا مشرق سویا پڑا تھا کہ ستاروں کی نگاہ بچا کر میں نے زندگی کے نغمے سے صبح تخلیق کر دی ہے۔
تمہید
مشرق کی رُوح سے وہ پرانا سوز جاتا رہا۔ اس کا دم پھول گیا ہے اور اس کی جان جسم سے نکل چکی ہے۔
اُس تصویر کی مانند جو سانس کے بندھن کے بغیرزندہ رہتی ہے اور نہیں جانتی کہ زندگی کا لطف و لذّت کیا ہے
اس کا دل مقصد و مدعا سے بیگانہ ہو گیا اور اس کی بانسری نغمہ و آواز سے خالی ہو گئی۔
میں نے بات کو نئے انداز میں پیش کیا یعنی محمود کے رسالہ کا جواب دیا۔
شیخ کے عہد سے لے کر اب تک کسی نے ہماری روح میں ایسی چنگاری نہیں جلائی،
ہم کفن پہنے ہوئے مردے کی طرح قبر میں تھے مگر کسی ہنگامۂ قیامت سے دوچار نہیں تھے۔
اُس دانائے تبریز کے سامنے وہ قیامتیں گزریں جو چنگیز کے کھیت سے آئی تھیں،
میری نگاہ نے ایک دوسرا انقلاب دیکھا اور کسی دوسرے آفتاب کو طلوع ہوتے دیکھا۔
میں نے معنی کے چہرے سے پردہ اٹھایا اور ذرہ کے ہاتھوں میں ایک آفتاب تھما دیا۔
تم یہ مت سوچنا کہ میں بغیر شراب پیے مست ہوں اور میں نے شاعروں کی طرح افسانہ گھڑا ہے،
تمہیں اُس کم ظرف انسان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا جس نے مجھ پر شعر و شاعری کی تہمت باندھی ہو۔
مجھے حسینوں کے کوچے سے کوئی سروکار نہیں۔ میں کوئی عاشق و فریفتہ دل رکھتا ہوں نہ کسی کے حسن کا دیوانہ ہوں،
میری خاک کسی کی راہگزر کی خاک ہے نہ میرے جسم میں دلِ بے قرار ہے،
میں تو جبریلِ امیں سے ہمکلام ہوں اور رقیب، قاصد اور دربان سے آشنا نہیں۔
مجھے فقر کی بدولت کلیم اللہ کا سامان میسر آ گیا ہے اور میرے خرقۂ درویشی میں شہنشاہوں کا رعب و داب ہے۔
میں اگر خاک ہوں تو کسی صحرا میں نہیں سماؤں گا اور اگر پانی ہوں تو کسی سمندر میں نہیں آؤں گا۔
پتھر کا دل میرے شیشے سے لرزتا ہے اور میرے افکار کا سمندر ساحل کو قبول نہیں کرتا۔
میرے پردے میں تقدیریں چھپی ہوئی ہیں اور قیامت میری گود میں پلی ہے۔
ذرا دیر کے لیے میں اپنی ذات میں ڈوب گیا اور ایک لازوال دنیا تخلیق کی،
’’مجھے اِس شاعری سے عار محسوس نہیں ہوتی کیونکہ صدیوں میں بھی کوئی عطار پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
میری روح میں حیات و موت کی جنگ جاری ہے اور میری نگاہیں حیاتِ جاوداں پر مرکوز ہیں۔
میں نے تمہارے جسم کو روح سے بے پرو ا دیکھا لہٰذا میں اُس میں اپنی روح پھونک دی۔
مجھ میں جو آگ جل رہی ہے اُس سے سراپا جل رہا ہوں، پس تم اپنی رات کو میرے چراغ سے منور کر لو۔
میری مٹی میں دل کو دانہ کی طرح بویا گیا ہے اور میری لوح پر کوئی اور ہی تحریر لکھ دی گئی ہے۔
خودی کا ذوق میرے لیے شہد کی طرح ہے، کیا بتاؤں کہ میرے واردات بس یہی ہیں۔
پہلے میں نے خود اس کے کیف و لذت کا تجربہ کیا اور پھر اسے اقوامِ مشرق میں بانٹ دیا۔
اگر جبریل یہ رسالہ پڑھے تو اپنا خالص نور گرد کی طرح جسم سے جھاڑنا شروع کر دے،
اپنے مقام و مرتبہ پر فریاد کرے اور یزداں سے اپنے دل کا درد کہہ ڈالے:
’’میں آپ کی تجلی کو اتنا بے حجاب نہیں دیکھنا چاہتا، میں بس دردِ پنہاں چاہتا ہوں اور کچھ نہیں!
میں اِس دائمی وصال سے باز آیا کہ میں نے آہ و فغاں کی لذّت چکھ لی ہے،
مجھے انسان کا ناز و نیاز عطا فرمائیے اور میری جان میں اُس کا سوز و گداز پیدا کر دیجیے!‘‘
سوال ۱
سب سے پہلے میں اپنی سوچ کے بارے میں حیران ہوں کہ وہ کیا چیز ہے جسے سوچنا کہتے ہیں،
کون سی سوچ ہمارے لیے سفر کی شرط ہے اور کیوں یہ کبھی نیکی اور کبھی گناہ ہے؟
جواب
انسان کے سینے میں کون سا نور ہے؟ وہ کیسا نور ہے کہ اُس کا غیب حضور ہے!
میں نے اُسے اپنی جگہ پر قائم مگر سفر میں دیکھا ہے، اُسے نور دیکھا ہے اور نار دیکھا ہے۔
کبھی اُس کی آگ برہان اور دلیل ہے اور کبھی اُس کا نور جبرئیل کے جوہر سے ہے۔
کیسا روح کو تڑپانے اور قلب کو گرمانے والا نور ہے کہ اس کی کرن کے سامنے سورج ہیچ ہے!
