فی زمانہ اہلِ مغرب کی علمی و سائنسی ترقیات میں مسلسل پیش رفت بلاشبہ ہم اہلِ مشرق کے علمی و سائنسی افلاس کی نشاندہی کرتی ہے۔اس فکری افلاس کے اثرات کو ہمارے ہر شعبہ ہائے حیات میں دیکھا جا سکتا ہے۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دانشِ مشرق کا ماضی کا سرمایہ اتنا قیمتی ہے کہ اہلِ مغرب آج بھی اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ادب کی تازہ ترین مابعد جدیدیت کی بحث کے سرخیل Jacques Derrida کے بنیادی فکری ماخذ تک رسائی کے لیے تھوڑی سی کاوش پیش خدمت ہے۔
دریدا کی پیدائش۱۵جولائی ۱۹۳۰ء کو فرانسیسی مقبوضہ الجیریا کے شہر’’ ال بیار‘‘ میں ہوئی تھی۔وہ وہیں پلا بڑھا۔اپنے بچپن میں اسے اس وقت سخت ذہنی صدمہ پہنچا جب فرانسیسی حکومت کے ایک یہودی مخالف قانون کے مطابق اسے سیکنڈری ایجوکیشن کے دوران اسکول سے خارج کر دیا گیا۔مذکورہ قانون کے مطابق ایک خاص تعداد سے زیادہ یہودی بچوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا تھا۔دریدا اس قانون کا شکار ہوااور یہ نفرت انگیز سانحہ اس کے ذہن میں بیٹھ گیا جو آگے چل کر اس کی فکر ی اساس بنا۔الجیریا کے ماحول میں اسے حسن بن صباح کی فکر سے شناسائی ہوئی اور وہی کسی نہ کسی طور مابعد جدید فکر کی بنیاد بن گئی۔حسن بن صباح کے بارے میں افسانوی طور پر بھی اور تاریخی طور بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔حسن بن صباح سے پہلے فاطمی عقائد میں یہ بات موجود تھی کہ وحی کا حقیقی مفہوم اور تاویل صرف امام جانتا ہے۔یہ لایمسہ الاالمطہرون کی ایک انداز میں تفسیر تھی۔حسن بن صباح نے اسی لطیف نکتہ کو ارزاں کر دیا۔ان کے نزدیک تنزیل سے زیادہ تاویل کی اہمیت ہے(مابعد جدیدیت متن اورمصنف کے مقابلہ میں قاری کی قرات اور تفہیم کو ساری اہمیت دے کر اسی نکتہ کو اجاگر کر رہی ہے)۔حسن بن صباح نے شراب ،زنا اور دیگر مناہیات وغیرہا کومقامات اور صورتحال کے مطابق کہیں حلال اور کہیں حرام قرار دیا (مابعد جدیدیت نے اسی نکتہ کو معنی ہمہ وقت ملتوی ہوتے رہنے سے تعبیر کیا ہے)۔
اگر حسن بن صباح کی ’’المتونت‘‘ کا متن کہیں سے دستیاب ہو جائے تو دانشِ مشرق سے استفادہ کرنے والے دریدا جیسے مغربی مفکرین کے فکری ماخذ کو مزید بہتر طور پر اجاگر کیا جا سکتا ہے۔میں نے یہاں حسن بن صباح کے معتقدات کو موضوع نہیں بنایا،بلکہ صرف اتنا احساس دلانا مقصود تھا کہ علمی و فکری لہروں کا سفرمشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق کی طرف صدیوں سے جاری وساری ہے اور صدیوں کی بے شمار لہروں میں سے یہ صرف ایک لہر کی نشاندہی تھی۔ مغرب سے اندھادھند(بلا حوالہ و با حوالہ)استفادہ کرنے والے ہمارے اردو دانشوروں کے لیے اس نشاندہی میں غور کا بہت ساسامان موجود ہے جو ہمیں درآمد کی گئی مشرقی شعریات کی بجائے ہماری اصل مشرقی شعریات کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے۔ حیدر قریشی