بابو گوپی ناتھ سے میری ملاقات سن چالیس میں ہوئی۔ ان دنوں میں بمبئی کا ایک ہفتہ وار پرچہ ایڈٹ کیا کرتا تھا۔ دفتر میں عبدالرحیم سینڈو ایک ناٹے قد کے آدمی کے ساتھ داخل ہوا۔ میں اس وقت لیڈر لکھ رہا تھا ۔سینڈو نے اپنے مخصوص انداز میں بآوازِ بلند مجھے آداب کیا اور اپنے ساتھی سے متعارف کرایا۔
’’منٹو صاحب!۔۔۔۔۔۔بابو گوپی ناتھ سے ملئے۔۔۔۔۔۔‘‘
میں نے اٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا۔سینڈو نے حسبِ عادت میری تعریفوں کے پُل باندھنے شروع کردئیے۔
’’بابو گوپی ناتھ !تم ہندوستان کے نمبر ون رائٹر سے ہاتھ ملا رہے ہو۔لکھتا ہے تو دھڑن تختہ ہو جاتا ہے۔ لوگوں کا ایسی ایسی کنٹی نیوٹلی ملاتا ہے کہ طبیعت صاف ہو جاتی ہے۔ پچھلے دنوں وہ کیا چٹکلہ لکھا تھا آپ نے منٹو صاحب، مس خورشید نے کار خریدی، اﷲ بڑا کار ساز ہے ۔کیوں بابو گوپی ناتھ۔ ہے یا اینٹی کی پینی پو؟‘‘
عبدالرحیم سینڈو کے باتیں کرنے کا انداز بالکل نرالا تھا۔ کنٹی نیوٹلی، دھڑن تختہ اور اینٹی کی پینی پو ایسے الفاظ اس کی اپنی اختراع تھے جن کو وہ گفتگو میں بے تکلف استعمال کرتا تھا۔میرا تعارف کرانے کے بعد وہ بابو گوپی ناتھ کی طرف متوجہ ہوا۔ جو بہت مرعوب نظر آتا تھا۔
’’آپ ہیں بابو گوپی ناتھ ، بڑے خانہ خراب، لاہور سے جھک مارتے مارتے بمبے تشریف لائے ہیں۔ ساتھ کشمیر کی ایک کبوتری ہے۔‘‘
بابو گوپی ناتھ مسکرایا۔
عبدالرحیم سینڈو نے تعارف کو ناکافی سمجھ کر کہا۔
’’نمبر ون بے وقوف ہوسکتا ہے تو وہ آپ ہیں۔ لوگ ان کے مَسکا لگا کر روپیہ بٹورتے ہیں۔ میں صرف باتیں کرکے ان سے ہر روز پولیس پٹر کے دو پیکٹ وصول کرتا ہون بس منٹو صاحب یہ سمجھ لیجئے کہ بڑے انٹی فلو جسٹیس قسم کے آدمی ہیں۔ آپ آج شام کو ان کے فلیٹ پر ضرور تشریف لائیے۔‘‘
بابو گوپی ناتھ نے جو خدا معلوم کیا سوچ رہا تھا چونک کر کہا۔
’’ہاں ہاں ضرور تشریف لائیے منٹو صاحب۔‘‘
پھر سینڈو سے پوچھا۔
’’کیوں سینڈو کیا آپ کچھ اس کا شغل کرتے ہیں۔‘‘
عبدالرحیم سینڈو نے زور کا قہقہہ لگایا۔
’’اجی ہر قسم کا شغل کرتے ہیں۔ تو منٹو صاحب آج شام کو ضرور آئیے گا۔میں نے بھی پینی شروع کردی ہے۔ اس لئے کہ مفت ملتی ہے۔‘‘
سینڈو نے مجھے فلیٹ کا پتہ لکھا دیا۔ جہاں میں حسبِ وعدہ شام کو چھ بجے کے قریب پہنچ گیا۔ تین کمرے کا صاف ستھرا فلیٹ تھا ۔جس میں بالکل نیا فرنیچر سجا ہوا تھا۔ سینڈو اور بابو گوپی ناتھ کے علاوہ بیٹھنے والے کمرے میں دو مرد اور دو عورتیں موجود تھیں جن سے سینڈو نے مجھے متعارف کرایا۔
ایک تھا غفار سائیں، تہمد پوش، پنجاب کا ٹھیٹ سائیں، گلے میں موٹے موٹے دانوں کی مالا،سینڈو نے اس کے بارے میں کہا۔
’’آپ بابو گوپی ناتھ کے لیگل ایڈوائزر ہیں۔ میرا مطلب سمجھ جائیے آپ ۔ہر آدمی جس کی ناک بہتی ہو یا جس کے منہ میں سے لعاب نکلتا ہو۔ پنجاب میں خداپہنچا ہوا درویش بن جاتا ہے۔ یہ بھی بس پہنچے ہوئے ہیں یا پہنچنے والے ہیں۔ لاہور سے بابو گوپی ناتھ کے ساتھ آئے ہیں ، کیونکہ انہیں وہاں کوئی اور بیوقوف ملنے کی امید نہیں تھی۔ یہاں آپ بابو صاحب سے کریون اے کے سگریٹ اور سکاچ وسکی کے پیگ پی کر دعا کرتے رہتے ہیں کہ انجام نیک ہو۔‘‘
غفار سائیں یہ سن کر مسکراتا رہا۔
دوسرے مرد کا نام تھا غلام علی۔ لمبا تڑنگا جوان، کسرتی بدن، منہ پر چیچک کے داغ، اس کے متعلق سینڈو نے کہا۔
’’یہ میرا شاگرد ہے۔ اپنے استاد کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔ لاہور کی ایک نامی طوائف کی کنواری لڑکی اس پر عاشق ہوگئی۔ بڑی بڑی کنبٹی نیوٹلیاں ملائی گئیں اس کو پھانسنے کے لئے مگر اس نے کہ ڈو اور ڈائی۔ میں لنگوٹ کا پکار ہوں گا۔ایک تکئے میں بات چیت کرتے ہوئے بابو گوپی ناتھ سے ملاقات ہوگئی۔ بس اس دن سے ان کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ ہر روز کریون اے کا ڈبہ اور کھانا پینا مقرر ہے۔‘‘
یہ سن کر غلام علی بھی مسکراتا رہا۔
گول چہرے والی ایک سرخ و سفید عورت تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ وہی کشمیر کی کبوتری ہے جس کے متعلق سینڈو نے دفتر میں ذکر کیا تھا۔ بہت صاف ستھری عورت تھی۔ بال چھوٹے تھے۔ ایسا لگتا تھا کٹے ہوئے ہیں، مگر درحقیقت ایسا نہیں تھا۔ آنکھیں شفاف اور چمکیلی تھیں۔ چہرے کے خطوط سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ بے حد الہڑ اور ناتجربہ کار ہے۔ سینڈو نے اس سے تعار ف کراتے ہوئے کہا۔