مٹی میں ملا ہوا مگر مکان کی قید سے آزاد اور شب و روز کے بند میں جکڑا ہوا مگر زمان کی گرفت سے آزاد ہے۔
اُس کی زندگی کا حساب سانسوں کی گنتی سے نہیں لگایا جا سکتا کہ اُس جیسا ڈھونڈنے اور پانے والا اور کوئی نہیں ہے۔
کبھی تھکاہارا ساحل پر پڑا ہوتا ہے اور کبھی بیکراں سمندر اُس کے جام میں ہوتا ہے۔
یہ سمندر بھی ہے اور موسیٰ کا عصا بھی ہے جس سے سمندر کا سینہ دو نیم ہو جاتا ہے۔
یہ وہ ہرن ہے کہ آسمان اس کی چراگاہ ہے اور کہکشاں سے پانی پیتا ہے۔
زمین و آسماں اس کے لیے صرف ایک منزل ہیں اور وہ کارواں کے بیچوں بیچ تنہا چلا جا رہا ہے۔
ظلمت و نور کے جہان، صور کی آواز، موت اور جنت و حور اُس کے احوال ہیں۔
اُسی سے ابلیس اور آدم کی نمود ہے اور اُسی سے ابلیس و آدم کی کامیابی ہے۔
نگاہ اُس کے جلوے سے سیر نہیں ہوتی کہ اُس کی تجلی خدا کا دل لے لینے والی ہے۔
ایک آنکھ سے اپنی خلوت کو دیکھتا ہے اور دوسری سے اپنی جلوت پر نظر رکھتا ہے،
اگر ایک آنکھ بند کر لے تو یہ گناہ ہوگا اور اگر دونوں آنکھیں بند کر لے تو یہ راستے کے لیے ضروری ہے!
اپنی ندی سے ایک سمندر پیدا کر لیتا ہے لیکن اپنی گہرائی میں اُترتا ہے تو موتی بن جاتا ہے۔
اُسی لمحہ وہ دوسری صورت اختیار کر کے غواص ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو باہر نکال لیتا ہے۔
اُس میں بے آواز ہنگامے ہیں اور ایسے رنگ و آواز جنہیں آنکھ دیکھ سکتی ہے نہ کان سن سکتے ہیں۔
اُس کی صراحی میں زمانہ ہے مگر ہم پر بتدریج ظاہر ہوتا ہے۔
زندگی اُس کی کمند پھینکتی ہے اور ہر پست و بلند کا شکار کرتی ہے۔
اُس کے ذریعے خود کو اپنی قید میں لاتی ہے یہاں تک کہ ماسوا کی گردن مروڑ دیتی ہے۔
کسی دن دونوں جہاں اُس کا شکار ہو جائیں گے اور اُس کی پیچدار کمند میں آ پھنسیں گے۔
اگر تم ان دونوں جہا نوں کو فتح کرو تو تمام دنیا مر جائے گی مگر تم نہیں مرو گے۔
طلب کے بیابان میں سستی سے پاؤں مت رکھو بلکہ پہلے وہ دنیا فتح کر لو جو تمہارے اندر ہے۔
اگر مغلوب ہو تو اپنے آپ کو فتح کر کے غالب ہو جاؤ۔ خدا کو چاہتے ہو؟ اپنے آپ سے قریب ہو جاؤ!
اگر اپنے آپ کو تسخیر کرنے میں طاق ہو گئے تو تمہارے لیے دنیا کی تسخیر آسان ہو جائے گی۔
کتنا مبارک ہو گا وہ دن جب تم اِس دنیا کو تسخیر کرو گے اور نو آسمانوں کا سینہ شگاف کر دو گے۔
چاند تمہارے سامنے سجدہ کرے گا اور تم اُسے اپنی آہوں کی کمند میں لپیٹ لو گے۔
اِس پرانے بتکدے میں آزاد ہو گے اور بتوں کو اپنی مرضی کے مطابق تراشو گے۔
دنیائے چار سو یعنی روشنی، آواز، رنگ اور بو کے جہان کو اپنے قبضے میں لانا،
اس کے کم بڑھنے کو زیادہ کرنا اور اپنی مرضی سے بدلنا،
اُس کے خوشی اور غم سے دل نہ لگانا اور اُس کے نو آسمانوں کے طلسم کو توڑنا،
اُس کے دل میں تیر کی اَنی کی طرح اترنا اور اپنے گیہوں کو اُس کے جَو کے بدلے نہ دینا،
یہی ہے خسروانہ شکوہ، یہی ہے۔ یہ ہے وہ ملک جو دین کا جڑواں بھائی ہے۔
سوال ۲
کون سا سمندر ہے جس کا کنارہ علم ہے اور اس کی گہرائی میں کون سا موتی ملتا ہے؟
جواب
یہ پُردم زندگی ایک بہتا سمندر ہے جس کا کنارا شعور اور آگہی ہیں۔
ایسا دریا ہے جو بہت گہرا اور موجوں والا ہے اور جس کے کنارے ہزاروں کوہ و صحرا ہیں۔
اس کی بے قرار موجوں کی مت پوچھو کہ ہر موج کنارے سے باہر نکل گئی،
سمندر سے نکلی اور صحرا کو نمی دی، نگاہ کو کیفیت اور مقدار کی لذّت بخشی۔
جو چیز اس کے سامنے آتی ہے وہ اس کے شعور کے فیض سے روشن ہو جاتی ہے۔
وہ خلوت میں مست رہتی اور صحبت سے بھاگتی ہے مگر ہر شے اُس کے نور سے منوّر ہے،
کہ پہلے وہ اُسے روشن کرتی ہے اور پھر ایک آئین کا پابند کر دیتی ہے۔
اُس کے شعور نے اُسے دنیا سے قریب کیا اور دنیا نے اُسے اُس کے راز سے بیخبر کر دیا۔
عقل نے اُس کے چہرے سے نقاب اٹھائی مگر قوتِ گویائی نے اُسے زیادہ بے حجاب کیا۔
وہ اِس جہانِ مکافات میں نہیں سماتی کہ یہ دنیا اُس کے مقامات میں سے بس ایک مقام ہے!
تم دنیا کو اپنے آپ سے باہر دیکھتے ہو، اس میں میدان و بیابان، سمندر، صحرا اور کانیں دیکھتے ہو،
یہ رنگ و بو کی دنیا ہمارا گلدستہ ہے جو ہم سے آزاد بھی ہے اور وابستہ بھی!
