فہمیدہ کو اپنے ہی محلے کے متمول گھرانے میں کام کرتے ابھی صرف دو دن ہی ہوئے تھے، کہ کام سے جواب مل گیا۔ گھر کی مالکن بیچاری کیا کرتی، آخر وہ گھر کا کام صفائی ستھرائی کے لیے کرا تی تھی نہ کہ گھر کو مزید بد بو دار بنانے کے لیے۔ اور فہمیدہ، اس کو بہت سوں نے سمجھایا کہ صاف ستھری رہا کرو مگر اس کے کان پرتو جوں بھی رینگنے والی نہ تھی۔ وہ اتنی میلی کچیلی اور بد بودار تھی کہ جہاں سے گزرتی پہلے بدبو کا بھبھوکا نمو دار ہوتا۔ لوگ اپنی ناک بند کر لیتے۔ گلی میں سے گزرتی تو گھر کے اندر بیٹھی عورتیں بھی اس کی موجودگی سے با خبر ہو جاتیں۔ اس کے بال سنہرے رنگ کے گھنگھریلے سے تھے جو برسوں سے کنگھی سے محروم تھے کندھوں تک جھولتے رہتے۔ ان کے اندر مٹی تنکے دھاگے اور نجانے کیا کچھا ٹا پڑا تھا۔ قد اونچا لمبا رنگ کبھی گورا ہو گا مگر اب ہلکے بھورے دھبوں نے چہرہ ڈھانپ رکھا تھا۔ آنکھوں میں عجیب سی ویرانی تھی، ناخن گھس چکے تھے مگر میل کی لکیریں بہت نمایاں نظر آتیں۔ کپڑے بدلنے یا دھونے کی فرصت کسے نصیب تھی۔ جب گھس گھس کر پھٹنے کے قریب ہوتے تو کوئی دوسرا جوڑا زیب تن کرتی، پھر وہ مہینہ بھر اور کبھی اس سے بھی زیادہ دن چلتا۔ اس نے کبھی سر پر دوپٹہ نہیں اوڑھا تھا مگر گلے اور چھاتی کو لپیٹے رکھتی تھی۔ پاؤں میں قینچی چپل پہنے پاؤں گھسیٹ گھسیٹ کر چلتی تو عجیب بے ہنگم آوازیں نکلتیں۔ یہی حال کچھ اس کے گھر کا بھی تھا۔ وہ ایک نچلے درمیانے طبقے کے محلے میں رہتی تھی۔ پانچ مرلے کا گھر تھا جس کا پلستر جگہ جگہ سے اکھڑ چکا تھا۔ صرف دو کمرے اپنے پاس رکھ کر باقی گھر معمولی کرائے پر اٹھا رکھا تھا۔ گھر میں گندگی کا بسیرا تو ہونا ہی تھا۔ کوئی دروازہ آدھا ٹوٹا ہوا تھا تو کسی بھی کھڑکی کو جالی یا پردہ نصیب نہیں تھا۔ فرش جانے جانے کب سے اکھڑا تھا یا تھا ہی نہیں، صرف سرخ اینٹیں نمایاں تھیں۔ کوئی اس کے پاس بیٹھنا تو درکنار کھڑا ہونا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔
اسے کبھی کسی نے مسکراتے یا روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، چہرہ سپاٹ مگر ایک کرب سا بہت نمایاں تھا۔ کبھی کبھی ایسے محسوس ہوتا جیسے شدید سر درد میں مبتلا ہو۔ بولتی بھی بہت کم تھی اور مزاج بہت روکھا، نہ بحث نہ تکرار، بس جو کام ملتا، کرتی اور اپنی راہ لیتی۔ اب بھلا اتنی میلی کو کام کون دیتا۔ دو چار دن بعد جواب مل جاتا اور ان دو چار دنوں کی اجرت کون دیتا ہے ؟
اللہ جو ساری مخلوق کا روزی رساں ہے اس نے اس گگڑی کی روزی کا وسیلہ بھی نکال ہی دیا۔ اسے بھینسوں کے باڑے میں ملازمت مل گئی۔ کوئی دوسری عورت یہ کام نہ کرتی مگر اس کے ساتھ پانچ وجود اور بھی تھے، ان کے پیٹ کا دوزخ بھرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اور جب پیٹ کا دوزخ جل رہا ہو تو جنت کمانے کی فکر کسے ہوتی ہے۔ اسے کسی نے کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا اور جہاں روز فاقے ہوں، روزے کا کیا پتا چلتا، رکھا یا چھوڑ دیا۔ ایسے حلیے میں بھلا نماز ادا ہوتی ہے ؟ جمعہ تو درکنار اسے شاید عید کے دن بھی ستھرے کپڑے نصیب نہ تھے۔ عید بھی بھینسوں کا گوبر اٹھاتے گزرتی۔ باڑے کا مالک بھی اسے یونہی تنخواہ نہیں دیتا تھا۔ کوئی مرد بھی اتنے پیسوں میں اتنا سخت کام کرنے کو تیار نہیں ہوتا اور اوپر سے گگڑی عید شبرات کو بھی چھٹی نہیں مانگتی تھی۔
