TO many of us are not living in our dreams because we are living our fears ( les brown)
پامیر نے گھر کا دروازہ کھول کر بیگ کو اندر رکھا ۔ دیکھا تو ارج ابھی بھی دروازے پر ہی کھڑی تھی ۔
"محترمہ ! ! ! آپ خود اندر آئیں گی یا آپ کو دعوت نامہ دینا پڑے گا ۔تاکہ آپ گھر میں تشریف لے آئیں ۔” پامیر نے اس کی ضد سے تنگ آ کر کہا تھا ۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اندر داخل ہوئی اب یہی اس کا ٹھکانہ تھا نجانے کب تک شائد اب کے یہ اس کا آخری ٹھکانہ ہی ہو ۔اس نے دل ہی دل میں دعا کی ۔
"ارج ! کیا سوچ رہی ہو دروازہ بند کر کے صوفے پر بیٹھو ۔ "پامیر نے سوٹ کیس سائیڈ پر لگاتے ہوئے کہا ۔
"کافی پیو گی یا قہوہ ؟” پامیر نے کپ رکھتے ہوئے کہا
"تمہارے پاس کافی میکر ہے ؟” ارج نے کیا بھی تو بے تکا سا سوال
"محترمہ میں امیر نہیں ہوں ۔ کے یہاں اسراف سے کام لوں جب کافی کو کافی میکر کے بغیر بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ تو اپنے پیسے کا زیاں کیوں کرو”۔ اس نے کافی بناتے ہوئے جواب دیا ۔
"ہممم۔۔ میں اپنا بیگ کہا ں پر رکھوں "۔ ارج نے سوفے سے اٹھتے ہوئے کہا
"میرے سر پر رکھ دو "۔ پامیر صرف سوچ ہی سکا ۔
"تم فلحال اسے یہاں پر ہی رہنے دو میں الماری میں جگہ خالی کروں گا تو تم وہاں رکھ لینا ۔ فلحال آرام سے بیٹھو ۔ اور ٹی وی اون کر لو” ۔۔ وہ واپس کافی کی طرف متوجہ ہو گیا
"کافی میں شکر لو گی اور کتنی ؟ ”
"نہیں ! میں شکر پسند نہیں کرتی کافی میں” ۔ ارج نے جواباً کہا
وہ مسکرایا ۔”بلکل اپنے مزاج کی طرح "۔ یہ سوچا ہی جا سکتا تھا محترمہ کے سامنے ۔
ارج نے ٹی وی اون کیا ۔ وہ بار بار بیزاری سے چینل تبدیل کر رہی تھی ۔
"یہ لو اور ایک ہی ٹی وی ہے میرے پاس اس کو خراب مت کرو ۔” پامیر نے اس کے ہاتھ سے ٹی وی کا ریموٹ لیتے ہوئے کہا
"آج بیکری نہیں گئیں ؟ "پامیر نے پھیلے ہوئے سکوت کو تھوڑنے کے لئے گفتگو کا آغاز کیا ۔
"نہیں ! کل بھی نہیں گئی تھی ۔ تنخواہ کٹ جائے گی پر ہمت ہی نہیں ہو پائی ۔ اب تو عرصہ ہوا اپنے لئے سوچے ۔ اب تو کس کے ساتھ رہنا ہے اور کس کے ساتھ نہیں یہ فصیلہ بھی نہیں کر سکتی” ۔ اس نے طنز کرتے ہوئے کہا ۔
"ارج ۔۔ تم خود سمجھ دار ہو ۔وہاں پر تم کیسے رہ سکتی تھی ۔ تم اس رات کوکئی بار برے خواب سے جاگی ۔ لیکن مجھے تم کہتی رہی کے ویسے ہی جاگ رہی ہو ۔ تمھیں کیا لگتا ہے میں کیوں جاگ رہا تھا ۔ برے خواب مجھے بھی آتے ہیں ۔لیکن میں ان سے لڑنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ برا ماضی آپ کو کمزور ہی کرتا ہے جب تک آپ اسے اپنی طاقت نا بنائیں ۔ یہ جنگ تمہاری اپنی ہے تمھیں خود لڑنی ہو گی ۔ اور مایوسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہوتی ۔” پامیر نے خالی کپ میز پر رکھا ۔ارج کافی دیر خاموشی سے بیٹھی رہی ۔