’’زینت بیگم، بابو صاحب پیار سے زینو کہتے ہیں۔ ایک بڑی خرانٹ نائلہ کشمیر سے یہ سیب توڑ کر لاہور لے آئی۔ بابو گوپی ناتھ کو اپنی سی آئی ڈی سے پتہ چلا اور ایک رات لے اُڑے۔ مقدمے بازی ہوئی۔ تقریباً دو مہینے تک پولیس عیش کرتی رہی۔ آخر بابو صاحب نے مقدمہ جیت لیا اور اسے یہاں لے آئے ۔۔۔۔۔۔دھڑن تختہ!‘‘
اب گہرے سانولے رنگ کی عورت باقی رہ گئی تھی ،جو خاموش بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی۔ آنکھیں سرخ تھیں جن سے کافی بے حیائی مترشح تھی۔ بابو گوپی ناتھ نے اس کی طرف اشارہ کیا اور سینڈو سے کہا۔
’اس کے متعلق بھی کچھ ہو جائے۔۔۔۔۔۔‘‘
سینڈو نے عورت کی ران پر ہاتھ مارا اور کہا۔
’’جناب یہ ہے مٹن پٹوٹی، فِل فِل فوٹی، مسز عبدالرحیم سینڈو عرف سردار بیگم ۔۔۔۔آپ بھی لاہور کی پیداوار ہیں۔ سن چھتیس میں مجھ سے عشق ہوا۔ دو برسوں میں میرا دھڑن تختہ کرکے رکھ دیا۔ میں لاہور چھوڑ کر بھاگا۔ بابو گوپی ناتھ نے اسے یہاں بلوالیا ہے تاکہ میرا دل لگا رہے۔ اس کو بھی ایک ڈبہ کریوں اے کا راشن میں ملتا ہے۔ ہر روز شام کو ڈھائی روپے کا مارفیا کا انجیکشن لیتی ہے۔ رنگ کالا ہے مگر ویسے بڑی ٹٹ فورٹیٹ قسم کی عورت ہے۔‘‘
سردار نے ایک ادا سے صرف اتنا کہا۔
’’بکواس نہ کر۔۔۔۔۔۔اس ادا میں پیشہ ور عورت کی بناوٹ تھی۔‘‘
سب سے متعارف کرانے کے بعد سینڈو نے حسبِ عادت میری تعریفوں کے پُل باندھنے شروع کردئیے۔ میں نے کہا۔
’’چھوڑو یار۔۔۔۔۔۔آئو کچھ باتیں کریں۔۔۔۔۔۔‘‘
سینڈو چلایا۔
’’بوائے ۔۔۔وسکی اینڈ سوڈا۔۔۔۔۔۔بابو گوپی ناتھ ! لگائو ایک سبزے کو ۔۔۔‘‘
بابو گوپی ناتھ نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سوسو کے نوٹوں کا ایک پلندا نکالا اور ایک نوٹ سینڈو کے حوالے کردیا۔
سینڈو نے نوٹ لے کر اس کی طرف غور سے دیکھا اور کھڑ کھڑا کر کہا۔
’’ او گود۔۔۔۔اور میرے رب العالمین ۔۔۔۔۔۔وہ دن کب آئے گا جب میں بھی لب لگا کر یوں نوٹ نکالا کروں گا ۔۔۔۔۔جائو بھئی غلام علی دو بوتلین جانی واکر سٹل سٹرانگ کی لے آئو۔۔۔‘‘
بوتلیں آئیں تو سب نے پینا شروع کی۔ یہ شغل دو تین گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران میں سب سے زیادہ باتیں حسبِ معمول عبدالرحیم نے کیں۔ پہلا گلاس ایک ہی سانس میں ختم کرکے وہ چلایا۔
’’دھڑن تختہ منٹو صاحب وسکی ہو تو ایسی حلق سے اُتر کر پیٹ میں انقلاب زندہ باد لکھتی چلی گئی ہے۔ جیو بابوگوپی ناتھ جیو۔۔۔۔۔۔‘‘
بابو گوپی ناتھ بے چارہ خاموش رہا۔ کبھی کبھی البتہ وہ سینڈو کی ہاں میں ہان ملا دیتا تھا۔ میں نے سوچا اس شخص کی اپنی رائے کوئی نہیں ہے۔ دوسرا جو بھی کہے مان لیتا ہے۔ ضعیف الاعتقادی کا ثبوت غفار سائیں موجود تھا جسے وہ بقول سینڈو اپنا لیگل ایڈوائزر بنا کر لایا تھا ۔سینڈو کا اس لئے اصل یہ مطلب تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اس سے عقیدت تھی۔ یوں بھی مجھے دوران ِ گفتگو میں معلوم ہوا کہ لاہور میںاس کا اکثر وقت فقیروں اور درویشوں کی صحبت میں کٹتا تھا ۔یہ چیز میں نے خاص طور پر نوٹ کی کہ وہ کھویا کھویا سا تھا۔ جیسے کچھ سوچ رہا ہے۔ میں نے چنانچہ اس سے ایک بار کہا۔
’’بابو گوپی ناتھ کیا سوچ رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ چونک پڑا۔
’’جی میں ۔۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور زینت کی طرف ایک عاشقانہ نگاہ ڈالی۔
’’ان حسینوں کے متعلق سوچ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔اور ہمیں کیا سوچ ہوگی ۔۔۔۔۔۔‘‘
سینڈو نے کہا۔
’’بڑے خانہ خراب ہیں ۔۔۔۔۔۔لاہور کی کوئی ایسی طوائف نہیں جس کے ساتھ بابو صاحب کی کنٹی نیوٹلی نہ رہ چکی ہو ۔۔۔۔۔۔‘‘
بابو گوپی ناتھ نے یہ سن کر بڑے بھونڈے انکسار کے ساتھ کہا۔
’’اب کمر میں وہ دم نہیں منٹو صاحب ۔۔۔۔۔۔!‘‘
اس کے بعد واہیات گفتگو شروع ہوگئی۔ لاہور کی طوائفوںؓ کے سب گھرانے گنے گئے۔ کون ڈیرہ دار تھی ؟ کون نٹنی تھی؟ کون کس کی نوچی تھی؟ نتھنی اتارنے کا بابو گوپی ناتھ نے کیا دیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ یہ گفتگو سردار، سینڈو ، غفار سائیں اور غلام علی کے درمیان ہوتی رہی، ٹھیٹ لاہور کے کوٹھوں کی زبان میں۔ مطلب تو میں سمجھتا رہا، مگر بعض اصطلاحیں سمجھ نہ آئیں۔