بھینسوں کے باڑے میں کام کوئی آسان نہ تھا مگر بھینسیں اتنی وحشی نہیں ہوتیں۔ اسے ان سے کوئی ڈر خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔ مالک پیسے کی پائی پائی کا حساب رکھتا مگر گگڑی کو تنگ نہیں کرتا تھا۔ دوسرا فائدہ ادھر کام کرنے کا یہ تھا کہ جب مشین لگا کر مکھن نکالا جاتا تو باقی بچی چھاچھ میں سے کچھ گگڑی کو دے دی جاتی۔ چار بیٹے اور ایک بیٹی سارا دن گھر میں اکیلے پڑے رہتے وہ دن میں کئی بار گھر کا چکر لگاتی۔ اس کے بچوں نے کبھی کسی سے نوالہ بھی نہیں مانگا تھا، پتا نہیں وہ کب پکاتی اور کب انھیں کھلا کر منہ اندھیرے کام کو نکل کھڑی ہوتی۔
ملکانی جی جن کا بیٹا کئی دنوں سے بخار میں جل رہا تھا، کبھی پیروں کبھی مولویوں اور کبھی ڈاکٹروں کے چکر کاٹ کاٹ کر عاجز آ گئی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے، آستانے پر نذرانہ چڑھایا، مولوی صاحب سے دم کرایا، دوا دارو سب کر کے دیکھ لیا، کچھ افاقہ نہ ہوا۔ ملکانی بے چین ہو گئی اکلوتے بیٹے نے کئی دنوں سے گلوکوز کے علاوہ کچھ نہ کھایا نا پیا۔ سوچ میں پڑ گئی یا الٰہی کیا کروں ؟ کسی نے کہا خون کا صدقہ دے۔ اس نے کالے رنگ کا دیسی پلا ہوا مرغا منگوایا اور فہمیدہ کو بلا بھیجا۔ پوچھا، فہمیدہ صدقہ لو گی؟ فہمیدہ ایک لمحے کے لیے ساکت ہو گئی۔ اس کی آنکھوں کی وحشت آخری حدوں کو چھونے لگی۔ پھر نظر جھکا کر بولی میں صدقہ نہیں لیتی۔ ملکانی نے کہا کوئی بات نہیں اب لے لو تمہارے بچوں نے شاید پچھلی بقر عید کا گوشت کھایا ہو گا۔ پھر جب اس کی نظر فہمیدہ کی نظر سے ملی تو وہ سہم گئی اور کہنے لگی، اچھا جاؤ کسی اور گھر میں دے آؤ۔ فہمیدہ نے مرغا بغل میں دابا اور مولوی صاحب کے گھر کو چل دی۔
لوگ اسے طرح طرح کی باتیں کرنے لگ گئے۔ کوئی کہتا اکڑ بڑی ہے اس کے اندر، کوئی کہتا بے نمازی ہے کوئی کہتا گگڑی میلی، کوئی کہتا اسے دین دنیا کا کچھ نہیں پتا۔ گگڑی کوئی پڑھی لکھی عورت تو تھی نہیں اسے بس اتنا پتا تھا کہ پیٹ کا دوزخ بھرنا ہے۔ کبھی کبھی اسے لگتا کہ جہنم کی آگ پیٹ کی آگ سے لگی ہے۔ اگر کوئی حلال طریقے سے اس دوزخ کی آگ کو بھجا سکے تو اس دوزخ کی آگ بھی ٹھنڈی ہو جائے گی۔ مگر صرف ایک روٹی، ایک نوالے اور ایک وقت کے کھانے سے بھجنے والی آگ بھجانے کی فکر کوئی نہیں کرتا، جہاں لوگ اپنے نفس کی بھوک کے بھانبھڑ لگائے بیٹھے ہوں انھیں اس سے کیا غرض کہ پیٹ کا دوزخ کیا ہوتا ہے۔