خودی نے اسے ایک تارِ نگاہ سے باندھ دیا ہے یعنی زمین، آسمان اور چاند ستاروں کو ۔
ہمارے دل کو اس سے ایک پوشیدہ تعلق ہے کہ ہر موجود ایک نگاہ کا رہینِ منت ہے،
اگر کوئی اِسے نہ دیکھے تو یہ سمٹ جائے لیکن اگر دیکھے تو یہ سمندر اور پہاڑ بن جائے۔
دنیا کی ضخامت ہمارے دیکھنے کی وجہ سے ہے، اِس کا پودا ہمارے بڑھنے سے بڑھا ہے۔
دیکھنے والے اور نظر آنے والے کی بات ایک راز ہے کہ ہر ذرّے کے دل میں یہ درخواست ہے:
اے دیکھنے والے مجھے نظر آنے والا سمجھ لواور ایک نظر کی برکت سے مجھے موجود بنا دو!
کسی چیز کی ہستی کا کمال اُس کا موجود ہونایعنی کسی دیکھنے والے کو نظر آنا ہے
اور اُس کا زوال ہمارے سامنے نہ ہونا یعنی ہمارے شعور سے روشن نہ ہونا ہے۔
دنیا ہماری تجلّی کے سوا کچھ اور نہیں ہے اِس لیے کہ روشنی اور آواز کا جلوہ ہمارے بغیر ممکن نہیں۔
تم بھی اس کی صحبت سے مدد حاصل کرو اور اس کے پیچ و خم سے اپنی نظر کی تربیت کرو۔
’’یقین جانو کہ تم شکاری شیر ہو اور اِس راہ میں چیونٹی سے مدد طلب کی گئی ہے۔‘‘
اُس کی مدد سے اپنی خبر پاؤ، تم جبریلِ امین ہو، بال و پر حاصل کر لو!
اپنی عقل کی آنکھ کو کثرت پر کھولو تاکہ وحدت کا جلوہ تمہارے ہاتھ لگے۔
بوئے پیرہن سے اپنا حصہ حاصل کرو اور کنعان میں بیٹھے ہوئے مصر و یمن کی خوشبو محسوس کرو۔
خودی شکاری ہے اور چاند ستارے اُس کے شکار ہیں جو اُس کی تدبیر کے جال میں قید ہیں۔
آگ کی طرح دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لو اور مکان و لامکاں پر شبخوں مار ڈالو۔
سوال ۳
جس کا ہونا محض امکان ہو اُس کا وصال اُس کے ساتھ کیسا جس کا وجود کسی کا محتاج نہیںاور یہ نزدیکی، دُوری، کم اور زیادہ کا معاملہ کیا ہے؟
جواب
یہ کیوں اور کیسے کا جہاں سہ پہلو ہے اور عقل اس کی کیفیت اور کمیت کے لیے کمند ہے،
یہ طوسی اور اقلیدس کی دنیا ہے اور زمین کو ناپنے والی عقل کے لیے بس یہی ہے۔
اس کے زمان و مکان بھی اندازے کے محتاج ہیںاور اس کے زمین اور آسمان بھی!
کمان پر چلّہ چڑھاؤ اور اپنا ہدف معلوم کرو۔ میری باتوں سے معراج کا نکتہ سمجھ لو۔
اِس جہانِ مکافات میں ذاتِ مطلق کی تلاش مت کرو کہ ذاتِ مطلق صرف آسمانوں کا نور ہے۔
حقیقت لازوال اور لامکاں ہے، اب یہ مت کہنا کہ دنیا لامحدود ہے۔
اس کا کنارا اِس کے اندر ہے اور پست ہے مگر اس کی بلندی بھی کم بڑھنے والی نہیں ہے۔
اس کا باطن پست و بلند سے عاری ہے مگر اس کا ظاہر پھیلاؤ رکھنے والا ہے۔
ہماری عقل ابد کو سمجھنے کے قابل نہیں کہ جو ایک تھا وہ اس کی کشمکش سے ہزار ہو گیا ہے۔
یہ چونکہ لنگڑی ہے اس لیے سکون کو پسند کرتی ہے، مغز کو نہیں دیکھتی اور کھال پر فریفتہ ہے۔
چونکہ ہم نے حقیقت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے اس لیے ساکن اور متحرک میں فرق کرتے ہیں۔
عقل نے لامکاں میں بھی مکاں کی طرح ڈالی اور وقت کو زنار کی طرح لپیٹ لیا،
اپنے باطن میں وقت کا مشاہدہ نہ کیا اور ماہ و سال اور شب و روز بنا بیٹھی۔
تمہارے ماہ و سال ایک جو کے برابر بھی نہیں، ذرا کَم لَبِثتُم کے الفاظ میں ڈوب کر دیکھو!
اپنے آپ تک پہنچو اور اِس ہنگامے سے دل اٹھا کر اپنے آپ کو اپنے ضمیر میں ٹپکا لو۔
جسم اور روح کو دو کہنا قابلِ اعتراض ہے اور انہیں الگ الگ دیکھنا حرام ہے۔
روح میں کائنات کا راز پوشیدہ ہے اور جسم زندگی کے احوال میں سے بس ایک حال ہے۔
معنی کی دلہن نے صورت کی مہندی رچائی ہے اور اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لیے زیور پہن لیے ہیں۔
حقیقت اپنے چہرے کے لیے پردہ بُنتی ہے کیونکہ اُسے دریافت ہونے میں لذّت ملتی ہے۔
فرنگ نے جسم کو روح سے الگ دیکھا تو اُس کی نگاہ کو ملک اور دیں بھی جدا دکھائی دیے۔
کلیسا پطرس کی تسبیح پڑھتا ہے کیونکہ اُسے حکومت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
حکومت کے کاموں میں مکر و دغا دیکھو، بے روح جسم اور بے جسم روح دیکھو!