زینت بالکل خاموش بیٹھی رہی۔ کبھی کبھی کسی بات پر مسکرا دیتی۔ مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اسے اس گفتگو سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہلکی وسکی کا ایک گلاس بھی پیا بغیر کسی دلچسپی کے۔ سگریٹ بھی پیتی تھی تو معلوم ہوتا تھا، اسے تمباکو اور اس کے دھوئیں سے کوئی رغبت نہیں، لیکن لطف یہ ہے کہ سب سے زیادہ سگریٹ اسی نے پئے۔ بابو گوپی ناتھ سے اسے محبت تھی؟ اس کا پتہ مجھے کسی بات سے نہ ملا۔اتنا البتہ ظاہر تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اس کا کافی خیال تھا۔ کیونکہ زینت کی آسائش کے لئے ہر سامان مہیّا تھا۔ لیکن ایک بات مجھے محسوس ہوئی کہ ان دونوں میں کچھ عجیب سا کھنچائو تھا۔ میرا مطلب ہے، وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہونے کے بجائے کچھ ہٹے ہوئے سے معلوم ہوتے تھے۔ آٹھ بجے کے قریب سردار ڈاکٹر مجید کے ہاں چلی گئی کیونکہ اسے مورفیا کا انجیکشن لینا تھا۔ غفار سائیں تین پیگ پینے کے بعد اپنی تسبیح اٹھا کر قالین پر سو گیا۔ غلام علی کو ہوٹل سے کھانا لینے کے لئے بھیج دیا گیا۔ سینڈو نے اپنی دلچسپ بکواس جب کچھ عرصے کے لئے بند کی تو بابو گوپی ناتھ نے جو اب نشے میں تھا، زینت کی طرف وہی عاشقانہ نگاہ ڈال کر کہا۔
’’منٹو صاحب! ۔۔۔۔۔۔میری زینت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘
میں نے سوچا کیا کہوں ؟ زینت کی طرف دیکھا تو وہ جھینپ گئی۔ میں نے ایسے ہی کہہ دیا ۔
’’بڑا نیک خیال ہے۔‘‘
بابو گوپی ناتھ خوش ہوگیا۔
’’منٹو صاحب ! ۔۔۔۔۔۔ ہے بھی بڑی نیک لوگ ،خدا کی قسم نہ زیور کا شوق ہے نہ کسی اورچیزکا،میں نے کئی بار کہا۔جانِ من مکان بنوادوں؟ ۔۔۔۔۔۔جواب کیا دیا، معلوم ہے آپ کو؟کیا کروں گی مکان لے کر ، میرا کون ہے ۔۔۔۔۔۔منٹو صاحب موٹر کتنے میں آجائے گی ۔۔۔‘‘
میں نے کہا۔
’’مجھے معلوم نہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘
بابو گوپی ناتھ نے تعجب سے کہا۔
’’کیا بات کرتے ہیں منٹو صاحب! ۔۔۔۔۔۔آپ کو اور کاروں کی قیمت معلوم نہ ہو۔ کل چلئے میرے ساتھ ، زینو کے لئے ایک موٹر لیں گے۔ میں نے اب دیکھا ہے کہ بمبئے میں موٹر ہونی ہی چاہئے ۔۔۔۔۔۔‘‘
زینت کا چہرہ ردِ عمل سے خالی رہا۔
بابو گوپی ناتھ کا نشہ تھوڑی دیر کے بعد بہت تیز ہوگیا۔ ہمہ تن جذباتی ہو کر اس نے مجھ سے کہا۔
’’منٹو صاحب آپ بڑے لائق آدمی ہیں۔ میں تو بالکل گدھا ہوں۔ لیکن آپ مجھے بتائیے۔ میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں ۔کل باتوں باتوں میں سینڈونے آپ کا ذکر کیا۔ میں نے اسی وقت ٹیکسی منگوائی اور اس سے کہا۔ مجھے لے چلو منٹو صاحب کے پاس۔ مجھ سے کوئی گستاخی ہوگئی ہو تو معاف کردیجئے ۔ بہت گنہگار آدمی ہوں۔ وسکی منگائوں آپ کے لئے اور ۔۔۔۔۔۔‘‘
میں نے کہا۔
’’نہیں نہیں ۔۔۔۔۔۔بہت پی چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘
وہ اور زیادہ جذباتی ہوگیا۔
’’اور پیجئے منٹو صاحب ۔۔۔۔۔۔‘‘یہ کہہ کر جیب سے سو سو کے نوٹوں کا پلندا نکالا اور ایک نوٹ جُدا کرنے لگا۔ لیکن میں نے سب نوٹ اس کے ہاتھ سے لئے اور واپس اس کی جیب میں ٹھونس دئیے۔
’’سو روپے کا ایک نوٹ آپ نے غلام علی کو دیا تھا، اس کا کیا ہوا؟ ۔۔۔۔۔۔‘‘
مجھے دراصل کچھ ہمدردری ہوگئی تھی بابو گوپی ناتھ سے۔ کتنے آدمی اس غریب کے ساتھ جونک کی طرح چمٹے ہوئے تھے ۔میرا خیال تھا بابو گوپی ناتھ بالکل گدھا ہے۔ لیکن وہ میرا اشارہ سمجھ گیا اور مسکراکر کہنے لگا ۔
’’منٹو صاحب اس نوٹ میں سے جو کچھ باقی بچا وہ یا تو غلام علی کی جیب سے گر پڑے گا یا ۔۔۔۔۔۔‘‘
بابو گوپی ناتھ نے پورا جملہ بھی ادا نہیں کیا تھا کہ غلام علی نے کمرے میں داخل ہو کر بڑے دکھ کے ساتھ یہ اطلاع دی کہ ہوٹل میں کسی حرامزادے نے اس کی جیب سے سارے روپے نکال لئے۔ بابو گوپی ناتھ میری طرف دیکھ کر مسکرایا۔ پھر سو روپے کا ایک نوٹ جیب سے نکالا اور غلام علی کو دے کر کہا۔
’’جلدی کھانا لے آئو ۔۔۔۔۔۔‘‘
پانچ چھ ملاقاتون کے بعد مجھے بابو گوپی ناتھ کی صحیح شخصیت کا علم ہوا۔ پوری طرح تو خیر انسان کسی کو بھی نہیں جان سکتا۔ لیکن مجھے اس کے بہت سے حالات معلوم ہوئے جو بے حد دلچسپ تھے۔
پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ میرا یہ خیال کہ وہ پر لے درجے کا چُغد ہے، غلط ثابت ہوا۔ اس کو اس امر کا پورا احساس تھا کی سینڈو ، غلام علی ،سردار وغیرہ جو اس کے مصائب بنے ہوئے تھے، مطلبی انسان ہیں۔ وہ ان سے جھڑکیاں گالیاں سب سنتا تھا لیکن غصّے کا اظہار نہین کرتا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا۔
