غصے میں بپھر کر وہ تیز تیز قدم اٹھتاتی سیڑھیاں اتر رہی تھی ۔۔اس کا سارا دھیان سامنے گلاس وال کے دوسری پار عالم اور فضا کے کمرے پر تھا جہاں وہ ہائیسم کی شکایت کرنے کو جا رہی تھی ۔اپنے اٹھتے قدموں کی سمت سے بے نیاز اندھا دھند دھڑا دھڑا کر قدم سیڑھیوں پر رکھے پیروں میں سلیپرز پہنے وہ خفگی سے اتر رہی تھی ۔
جلد بازی میں تیز رفتار کے باعث اس کا اپنا ہی پاوں دوسرے سے بری طرح پلک جھپکتے ہوئے رپٹا گرل کو تھامنے سے پہلے ہی گلے میں پہنا ڈوپٹا ہوا کے دوش سے آنکھوں کے سامنے لہرا گیا ۔جس سے وہ بروقت گرل کا سہارا نا لے پائی ۔منہ کے بل گرنے سے پہلے وہ سختی سے اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ کر آنکھیں میچ گئی تھی ۔
سامنے سے آتے فودیل کے اوسان سیڑھیوں پر ڈگمگاتے وجود کو دیکھ کر خطا ہو چکے تھے ۔ وہ اپنی پوری رفتار سے بھاگا تھا ۔اڑی رنگت سمیت تین تین سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگ کر اگلے ہی پل وہ ترتیل کو اپنے مضبوط توانا بازو میں قید کر چکا تھا ۔
دونوں بھائی بہن حواس بانختہ سے ایک دوسرے سے لگے تیز دھڑکنوں سے کچھ دیر پہلے ہوئے غیر متوقع حادثے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔
جیسے ہی فودیل کچھ سمجھنے کے قابل ہوا اس نے ایک جھٹکے سے ترتیل کو خود سے الگ کیا ۔جو بے حال سی زرد رنگت سے ہولے ہولے کپکپاہٹ سے اپنے نیلے پڑتے ہونٹوں پر زبان پھیر کر گہرے سانس بھر رہی تھی ۔
” تم پاگل ہو تالی ۔۔یہ کیا طریقہ ہے سیڑھیاں اترنے کا ۔وہ بھی اس حالت میں ۔کبھی تو کوئی سمجھداری والا کام کر لیا کرو۔ ابھی جانتی ہو کتنا بڑا نقصان ہو جانا تھا۔ ”
اس کو بری طرح سخت اونچی آواز میں ڈپٹا ۔ترتیل پہلے تو خالی نظروں سے اس کا غصے سے بھرا چہرہ دیکھتا رہی سارا منظر ایک بار پھر نگاہوں کے سامنے گھوم گیا ۔خوف سے وہ بےساختہ اس کے سینے سے پھر لگ گئی ۔آج سے پہلے فودیل کبھی اس پر اس طرح نا چینخا تھا اس نے کبھی چھوٹی لاڈلی بہن کو افف تک نا کہا تھا ۔ہائیسم کی وجہ سے وہ اس سے بہت کم بات کیا کرتی تھی مگر آج ہوئے حادثے کے پیش نظر اتنے عرصے بعد بھائی کے گلے لگ کر سینے میں موجود دل بھر آیا تھا ۔
فودیل اس کے ڈر کو سمجھتے ہوئے نرمی سے اس کا سر سہلانے لگا ۔غصے میں وہ شاید زیادہ اونچا ہی چلا اٹھا تھا ۔
” ڈرو نہیں تالی سب ٹھیک ہے ۔دیکھو تم ٹھیک ہو سہی سلامت ۔ہممم تمہارا بھائی اپنی بہن کو کبھی کچھ نہیں ہونے دے گا ۔”
اس کے مان سے کہنے پر وہ مسکرا تو نا سکی مگر طمانیت کا احساس ضرور رگ و پے میں اتر گیا تھا ۔
تالیوں کی آواز پر دونوں نے چونک کر سیڑھیوں کے اوپر کھڑے ہائیسم کو اچھنبھے سے دیکھا ۔وہ دونوں ہی اس کے چہرے کی مسکراہٹ اور تاثرات کو سمجھ نا پائے تھے تبھی ایک دوسرے کو دیکھ کر دوبارہ ہائیسم کو دیکھنے لگے ۔
ہائیسم جو ترتیل کے پیچھے ہی بھاگتا ہوا آرہا تھا مگر کمرے سے آتے فون کو سننے کے لیے دوبارہ کمرے کی طرف بڑھ گیا البتہ اس دوران فون سنتے اس کی نظریں کمرے کے وسط میں کھڑے ہوکر بھی سیڑھیاں اترتی ترتیل پر ہی جمی تھیں ۔وہ جیسے ہی اپنے قدموں سے ڈگمگائی ہائیسم کا سانس رکا تھا ۔