عقل کو اپنے دل کا ہمسفر بنا کر ذرا ترک قوم کو دیکھو،
فرنگ کی تقلید میں اپنے آپ سے دُور ہو گئے اور ملک و دیں کے درمیان تعلق نہ دیکھ سکے۔
ہم نے ایک کو ایسا ٹکڑے ٹکڑے دیکھا کہ اُسے شمار کرنے کے لیے عدد ایجاد کر لیے۔
یہ پرانا بت کدہ جو تمہیں خاک کی مٹھی دکھائی دے رہا ہے ذاتِ پاک کی سرگزشت میں سے ایک گزرتا ہوا لمحہ ہے۔
فلسفی مُردے کی تصویر بنانے والے ہیں کہ اُن کے پاس یدِ بیضا اور دمِ عیسیٰ نہیں ہیں۔
میرے دل نے اِس حکمت میں کچھ نہ دیکھا۔ وہ کسی اور ہی حکمت کے لیے بے قرار ہے۔
میں یہ کہتا ہوں کہ دنیا بدلتی ہوئی ہے کہ اُس کا باطن زندہ اور پیچ و تاب میں ہے۔
اپنے اعداد و شمار چھوڑو اور ذرا اپنے آپ میں دیکھو، آگے بڑھو۔
اُس دنیا میں جہاں جزو کل سے بڑھا ہوا ہے، رازی اور طوسی کے اندازے محض دیوانگی ہیں۔
تم ایک مدت ارسطو سے واقفیت حاصل کرتے رہو، کچھ دیر بیکن کے ساز میں بھی اپنی آواز ملا لو،
مگر آخر اُن کے مقام سے آگے گزر جاؤ اور اِس منزل میں گم مت ہو جاؤ، آگے بڑھ جاؤ۔
اُس عقل سے جو کم و بیش کو پہچانتی اور دریا اور کان کے باطن کا حال جانتی ہے،
دنیائے کیف و کم کو تسخیر کرو اور آسمانوں میں ماہ و پرویں پر کمند ڈالو
مگر دوسری حکمت بھی سیکھو اور اپنے آپ کو شب و روز کے طلسم سے رہا کرواؤ۔
تمہارا مرتبہ دنیا سے بلند ہے۔ تم وہ دایاں ہاتھ طلب کرو جو بائیں کا محتاج نہ ہو۔
سوال ۴
جو ہمیشہ سے ہے اور جسے بنایا گیا وہ ایک دوسرے سے جدا کیسے ہوئے کہ ایک دُنیا ٹھہرا اور دوسرا خدا ہوا؟
جسے پہچانا جا رہا ہے اور جو پہچان رہی ہے وہ اگر خدا کی ذات ہی ہے تو پھر یہ انسان کے دماغ میں کیا سودا سمایا ہے؟
جواب
دوسرے کو تخلیق کرنا خودی کی زندگی ہے چنانچہ پہچاننے والے اور پہچانے جانے والے کی جدائی خیر ہے۔
ہم جو کسی کو ہمیشہ سے موجود سمجھتے ہیں اور کسی کو بنایا ہوا جانتے ہیں یہ ہمارے اندازے کی بات ہے جو گزرتے ہوئے دنوں کا طلسم ہے۔
ہم گزرے ہوئے کل اور آنے والے کل کو شمار کرتے رہتے ہیں اور ماضی، حال اور مستقبل سے سروکار رکھتے ہیں۔
اپنے آپ کو اُس سے علیحدہ کر لینا، پھر تڑپنا اور اُسے نہ پانا ہماری فطرت ہے۔
نہ اُس سے علیحدہ ہوئے بغیر ہماری قدر و قیمت ہے نہ اُسے ہمارے وصال کے بغیر قرار ہے،
نہ وہ ہمارے بغیر ہے نہ ہم اُس کے بغیر، عجیب راز ہے کہ ہماری جدائی وصال میں فراق ہے۔
جدائی خاک کو نگاہ بخشتی ہے اور گھاس کی پتی کو پہاڑ کا سرمایہ عطا کرتی ہے۔
جدائی عشق کی خوبی اور خامی ظاہر کرنے والی ہے اور عاشقوں کو راس آتی ہے،
ہم اگر زندہ ہیں تو دردمندی کی وجہ سے اور اگر قائم ہیں تو دردمندی کی وجہ سے!
میں اور وہ کیا ہے؟ خدا کا راز ہے، میں اور وہ ہمارے دوام پر گواہ ہیں۔
نورِ ذات خلوت میں بھی ہے اور جلوت میں بھی ہے کہ انجمن میں رہنا ہی زندگی ہے۔
انجمن کے بغیر محبت صاحبِ نظر نہیںہوتی اور اپنے آپ کو دیکھنے کے قابل نہیں بنتی۔
ہماری بزم میں اُس کے جلوے دیکھو کہ ُدنیا غائب اور وہ ظاہر ہے،
درودیوارہیں نہ شہر، محل اور محلے کہ یہاں میرے اور اُس کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔
کبھی وہ اپنے آپ کو ہم سے بیگانہ کرلیتا ہے اور کبھی ہمیں ساز کی طرح بجانے لگتا ہے۔
کبھی ہم پتھر سے اُس کا نقش بناتے ہیں، کبھی بغیر دیکھے اُسے سجدہ کرتے ہیں،
کبھی فطرت کا ہر پردہ چاک کرکے بے جھجک محبوب کا دیدار کرلیتے ہیں۔
انسان کے دماغ میں یہ کیسا سودا سمایا ہے؟ اِسی سودے سے ہمارا باطن روشن ہے۔
کتنا اچھا سودا ہے کہ اُس کی جدائی میں روتا ہے مگر اسی جدائی سے پروان بھی چڑھتا ہے۔
اُس کی جدائی نے ایسا صاحبِ نظر بنایا ہے کہ اس نے اپنی شام کو اپنے لیے سحر بنا لیا ہے۔
خودی کو امتحان کے ہاتھوں دردمند بنا کر اُس کے کبھی ختم نہ ہونے والے غم کو خوشی میں بدل دیا،
روتی ہوئی آنکھ سے موتیوں کی لڑیاں حاصل کیں اور ماتم کے درخت سے میٹھا پھل وصول کر لیا۔
خودی کو خوب بھینچ کر آغوش میں لینا فنا کو بقا کا ہم پلّہ بنانا ہے۔
محبت؟ مقامات کو گرفت میں لینا! محبت؟ انتہاؤں سے آگے گزر جانا!
محبت کو انجام کا شوق نہیں ہوتانہ اس کی صبح کے طلوع کی کوئی شام ہوتی ہے۔
اس کی راہ میں عقل پیچ و خم کی طرح ہے اور دنیا ایک لمحے کی چمک ہے۔
ہمارے راستے میں ہزاروں دنیائیں ہیں۔ ہماری جولاں گاہیں کب ختم ہونے والی ہیں!
اے مسافر، ہمیشہ کے لیے مر کر ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جاؤ اور جو دنیا آنے والی ہے اُسے اپنے تصرف میں لے آؤ!
