” اففففف۔۔۔۔۔یار یہ نشاء کہاں چلی گئی مجھے کچن میں چھوڑ کے سارا ملبہ مجھ پہ ڈال دیا سارا کچن پھیلا ہوا ہے ابھی صاحب بہادر آکے مجھ پہ چیخیں گے۔۔۔۔۔ نشاء۔۔۔۔نشاء مرو بھی یہاں” وہ اسے مسلسل آوازیں دے رہی تھی مجال ہے جو وہ سن لے سنک میں برتن گندے پڑے تھے کیبنٹ سے چیزیں نکال کے رکھی نہیں گئی تھیں اور ان کے دروازے تک کھلے تھے کچھ مسالے ایسے ہی گرے ہوئے تھے یہ سب نشاء جا سگھڑاپا تھا کھانا بنانے کے شوق میں یہ سب چیزیں پھیلا لیں تھیں اور اب تنگ آ کے کچن چھوڑ کے چلی گئی تھی اب سارا کام مرال کے کندھوں پہ آگیا تھا گھر میں کوئی بھی نہیں تھا ماما اور بڑی ماما لاہور گئی ہوئیں تھیں اور ارسہ اور سارہ پڑھ رہی تھیں اور نمیر اور زیان اپنے دوستوں کی طرف گئے ہوئے تھے دادی اپنے کمرے میں تھیں بابا اور بڑے بابا اور جبران آفس گئے ہوئے تھے آج آفس میں کام زیادہ تھا سو بابا نے فون کر کے بتا دیا تھا کہ دیر ہو جائے گی رات کے کھانے تک ہی پہنچیں گے وہ گھر وہ کھانا کب کابنا لیتی پر بھلا ہو نشاء کا جس نے اسے دیر کرادی تھی
” نشاء۔۔۔۔۔ اچھا سنو کھانا میں بنا رہی ہوں تم برتن ہی دھو دو ماسی بھی آج کل چھٹی پہ ہے ورنہ اس سے دھلوا لیتی” وہ لاؤنج میں آکے بولی نشاء کانوں میں ہینڈفری لگائے گانے سن رہی تھی ایک کان سے ہینڈفری نکال کے بولی
” کیا ہے۔۔۔۔۔ مجھ سے نہیں بنتا کھانا ”
” تو پھیلاوا پھیلانے کی کیا ضرورت تھی آج کے دن ہی یہ شوق چڑا تھا تمہیں۔۔۔۔۔ اینی ویز میں تمہیں کھانا بنانے کا نہیں برتن دھونے کا کہہ رہی ہوں اٹھو ”
” واااااٹ۔۔۔۔۔ میں اور برتن دھؤوں۔۔۔۔۔ یار میرو نیل پینٹ خراب ہوجائے گا میرا”
” اور آتے ہی تمہارے بھائی کا جو دماغ خراب ہو گا اس کا کیا ”
” نو۔۔۔۔۔ میں نہیں کرتی یہ کام” وہ اسے دیکھ کے رہ گئی
“نشاء۔۔۔۔۔۔” وہ اتنا ہی کہہ سکی نشاء ااٹھی اور روم میں چلی گئی نشاء ویسے تو اپنے گھر کا ہر کام کرتی تھی لیکن جہاں دیکھتی کہ کوئی بڑا موجود ہے کام کے لیے تو پھر تو کوئی اسے اپنی جگہ سے اٹھا کے دکھا دے س ٹائم وہڈھیٹ بن جاتی تھی اور آج اس سے بڑی مرال تھی نا تو وہ کام کیوں کرتی
مرال واپس کچن میں آئی اور برتن چھوڑ کے کھانا بنانے لگی
رات کو بابا والے آئے تو اس نے کھانا لگایا جب سب کھا چکے تو اس نے برتن سمیٹے اور کچن میں آکے برتن دھونے لگی اتنے میں جبران وہاں آیا مرال چونکی جبران نے ناگواری سے اسے دیکھ کے واپس کی راہ لی