اس سے پہلے وہ خود پر قابو پاکر اس کو پکڑنے کو بھاگتا فودیل بھاگ کر ترتیل کو دنوں بازو سے پکڑ کر سینے میں بھینج چکا تھا ۔۔یہ سب دیکھ کر جہاں اس کا سانس رک کر بحال ہوا اگلے ہی پل اس کے جبڑے بھی تن گئے تھے ۔تبھی دندناتا ہوا اس کے سر پر پہنچ کر تالیاں مارنے لگا ۔
” کیا کر رہو تم ؟؟ ہوش میں ہو کہ نہیں ۔؟؟ ”
اس کی یوں تالیاں پیٹنے پر فودیل نے ناگواری سے کہا ۔ترتیل بھی لب بھینجے فودیل کا ہاتھ تھامے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔فودیل اس کا ہاتھ تھامے اب سیڑھیاں چڑھ کر اس کے سامنے کھڑا ہو چکا تھا ۔
” کمرے میں جاو تم ۔اور تم دور رہو میری بیوی سے ۔اس کے پاس نظر نا آو ”
ترتیل کو دیکھ کر حکم صادر کرتا فودیل کے ناگوار تاثرات دیکھ کر طیش میں انگلی اٹھا کر وارننگ کے انداز میں بولا ۔
” بہن ہے وہ میری بھولو مت ۔یہ اکڑ کسی اور کو جاکر دیکھاو مجھ میں تحمل مزاجی کتنی کم ہے یہ تو بہت اچھے طریقے سے جانتے ہو تم ۔یہ نا ہو ایک سال پہلے کی طرح تمہارا جبڑا توڑ کر میں دوبارہ اپنی بہن کو لے جاوں اور اب کی بار وہ واپس آنے کے لیے نہیں جائے گی ۔”
بالکل اس کے انداز میں انگی اٹھا کر دانت پیس کر بولتا ہوا وہ ہائیسم کے خون کی گردش تیز کر گیا ۔۔
” تمہیں سنائی نہیں دے رہا جاو کمرے میں ۔”
اس کے دھاڑنے پر ترتیل اچھل کر سینے پر ہاتھ رکھ کر دو قدم پیچھے ہوئی ۔اس کی ترتیل کے ساتھ بدتمیزی پر فودیل آپے سے باہر ہو کر اس پر جھپٹا ۔۔اس دن کی طرح معاملے کو بگڑتے دیکھ کر وہ سفید چہرہ لیئے دونوں کے بیچ کھڑی ہو چکی تھی ۔
” نہیں بھائی پلیز مت کریں ۔آپ جائیں اپنے کمرے میں ۔جائیں نا روفہ کو پتا چلا تو حالات اور خراب ہو جائیں گے ۔۔”
بھیگی التجا کرتی نگاہوں سے کہہ کر اس کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر پیچھے کو کرکے ہلکی آواز میں منمنائی وہ بھی مصلحتا خونخار نظروں سے ہائیسم کو گھورتا پیچھا ہو گیا ۔
” اچھا واہ جی تمہاری بہن کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں جو تمہیں اس کے ساتھ میرا اونچی آواز میں بات کرنا تک برداشت نہیں ہوا ۔ میری بہن بھی گری پڑی نہیں تھی جو تم نے اس کے ساتھ یہ سب کیا ۔
مجھے مت یاد کراوں کہ یہ تمہاری کیا لگتی ہے رشتوں کو بھولنے کی خصلت تم میں ہے مجھ میں نہیں ۔”
وہ اس کی گھورتی نظروں کو دیکھ کر طنزیہ بولا ۔وہ فودیل کو دوبارہ غصے میں دیکھ کر رو دینے کو ہوئی جبکہ ہائیسم کا اپنی ذات کے بارے میں یوں کہنے پر اس کے دل پر چوٹ لگی تھی
” میرے اور روفہ کے معاملے میں بولنے کی ضروت نہیں ہے تمہیں ۔اپنی اہمیت کا تم اس بات سے اندازہ لگا لو کہ روفہ نے تمہارے کہنے پر بھی مجھے نہیں چھوڑا ۔”
اس کے طنزیہ جواب پر وہ بھی تمسخر سے ترتیل کے سامنے ہی تیز لہجے میں بولا ۔۔جبکہ اس کے یوں بولنے پر ہائیسم نے گھور کر ترتیل کو دیکھا یقینا روفہ اور ہائیسم کے بیچ کی بات اس نے ہی فودیل کو بتائی تھی ۔اس کی گھورتی نظریں اور ماتھے پر پڑی سلوٹیں دیکھ کر ترتیل نگاہ چرا گئی ۔