اُس کے سمندر میں گم ہو جانا ہمارا انجام نہیں ہے۔ اگر تم اُسے حاصل کر لو تو یہ تمہاری فنا نہ ہو گی۔
ایک خودی کا دوسری خودی میں سما جانا محال ہے۔ خودی کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنا جوہر بن جائے!
سوال ۵
میں کون ہوں، مجھے میری خبر دیجیے اور یہ اپنے آپ میں سفر کرنے کا مطلب کیا ہے؟
جواب
خودی کائنات کی حفاظت کا تعویذ ہے اور زندگی اُس کی ذات کی پہلی کرن ہے۔
زندگی میٹھی نیند سے بیدار ہوتی ہے تو اُس کا باطن جو ایک ہے وہ دو حصوں میں بٹ جاتا ہے۔
نہ ہمارے ظہور کے بغیر اُس کا پھیلاؤ ممکن ہے نہ اُس کے پھیلاؤ کے بغیر ہمارا ظہور ممکن ہے۔
اُس کا باطن سمندر ہے جس کا کوئی کنارا نہیں اور جس کے ہر قطرے کا دل ایک بیقرار موج ہے۔
اُسے صبر کی پروا نہیں اور افراد کے سوا اُس کا کوئی ظہور نہیں۔
زندگی آگ ہے اور خودیاں چنگاریوں کی مانند ہیں۔ وہ ستارے کی طرح اپنی جگہ پر قائم بھی ہے اور سفر میں بھی ہے۔
اپنے آپ سے نکلے بغیر وہ غیر کو دیکھ لیتی ہے اور مجمع میں ہونے کے باوجود خلوت نشیں ہے۔
ذرا اُس کا اپنے آپ میں تڑپنا دیکھو اور اِس گزر جانے والی زمین سے اُس کا بڑھنا دیکھو!
وہ آنکھوں سے پوشیدہ آہ و نالہ کرتی رہتی ہے اور اُسے ہر وقت رنگ و بو کی تلاش رہتی ہے۔
وہ اپنے سوزِ دروں کی وجہ سے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور ایک خاص روش پر اپنے آپ سے برسرِپیکار ہے۔
اس کی کشمکش کی وجہ سے دنیا کا ایک نظام ہے۔ کشمکش کی وجہ سے انسان آئنہ فام ہو جاتا ہے۔
اس کی روشنی سے خودی کے سوا کوئی چنگاری نہیں جھڑتی اور اُس کے سمندر میں موتی کے سوا کچھ اور نہیں پیدا ہوتا۔
خودی کے لیے پیکرِ خاکی حجاب ہے جس پر وہ آفتاب کی طرح طلوع ہوتی ہے۔
اس کے طلوع ہونے کا مقام ہمارے سینے میں اور ہماری مٹی میں روشنی اُس کے جوہر سے ہے۔
تم کہتے ہو، ’’مجھے میری خبر دیجیے اور یہ اپنے آپ میں سفر کرنے کا مطلب کیا ہے؟‘‘
میں نے تمہیں بتایا ہے کہ جسم اور روح کا تعلق کیا ہے۔ اپنے آپ میں سفر کرو اور دیکھو کہ ’’میں‘‘ کیا ہے۔
اپنے آپ میں سفر؟ بغیر ماں باپ کے پیدا ہونا اور ثرّیا کو بامِ فلک سے گرفتار کرنا،
ابد کو ایک اضطراب میں اپنے قبضے میں کر لینا، سورج کی کرن کے بغیر مشاہدہ کرنا،
امید اور یاس کے ہر نقش کو اپنے دل سے مٹا دینا، کلیم اللہ کی طرح دریا چاک کرنا،
اِس خشکی اور تری کے طلسم کو توڑ ڈالنا، ایک اُنگلی سے چاند میں شگاف ڈالنا،
لامکاں سے اِس طرح واپس آنا کہ سینے میں وہ ہو اور ہاتھ میں اُس کی دنیا ہو!
مگر اِس راز کا بیان کرنا مشکل ہے کہ دیکھنا شیشہ ہے اور بیان کرنا مٹی!
’’میں‘‘ کی قوّت و طاقت میں کیا بیان کروں کہ اِنّا عرضنا ِ اسے بے نقاب کرتا ہے۔
اُس کے رعب داب سے آسمان پر لرزہ طاری ہے اور اس کی آغوش میں زمان و مکان ہیں۔
اس کے نشیمن کی بنیاد انسان کے دل میں ہے مگر اُس کی مشتِ خاک کے نصیب میں پھینکا جانا ہے۔
غیر سے جدا بھی ہے اور وابستہ بھی ہے، اپنی ذات میں گم بھی ہے اور غیرسے پیوستہ بھی ہے
جس طرح خیال انسان کے جسم میں ہوتا ہے اور اُس کا سفر زمان و مکان سے آزاد ہوتا ہے۔
یہ کیا راز ہے کہ قیدخانے میں ہے اور آزاد ہے، کمند بھی، شکار بھی اور شکاری بھی خود ہی ہے!
تمہارے سینے میں ایک چراغ ہے۔ یہ کیسا نور ہے جو تمہارے آئینے میں ہے!
غافل مت ہو کہ تم اس امانت کے امین ہو۔ کیسے نادان ہو کہ اپنی طرف نہیں دیکھتے ہو!
سوال ۶
وہ حصہ کون سا ہے جو پورے سے زیادہ ہے اور اُسے پانے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب
خودی ہمارے اندازے سے بڑھ کر ہے۔ خودی اُس کُل سے زیادہ ہے جسے تم دیکھ رہے ہو۔
بار بار آسمان سے گرتی ہے کہ پھر اُٹھ کھڑی ہو۔ گزرتے ہوئے وقت کے سمندر میں گرتی ہے کہ پھر اٹھ کھڑی ہو۔
اپنے آپ کو دیکھنے والا آسمان کے نیچے اُس کے سوا اور کون ہے؟ بے بال و پر ہونے کے باوجود ایسا صاحبِ پرواز اور کون ہے؟
اندھیرے میں ہے مگر اُس کی آغوش میں روشنی ہے، جنت سے باہر ہے مگر پہلو میں حور ہے۔
اس دلآویز قوّتِ گویائی کے ذریعے جو وہ رکھتی ہے وہ زندگی کی تہ سے موتی نکال لاتی ہے۔
زندگی کا باطن ابدی ہے مگر ظاہر کی آنکھ سے دیکھو تو وقتی ہے۔
اس کی تقدیر میں زندگی کا مقام، اپنے آپ کو ظاہر کرنا اور اس ظہور کی حفاظت کرنا ہے۔
مت پوچھو کہ وہ کیسی ہے اور کیسی نہیں ہے کیونکہ تقدیر اُس کی فطرت سے باہر نہیں ہے۔
میں کیا کہوں کہ وہ کیسی ہے اور کیسی نہیں ہے کہ اُس کا ظاہر مجبور اور باطن آزاد ہے!