’’منٹو صاحب میں نے آج تک کسی کا مشورہ رد نہیں کیا۔ جب بھی مجھے کوئی رائے دیتا ہے میں کہتا ہوں سبحان اﷲ۔وہ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں۔ لیکن میں انہیں عقلمند سمجھتا ہوں اس لئے ان میں کم از کم اتنی عقل تو تھی جو مجھ میں ایسی بے وقوفی کو شناخت کرلیا جن سے ان کا اُلّو سیدھا ہوسکتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں شروع سے فقیروں اور کنجروں کی صحبت میں رہا ہوں۔ مجھے ان سے کچھ محبت سی ہوگئی ہے۔ میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں نے سوچ رکھا ہے، جب میریدولت بالکل ختم ہو جائے گی تو کسی تکئے میں جا کر بیٹھوں گا۔ رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار، بس یہ دو جگہیں ہیں جہاں میرے دل کو سکون ملتا ہے۔ رنڈی کا کوٹھا تو چھوٹ جائے گا اس لئے کہ جیب خالی ہونے والی ہے لیکن ہندوستان میں ہزاروں پیر ہیں۔ کسی ایک کے مزار پر چلا جائوں گا۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا۔
’’رنڈی کے کوٹھے اور تکئے آپ کو کیوں پسند ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔‘‘
کچھ دیر سوچ کر اس نے جواب دیا۔
’’اس لئے کہ ان دونوں جگہوں پر فرش سے لے کر چھت تک دھوکا ہوتا ہے۔ جو آدمی خود کو دھوکا دینا چاہے، اس کے لئے ان سے اچھا مقام اور کیا ہوسکتا ہے۔
میں نے ایک اور سوال کیا ۔
’’آپ کو طوائفوں کا گانا سننے کا شوق ہے۔کیا آپ موسیقی کی سمجھ رکھتے ہیں۔‘‘
اس نے جواب دیا ۔
’’بالکل نہیں ۔اور یہ اچھا ہے کیوں کہ میں کن سُری سے کن سُری طوائف کے ہاں جا کر بھی اپنا سُرملا سکتا ہوں ۔منٹو صاحب مجھے گانے سے کوئی دلچسی نہیں۔ لیکن جیب میں سے دس یا سو روپے کا نوٹ نکال کر گانے والی کو دکھانے میں بہت مزا آتا ہے۔ نوٹ نکالا اور اسے دکھایا۔ وہ اسے لینے کے لئے ایک ادا سے اُٹھی، پاس آئی تو نوٹ جراب میں اڑس لیا۔ اس نے جھک کر اسے باہر نکالا تو ہم خوش ہوگئے۔ ایسی بہت فضول فضول سی باتیں ہیں جو ہم ایسے تماش بینوں کو پسند ہیں۔ ورنہ کون نہیں جانتا کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کراتے ہیں اورمقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے ۔۔۔۔۔۔‘‘
بابو گوپی ناتھ کا شجرئی نسب تو میں نہیں جانتا۔ لیکن اتنا معلوم ہوا کہ وہ ایک بہت بڑے کنجوس بنئے کا بیٹا ہے۔ باپ کے مرنے پر اسے دس لاکھ روپے کی جائیداد ملی جو اس نے اپنی خواہش کے مطابق اڑانا شروع کردی۔ بمبئے آتے وقت وہ اپنے ساتھ پچاس ہزار روپے لایا تھا۔ اس زمانے میں سب چیزیں سستی تھیں۔ لیکن پھر بھی ہر روز تقریباً سو سوا سو روپے خرچ ہو جاتے تھے۔
زینو کے لئے اس نے فیئٹ موٹر خریدی۔ یاد نہیں رہا۔ لیکن شاید تین ہزار روپے میں آئی تھی۔ایک ڈرائیور رکھا۔ لیکن وہ بھی لفنگے ٹائپ کا۔۔۔۔۔۔بابو گوپی ناتھ کو کچھ ایسے ہی آدمی پسند تھے۔
ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گیا ۔بابو گوپی ناتھ سے مجھے تو صرف دلچسپی تھی لیکن اسے مجھ سے کچھ عقیدت ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی بہ نسبت میرا بہت زیادہ احترام کرتا تھا۔
ایک روز شام کے قریب جب میں فلیٹ پر گیا، مجھے وہان شفیق کو دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی۔ محمد شفیق طوسی کہون تو شاید آپ سمجھ لیں کہ میری مراد کس آدمی سے ہے۔ یوں شفیق کافی مشہور آدمی ہے۔ کچھ اپنی جدّت طراز گائکی کے باعث اور کچھ اپنی بذلہ سنج طبیعت کی بدولت، لیکن اس کی زندگی کا ایک حصّہ اکثریت سے پوشیدہ ہے۔ بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ تین سگی بہنوں کو یکے بعد دیگرے تین تین چار چار سال کے وقفے کے بعد داشتہ بنانے سے پہلے اس کا تعلق ان کی ماں سے بھی تھا۔ یہ بھی بہت کم مشہور ہے کہ اس کو اپنی پہلی بیوی جو تھوڑے ہی عرصے میں مرگئی تھی ،اس لئے پسند نہیں تھی کہ اس میں طوائفوں کے غمزے اور عشوے نہیں تھے۔ لیکن یہ تو خیر ہر آدمی جو شفیق طوسی سے تھوڑی بہت واقفیت بھی رکھتا ہے، جانتا ہے کہ چالیس برس (یہ اس زمانے کی عمر ہے) کی عمر میں سینکڑوں طوائفوں نے اسے رکھا۔ اچھے سے اچھا کپڑا پہنا، عمدہ سے عمدہ کھانا کھایا، نفیس سے نفیس موٹر رکھی، مگر اس نے اپنی گرہ سے کسی طوائف پر ایک دمڑی بھی خرچ نہ کی۔
عورتوں کے لئے، خاص طور پر جو کہ پیشہ ور ہو، اس کی بذلہ سنج طبیعت ، جس میں میرا ثیوں کے مزاح کی جھلک تھی، بہت ہی جاذبِ نظر تھی ۔وہ کوشش کئے بغیر ان کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔
میں نے جب اسے ہنس ہنس کر زینت سے باتیں کرتے دیکھا تو مجھے اس لئے حیرت نہ ہوئی کہ وہ ایسا کیوں کررہا ہے۔ میں نے صرف یہ سوچا کہ وہ دفعتہً یہاں پہنچا کیسے؟ایک سینڈو اسے جانتا تھا ۔مگر ان کی بول چال تو ایک عرصے سے بند تھی۔ لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ سینڈو ہی اسے لایا تھا۔ان دونوں میں صلح صفائی ہوگئی تھی۔
بابو گوپی ناتھ ایک طرف بیٹھا حقّہ پی رہا تھا ۔میں نے شاید اس سے پہلے ذکر نہیں کیا، وہ سگریٹ بالکل نہیں پیتا تھا۔ محمد شفیق طوسی میراثیوںکے لطیفے سنا رہا تھا ۔جس میں زینت کسی قدر کم اور سردار بہت زیادہ دلچسپی لے رہی تھی۔ شفیق نے مجھے دیکھا اور کہا۔
’’بسم اﷲ ۔۔۔۔۔۔بسم اﷲ کیا آپ کا گزر بھی اس وادی میں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘
سینڈو نے کہا۔
’’تشریف لے آئیے عزرائیل صاحب یہاں ۔۔۔۔۔۔دھڑن تختہ ۔۔۔۔۔۔!‘‘
میں اس کا مطلب سمجھ گیا۔
تھوڑی دیر گپ بازی ہوتی رہی۔ میں نے نوٹ کیا کہ زینت اور محمد شفیق طوسی کی نگاہیں آپس میں ٹکرا کر کچھ اس انداز سے دیکھ رہی تھیں، جیسے خلیفے اکھاڑے کے باہر بیٹھ کر اپنے پٹھوں کے دائو پیچ کو دیکھتے ہیں۔
اس دوران میں مَیں بھی زینت سے کافی بے تکلف ہو گیا تھا۔ وہ مجھے بھائی کہتی تھی جس پر مجھے اعتراض نہیں تھا ۔اچھی ملنسار طبیعت کی عورت ہی کم گو، سادہ لوح، صاف ستھری۔
شفیق سے مجھے اس کی نگاہ بازی پسند نہیں آئی تھی ۔اوّل تو اس میں بھونڈا پن تھا۔ اس کے علاوہ کچھ یوں کہئے کہ اس بات کا بھی اس میں دخل تھا کہ وہ مجھے بھائی کہتی تھی ۔شفیق اور سینڈو اٹھ کر باہر گئے تو میں نے شاید بڑی بے رحمی کے ساتھ اس سے نگاہ بازی کے متعلق استفسار کیا کیونکہ فوراً اس کی آنکھوں میں یہ موٹے موٹے آنسو آگئے اور روتی ہوئی وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ بابو گوپی ناتھ جو ایک کونے میں بیٹھا حقّہ پی رہا تھا ۔اٹھ کر تیزی سے اس کے پیچھے چلا گیا۔ سردار نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے کچھ کہا، لیکن میں مطلب نہ سمجھا۔ تھوڑی دیر کے بعد بابو گوپی ناتھ کمرے سے باہر نکلا اور ’’آئیے منٹو صاحب‘‘ کہہ کر مجھے اپنے ساتھ اندر لے گیا۔
زینت پلنگ پر بیٹھی تھی۔ میں اندر داخل ہوا تو وہ دونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپ کر لیٹ گئی۔ میں اور بابو گوپی ناتھ دونوں پلنگ کے پاس کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ بابو گوپی ناتھ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہنا شروع کیا۔
’’منٹو صاحب مجھے اس عورت سے بہت محبت ہے۔ دو برس سے یہ میرے پاس ہے۔ میں حضرت غوثِ اعظم جیلانی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس نے مجھے کبھی شکایت کا موقعہ نہیں دیا۔ اس کی دوسری بہنیں ، میرا مطلب ہے اس پیسے کی دوسری عورتیں، دونوں ہاتھوں سے مجھے لوٹ کر کھاتی رہیں۔ مگراس نے کبھی ایک زائد پیسہ مجھ سے نہیں لیا۔ میں اگر کسی دوسری عورت کے ہاں ہفتوں پڑا رہا تو اس غریب نے اپنا کوئی زیور گروی رکھ کر گزارہ کیا۔ میں جیسا کہ آپ سے ایک دفعہ کہہ چکا ہوں، بہت جلد اس دنیا سے کنارہ کش ہونے والا ہوں۔ میری دولت اب کچھ دن کی مہمان ہے میں نہیں چاہتا اس کی زندگی خراب ہو۔ میں نے لاہور میں اس کو بہت سمجھایا کہ تم دوسری طوائفوں کی طرف دیکھو۔ جو کچھ وہ کرتی ہیں سیکھو۔ میں آج دولت مند ہوں ، کل مجھے بھکاری ہونا ہے۔ تم لوگوں کی زندگی میں صرف ایک دولت مند کافی نہیں۔ میرے بعد تم کسی اور کو نہیں پھانسو گی تو کام نہیں چلے گا۔لیکن منٹو صاحب اس نے میری ایک نہ سُنی۔ سارا دن شریف زادیوں کی طرح گھر میں بیٹھی رہتی ہے۔ میں نے غفار سائیں سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا بمبئی لے جائو اسے معلوم تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ بمبئی مین اس کی دو جاننے والی طوائفیں ایکٹریس بنی ہیں۔ لیکن میں نے سوچا بمبئی ٹھیک ہے۔ دو مہینے ہوگئے ہیں اسے یہاں لائے ہوئے۔ سردار کو لاہور سے بلایا ہے کہ اس کو سب گُر سکھائے۔ غفار سائیں سے بھی یہ بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ یہاں مجھے کوئی نہیں جانتا۔ اس کو یہ خیال تھا کہ بابو تمہاری بے عزتی ہوگی۔ میں نے کہا تم چھوڑو اس کو ،بمبئی بہت بڑا شہر ہے۔ لاکھوں رئیس ہیں۔ میں نے تمہیں موٹر لے دی ۔