” بکواس بند کرو تم ۔۔”
ہائیسم گلا پھاڑ کر چلا اٹھا ۔ یہ بات اس کو آگ لگانے کو بہت ثابت ہوئی تھی ۔۔
” بکواس تم نے شروع کی تھی میں تو اسے ختم ہی کرو گا ۔”
فودیل اس سے زیادہ دھاڑ کر بولا ۔ترتیل نے اپنے چکراتے سر کو بائیں ہاتھ میں تھاما ۔اس جیسے چھوٹے دل کی لڑکی ان دونوں کے تیز لہجے اور بگڑتی ہوئی حالت کو مزید برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی ۔روفہ شاید آفس میں تھی ورنہ بات اتنی آگے تک جاتے ہی نہیں ۔۔
وہ اپنی کنپٹی پر ہاتھ جمائے دیوار کا سہارا لے کر ایک دم ڈھے سی گئی ۔رنگت سفید لٹھے کی طرح ہو چکی تھی جیسے سارا خون ہی نچڑ چکا ہو ۔
وہ دونوں ٹھٹھک کر ترتیل کی طرف ایک ساتھ بھاگے اس بار ہائیسم نے فودیل کو دھکا دے کر ترتیل سے دور کیا ۔ سارا دھیان ترتیل کی جانب ہونے کی وجہ سے وہ اس حملے کے لیے تیار نا تھا تبھی لڑکھڑا کر دیوار سے جا لگا ۔
” بس کرو ۔۔ختم کرو یہ تماشا ۔اپنی لڑائی میں آپ دونوں سب سے زیادہ مجھے اور روفہ کو اذیت دے رہے ہیں ۔
بھائی یہ مت بھولیں کہ ابھی روفہ نے آپ کو معاف نہیں کیا ۔۔کہیں ایسا نا ہو اب کی بار آپ بیوی کے ساتھ بچہ اور بہن بھی کھو دیں ۔”
وہ ان کے رویہ اور ہٹ دھڑمی سے تنگ آکر بولی ۔ اس کے حلق کے بل چینخ کر بولنے سے فودیل جہاں تھا وہاں ہی دم سادھے کھڑا رہا ۔ترتیل کا یہ انداز بالکل نیا تھا۔ وہ شاک کی کیفیت میں اس کو دیکھے گیا جو اپنی نظریں ہائیسم کی جانب موڑ چکی تھی ۔
” آپ نے ٹھیک کہا ہائیسم مجھے سرخاب کے پر نہیں لگے ۔بالکہ میں تو ایک نقص زدہ حقیر سی عورت ہوں مگر اس کے باوجود بھی آپ کو کوئی حق نہیں تھا کہ آپ مجھے یوں میرے بھائی کی سامنے دوکوڑی کا کرکے بے مول کرتے ۔جو بھائی نے کیا اب آپ وہ میرے ساتھ دہرائیں گے ۔؟؟
اگر ایسا کرنا ہے تو میں بھی دوسری روفہ بننے میں دیر نہیں لگاو گی ۔چھوڑ دوں گی آپ کو ۔آپ دونوں اس لائیق نہیں ہیں کہ آپ کے ساتھ رہا جائے۔ ”
ہتھیلی سے گیلے عارضوں کو بے دردی سے رگڑ کر رندھے لہجے میں بولی۔۔۔ ہائیسم کے پہلو سے بامشکل خود کو سنبھالتی بوجھل دل سے وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
جبکہ وہ اس کے انداز اور دھمکی پر دم بخودہ ہو کر منہ کھول کر کمرے کے بند دروازے کو تکنے لگا ۔۔
زیرو بلب جلائے مدھم سی روشنی میں وہ اپنے لیپ ٹاپ پر برق رفتاری سے انگلیاں چلا رہی تھی ۔ہاشم اس کی گود میں بیٹھا اپنا سوفٹ ٹوائے منہ میں ڈالے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ کی بورڈ پر مارنے لگتا ۔
وہ تھوڑی دیر پہلے ہی اس کے ایک گھنٹے کی محنت سے بنی ہوئی فائیل کو ڈیلیٹ کا بٹن دبا کر اڑا چکا تھا۔ جس پر ہاشم کو ڈانٹنا تو درکنار اس کے ماتھے پر ایک شکن تک نا آئی تھی ۔ہاشم کو لے کر وہ خود بھی اپنے جذبات پر کبھی کبھی حیرت زدہ سی مسکرا دیتی۔