شاہِ بدرؐ نے فرمایا ہے کہ ایمان جبر اور قدر کے درمیان ہے۔
تم ہر مخلوق کو مجبور کہتے ہو اور اُسے فاصلے کی قید میں مقید سمجھتے ہو
مگر جان، جان آفریں کی پھونکی ہوئی ہے جو مختلف جلووں میں خلوت نشیں ہے۔
اُس کی مجبوری کی بات تو بیچ میں آتی ہی نہیں کہ بغیر فطرتِ آزاد کے جان، جان نہیں رہتی۔
اِس کیف و کم کی دنیا پر شبخوں مارو اور مجبوری سے مختاری کی طرف قدم بڑھاؤ۔
جب وہ اپنی ذات سے مجبوری کی گرد جھاڑ دیتی ہے تو وہ اپنے جہان کو اونٹنی کی طرح ہانکنے لگتی ہے۔
نہ آسمان اُس کی اجازت کے بغیر گردش کرتا ہے نہ ستارہ اُس کی مدد کے بغیر چمکتا ہے۔
وہ ایک روز ضمیرِ کائنات کو آشکارہ کر دیتی ہے اور اپنی آنکھوں سے اس کی حقیقت کا مشاہدہ کرتی ہے۔
فرشتوں کی قطار اُس کے راستے میں کھڑی ہو جاتی ہے اور اُس کے دیدار کے انتظار میں رہتی ہے۔
فرشتہ اُس کے انگور کی بیل سے شراب حاصل کرتا ہے اور اُس کی مٹی سے اپنی قدر و قیمت بڑھاتا ہے۔
اُس کی جستجو کا طریقہ کیا پوچھتے ہو کہ وہ کیفیتِ عشق کے تابع ہو جاتی ہے۔
تمہیں جو مہلت ملی ہے اُسے ابدیت میں لگا دو اور صبح کی فغاں کو عقل پر غالب کر دو۔
عقل کی متاع حواس سے حاصل ہوتی ہے اور فغاں عشق سے اپنی شعاع حاصل کرتی ہے۔
عقل جزو کو اور فغاں کُل کو حاصل کرتی ہے، عقل مر جاتی ہے مگر فغاں ہرگز نہیں مرتی۔
عقل ابدیت کا ظرف نہیں رکھتی کہ وہ گھڑی کی سوئی کی طرح سانسیں گنتی رہتی ہے،
دن رات اور صبح و شام تراشتی ہے گویا شعلے کو حاصل نہیں کرتی اور چنگاریاں اکٹھی کرتی رہتی ہے۔
عاشقوں کی فغاں ہی مسئلے کا حاصل ہے جس کے ایک لمحے میں ایک زمانہ پنہاں ہے۔
خودی اپنے ممکنات کو ظاہر کرتی رہتی ہے تو اپنے اندر کی گرہ کھولتی رہتی ہے۔
تمہارے پاس وہ نور نہیں ہے جس سے وہ دیکھتی ہے اس لیے تم اُسے عارضی اور فانی سمجھتے ہو۔
وہ موت جو آتی ہے اُس سے ڈرنا کیسا کہ خودی جب پختہ ہو جائے تو موت سے آزاد ہو جاتی ہے،
ہاں دوسری موت سے میرا دل لرزتا ہے بلکہ میرا دل، میری روح اور میرا وجود لرزتا ہے۔
عشق و مستی کی کیفیت سے محروم اور اپنی آگ سے دنیا کو نہ جلانا،
اپنے ہاتھ سے اپنے جسم پر کفن کاٹنا اور اپنی آنکھ سے اپنی موت کو دیکھنا،
یہ موت ہر وقت تمہاری گھات میں ہے اِس سے ڈرو کہ یہی ہماری موت ہے۔
یہ تمہارے جسم کو تمہاری قبر بنا دیتی ہے اور اُس کے منکر و نکیر کو بھی اس میں لا بٹھاتی ہے!
سوال ۷
وہ مسافر کون ہے جو راستے پر چل رہا ہے اور کس کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ انسانِ کامل ہے؟
جواب
اگر تم اپنے دل میں دیکھو تو تمہیں اپنے سینے ہی میں منزل نظر آ جائے گی۔
ٹھہراؤ میں سفر کرنا ایسا ہی ہوتا ہے یعنی اپنی ذات سے اپنی ذات تک کا سفر یہی ہے۔
یہاں کوئی نہیں جانتا کہ ہم کہاں ہیں کیونکہ ہم چاند ستاروں کی نظروں میں بھی نہیں آتے۔
انتہا تلاش مت کرو کہ تمہاری کوئی انتہا نہیں، یہ سفر ختم ہوا تو تم مردہ ہو گے۔
ہمیں پختہ مت سمجھو کہ ہم خام ہیں۔ ہم ہر منزل پر مکمل بھی ہوتے ہیں اور نامکمل بھی رہتے ہیں!
انتہا کو نہ پہنچنا ہی زندگی ہے۔ سفر ہی ہمارے لیے ہمیشہ کی زندگی ہے!
ماہی سے ماہ تک ہماری جولاں گاہ ہے اور یہ زمین و زمان ہمارے سفر کی گرد ہیں۔
ہم اپنے آپ میں تڑپتے ہیں اور نمود کے لیے بیتاب ہیں کہ ہم موجیں ہیں اور وجود کی گہرائیوں سے ہیں۔
ہر وقت اپنی گھات میں رہو اور گمان کو چھوڑ کر یقین کی طرف بڑھو۔
محبت کے اضطراب اور بیقراری کو فنا نہیں ہے اور یقین اور دیدار کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
زندگی کا کمال ذاتِ حق کا دیدار ہے اور اس کا طریقہ اطراف کی دنیا سے نکل جانا ہے۔
ذاتِ حق کے ساتھ اِس طرح خلوت گزیں ہو جاؤ کہ وہ تمہیں دیکھے اور تم اُسے دیکھو۔
مَن یَرَانِی کے نور سے اپنے آپ کو منور کر لو کہ تمہاری پلک نہ جھپکے ورنہ تم باقی نہ رہو گے!