"آپ ٹھیک کہہ رہے ہو مجھے مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔ میں کوشش کروں گی ۔ لیکن میں ابھی بھی ناراض ہی ہوں ۔” کچھ دیر پھیلی کی نرمی بیزاری میں تبدیل ہوئی
"پتا نہیں عقل کب آئے گی اس لڑکی کو "۔ پامیر کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ نے احاطہ کیا ۔
"ٹھیک ہے پھر ۔ میں لائبریری جا رہا ہوں آپ ساتھ چلیں گی محترمہ ۔” پامیر نے کچن کی طرف جاتے ہوئے کہا
"ہاں ! میں یہاں اکیلی رہ کر کیا کروں گی "۔ اس نے باہر آتی لٹوں کو سکا ف کے اندر اڑیسا ۔
"ہمم ۔تم کوئی بک پڑھ لینا ۔ یا کچھ بوکس ریک میں رکھنے میں مدد درکار ہے ۔وہ سیٹ کر دینا ۔ ٹھیک ہے ۔ "باہر نکل کر دروازہ کو چابی لگاتے ارج کو ہدایات دیں
"اور ہاں ! کسی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اور جب کسٹمر آئے ہوں تو کاؤنٹر والی چیئر پر بیٹھنا میں دوسری لگا لوں گا ۔ اور کسی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں خاص طور پر لڑکوں سے سمجھ آئی یا نہیں ۔” پامیر نے مسلسل بولتے ہوئے کہا
"نہیں ! سر مجھے ایک لفظ بھی سمجھ نہیں آیا ۔ تشریح کر دیں "۔
ارج کی بات سن پامیر نے اپنے غصے کو قابو میں کرنے کی کوشش کی ۔پھر پامیر نے لائبریری تک جاتے دوبارہ تمام باتیں دوہرائیں ۔
پامیر اور ارج دونوں ایک ساتھ لائبریری میں داخل ہوئے ۔ پامیر ارج کو لئے کاؤنٹر کی طرف بڑھ گیا ۔
"السلام عليكم ! بھابی کیسی ہیں آپ” ۔عمر ارج کو پامیر کے ساتھ پہلی بار لائبریری آتے دیکھ بولا
” اللہ کا شکر ہے میں بلکل ٹھیک ہوں۔اب میں چلتا ہوں بہت کام ہیں۔ اللہ حافظ ۔” اس نے ارج کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہا اور چل دیا۔ ارج نے ہونقوں کی طرح کھڑے اس کی یہ حرکت ملاحظہ فرمائی
اس نے رخ پھیرا تو پامیر عمر کی پشت کو گھور رہا تھا ۔
"اس کو ڈرانا بند کرو ہلک ۔” اس نے ایک ریک کی طرف جاتے بولا
اور مطلوبہ کتاب لے کر وہاں لگی کرسیوں پر ہی بیٹھ گئی
"پتا نہیں عقل کب آئے گی اس لڑکی کو "۔پامیر نے پھر اپنے الفاظ دوہرائے اور لائبریری کے کام میں مصروف ہو گیا ۔
ارج لائبریری میں بیٹھی سوزن کولین کی کتاب موکینگ جے پڑھنے میں مصروف تھی جب ٹیبل کی سائیڈ پر کسی نے زور سے کتابیں پٹکیں ۔
"کیا مصیبت ہے ”
ارج نے اپنا چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے سر اٹھا کر دیکھا تو پامیر اپنے (hulk)
ہلک سٹائل میں ایک بچارے سنگل پسلی لڑکے کو گھور رہا تھا
پامیرجو پچھلے آدھے گھنٹے سے مسلسل اس لڑکے کو دیکھ رہا تھا جس کی نظریں بار بار اس کی بیوی اور دوسری لڑکیوں کو دیکھنے کی کوشش کر رہیں تھیں ۔