وہ اس بات کو جھٹلاتی بالکل نا تھی کہ کہیں نا کہیں دل کے کسی کونے میں ہر عام بیوی کی طرح وہ بھی فودیل سے دلی وابستگی رکھتی تھی ۔مگر ہاشم کے لیے محبت کا درجہ جو اس کے قلب میں تھا اس کی کوئی مثال نا تھی ۔یہ اولاد اس وقت اس کی گود میں نعمت کے میٹھے پل کی طرح آئی تھی جب وہ فقط ایک مشینی زندگی جی رہی تھی ۔
ہاشم کی چھوٹی چھوٹی سفید گلابی مٹھیوں کو چوم کر دوبارہ سے لیپ ٹاپ پر جھکی ۔ہاشم ہنوز اس کی ٹائیپنگ میں دوسری کیز دبا کر کام بگاڑنے پر لگا تھا مگر مجال تھی جو وہ ہاشم کی حرکتوں سے بےزار ہوتی ۔
کمرے کا دروازہ کھلنے پر اس نے سر نہیں اٹھایا ۔فودیل اس کے خود سے بےنیازی برت کر بیٹے کے لاڈ اٹھانے پر ٹھنڈی آہ بھرتا قدم قدم چلتا اس کے پہلو میں بیٹھ گیا ۔
وہ جان بوجھ کر اس کے بے انتہاء قریب ہو کر ہاشم پر جھک کر پیار کرنے لگا تھا
مقصد صرف روفہ کو چڑانا تھا مگر وہ روفہ ہی کیا جو تپ جائے وہ بس اپنی جگہ پر جم کر سنجیدگی سے بیٹھی رہی ۔وہ ہاشم سے پیار کرنے کے بہانے کبھی اس کا بازو چھوتا کبھی ہاتھ کو پکڑ لیتا ۔
وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی بڑے تحمل سے گال کے نیچے ہاتھ ٹکائے بیڈ کراون سے ٹیک لگاتی تاسف سے اس کی ٹین ایبج والی حرکتیں دیکھ رہی تھی ۔
اب وہ شرارت سے اپنے ہونٹ کا کونہ دانت میں دبا کر مسکرا کر اس کو دیکھنے لگا ۔۔ہاشم روفہ کی گود سے نکل کر اس کا موبائل پکڑے اپنے کھلونے کے اوپر زور زور سے بجا کر کھیلنے لگا تھا ۔
روفہ نے ابرو اچکا کر اس کو خاموش نظروں سے یوں ہی ہاتھ پر گال ٹکائے مسکرانے کی وجہ پوچھی ۔۔
اس کے آنکھوں سے پوچھنے پر وہ بے ساجتہ سر جھکا کر ہنس دیا ۔فودیل کو اپنی ہی بچکانی حرکتوں پر ہنسی آنے لگی تھی ۔روفہ نے نفی میں سر ہلا کر لیپ ٹاپ گھسیٹ کر دوبارہ کام شروع کر دیا ۔ایک نظر ہاشم کو دیکھ کر وہ پھر فودیل سے غفلت برت چکی تھی ۔
” تمہیں شرمانا نہیں آتا کیا ؟؟ ۔”
اس کے دونوں بازو اپنی جانب موڑ کر اسے بالکل خود کے سامنے کر کے الجھن سے پوچھنے لگا ۔روفہ نے اس کے سوال پر آنکھیں گھمائیں ۔
” نہیں شرمندہ کرنا آتا ہے کروں کیا ۔؟؟”
فودیل بے ساختہ ان آنکھوں پر بوسہ دے کر پیچھے ہٹا ۔۔روفہ کے کچھ کہتے ہونٹ اس کی جسارت پر پھڑپھڑا کر رہ گئے۔ ہائیسم اور فودیل کی لڑائی کے بارے میں ترتیل اس کو بتا چکی تھی ۔جس پر وہ بس اپنی کنپٹی مسل کر رہ گئی ۔۔
اب وہ ترتیل تو تھی نہیں جو ان کو چینخ چلا کر روکتی اس نے ان دونوں کو اپنے انداز میں تیر کی طرح سیدھا کرنے کے بارے میں سوچ لیا تھا ۔
وہ اس کے کہنے پر ایک پل کو تو چپ ہی کر گیا ۔اس بندی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا ۔اب بجائے الجھنے کے وہ اپنے تاثرات کو خوشگوار کر کے اسے محبت اور پرشوق نگاہوں سے دیکھنے لگا ۔
وہ چہرے پر شرارت سجائے آج کسی اور ہی موڈ میں تھا ۔کچھ یاد آنے پر اپنے کوٹ کی جیب سے ایک سرخ گلاب نکال کر بڑے انداز میں مسکراتے ہوئے اس کے سامنے کیا ۔روفہ اب اس گلاب کو دیکھ کر چونکی تھی ۔جس کی لال سرخ پتیاں ادھ کھلی ہوئی تھیں ۔تنے پر کانٹے نہیں تھے ایک سفید ربن کو ڈنڈی پر باندھا گیا تھا ۔جو وہاں اس گلاب پر سجاوٹ کا کام کر رہا تھا ۔