اپنی ذات میں محکم ہو کر اُس کے حضور میں آؤ کہ اُس کے دریائے نور میں ناپید نہ ہو جاؤ۔
اپنے ذرّے کو وہ اضطراب عطا کرو کہ وہ آفتاب کے حریم میں بھی چمکتا رہے!
محبوب کی جلوہ گاہ میں اِس طرح جلو کہ بظاہر تمہارا نور چمک رہا ہو مگر درحقیقت اُسے روشن کرے!
جس نے دیدار حاصل کر لیا وہ دُنیا کا امام ہے۔ ہم اور تم ناتمام ہیں، وہ کامل ہے۔
اگر وہ نہیں ملتا تو اُس کی تلاش میں اٹھ کھڑے ہو اور مل جائے تو اُس کے دامن سے لپٹ جاؤ۔
فقیہ، شیخ اور ملّا کو اپنا ہاتھ مت پکڑاؤ۔ مچھلی کی طرح شکاری کے کانٹے سے بیخبر مت ہو جاؤ۔
وہی کامل ملک و دیں کے معاملات کا شناسا ہوتا ہے کہ ہم اندھے ہیں اور وہ صاحبِ نظر ہے،
صبح کے سورج کی طرح اپنے ہر مسام سے ایک نگاہ عطا کرتا ہے۔
مغرب نے جمہوری نظام کی بنیاد رکھ کر ایک دیو کی گردن سے رسی کھول دی ہے۔
وہاں کوئی موسیقی ساز و مضراب کے بغیر نہیں ہوتی اور اُس کی کوئی پرواز طیارے کے بغیر ممکن نہیں۔
اُس کے باغ سے ویران کھیتی بہتر ہے۔ اُس کے شہر سے بیاباں بہتر ہے۔
ایک کارواں ہے کہ رہزنوں کی طرح لوٹ مار میں مصروف ہے۔ کئی پیٹ ہیں کہ ایک روٹی کے لیے ماردھاڑ میں لگے ہوئے ہیں۔
اُس کی روح سو گئی ہے اور جسم بیدار ہو گیا ہے۔ دین اور علم کے ساتھ فن بھی رُسوا ہو گیا ہے۔
کفر کرنے اور کافر بنانے کے سوا عقل کو کوئی کام نہیں۔ افرنگ کا ہنر انسان کو پھاڑ کھانے کے سواکچھ نہیں۔
ایک گروہ دوسرے کی تاک میں رہتا ہے، اگر یہی حال رہا تو اُس کا خدا ہی حافظ ہے!
میری طرف سے اہلِ مغرب کو پیغام دو کہ عوام بے نیام تلوار کی طرح ہیں،
تلوار بھی کیسی کہ جان نکال لیتی ہے اور مسلم و کافر میں تمیز نہیں کرتی،
زیادہ دیر تک اپنے غلاف میں نہیں رہتی، اپنی جان بھی لے لیتی ہے اور دُنیا کی بھی!
سوال ۸
اَنالحق کس نکتے کا بیان ہے اور کیا آپ کے خیال میں یہ مبہم بات بالکل فضول تھی؟
جواب
میں َاناالحق کے نکتے کے متعلق پھر سے بتاتا ہوں اور ہندوستان و ایران کو اِس راز سے آگاہ کرتا ہوں۔
ایک آتش پرست نے آتش کدے میں ہانک لگائی، ’’زندگی اپنے دھوکے میں آ گئی جو وہ ’میں‘ پکار اُٹھی۔
خدا سو رہا ہے اور ہمارا وجود اُس کے خواب کا نتیجہ ہے۔
’’یہ نیچے، اُوپر اور چار اطراف کا مقام خواب ہے، سکون و سفر اور شوق و جستجو خواب ہیں۔
بیدار دل اور نکتہ بیں عقل خواب ہے۔ گمان، فکر، تصدیق اور یقیں خواب ہیں۔
تمہاری یہ بیدار آنکھ بھی نیند میں ہے اور تمہارا بولنا اور عمل کرنا بھی نیند کی حالت میں ہے۔
جب وہ بیدار ہو جائے گا تو کوئی دوسرا باقی نہیں رہے گا اور جنسِ محبت کا کوئی خریدار نہ ہو گا۔‘‘
ہماری سمجھ کا وجود اندازے سے ہے اور ہمارا اندازہ حواس کی تقدیر سے ہے۔
حس میں تبدیلی ہوگی تو یہ دنیا بھی بدل جائے گی، سکون و سفر اور کیف و کم سب بدل جائیں گے۔
کہہ سکتے ہیں کہ رنگ و بو کی دنیا موجود نہیں ہے اور زمین و آسمان اور محل محلے وجود نہیں رکھتے،
کہہ سکتے ہیں کہ ایک خواب ہے یا طلسم ہے جو اُس بے مثال کے چہرے کا پردہ ہے،
کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب شعبدہ بازی ہمارے ہوش کی ہے جو آنکھ اور کان کے لیے حجاب ہے،
مگر خودی رنگ و بو کی کائنات سے نہیں ہے ۔ ہمارے حواس اُس کے اور ہمارے بیچ نہیں ہیں۔
اُس کے حریم میں نگاہ کا گزر نہیں ہے، تم اُسے بغیر نگاہ کے دیکھ سکتے ہو۔
اُس کے دنوں کا شمار آسمان کی گردش سے نہیں ہے۔ تم خود دیکھتے ہو کہ اس میں ظن و تخمین اور شک نہیں ہے۔
اگر کہو کہ ’’میں‘‘ وہم و گمان ہے، اس کی نمود بھی دوسری چیزوں کی طرح ہے،
تو پھر یہ بتاؤ کہ یہ گمان پیدا کرنے والا کون ہے؟ ذرا اپنے آپ میں جھانک کر دیکھو کہ وہ بے نشاں کون ہے؟
دنیا سامنے ہے اور دلیل کی محتاج ہے! یہ تو جبرئیل سے بھی نہیں بن پڑے گی۔
خودی چھپی ہوئی ہے اور دلیل سے بے نیاز ہے۔ ذرا سوچو تو پا جاؤ گے کہ یہ کیا راز ہے!