پامیر کے کے اندر غصے کے جھکڑ چل رہے تھے ۔ لاوا تھا جو ابلنے کو بیتاب تھا ۔ پرانا پامیر اس کے اندر سر اٹھانے لگا ۔ خون سے رنگے ہاتھ دہشت پھیلا دینے والی مسکراہٹ۔ سانپ سے زہریلا جو ڈس لینے کو تیار ہو
اسے ایسے بے باک نگاہ رکھنے والے لوگوں سے سخت چڑ تھی ۔ اس نے بامشکل خود پر قابو پاتے ہوئے اس کی ٹیبل کا رخ کیا
"جو اپنے آنکھیں ایک دفع اور ادھر ادھر کیں "۔
وہ یخ بستہ لہجے میں کہتا اور ہلکا سا کسی سئیکو کی طرح مسکراتا تھوڑا ساٹیبل پر جھکا
"تو لائبریری سے نکالنے سے پہلے تمہاری آنکھیں نکال کر میوزیم میں رکھوا دوں گا ۔ تمہاری آنکھوں کے خول کو خالی کرنے میں بہت مزہ آئے گا ”
پامیر نے اس لڑکے کو گھورتے ہوئے سرد منجمد لہجے میں وارننگ دی اور اپنا ہاتھ بالوں میں پھیرا جس پر جگہ جگہ پرانے زخموں کے نشان تھے ۔ لڑکے کے گردن میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی
جبکہ اس کا یہ روپ دیکھ کر ارج نے اپنے اندر سرد لہر دوڑتی محسوس کی وہ بے اختیاری سے پیچھے ہوئی ۔کیونکہ پامیر کا رخ اب اس کی طرف تھا
"تمھیں میں کہا تھا یہاں نا بیٹھنا لیکن تم نے پہلے میری بات کبھی سنی۔ ہے جو آج۔ سنتی اب خاموشی سے وہاں بیٹھو "۔ اس نے کاؤنٹر کی طرف اشارہ کیا
"اور تم ۔” وہ لڑکے کی طرف متوجہ ہوا
تم اپنی آنکھیں سمبھال لو۔ اس سے پہلے کے ان کا قیمہ کر دوں ۔ یہ آخری بار تنہبہ کر رہا ہوں اگلی بار لائبریری کے باہر ہو گےسمجھے۔” اس نے لال آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ ا
جی ۔ لڑکا صرف منمنا ہی سکا ۔
رات کے گھنیرے سائے پھیل چکے تھے ۔ آسمان نے سیاہ چادر اڑی تھی ۔
پامیر نے لائبریری کو بند کرتے نے ایک بار پھر مسکرا کر اندر بیٹھے عمر کو دیکھا ۔جس کا اکثر رات کا مسکن بھی یہ لائبریری وہ کبھی کبھی پڑھتا ہوا یہاں کی سو جاتا کیونکہ عمر ایک یتیم بچا تھا ۔ آج سے سات سال پہلے وہ پامیر کو کوڑے سے کھانا تلاش کرتے ملا تھا ۔ پامیر جو زندگی کی تلخیوں سے واقف تھا اس بچے کو ساتھ ہی لے آیا ۔ پوچھنے پر پتا چلا کے وہ اپنے انکل کے ساتھ رہتا ۔ اور محنت مشقت کروا کر کھانے کو بھی تب دیتا اگر گھر میں کچھ کھانے کو بچ جاتا ۔ نہیں تو بھوک اور اس کا بچپن کا ساتھ تھا ۔ پر پھر ایک انسان کب تک بھوکا رہ سکتا ہے ۔ وہ تیرہ سال کی عمر میں ملا تھا اب اٹھاریں انیس سالہ نوجوان تھا ۔ ایک گھر میں رہتا تھا جو اس کی بوڑھی دادی اس کے نام لکھ کر اس دنیا سے رخ پھیر گئیں تھیں ۔ اس کے رشتہ داروں نے اسے ہتھیانے کی کوشش تو خوب کی ۔ مگر کامیاب نا ہو پائے ۔
پامیر نے ارج کو چابیاں پکڑائیں ۔
"میں ان کا کیا کروں ؟”ارج نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا۔