کوئی اچھا آدمی تلاش کرلو۔ منٹوصاحب میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں ،میری خواہش ہے کہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے۔ میںاس کے نام آج ہی بنک میں دس ہزار روپیہ جمع کرانے کو تیار ہوں۔ مگر مجھے معلوم ہے دس دن کے اندر اندر یہ باہر بیٹھی ہوگی، سردار اس کی ایک ایک پائی اپنی جیب میں ڈال لے گی۔آپ بھی اسے سمجھائیے کہ چالاک بننے کی کوشش کرے۔ جب سے موٹر خریدی ہے، سردار اسے ہر روز شام کو اپولو بندر لے جاتی ہے۔ لیکن ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی ۔سینڈو آج بڑی مشکلوں سے محمد شفیق کو یہاں لایا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہیاس کے متعلق؟
میں نے اپنا خیال ظاہر کرنا مناسب خیال نہ کیا۔ لیکن بابو گوپی ناتھ نے خود ہی کہا۔
’’اچھا کھاتا پیتا آدمی معلوم ہوتا ہے اور خوبصورت بھی ہے۔ کیوں زینو جانی ! ۔۔۔۔۔۔پسند ہے تمہیں؟ ۔۔۔۔۔۔‘‘
زینو خاموش رہی۔
بابو گوپی ناتھ سے جب مجھے زینت کو بمبئی لانے کی غرض وغایت معلوم ہوئی تو میرا دماغ چکرا گیا۔ مجھے یقین نہ آیا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن بعد میں مشاہدے نے میری حیرت دُور کردی۔ بابو گوپی ناتھ کی دلی آرزو تھی کہ زینت بمبئی میں کسی اچھے مالدار آدمی کی داشتہ بن جائے یا ایسے طریقے سیکھ جائے ، جس سے وہ مختلف آدمیوں سے روپیہ وصول کرتے رہنے میں کامیاب ہو جائے۔ زینت سے اگر چھٹکارہ ہی حاصل کرنا ہوتا تو یہ کوئی اتنی مشکل چیز نہیں تھی۔ بابو گوپی ناتھ ایک ہی دن میں یہ کام کرسکتا تھا۔ چونکہ اس کی نیّت نیک تھی، اس لئے اس نے زینت کے مستقبل کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ اس کو ایکٹریس بنانے کے لئے اس نے کئی جعلی ڈائریکٹروں کی دعوتیں کیں۔ گھر میں ٹیلی فون لگوا دیا۔ اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھا۔
محمدشفیق طوسی تقریباً ڈیڑھ مہینہ آتا رہا۔ کئی راتیں بھی اس نے زینت کے ساتھ بسر کیں لیکن وہ ایسا آدمی نہیں تھا جو کسی عورت کا سہا را بن سکے۔ بابو گوپی ناتھ نے ایک روز افسوس اور رنج کے ساتھ کہا۔
’’شفیق صاحب تو خالی خولی جنٹلمین ہی نکلے۔ ٹھصّہ دیکھئے لیکن بے چاری زینت سے چار چادریں چھ تکئے کے غلاف اور دو سو روپے نقد ہتھیا کر لے گئے۔ سنا ہے آج کل ایک لڑکی الماس سے عشق لڑا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ درست تھا ۔الماس نذیر جان پٹیالے والی کی سب سے چھوٹی اور آخری لڑکی تھی۔ اس سے پہلے تین بہنیں کی داشتہ رہ چکی تھیں۔ دو سو روپے جو اس نے زینت سے لئے تھے ،مجھے معلوم ہے الماس پر خرچ ہوئے تھے۔ بہنوں کے ساتھ لڑ جھگڑ کر الماس نے زہر کھالیا تھا۔
محمدشفیق طوسی نے جب آنا جانا بند کردیا تو زینت نے کئی بار مجھے ٹیلی فون کیا اور کہا اسے ڈھونڈ کر میرے پاس لائیے۔ میں نے اسے تلاش کیا لیکن کسی کو اس کا پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے۔ایک روز اتفاقیہ ریڈیو اسٹیشن پر ملاقات ہوئی۔سخت پریشانی کے عالم میں تھا۔ جب میں نے اس سے کہا کہ تمہیں زینت بلاتی ہے تو اس نے جواب دیا۔
’’مجھے یہ پیغام اور ذریعوں سے بھی مل چکا ہے۔ افسوس ہے آجکل مجھے بالکل فرصت نہیں۔ زینت بہت اچھی عورت ہے لیکن افسوس ہے کہ بے حد شریف ہے۔ ایسی عورتوں سے جو بیویوں جیسی لگیں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘
شفیق سے جب مایوسی پائی توزینت نے سردار کے ساتھ پھراپولو بندر جانا شروع کیا۔ پندرہ دن میں بڑی مشکلوں سے کئی گیلن پٹرول پھونکنے کے بعد سردار نے دو آدمی پھانسے ۔ان سے زینت کو چارسو روپے ملے ۔ بابو گوپی ناتھ نے سمجھا کہ حالات امید افزا ہیں۔ کیونکہ ان میں سے ایک نے جو ریشمی کپڑوں کی مل کا مالک تھا، کہا کہ میں تم سے شادی کروں گا۔ ایک مہینہ گزر گیا۔ لیکن یہ آدمی پھر زینت کے پاس نہ آیا۔
ایک روز میں جانے کس کام سے ہار بنی روڈ پر جارہا تھا کہ مجھے فٹ پاتھ کے پاس زینت کی موٹر کھڑ ی نظر آئی۔ پچھلی نشست پر محمد یسٰین بیٹھا تھا ، نگینہ ہوٹل کا مالک، میں نے اس سے پوچھا ۔
’’یہ موٹر تم نے کہاں سے لی؟ ۔۔۔۔۔۔‘‘
یسٰین مسکرایا۔
’’تم جانتے ہو موٹر والی کو؟ ۔۔۔۔۔۔‘‘
میں نے کہا ۔
’’جانتا ہوں ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تو بس سمجھ لومیرے پاس کیسے آئی۔ اچھی لڑکی ہے یار ۔۔۔۔۔۔‘‘ یٰسین نے مجھے آنکھ ماری۔ میں مسکرادیا۔