” آپ کو کچھ چاہیے” وہ پلٹتا ہی تھا کہ وہ بولی
” کچھ نہیں نشاء کو کافی کا کہنے آیا تھا پر۔۔۔۔۔چھوڑو” وہ کہہ کر چلا گیا
” ہونہہ صاحب بہادر کے ماتھے کے بل ہی کم نہیں ہوتے۔۔۔۔۔ مجھے کیا ضرورت ہے خدمتِ خلق کی۔۔۔۔۔ مجھ سے تو ایسے دور بھاگتے ہیں جیسے میں کوئی بدروح ہوں یا مجھے خدانخواستہ کوئی بیماری ہے جو مجھ سے کوئی چیز لینا پسند نہیں کرتے” وہ سر جھٹک کے اپنا کام کرنے لگی پھر دل میں خیال آیا کہ “بیچارہ کافی کے لیے آیا تھا میں ہی پوچھ لیتی۔۔۔۔۔ چلو میں بنا دیتی ہوں” یہ سوچ کر وہ کافی بنانے لگی اسے ڈر بھی تھا کہ کہیں وہ غصہ نہ ہو جائے اس سے تو وہ ویسے ہی چڑتا ہے
اس نے کافی بنائی اور اوپر والے پورشن کی طرف گئی بڑے بابا اور جبران اپنے پورچن میں ہی سوتے تھے وہاج صاحب نے تو کہا تھا کہ جب تک دونوں خواتین نہیں آجاتیں وہ یہیں رہ لیں پر وہ دونوں اپنگ کمرے کے بغیر نہیں رہتے تھے ورنہ زیان اور سارہ تو نیچے پورشن میں ہی قیام پزیر تھے
وہ اوپر آئی اور اس کے کمرے کے پاس پہنچ کے دروازہ نوک کیا اور اندر داخل ہوئی جبران بیڈ پہ بیٹھا تھا اسے دیکھ کے کھڑا ہوا
” تم۔۔۔۔”
” وہ۔۔۔۔۔ کافی”
“مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے تم سے کہا تھا”
“جج جی۔۔۔۔۔ وہ میں نے سوچا” وہ جھجکی
” آئی ڈونٹ کئیر تم نے کیا سوچا نہیں پینی یہ کافی لے جاؤ” وہ بے رخی سے بولا
” تم جیسی گھریلو لڑکیاں یہ ہی کرتی ہیں اپنے منگیتر یا شوہر کو پھانسنے کے لیے بٹ میں ان میں سے نہیں ہوں اور نہ تمہارے کاموں اور خدمتوں سے امپریس ہونے والا ہوں سو یہ کوششیں ترک کردو بہتر ہے تمہارے لیے۔۔۔۔۔ جاؤ” وہ کھڑی اس کے لفظوں پہ غور کررہی تھی وہ اس کے خلوص کو امپریس کرنے کی ایک ٹرک کہہ رہا تھا
” تم نے سنا نہیں جسٹ گو ” جب وہ نہ گئی تو وہ اس کے سامنے آکے بولا اور ساتھ ہاتھ کے اشارء سے باہر کا راستہ بھی دکھایا وہ چلی آئی
کچن میں آکے اس نے کافی سنک میں پھینک دی اور رونے لگی
” آپی۔۔۔۔۔ آپی” اسے سارہ کی آواز آئی تو اس نے اپنے آنسو صاف کیے ” کیا ہوا آپی جبران بھائی نے کچھ کہا ہے”
” نہیں۔۔۔۔۔نہیں تو۔۔۔۔۔ وہ بس ماما یاد آرہی ہیں ”
” ساری زمہ داری مجھ پہ آگئی ہے نا اس لیے میں پریشانی ہورہی ہے۔۔۔۔۔ بس اور کچھ نہیں”
” پکا یہ ہی بات ہے؟؟؟”