"افف عقل کب آئے گی اس لڑکی کو ۔ "پامیر نے سوچا پھر اس سے مخاطب ہوا
"میرے سر پر سجا دو ۔ ارج ظاہری سی بات ہے پکڑ کر رکھوں تاکہ میں یہ ڈبے سمبھال سکھوں ۔ چلو اب ۔ "پامیر اپنے گھر کے راستے پر چل پڑا ۔ ارج بھی پیچھے پیچھے ہو لی ۔
گھر پہنچ کر اس نے ڈبے نیچے رکھے اور ارج سے چابی لی اور گھر کا دروازہ کھولا۔ان محترمہ سے امید رکھنا۔سپیس شپ دیکھنے کے برابر ہے۔مطلب سو میں سے صرف صفر اعشار یہ صفر ایک
فیصد(%0.01)۔
"ایک کام کرو میرا فون لو اور پیزا ہی آرڈر کر لو ۔ آج مجھ میں کچھ بنانے کی ہمت نہیں ہے ۔ آج پورا دن کام کر کر کے برا حال ہے ۔” وہ کہتے ہوئے اندر کو بڑھا پر ارج کی جانب سے خاموشی پر پلٹ پر دیکھا ۔ جو اس کے فون کو گھور رہی تھی ۔
"فون کرو ۔” وہ بولا ۔
"وہ میں ڈر جاتی ہوں ۔مجھے ایک دم سے سمجھ نہیں آتی کے کیا بولنا ہے اور کیا نہیں ۔” ارج خود کو کمزور ظاہر نا کرنا چاہتی تھی ۔ پر آواز میں لغزش پیدا ہو گئی تھی ۔
پامیر نے باکس وہیں کچن شیلف پر رکھے اور اس کی طرف پیش قدمی کی ۔
"یہ فون آج تم ہی کرو گی سپیکر پر لگاؤ ۔ اگر لڑکی ہوئی تو تم بات کرو گی ۔ ٹھیک ہے "۔ پامیر نے اس کی براؤن آنکھوں میں جھانکا ۔
"میں کوشش تو کر سکتی ہوں ۔” ارج نے خود کو تسلی دیتے ہوئے سوچا اور نمبر ملا کر سپیکر پر کر دیا ۔
لڑکی کی آواز سپیکر پر ابھری تھی ۔ ارج کے ہاتھ کانپے تو پامیر نے اس کے ہاتھ کو تھام لیا ۔
"جی میں ! ایک پیزا آرڈر کروانا ہے” ۔ ارج نے کسی نا کسی طرح اپنی تالو سے چیپکی زبان کا استعمال جان ہی لیا ۔
"اوکے ! کونسا ۔ ۔” اس لڑکی نے پوچھا کیونکہ پامیر اکثر یہاں سہی آرڈر کرتا تھا ۔
ارج نے پریشانی سے اس کی طرف دیکھا اب کیا بولوں ۔
جس پر پامیر نے آرڈر لکھوا کی بند کر دیا ۔” دیکھو اتنی سی بات تھی ۔ ”
"میں بے کونسا پہلے کبھی کچھ آرڈر کروایا ہے ۔” ارج نے اپنی شرمندگی کو کم کرنے کی کوشش کی
"تم نے کبھی بھی آرڈر نہیں کیا ۔ خود ” پامیر نے اسے یوں گھورا جیسے کیمسٹری کی سب سے مشکل کیمکل اکویشن ہو ۔
"چلو۔ میں یہ اندر رکھ دو آج پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے” ۔ وہ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔
"میں ابھی بھی ناراض ہوں "۔ پامیر کے کانون میں ارج کی آواز گونجی ۔
” پتا نہیں کب عقل آئے گی اس لڑکی کو” ۔ وہ تاسف سے سر ہلاتا آگے کو۔ بڑھ گیا ۔
تھوڑی ہی دیر گزری تو دروازے پر ہونے والی گھنٹی پر پامیر چونکا ۔ اتنی جلدی آرڈر آ گیا ۔ وہ حیران سا باہر آیا
"میں دیکھتا ہوں” ۔ دروازہ کی طرف بڑھتی ارج کو روکا ۔
دروازے پر پیزا لے کر پےمنٹ کی ۔ اور دروازہ بند کرنے لگا پر کسی احساس کے تحت چاروں اطراف میں دیکھا ۔ کسی کو نا پا کر اس نے وہم سمجھا اور دروازہ بند کر دیا ۔