اس بار جدید ادب کے سلسلے میں اتنا میٹر جمع ہو گیا کہ ضخامت ۳۲۰صفحات سے بڑھ گئی۔چنانچہ بہت سا موصولہ میٹر نکالنا پڑا۔میری کوشش تھی کہ رسالہ ۲۵۰صفحات تک لے آؤں لیکن اتنی تگ و دو کے باوجود ۲۸۰صفحات سے کم نہیں ہو سکا۔ ابتدا میں نے اپنے ایک مضمون کو حذف کرنے سے کی ۔سو بہت سے دوستوں کی تخلیقات اس میں موجود نہ ہوں تو اسے کسی بد ظنی کے طور پر دیکھنے کی بجائے میری مجبوری کے طور پر دیکھیں۔حقیقتاَ میں ۱۶۰صفحات کا ایک شمارہ جیسے تیسے نکال سکتا ہوں لیکن دوسرے شمارے تک صفحات ۲۳۲ہو گئے اوراب ۳۰۰سے بھی تجاوز کر گئے تھے۔میں اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلانا چاہتا ہوں ۔اس لئے جدید ادب کی ٹیم اور دوسرے بہی خواہوں کے مشورے سے اس بار طے کیا ہے کہ جدید ادب کے تمام قارئین خواہ وہ کہیں بھی رہتے ہوں ان سے درخواست کی جائے کہ وہ جدید ادب کے پیکٹ پر رجسٹرڈ بک پوسٹ کے ٹکٹ کی رقم دیکھیں اور صرف ڈاک خرچ کے طورپر اتنی رقم اپنی سہولت کے مطابق انڈیا میں عمر کیرانوی صاحب کو یا پاکستان میں نذر خلیق صاحب کو بھیج دیں۔(مجھے رسائل بھیجنے والے مدیران اس سے مستثنیٰ ہیں)اس شمارے کے بعد جو دوست ڈاک خرچ کی ادائیگی نہیں کر سکیں گے،ان سے شرمندگی کے ساتھ معذرت چاہوں گا کہ پھر ان کو جدیدادب کا اگلا شمارہ نہیں بھیجا جا سکے گا۔ مجھے ایسے کسی دوست سے گلہ نہیں ہوگا اور ان کو بھی مجھ سے گلہ نہیں ہونا چاہئے۔
ادبی دنیا میں اس وقت بعض سینیئرز کے خلاف ایک مہم سی چلی ہوئی ہے۔اسی طرح بعض ہمعصروں کے درمیان بھی ٹھنی ہوئی ہے۔اختلاف رائے سے کسی کو روکا نہیں جانا چاہئے لیکن ادب میں اختلاف رائے میں’’پہلا قرینہ ‘‘ بھی ’’ادب‘‘ہونا چاہئے۔ہو سکتا ہے بعض سینیئرز کے خلاف لکھنے والے دوستوں کی درپردہ اصل نیم ذاتی اور نیم ادبی شکایات میں بڑی حد تک’’ جائز شکایت‘‘ ہونے کا عنصر موجود ہو،ان کے ساتھ کسی رنگ میں نا انصافی بھی ہوئی ہو لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ان قدآور علمی و ادبی شخصیات کے علمی اور ادبی کردار کو مسخ کیا جائے جن کے علم و فضل سے ہم سب فیضیاب ہو ئے ہوں اور جن کی علمی اور ادبی حیثیت ابھی موجودہ عہد کے فیصلے سے کہیں زیادہ بلند ہے ۔ میں ذاتی تجربہ کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ ایسے کاموں کا نتیجہ بعض مخصوص حلقوں کی طرف سے وقتی واہ واہ کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا،لیکن خود کو بعد میں شرمندگی ہوتی ہے۔ بعض ہمعصروں کی چپقلش کے سلسلے میں مَیں ذاتی طور پرکوشاں ہوں کہ نہ صرف ان کے درمیان سیز فائر ہوجائے بلکہ ان کی رنجشیں بھی دور ہو سکیں۔
میری گزارش ہے کہ اگر مہم چلانی ہے تو منشی گیری کرنے والے غیر جینوئن لکھنے والوں کے خلاف چلائیے۔جعلی شاعروں اور چور افسانہ نگاروں کے خلاف مہم چلائیے۔بعض ہمعصروں کے جھگڑوں یا بعض سینیئرز کے خلاف چلائی گئی مہم سے ایک طرف ادبی فضا مکدر ہو گی تو دوسری طرف ان جعلی شاعروں اور ادیبوں کی بالواسطہ طور پر حوصلہ افزائی ہو گی جو محض ڈالرز،پاؤنڈز اور یورو کے بَل پر شاعر اور ادیب بن بیٹھے ہیں۔ کیا ہم دنیا کو یہی بتانا چاہتے ہیں کہ ہر شعبہ میں ہم اصل ہیروز کی تذلیل اور جعلی لوگوں کی تکریم کرتے ہیں؟
حیدر قریشی