خوشی کی بجائے فودیل کو اس کے چہرے پر بے چینی محسوس ہوئی ۔۔
” یہ کیوں لائے میرے لیے ۔؟؟ ”
وہ گلاب کی خوشبو کو محسوس کرکے بے تاثر سی بولی ۔فودیل اپنے سوچ کے برعکس اس کے ردعمل کو دیکھ کر تعجب سے اسے دیکھنے لگا ۔
” کیا تمہیں پھول نہیں پسند ہیں ؟؟ میں تو سمجھا تھا تمہیں یہ پسند آئے گا ۔پھول تو سخت سے سخت جان کو بھی موم کر دیتے ہیں ۔اپنی نرماہٹ بھری مہک سے دوسرے کو اپنی جاذبیت میں جکڑ لیتے ہیں ۔”
وہ روفہ کے ہر نقش کو دل میں بساتے ہوئے دلکش گمبھیر لہجے میں کہنے لگا ۔یہ لڑکی بھی بالکل کسی پھول کی طرح اس کو اپنے اندر جکڑ لیتی تھی ۔
” کسی کی سانسوں کو چھین کر دوپل مسکرا کر کیسا جینا ۔؟؟ کسی کو نوچ کر تسکین حاصل کی بھی تو کیا سکون مل گیا ۔؟؟”
اس کے سوال پر وہ متحر سا کبھی پھول کو دیکھتا تو کبھی روفہ کو ۔
روفہ نے اس کے ہاتھ سے پھول لے کر اپنے ناک کے نتھوں کے قریب کرکے دو سے تین بار سونگھا ۔وہ اب خاموشی سے اس کے عمل کو جانچ رہا تھا ۔
ہاشم ہنوز کبھی لیپ ٹاپ موبائل تو کبھی اپنے سوفٹ ٹوائے کو آپس میں مار کر کھیل رہا تھا ۔وہ ابھی تھوڑا تھوڑا بیٹھنا سیکھ رہا تھا ۔
” لیں اپ پیسوں کی اور اس گلاب کی سانسوں کی قیمت میرے تین بار سونگھنے سے ہی پوری ہو گئی ۔کیا تھا جو اس کو پودے سے توڑا نا جاتا ؟ اس کو جان سے بے جان تو نا ہونا پڑتا ۔”
وہ سوالیہ انداز سے پوچنے لگی فودیل کھوئے سے انداز میں گلاب کو اس سے ہاتھ لے کر اس کے دونوں نرم ہاتھ اپنے مضبوط ہلکے بالوں والے ہاتھ میں تھام کر سہلانے کے بعد ہونٹوں سے چھونے لگا ۔نظریں اس نے روفہ کی تھوڑی کی خم پر جما دیں تھیں ۔
” میں نہیں توڑتا تو کوئی اور توڑ لیتا روفہ اور یہ صرف ایک پھول ہی تو ہے اس میں اتنا بےچین ہونے کی تو وجہ نہیں ہے ۔پھول تھا توڑ لیا بس ۔۔”
وہ جیسے بات ختم کرنے کو نرمی سے قائیل کرنے والے انداز میں بولا ۔روفہ بے ساختہ مسکرا دی ۔جس کا ساتھ اس کی براون آنکھوں نے بالکل نہیں دیا تھا ۔
” ایسے ہی بالکل یوں ہی لوگ انسانوں کو توڑ کر کہتے ہیں غلطی ہوگئی بھول جاو بات ختم۔اگر دوسرے کی تباہی کرو گے تو اپنی بھی بربادی سہنا لازمی ہے ۔کبھی کوئی کسی کو تکلیف دے کر بھلا سکون سے سو پایا ہے ۔اور اس تجربے سے تو آپ باخوبی آشنا ہیں ۔”
اسکی سابقہ حرکتوں پر بڑی سنجیدگی سے چوٹ کی ۔۔وہ ایک شکوہ کرتی نگاہ اس پر ڈال گیا تھا ۔
” تم نے ساری زندگی مجھے بخشنا نہیں ہے پر میں بھی تمہیں پھول دینے سے باز نہیں آنے والا پھر چاہے اس کی قیمت تمہارا تین بار سونگھنا ہی کیوں نا ہو ۔”
ڈھٹائی سے کہتا وہ ثابت کر گیا وہ بھی اس کا ہی شوہر ہے ۔روفہ نے اپنے دونوں ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کر کے کھیل میں مصروف ہاشم کے منہ سے اپنا ڈوپٹا نکال کر اپنی گود میں بٹھایا ۔
” آج کل کے زمانے میں بےزوگاری کتنی بڑا امتحان ہے نا ؟؟”
ہاشم کے ہاتھ سے موبائل لے کر روفہ نے بات بدل کر تائید والے انداز میں پوچھا ۔
