جدید ادب کا بنیادی مزاج تو اس کے مستقل اور سینیئر لکھنے والوں سے ہی متعین ہو تا ہے تاہم نئے لکھنے والوں کو بھی اس میں ایک حد تک جگہ دی جاتی رہے گی ،بس اتنا ہے کہ وہ بھلے قدرے کمزور لکھنے والے ہوں لیکن جو کچھ ہمیں بھیجیں وہ ان کی اپنی اوریجنل تخلیق ہو۔
اس بار ادب میں ادبی شعور کی کمی کے مسئلہ پر کچھ لکھنا چاہتا تھا۔اس کی ضرورت اس لئے بھی تھی کہ جب مابعد جدیدیت نے فن پارے کی تفہیم کا سارا کام قاری کو ہی تفویض کرکے رکھ دیا ہے تو یہ دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ اردو ادب کا جو قاری ہے اس کا ادبی شعور اور ذہنی استعداد کس حد تک قابلِ اعتمادہے۔میں نے جو لکھنا چاہا تھا ،وہ مجھے اپنے چار سال پرانے ایک مضمون میں مل گیا ہے۔لہٰذا ان باتوں کو نئے سرے سے دہرانے کی بجائے اس مضمون کا اقتباس پیش کر رہا ہوں: ’’ادب کے قارئین کی تعداد میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی آرہی ہے ۔مادہ پرستی کے غلبہ سے لے کر ٹی وی چینلز تک اس کے بہت سے اسباب ہیں۔لیکن ایک بڑا سبب خود ادیبوں کی ادب سے بے توجہی ہے جوادبی شعور کی کمی یا ادبی شعور نہ ہونے کے باعث ہے۔اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ عموماََ شاعروں کو شاعری کے علاوہ ادب کی دوسری اصناف سے مطالعہ کی حد تک بھی کوئی رغبت نہیں رہی اور ایسی ہی صورتحال دوسری اصناف کے لکھنے والوں کے ہاں دیکھی جا سکتی ہے۔مستثنیات کو چھوڑ کر ہمارے شاعروں اور ادیبوں کی ادب سے وابستگی کی یہی نوعیت ہے۔اور تو اور شاعری میں بھی یہ حال ہے کہ اپنی ناک سے آگے کسی کو کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔یہ سارے روےّے خودادیبوں کی ادب سے بے رغبتی کو ظاہر کرتے ہیں۔ایسی صورتحال میں قاری کی کمی کا رونا بے معنی ہوجاتاہے۔سو میرے خیال میں عوام میں یا اردو کے قارئین میں ادب کا ذوق پیدا کرنے سے پہلے خود ادیبوں اور شاعروں میں ادب کا ذوق پیدا ہونا ضروری ہے ۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ادیب اور شاعر ادب کے سنجیدہ قاری بنیں۔ان کے اندر Sense of Literatureپیدا ہو اور اس کی جھلک دکھائی بھی دے۔مغربی ممالک میں مقیم اردو کے شاعروں اور ادیبوں میں اس کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے۔میں یہ بات کسی پر طنز کے طورپر نہیں کہہ رہا بلکہ حقیقتاَ یہ ہمارے ادب کا سنگین مسئلہ ہوتا جارہا ہے۔اس کے نتیجہ میں جعلی شاعروں اور ادیبوں کی ایک کھیپ تیار ہو چکی ہے۔یوں اصل اور نقل میں فرق کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔مارکیٹنگ سسٹم کی طرح ادب میں بھی نمبر دو مال کو اوریجنل ادب کے طور پر پیش کیا جارہاہے۔اس کے لئے سنجیدگی سے اور بہادری کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسے معاملات میں ذاتی دوستیوں اور تعلقات کے مقابلہ میں ادب کو اوّلیت اور اہمیت دینا بے حد ضروری ہے۔ ‘‘
(’’اکیسویں صدی ۔۔۔اردو زبان و ادب کے چند مسائل‘‘مطبوعہ مجلہ ملینیئم اردو کانفرنس ۲۰۰۰ء)
امید ہے ادب سے سنجیدہ تعلق رکھنے والے حضرات اس مسئلہ کے جملہ پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے۔
حیدر قریشی