” ہاں ”
” اچھا میں سمجھی کہ بھائی نے کچھ کہا ہے”
” نہیں وہ مجھے اس ٹائم کیوں کچھ کہیں گے”
” اچھا ٹھیک ہے”
” تم یہاں؟؟؟”
” جی آپی وہ بھائی آئے تھے نہوں نے کافی بنانے کے لیے کہا ہے مجھے” اس کے دل میں ٹیس سی اٹھی
” میرے ساتھ کچھ دیر کھڑی ہو جائیں گی میں کافی بنا لوں مجھے ڈر لگتا ہے ویسے تو نشاء آپی کھڑی ہوتی ہیں پر وہ سو چکی ہیں”
” کوئی بات نہیں میں کھڑی ہوں” وہ کافی بنانے لگی
” کیا جبران مجھ سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ میرے ہاتھ سے کیا گیا کام کو بھی ہاتھ لگانا پسند نہیں کرتے اتنا ناپسندیدہ وجود ہوں میں ان کے لیے۔۔۔۔۔ پر میں کیوں سو تی ہوں ان کے بارے میں اتنا۔۔۔۔۔ وہ میرے کزن ہیں بس اور کچھ نہیں” وہ سوچ رہی تھی
” آپی بن گئی کافی” وہ چونکی
” اچھا چلو ” وہ سیڑیوں پہ کھڑی ہوگئی اور سارہ اوپر کافی دینے چلی گئی اسے کافی دے کر وہ آئی اور دونوں کمرے میں چلی گئیں
——
سارہ کافی دے کے چلی گئی تھی وہ گھونٹ گھونٹ کر کے کافی پینے لگا اور مرال کے بارے میں سوچنے لگا وہ کہیں سے بھی اس کا آئیڈیل نہیں تھی اسے بولڈ لڑکیاں پسند تھیں لیکن وہ اس میں کونفیڈینس تو تھا پر وہ بولڈ نہ تھی
اسے وہ لڑکیاں پسند تھیں جو گھر کے بکھیڑوں سے دور رہتیں اور مرال سارا گھر سنبھالتی تھی
وہ ایک کامیاب آدمی تھا اور اسے اس ٹائپ کی ہی ورکنگ ووِمن پسند تھیں جن کے ساتھ چلتے ہوئے فخر محسوس ہوتا
اس کا آئیڈیل ایک ایسی لڑکی تھی جو بولڈ،آزاد ذہن، گھومنے کی شوقین اور ورکنگ وومن ہو وہ خود کامیاب آدمیوں کی فہرست میں شامل تھا اور اسے اپنی ہمسفر بھی ایسی ہی چاہیے تھی
اور مرال اس کا تو سایہ بھی دور دور تک اس کی آئیڈیل سے نہ ملتا تھا وہ ایک عام سی سادہ سی لڑکی تھی
وہ اپنی پڑھائی کمپلیٹ کر کے بجائے جاب کرنے کے گھر کی ذمہ داریوں میں حصہ لے چکی تھی اور اسے اس بات سے چڑ تھی وہ اس سے شادی کر کے
مجبوری کی زندگی نہیں گزار سکتا تھا
——-
دوپہر کا کھانا کھا کے چاروں لڑکیاں لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں پھر بور ہو کے ارسہ اور سارہ گیم کھیلنے بیٹھ گئیں اور نشاء نیچے کارپیٹ پہ لیٹ کے ٹانگیں صوفے پہ رکھ کے لیٹ گئی مرال ناولز اٹھا کے لے آئی تو نشاء پڑھنے لگی ساتھ ڈرائے فروٹ کا شغل بھی فرمایا جا رہا تھا چاروں اپنے اپنے شغل میں مصروف تھیں کہ نشاء بک سے سر اٹھا کے بولی
