(Last Updated On: )
گلاب موسم تو آ گیا ہے
مگر وہ اپنے کہاں ملیں گے
جو دل میں بستے تھے آٹھ پہروں
کسی بہانے وہ اُڑ کے آئیں
تو ہم بھی مانیں
مگر یہ شاید بس ایک وہم ہے
اُداس شام ہے
ستارے ڈوبیں وہ یاد آئیں
اندھیرا چھائے وہ یاد آئیں
میں اُن کو ڈھونڈوں
کہاں کہاں اب
مجھے وہ اپنے کہاں ملیں گے
گلاب موسم تو آ گیا ہے
کٹھن ہے منزل وفا شعاری
دلوں کو پھرنے کی ہے بیماری
جو آج اپنے وہ کل پرائے
ہیں کالے بادل وِرہ کے چھائے
اب اِن کو کیسے کوئی ہٹائے
ہمیں تو اِک پل نہ چین آئے
ہے ایک دل میں ہزار ہائے
اُف آئے ہائے اُو ہائے ہائے
گلاب موسم تو آ گیا ہے
مگر وہ اپنے کہاں ملیں گے
٭٭٭