اس کے محلے کی نکڑ پر بڑے بڑے منجوں اور موڑھوں پر بیٹھے شرفا، سیاسی کارندے، انتخابی دفتر والے آنے جانے والی ہر عورت کو گھورنا اپنا حق سمجھتے تھے، بھلا گگڑی کیسے ان کی نظر بازی سے کیسے محفوظ رہتی۔ مگر گگڑی کو کچھ کہتے ہوے سب ڈرتے تھے۔ اس کی کم گوئی اور آنکھوں کی وحشت دیکھ کر سب سہم جاتے۔ ایک دن نئے کونسلر کو جانے کیا سوجھی کہ گگڑی کو چھیڑ بیٹھا۔ اری او فہمیدہ گگڑی، جگہ جگہ کام کرتی پھرتی ہے۔ لوگوں کے گھر صاف کرتی ہے اپنے گھر کی اور اپنی صفائی بھی کر لیا کر۔ یہ سننا تھا کے منجوں پر بیٹھے سب آدمی قہقہہ لگا کر ہنس دیے۔ ایک شخص بولا کچھ مت کہہ گالیاں سنائے گی۔ دوسرا بولا سنانے دے وہی تو سننی ہیں۔ گگڑی کا چہرہ پہلے سرخ ہوا پھر پیلا زرد، گلا رندھ گیا، مگر آنکھ سے کوئی آنسو نہ ٹپکا۔ بڑے جلال سے بولی ارے جب میاں جی زندہ تھے تو بھرجائی بھرجائی کرتے تیری زبان نہ تھکتی تھی۔ خیرات لینے، قرض لینے میرے دروازے پر کھڑا ہوتا تھا۔ او نامراد اب ہر آتی جاتی کو تکتا ہے۔ مشرک کہیں کا، پھر کسی کو سمجھ میں نہیں آیا کہ رندھے گلے کے ساتھ کیا کیا بولے گئی۔ شور سن کر گگڑی کے چاروں بیٹے آن موجود ہوئے جو سوکھی روٹی اور چھاچھ پر پل کر یوں کڑیل جوان بنتے جا رہے تھے۔ کونسلر نے گھبرا کر گھر کی راہ لی۔ شام تک سارے محلے میں یہ خبر جنگل کی آگ کی مانند پھیل گئی کے کونسلر کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔
وہ دن گگڑی کے کام کا آخری دن تھا، بیٹے بڑے ہو گئے تھے۔ انھوں نے گھر سنبھال لیا تھا۔ پھر ایک دن گگڑی نے اپنے بڑے بیٹے کی شادی کر دی۔ گھر میں بہو آئی تو اس کو فراغت نصیب ہوئی۔ اب وہ گگڑی نہیں رہی تھی۔ اس نے کہیں آنا جانا بالکل کم کر دیا تھا اور سادگی کے باوجود اس کا حلیہ بھی بہتر ہو گیا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے اس کا امتحان ختم ہوا۔ مگر نہیں ایسا بھی نہیں تھا۔ وہ اپنی بہو کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی، بہو بڑی سلیقہ شعار اور گھر داری کی ماہر تھی۔ اور اسے اس بات کا بڑا ناز تھا۔ گگڑی نے گھر کے کسی معاملے میں دخل اندازی چھوڑ دی تھی۔ ایک دن بہو کہنے لگی یہ گھر میری سلیقہ شعاری سے سجا ہے میری ساس تو گگڑی ہے اس کو تو کچھ پتا نہیں کہ دنیا کیا ہوتی ہے اور کدھر جا رہی ہے۔ ساری عمر خود بھی میلی رہی گھر بھی میلا رکھا۔ گگڑی سے یہ تہمت برداشت نہ ہوئی۔ صدمے سے فالج کا حملہ ہوا اور گگڑی بیچاری چارپائی سے جا لگی، بیٹوں نے بڑی خدمت کی، بڑا علاج کروایا۔ مگر اس کا دل دنیا سے اچاٹ ہو چکا تھا۔ وہ جن انگاروں پر چلی، گگڑی کا سوانگ بھرا، کوئی سمجھ ہی نہ پایا کہ ایک اونچی ذات کی عورت بیوہ ہو کر بھیڑیوں سے بھری اس دنیا میں گگڑی کیوں بن جاتی ہے ؟
بیماری کی حالت میں ایک دن بہو سے کہنے لگی، اللہ سدا سہاگن رکھے تجھے۔ جوانی کی بیوگی کاٹنی بڑی مشکل ہے۔ بہو کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو آ گئے۔ اسے جب تک سمجھ آئی بہت دیر ہو چکی تھی۔ واپسی کے سفر میں سفید لباس پہنے گگڑی بہت اجلی لگ رہی تھی۔ چاروں بیٹوں نے کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے ماں کی چارپائی اٹھا لی۔ اور اسے اس کی آخری منزل کی جانب لے کر روانہ ہو گئے۔
٭٭٭