” ہائے اللٰہ کہاں ہوتے ہیں یہ پیارے پیارے لڑکے۔۔۔۔۔ رائیٹرز بھی ظلم کرتی ہیں ہم لڑکیوں کے ساتھ دکھاتی کیا ہیں اور ملتا کیا ہے”
” کس کی بات کر رہی ہو آپی” ارسہ بولی
” یہ اپنی عمیرہ احمد کی۔۔۔۔۔ افففف سالار۔۔۔۔۔ کتنا ہینڈسم ہے۔۔۔۔۔ پڑوسی بھی ہے۔۔۔۔۔اوپر سے بیوی پہ لٹو بھی ہے”
” اوہ اچھا۔۔۔۔۔ پہلی بات تو یہ کہ یہاں کوئی سالار ہے نہیں دوسرا یہ کہ ہمارے پڑوسی اتنے ہینڈسم نہیں اور جو ہیں وہ شادی شدہ ہیں”
” یہ ہی تو مسئلہ ہے قسم سے کاش سالار سکندر میرا ہوتا۔۔۔۔۔ امامہ تو اسے لفٹ ہی نہیں کراتی میں ہوتی نا تو اس کے پاؤں دھو دھو کے پیتی کافی بھی خود بنا کے پلاتی افففف یہ ہمارے خواب ” اس کے خیالات سن کے مرال سارہ اور ارسہ ہنسنے لگی
” تم لوگ کیوں ہنس رہی ہو؟؟؟”
” تو کیا روئیں۔۔۔۔۔ وہ امامہ پہ اس لیے لٹو تھا کیونکہ وہ اسے لفٹ ہی نہیں کراتی تھی اور اگر اس کی جگہ تم ہوتی نا تو تم ان دو نمبر لڑکیوں کی طرح اسے چھت پہ چڑ چڑ کے لائین مارتی اور اگر فرض کرو تمہاری شادی ہو بھی جاتی نا تو۔۔۔۔۔” ارسہ مرال کی طرف دیکھ کے بولی ” آپ بتاؤ آپی کیا ہوتا”
“وہ تم سے دور بھاگتا رہتا ایک تمہاری شکل دیکھ کے دوسرا تمہارا وزن دیکھ کے” مرال نے کہا تو سب ہنس دیں نشاء کا وزن ان سب میں زیادہ تھا وہ موٹی نہ تھی بس بھری بھری سی تھی سب لوگ اسے “گوشت کی چھوٹی سی پہاڑی” کہتے تھے سب میں جبران شامل نہ تھا جبران سنجیدہ مزاج بندہ تھا ک۔ ہی گھلتا ملتا تھا
” کیاااااا۔۔۔۔۔۔۔”
” اور کیا سچ ہی تو کہہ رہی ہیں آپی ” سارہ بھی ہنستے ہوئے بولی نشاء اٹھی
” تم لوگوں کو تو سوکھے کی بیماری ہے ہونہہ۔۔۔۔۔ صحت مند لوگوں سے جل رہے ہو کیونکہ میں تم میں نمایاں جو رہتی ہوں ہمیشہ اور شکل کی بات تو رہنے ہی دو اس جیسے دس سالار سکندر پاگل ہو جائیں مجھے دیکھ کر” اس نے گویا بدلہ اتارا
” چلو ایک کو پاگل کر کے دکھا دو تو مانیں ” مرال ہنستے ہوئے بولی نشاء بوکھلائی پھر سنبھل کے بولی
” میں ایک شریف لڑکی ہوں ایسی حرکتیں مجھے زیب نہیں دیتیں میرے نزدیک ایسی حرکتیں ناقابلِ قبول ہیں”
” آہاں یہ بولو آپی کہ تم کسی لڑکے کو قابلِ قبول نہیں لگیں” سارہ بولی تو سب ہنسنے لگیں نشاء پاؤں پٹختی اندر کمرے میں چلی گئی پیچھے وہ سب ہنستی رہیں
——-
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...