” ہاں پر تم کیوں پوچھ رہی ہو تمہاری جاب تو ماشاءاللہ سے بالکل سہی جا رہی ہے ۔خیریت ہے کچھ ہوا ہے کیا ؟؟ کون بےزورگار ہے ؟؟ ”
وہ ٹھٹھک کر استفسار کرنے لگا ۔ابھی دو ہی ہفتے تو ہوئے تھے روفہ کے ساتھ رہتے ہوئے اس دوران ان دونوں ہی نے کبھی اپنی پروفیشنل زندگی کے بارے میں نجی زندگی میں یوں بات چیت نا کی تھی ۔پر شاید روفہ آج کرنا چاہتی تھی
” آپ ہونے والے ہیں بہت جلد ”
فودیل نے ناسمجھی اور حیرت کی لکیریں ماتھے سجائے اس کے پرسکون انداز کو جھلا کر دیکھا۔
” کیا مطلب ہے یار صاف صاف بتاو میری جاب کیوں جائے گی کیا کسی نے دھمکی دی ہے تمہیں۔ایک تو یہ جس بھی سیاستدان کے خلاف اپنے شو میں ذرا بھی کچھ بول دو بھونڈی دھمکیوں پر اتر آتے ہیں”
فودیل خود سے اندازہ لگا کر کہا ۔اکثر صحافیوں کو ایسے ہی دھمکیاں ملتی رہتی تھیں تبھی وہ زیادہ چونکا نا تھا یہ سب اس کی جاب کا معمول تھا ۔
وہ اپنے مخصوص پرسکون انداز میں نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔
” اگر دوبارہ آپ نے مجھے ایشو بنا کر ہائیسم سے لڑائی کی یا پھر گھر میں کوئی بدمزگی ہوئی تو میری ایک فون کال پر نانا ٹرمینیشن لیٹر آپ کو ای میل کردیں گے ۔یقین جانئیے میں اپنی پوسٹ کا استعمال کرکے آپ کو پاکستان کے ہر چینل پر بین کرسکتی ہوں ۔۔تو آئیندہ زرا احتیاط سے ۔”
اور اپنی بیوی کی اس دھمکی پر فودیل کے چودہ کے چودہ طبق روشن ہو چکے تھے ۔۔وہ دنگ سا سوچ رہا تھا کہ آیا جو اس نے سنا تھا روفہ نے وہی کہا تھا ۔
” تم مذاق کر رہی ہو ہے نا ۔؟؟ ”
وہ پھٹتے دماغ سے کسی خدشے کے تحت بے یقینی سے پوچھ بیٹھا ۔وہ شاید دنیا کی پہلی بیوی ہو گی جو یوں اس کو اپنے بھائی سے جھگڑا کرنے پر بےروزگار کرنے پر تلی ہوئی تھی ۔۔
اس وقت فودیل کو اپنا آپ نالائق جھگڑالو سٹوڈنٹ لگ رہا تھا جس کو پرنسپل ( اس وقت روفہ کسی پرنسپل سے کم نا لگ رہی تھی ) اپنے سامنے حاضری لگوا کر سکول سے ٹرمینیٹ کرنے کی دھمکی دے رہی تھی ۔
” آپ کا اور میرا مذاق ہے کیا ۔؟؟ میں نے تو کبھی ہدا سے بھی مذاق نہیں کیا ۔تو شوہر سے کروں گی ۔”
وہ ہوا میں سر جھٹک کر لاپرواہی سی بولی ۔۔ہاشم اب کھیل کود سے تھک چکا تھا بھوک لگنے کی وجہ سے وہ بے چینی سے اس کی گود میں مچلنے لگا تھا ۔۔
” اپنے شوہر کا کارنامہ نہیں سنایا تمہیں ترتیل نے لڑائی پہلے اس نے شروع کی تھی میں نے نہیں ۔۔اس کو کیا سزا دو گی تم ۔مجھے تو بے روزگار کرنے کی دھمکی دے دی اس کی سزا بھی بتاو مجھے ۔”
جبڑے بھینج کر وہ ضبط سے چبھتے لہجے میں گویا ہوا وہ جان گیا تھا ترتیل ان دونوں کی لڑائی اس کو من وعن سنا چکی تھی۔روفہ سنجیدگی سے اس کو دیکھنے لگی ۔
” شادی کے بعد مجھے میرے شوہر سے مطلب ہے ۔میرے بھائی کی سزا میری بھابھی اس کو خود دے دی گی ۔لہذا اپنے آپ کو فل حال مجھ تک محدود رکھیں ۔”
بےزاریت سے بول کر وہ ہاشم کا دودھ لینے کے لیے بیڈ سے اتری اس وقت وہ فیڈر پیتا تھا جب کہ فیڈ وہ زیادہ تر رات کو کرتا تھا ۔