خودی کو حقیقی جانو، اِسے باطل مت سمجھو۔ خودی کو ایسا کھیت مت سمجھو جس میں پیداوار نہیں۔
خودی جب پختہ ہو جائے تو لازوال ہو جاتی ہے۔ عاشقوں کا فراق عینِ وصال ہوتا ہے
کہ چنگاری کو بلندپروازی دی جا سکتی ہے، ہمیشہ کی تڑپ ببخشی جا سکتی ہے۔
خدا کا دوام اُس کے کسی فعل کا نتیجہ نہیں ہے کہ اُس کے لیے یہ دوام کسی جستجو سے نہیں آیا
مگر بہتر دوام وہ ہے کہ ایک فانی جان عشق و مستی کی بدولت لازوال ہو جائے۔
پہاڑوں اور دشت و در کا وجود کوئی حیثیت نہیں رکھتا کہ دنیا فانی ہے، خودی باقی رہنے والی ہے اور باقی سب ہیچ ہے۔
اب شنکر اور منصور کی بات زیادہ مت کرو کہ تم بھی اپنے آپ سے خدا کو تلاش کر سکتے ہو۔
خودی کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے اپنے آپ میں ڈوبے ہوئے بن جاؤ، اناالحق کہو اور خودی کی تصدیق کرنے والے بن جاؤ!
سوال ۹
کون ہے جو آخر خالص توحید کے راز سے واقف ہوااور وہ بات کیا ہے جو عارف کو معلوم ہوتی ہے؟
جواب
آسمان تلے یہ دنیا بڑی دلفریب ہے مگر چاند سورج جلد فنا ہو جانے والے ہیں۔
شام کے کندھے پر سورج کی لاش ہوتی ہے اور چاند ستاروں کے لیے کفن فراہم کرتا ہے۔
پہاڑ ریت کی طرح اُڑتے ہیں اور سمندر ایک لمحہ میں کچھ اور ہو جاتا ہے۔
خزاں کی ہوا پھولوں کی گھات میں رہتی ہے اور اپنی جان کا خوف ہی کارواں کا کُل سرمایہ ہے۔
لالے کے پاس شبنم کے موتی نہیں رہتے، ایک لمحہ ہوتے ہیں اور دوسرے لمحے نہیں ہوتے۔
اَن سُنا نغمہ ساز میں اور چھپی ہوئی چنگاری پتھر میں مرجاتی ہے۔
مجھ سے موت کی حکومتِ عام کے بارے میں مت پوچھو کہ ہم اور تم سانس کی ڈور سے بندھے ہوئے اس کے شکار ہیں۔
غزل
فنا کو ہر جام کی شراب بنایا گیا ہے، اسے کس بے دردی سے عام کیا گیا ہے!
ناگہانی موت کی تماشاگاہ کو چاند ستارے کی دُنیا کا نام دیا گیا ہے!
جس ذرّے میں بھی چلنے کی سکت ہوئی اُسے کسی نگاہ کے جادو میں گرفتار کر لیا گیا ہے!
ہم میں قرار کیا ڈھونڈتے ہو کہ ہمیں دِنوں کی گردش کا اسیر کر دیا گیا ہے!
اپنے سینۂ چاک میں خودی کی حفاظت کرو کہ اِسی ستارے کو شام کا دِیا بنایا گیا ہے!
یہ دُنیا تو بس غروب ہونے والوں کی آماجگاہ ہے ۔ اِس پردیس میں یہی احساس عرفان ہے۔
ہمارا دل کسی وہم کے پیچھے نہیں دوڑ رہا۔ بے حاصل غم ہمارا نصیب نہیں ہے۔
یہاں آرزو، سرور اور جستجو کے ذوق و شوق کا دھیان رکھا جاتا ہے۔
خودی کو لازوال کیا جا سکتا ہے اور جدائی کو وصال بنایا جا سکتا ہے۔
ایک گرم سانس سے چراغ جلایا جا سکتا ہے۔ اِس سوئی سے آسمان کا چاک سیا جا سکتا ہے۔
خدائے زندہ ذوقِ کلام سے محروم نہیں۔ اُس کے جلوے بھی انجمن چاہتے ہیں۔
کس نے اُس کے جلوے کی برق اپنے جگر پر سہی، وہ شراب پی اور پورا جام چڑھا لیا؟
کس کے دل سے حسن و خوبی کا معیار ہے ؟ کس کی منزل کے گرد اُس کا چاند طواف کر رہا ہے؟
’’اَلَست‘‘ کس کے حریمِ ناز سے آئی تھی؟’’بلیٰ‘‘ٰکس کے پردۂ ساز سے آئی تھی؟
مٹی میں عشق نے کیسی آگ بھڑکائی ہے کہ ہماری ایک آواز نے ہزاروں پردے جلا دیے!
اگر ہم ہیں تو ساقی کا جام بھی گردش میں رہے گا اور بزم میں ہنگامے کی گرمی باقی رہے گی۔
میرا دل اُس کی تنہائی پر بھر آیا اس لیے میں اُس کی محفل سجانے کا سامان کر رہا ہوں،
خودی کو بیج کی طرح بوتا ہوں اور اُس کی خاطر اِس کی حفاظت کرتا ہوں!
خاتمہ
تم تلوار ہو اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں سے باہر آؤ۔ نکلو اور اپنی نیام سے باہر آؤ!
اپنے ممکنات سے نقاب اٹھاؤ، چاند سورج اور ستاروں کو اپنی آغوش میں لے لو۔
اپنی رات کو یقین کے نور سے روشن کرو، اپنی آستین سے یدِ بیضا باہر نکالو۔
جس نے اپنے دل پر آنکھیں کھولیں اُس نے ایک چنگاری بوئی اور پروین کی فصل کاٹی!
میرے باطن سے اُچٹی ہوئی چنگاری لے لو کہ میں مولانا روم کی طرح گرم خون ہوں۔
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...