اس کے چوتھے روز بابو گوپی ناتھ ٹیکسی پر میرے دفتر میں آیا۔ اس سے مجھے معلوم ہوا کہ زینت سے یسٰین کی ملاقات کیسے ہوئی۔ ایک شام اپولو بندر سے ایک آدمی لے کر سردار اور رینت نگینہ ہوٹل گئیں۔ وہ آدمی تو کسی بات پر جھگڑ کر چلا گیا ۔لیکن ہوٹل کے مالک سے زینت کی دوستی ہوگئی۔
بابو گوپی ناتھ مطمئن تھا کیونکہ دس پندرہ روز کی دوستی کے دوران یسٰین نے زینت کو چھ بہت ہی عمدہ اور قیمتی ساڑھیاں لے دیں تھیں۔ بابو گوپی ناتھ اب یہ سوچ رہا تھا کچھ دن اور گزر جائیں ،زینت اور یسٰین کی دوستی اور مضبوط ہو جائے تو لاہور واپس چلا جائے ، مگر ایسا نہ ہوا۔
نگینہ ہوٹل میں ایک کرسچین عورت نے کمرہ کرائے پر لیا۔ اس کی جوان لڑکی میوریل سے یسٰین کی آنکھ لڑ گئی۔ چنانچہ زینت بے چاری ہوٹل میں بیٹھی رہتی اور یسٰین اس کی موٹر میں صبح شام اس لڑکی کو گھماتا رہتا۔بابو گوپی ناتھ کو اس کا علم ہونے پر بہت دکھ ہوا۔ اس نے مجھ سے کہا۔
’’منٹو صاحب یہ کیسے لوگ ہیں۔ بھئی دل اچاٹ ہوگیا ہے، تو صاف کہہ دولیکن زینت بھی عجیب ہے اچھی طرح معلوم ہے کیا ہو رہا ہے، مگر منہ سے اتنا بھی نہیں کہتی۔ میاں اگر تم نے اس کرسٹان چھوکری سے عشق لڑانا ہے تو اپنی موٹر کا بندوبست کرو۔ میری موٹر کیوں استعمال کرتے ہو۔ میں کیا کروں منٹو صاحب بڑی شریف اور نیک بخت عورت ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ تھوڑی سی چالاک تو بننا چاہئے ۔۔۔۔۔۔‘‘
یسٰین سے تعلق قطع ہونے پر زینت نے کوئی صدمہ محسوس نہ کیا۔
بہت دنون تک کوئی نئی بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔ ایک دن ٹیلی فون کیا تو معلوم ہوا بابو گوپی ناتھ ،غلام علی اور غفارسائیں کے ساتھ لاہور چلا گیا ہے ۔ روپے کا بندوبست کرنے کیونکہ پچاس ہزار ختم ہوچکے تھے۔ جاتے وقت وہ زینت سے کہہ گیا تھا کہ اسے لاہور میں زیادہ دن لگیں گے ۔ کیونکہ اسے چند مکان فروخت کرنے پڑیں گے۔
سردار کو مورفیا کے ٹیکوں کی ضرورت تھی۔ سینڈو کو پولسن مکھن کی، چنانچہ دونوں نے متحد ہ کوشش کی اور ہر روز دو تین آدمی پھانس کر لے آتے۔ زینت سے کہا گیا کہ بابو گوپی ناتھ واپس نہیں آئے گا اس لئے اسے اپنی فکر کرنی چاہئے ۔سو سو اسو روپے کے ہو جاتے جن میں سے آدھے زینت کو ملتے باقی سینڈو اور سردار دبا لیتے۔
میں نے ایک دن زینت سے کہا۔
’’یہ تم کیا کررہی ہو ۔۔۔۔۔۔‘‘
اس نے بڑے الہڑ پن سے کہا۔
’’مجھے کچھ معلوم نہیں ہے بھائی جان یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں مان لیتی ہوں ۔۔۔۔۔۔‘‘
جی چاہا تھا کہ دیر تک پاس بیٹھ کر سمجھائوں کہ جو کچھ تم کررہی ہو، ٹھیک نہیں۔ سینڈو اور سردار اپنا الّو سیدھا کرنے کے لئے تمہیں بیچ بھی ڈالیں گے۔ مگر میں نے کچھ نہ کہا۔ زینت اُکتا دینے والی حد تک بے سمجھ، بے امنگ اور بے جان عورت تھی۔ اس کم بخت کو اپنی زندگی کی کچھ قدر و قیمت ہی معلوم نہیں تھی۔ جسم بیچتی، مگر اس میں بیچنے والوں کا کوئی انداز تو ہوتا۔ واﷲ مجھے بہت کوفت ہوتی تھی اسے دیکھ کر ۔سگریٹ سے، شراب سے ،کھانے سے گھر سے، ٹیلی فون سے حتّی کہ اس صوفے سے بھی جس پر وہ اکثر لیٹی رہتی تھی اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
بابو گوپی ناتھ پورے ایک مہینے کے بعد لوٹا ،تاہم گیا تو وہاںفلیٹ میں کوئی اور ہی تھا۔ سینڈو اور سردار کے مشورے سے زینت نے باندرہ میں ایک بنگلے کا بالائی حصّہ کرائے پر لے لیا تھا۔ بابو گوپی ناتھ میرے پاس آیا تو میں نے اسے پورا پتہ بتا دیا۔
اس نے مجھ سے زینت کے متعلق پوچھا ۔جو کچھ مجھے معلوم تھا میں نے کہہ دیا۔ لیکن یہ نہ کہا کہ سینڈو اور سردار اس سے پیشہ کرا رہے ہیں۔
بابو گوپی ناتھ اب کی دس ہزار روپیہ اپنے ساتھ لایا تھا جو اس نے بڑی مشکلوںسے حاصل کیا تھا۔ غلام علی اور غفار سائیں کو وہ لاہور ہی چھوڑ آیا تھا۔ ٹیکسی نیچے کھڑی کی۔ بابو گوپی ناتھ نے اصرار کیا کہ میںبھی اس کے ساتھ چلوں۔
تقریباً ایک گھنٹے میںہم باندرہ پہنچ گئے۔ پالی ہل پر ٹیکسی چڑھ رہی تھی کہ سامنے تنگ سڑک پر سینڈو دکھائی دیا۔ بابو گوپی ناتھ نے زورسے پکارا ۔
’’سینڈو۔۔۔۔۔۔‘‘
سینڈو نے جب بابو گوپی ناتھ کو دیکھا تو اس کے منہ سے صرف اس قدر نکلا۔
’’دھڑن تختہ۔۔۔۔۔۔‘‘
بابو گوپی ناتھ نے اس سے کہا۔
’’آئو ٹیکسی میں بیٹھ جائو اور ساتھ چلو۔۔۔۔۔۔‘‘
لیکن سینڈو نے کہا۔
’’ٹیکسی ایک طرف کھڑی کیجئے۔ مجھ آپ سے کچھ پرائیویٹ باتیں کرنی ہیں۔‘‘