فودیل کی سمجھ نا آیا اس کے “میرے شوہر ” اور “خود تک محدود رکھیں ” والی بات پر خوش ہو یا پھر اس کی دھمکی پر غصے کرے ۔
اففف یہ لڑکی واقعی اس کے سوچوں سے بالکل باہر تھی۔ ایک پل کی خوشی دے کر دوسرے پل چھیننے کا فن اس کو باخوبی آتا تھا ۔وہ جتنا اس کو سمجھنے کی کوشش کرتا وہ اتنا ہی اس کو نئے سرے سے چونکا کر الجھا دیتی اب اس انوکھی دھمکی پر وہ اس پر برہم بھی نہیں ہو سکتا تھا ۔بے بسی سے فقط گہرے سانس بھر کر دل کی بھڑاس تھپک تھپک کر سلا دی ورنہ اپنے ہی پیروں پر کہلاڑی مارنے والا حساب ہو جاتا ۔۔
” دودھ لینے جارہی ہوں اس کا دیھان رکھیں ۔”
بےدیھانی میں جوتا پہن کر فودیل کے کندھے کو جھنجھوڑ کر نرمی سے بولی جو وہیں بیڈ سے ٹیک لگائے خفگی سے اس کو دیکھ رہا تھا ۔
” اچھا ۔جلدی آنا ۔”
ناراضگی بھرے انداز میں کہہ کر اپنے کندھے پر دیکھنے لگا جہاں وہ ہنوز ہاتھ رکھے اس کو گھور رہی تھی۔ روفہ کے یوں خود سے چھونے پر دل میں میٹھی میٹھی سی گدگدی ہونے لگی تھی۔
” یہ زنانہ ٹائیپ ناز نخرے مجھے نا دکھائیں۔ میرے اندر کی مردانہ روفہ کو اٹھانے نہیں آتے ۔”
اس کے کندھے پر تھپڑ رسید کرکے مسکرا کر اس کو سلگا گئی ساتھ ہی ایک نظر ہاشم کو دیکھ کر کمرے سے نکلی تھی ۔۔وہ تو اس کے جملے پر بدک ہی اٹھا تھا ۔
” حد ہے یار بندہ ناراض بھی نہیں ہو سکتا ۔یہ انوکھا پیس کیا خاص طور پر آپ نے میرے لیے تیار کیا تھا ۔؟؟”
تپ کر بڑبڑ تے ہوئے کمرے کی چھت پر نگاہ ڈال کر اللہ سے مخاطب ہوا ۔پھر خود ہی خجالت سے گردن پر خارش کرکے ہنس دیا ۔ہاشم اس کی ٹائے کھینچ کر اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا ۔۔
” اوئے آگئی بابا کی یاد ۔ماں کے چمچے میری روفہ کی جان مطلب میری جان ۔ اپنی ماما پر نا جانا یار وہ ایک پیس ہی کافی ہے ورنہ میں تو پاگل خانے ہی جاوں گا تم مجھ پر چلے جانا ایک بات تو طے ہے اگر میرے بچے روفہ پر گئے تو میں دنیا کا سب سے مسکین باپ بنو گا ”
اس کو گود میں اٹھا کر والہانہ چوم کر پیار کرنے لگا ۔اپنے پاس ہی اس کو بازو پر لٹا کر آنکھیں موند گیا ۔تھکن کے باعث نیند کے جھونکے آرہے تھے ۔۔ہاشم بھوک کو بھول کر فودیل کی شرٹ کے بٹن کو اپنے نازک چھوٹی نرم سی انگلیوں سے اتارنے کی تگ و دو کرنے میں مصروف ہو گیا تھا ۔۔
ہائیسم ترتیل کو پورے گھر میں ڈھونڈنے کے بعد اب گھر کے پچھلے حصے میں آیا جہاں گازیبو کے اندر بیٹھی وہ چاند پر نگاہیں جمائے اردگرد سے بے نیاز چاندی میں نہائی ہوئی لگ رہی تھی ۔۔
رات کے اس پہر حشرات کی مختلف آوازیں کانوں میں پڑ رہی تھی ۔سدا بہار اور موتیے کی بھینی بھینی خوشبو ہوا میں رچی بسی ہوئی تھی۔ ۔اور وہ بے خودی کے عالم میں آسمان پر نگاہیں جمائے گہری سوچ میں غرق تھی ۔
” کافی رات ہوگئی ہے اندر چلو ۔تمہیں صبح کالج بھی جانا ہے۔ ”
ہائیسم کی آواز پر ایک دم اس کے تاثرات سخت ہوئے تھے جو ہائیسم کی نظروں سے بالکل پوشیدہ نہیں رہ سکے تھے ۔
” جائیں یہاں سے مہربانی ہو گی ۔اس وقت میرا اندر جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور نا ہی میں کوئی بحث کرنا چاہتی ہوں ۔”
