ادب میں سامنے کی حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت تک رسائی کی تخلیقی کاوش ایک طرح سے صوفیانہ رویہ رہا ہے۔موجود مادی کائنات کے پارٹیکلزکی تہہ میں اس کے عقبی بھید موجود ہیں لیکن تاحال سائنس پارٹیکلز سے کوارکس (کلرز) تک پہنچ کر رُک جاتی ہے اور اس سے آگے اس کے ہونٹوں پر بھی ایک حیرت انگیز مسکراہٹ ہی رہ جاتی ہے۔ ہمارے جو صاحبانِ علم مادی دنیا سے ماورا کسی حقیقت کو مجہولیت سمجھتے ہیں،انہیں اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔لیکن یہ ذہن میں رہے کہ ماورائیت کی پرچھائیوں کو مس کرنے کا تجربہ نہ رکھنے والے صاحبانِ علم اپنے علم کی حد کو کائنات کے بھیدوں کی آخری حدنہ سمجھیں۔ ایسے احباب کو ان کے مادی ذہن کے مطابق ہی بتانا مناسب ہے کہ انسانی دماغ کی کار کردگی کو دیکھیں تو اس کا ۱۰فی صد ہی ابھی تک کارکردگی کا مظاہرہ کررہاہے۔اس ۱۰فی صد دماغی کارکردگی نے انسان کو کتنی حیرت انگیز ترقیات کے دور تک پہنچا دیا ہے۔اس سے دماغ کا جو ۹۰فی صد حصہ بظاہر خاموش پڑا ہے،اس کی بے پناہی کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔اچھے تخلیق کاروں کو اس ۹۰فی صد سے کبھی کبھار جو کچھ ملتا ہے،اس کا اندازہ تخلیق کار ہی کر سکتے ہیں۔سو ماورائیت تو ہمارے باہربے پناہ کائنات سے لے کر ایٹم کے اندر اس کے بلڈنگ بلاک کی تلاش تک مسلسل موجود ہے۔اور انسانی دماغ کا ۹۰فی صد خاموش حصہ بجائے خودہمارے اندرماورائیت کی کارفرمائی کا زبردست ثبوت ہے۔
ماورائیت کے نام پر یا صوفیانہ رمزیت کے نام پر اگر بعض لوگ سطحی یا بے معنی تحریریں پیش کر رہے ہیں تو اس نقلی مال کا مطلب بھی یہ نکلتا ہے کہ اصل بھی موجود ہے۔اصل کرنسی ہوتی ہے تو اس کی جعلی کرنسی بنانے والے اپنا کام دکھاتے ہیں۔حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت کی جستجو رکھنے والوں کو ایک طرف تو مذہبی نظریہ سازوں کا معتوب ہونا پڑتا ہے دوسری طرف وہ لوگ بھی ان کے در پَے رہتے ہیں جو بظاہر خود کو مذہبی نظریہ سازی کے استحصالی طرز کا مخالف کہتے ہیں۔لیکن عجیب بات ہے کہ حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت اور زندگی کو اس کے وسیع تر مفہوم میں جاننے کی کوشش کرنے والوں کو دونوں طرف کے لوگوں سے ایک جیسی ملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ مذہبی نظریہ سازوں کے مخالف ترقی پسند وں کا رویہ تو بعض اوقات خود مولویانہ طرزِ عمل سے بھی زیادہ مولویانہ ہوجاتا ہے۔امید ہے ہمارے ایسے صاحبانِ علم اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے بعض ذاتی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے ۱۹اپریل ۲۰۰۸ء سے ڈاکٹر نذر خلیق صاحب جدید ادب کی ادارت میں شامل نہیں رہے۔اس لیے اب جو احباب اپنی نگارشات بھیجنا چاہیں،متبادل انتظام ہونے تک انہیں براہ راست جرمنی کے پتہ پر ہی رابطہ کرنا ہو گا۔چونکہ جدید ادب میں مجلس مشاورت بھی نذر خلیق صاحب کے اصرار کی وجہ سے قائم کی گئی تھی، وگرنہ میں اول روز سے اس کا حامی نہ تھا،سو اب ان کے ساتھ مجلس مشاورت کو بھی ختم کیا جارہا ہے۔مجلس مشاورت کے اُ ن تمام بزرگوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے کہنے پر شمولیت کی حامی بھری تھی۔ جن احباب کو اپنی نگارشات اس شمارہ میں دکھائی نہ دیں،انہیں اس کی وجہ کا اندازہ ہوجانا چاہیے،سو ان سے گزارش ہے کہ اپنی وہ نگارشات اب جرمنی کے پتہ پر بھیج دیں۔
حیدر قریشی