اس کے پاوں پر نظریں جما کر تلخی سے بولی۔اس نے ہائیسم کے چہرے ہر نگاہ ڈالنا بھی گوارا نہیں کیا تھا یہ بات اسے بہت چبھی تھی ۔
” سوری ”
اس کے پاس ک کندھے سے کندھا ملا گازیبو میں بیٹھ کر ہلکے ندامت بھرے لہجے میں بولا ۔
” پتا نہیں یہ سوری کا لفظ کب تک میں آپ کو یا پھر آپ مجھے کہتے رہیں گے ۔بھائی کو چڑانے کی خاطر آپ کیا بول رہے تھے اس کا اندازہ بھی نہیں ہو سکا آپ کو ۔کل کو بھائی کو غصہ دلانے کی خاطر مجھے گالیاں بھی دے دیئجے گا ۔۔”
بے دردی سے بائیں ہاتھ سے آنکھوں کو رگڑ کر اپنے بےجان ہاتھ پر نظریں جما دیں ۔اس کی بات پر ہائیسم کے گلے کی رگیں ابھری تھیں ۔
” ڈیڑھ سال ہونے کو ہے ہماری شادی کو کتنی بار میں نے تمہیں گالیاں دی ہیں یا تمہیں لے کر فوریل کے سامنے کوئی معیوب بات کی ہے ۔؟؟ بتاو مجھے اب میں نے غصے میں کچھ بول دیا تو بھول جاو نا ۔پلیز”
پہلے ناگواری سے بولا مگر اس کے گھورنے پر گڑبڑا کر منانے والے انداز مین التجا کی ۔۔وہ بڑبڑا کر رخ موڑ گئی ۔
” اوئے بات سنو نا ۔۔مائے سویٹ ڈنگر تالی۔ میں فودیل کے سامنے تمہیں سویٹی بھی بول دیا کروں گا اب تو مان جاو ۔”
اس کے دونوں بازو گرفت میں لے کر بغیر اس کی مزاحمت کی پرواہ کیے سینے میں بھینج کر تپانے کو بولا ۔۔
” کیا بےہودگی ہے چھوڑیں مجھے ۔۔چھوڑیں نا ۔”
وہ سٹپٹا کر اس سے الگ ہونے کی کوشش کرنے لگی پر وہ مزید اس کو بھینج رہا تھا ۔
” بے ہودگی تھوڑی ہے محبت ہے اور اب تو بہت جلد میری محبت کا جیتا جاگتا ثبوت بھی تمہاری گود میں آجائے گا ۔۔”
بے باک لہجے میں کہہ کر معنی خیز مسکراہٹ سے اس کے کندھے پر بنے برتھ کو چوما ۔۔اس کا یہ برتھ مارک بچپن سے ہی ہائیسم کو بہت لبھاتا تھا ۔
وہ گلال ہوتے سمٹ کر لجائے انداز میں اپنا ماتھا اس کے سینے سے ٹکا گئی ۔۔
” ہاں اللہ کرے وہ مجھ سا ادھورا نا ہو ۔بالکہ آپ کی طرح مکمل ہو اور روفہ کی طرح اپنی شخصیت کے پر پہلو میں مضبوط اور باوقار ۔”
اس کے حسرت سے کہنے پر ہائیسم نے ایک جھٹکے سے اسے خود سے الگ کرکے دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ نرمی سے تھاما ۔
” وہ تم سا ہو گا ۔حساس نرم مزاج خوش اخلاق محبت کرنے والا ۔میری یہ ہی خواہش ہے ۔اور اب اس کے آگے کچھ نہیں ۔۔چلو سونے چلتے ہیں ۔”
اس کے کچھ بولنے کی خاطر پھڑپھڑاتے ہوئے لبوں پر انگلی رکھ کر بولا ۔اس کے گال کو نرمی سے ہونٹوں سے چھو کر اٹھ کھڑا ہوا ۔
” یہاں ہی بیٹھتے ہیں تھوڑی دیر ابھی اندر جانے کا دل نہیں ہے میرا۔ ”
لاڈ سے کہہ کر اس کا بازو کھینچ کر اپنے پہلو میں دوبارہ بٹھایا ۔
” ہائیسم میں سوچ رہی تھی اگر ہمیں بیٹی ہوئی نا تو میں اس کی شادی ہاشم سے کروں گی ۔میری طرح اس کو بھی کبھی اپنا گھر نہیں چھوڑنے پڑے گا ”
اس کی پرجوش فیوچر پلینگ پر وہ پہلے معتجب ہوا پھر دھیرے سے ہنس دیا ۔
” سوچ لو اچھی طرح ہاشم تو پورا کا پورا روفہ جیسا ہے ہماری بیٹی کا حال بھی فودیل جیسا ہی ہو جائے گا ۔”
اس کے شوخی سے بولنے پر وہ دونوں ہی کھل کھلا کر ہنس دیئے ۔۔