ٹیکسی ایک طرف کھڑی کی گئی۔ بابو گوپی ناتھ باہر نکلا تو سینڈو اسے کچھ دور لے گیا۔ دیر تک ان میں باتیں ہوتی رہیں۔ جب ختم ہوئیں تو بابو گوپی ناتھ اکیلا ٹیکسی کی طرف آیا۔ ڈرائیور سے اس نے کہا۔
’’واپس لے چلو۔۔۔۔۔۔‘‘
بابو گوپی ناتھ خوش تھا۔ ہم داور کے پاس پہنچے تو اس نے کہا۔
’’منٹو صاحب زینو کی شادی ہونے والی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’کس سے ؟۔۔۔۔۔۔‘‘
بابو گوپی ناتھ نے جواب دیا۔
’’حیدر آباد سندھ کا ایک دولت مند زمیندار ہے۔ خدا کرے دونوں خوش رہیں۔ یہ بھی اچھا ہے جو عین وقت پر آپہنچا۔ جو روپے میرے پاس ہیں ان سے زینوکا جہیز بن جائے گا۔ کیوں کیا خیال ہے آپ کا۔۔۔۔۔۔‘‘
میرے دماغ میں اس وقت کوئی خیال نہیں تھا ۔میں سوچ رہا تھا کہ یہ حیدر آباد سندھ کا دولت مند زمیندار کون ہے؟ سینڈو اور سردار کی کوئی جعلسازی تو نہیں۔ لیکن بعد میں اس کی تصدیق ہوگئی کہ وہ حقیقتاً حیدر آباد کا متمول زمیندار ہے جو حیدر آباد سندھ ہی کے ایک میوزک ٹیچر کی معرفت زینت سے متعارف ہوا ۔ یہ میوزک ٹیچر زینت کو گانا سکھانے کی بے سُود کوشش کیا کرتا تھا۔ ایک روز یہ اپنے مربّی غلام حسین(یہ اس حیدر آباد سندھ کے رئیس کا نام تھا۔)کو ساتھ لے کر آیا۔ زینت نے خوب خاطر مدارات کی ۔غلام حسین کی پر زور فرمائش پر اس نے غالب کی غزل ؎
نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
گا کر سنائی۔ غلام حسین سو جان سے اس پر فریفتہ ہو گیا۔ اس کا ذکر میوزک ٹیچر نے زینت سے کیا۔ سردار اور سینڈو نے مل کر معاملہ پکا کردیا اور شادی طے ہوگئی۔
بابو گوپی ناتھ خوش تھا۔ ایک دفعہ سینڈو کے دوست کی حیثیت سے وہ زینت کے ہاں گیا۔ غلام حسین سے اس کی ملاقات ہوئی۔ اس سے مل کر بابو گوپی ناتھ کی خوشی دونی ہوگئی۔ مجھ سے اس نے کہا۔
’’منٹو صاحب خوبصورت ، جوان اور بڑا لائق آدمی ہے۔ میں نے یہاں آتے ہوئے داتا گنج بخش کے حضور جا کر دعا مانگی تھی جو قبول ہوئی۔ بھگوان کرے دونوں خوش رہیں۔
بابو گوپی ناتھ نے بڑے خلوص اور بڑی توجہ سے زینت کی شادی کا انتظام کیا۔ دو ہزار کے زیور اور دو ہزار کے کپڑے بنوا دئیے اور پا نچ ہزار نقد دئیے۔ محمد شفیق طوسی ، محمد یسٰین پروپرائٹر نگینہ ہوٹل ، سینڈو، میوزک ٹیچر ، میں اور گوپی ناتھ شادی میں شامل تھے۔ دلہن کی طرف سے سینڈو وکیل تھا۔
ایجاب و قبول ہوا تو سینڈو نے آہستہ سے کہا۔
’’دھڑن تختہ۔۔۔۔۔۔!‘‘
غلام حسین میرج کا نیلا سوٹ پہنے تھا۔ سب نے اس کو مبارک بار دی جو اس نیخندہ پیشانی سے قبول کی۔ کافی وجیہہ آدمی تھا۔ بابو گوپی ناتھ اس کے مقابلے میں چھوٹی سی بیٹر معلوم ہوتا تھا۔
شادی کی دعوتوں پر خورد نوش کا جو سامان بھی ہوتا ہے،تھا۔ بابو گوپی ناتھ سب کے ہاتھ دھلوانے کے لئے آیا تو اس نے مجھ سے بچوں کے سے انداز سے کہا۔
’’منٹو صاحب ذرا اندر جائیے اور دیکھئے زینو دولہن کے لباس میں کیسی لگتی ہے۔‘‘
میں پردہ ہٹا کر اندر داخل ہوا۔ زینت سُرخ زربفت کا شلوار کرتہ پہنے تھی۔ دوپٹہ بھی اسی رنگ کا تھا جس پر گوٹ لگی تھی۔ چہرے پر ہلکا ہلکا میک اپ تھا۔ حالانکہ مجھے ہونٹوں پر لپ اسٹک کی سرخی بہت بُری معلوم ہوتی ہے۔ مگر زینت کے ہونٹ سجے ہوئے تھے۔ اس نے شرما کر مجھے آداب کیا تو بہت پیاری لگی۔ لیکن جب میں نے دوسرے کونے میں مسہری دیکھی جس پر پھول ہی پھول تھے تو مجھے بے اختیار ہنسی آگئی ۔ میں نے زینت سے کہا۔
’’یہ کیا مسخرہ پن ہے۔‘‘
زینت نے میری طرف بالکل معصوم کبوتری کی طرح دیکھا۔
’’آپ مذاق کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔بھائی جان۔‘‘
اس نے یہ کہا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔
مجھے ابھی غلطی کا احساس بھی نہ ہوا تھا کہ بابو گوپی ناتھ اندر داخل ہوا بڑے پیار کے ساتھ اس نے اپنے رومال کے ساتھ زینت کے آنسو پونچھے اور بڑے دُکھ کے ساتھ مجھ سے کہا۔
’’منٹو صاحب میں سمجھا تھا آپ بڑے سمجھ دار اور لائق ہیں۔ زینو کا مذاق اڑانے سے پہلے آپ نے کچھ سوچ لیا ہوتا۔۔۔۔۔۔‘‘
بابو گوپی ناتھ کے لہجے میں وہ عقیدت جو اسے مجھ سے تھی، زخمی نظر آئی۔ لیکن پیشتر اس کے کہ میں اس سے معافی مانگوں اس نے زینت کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے خلوص کے ساتھ کہا۔
’’خدا تمہیں خوش رکھے۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر بابو گوپی ناتھ نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ ان میں ملامت تھی ، بہت ہی دُکھ بھری ملامت اور چلا گیا۔
٭٭٭
تجزیہ
ترقی پسند تحریک کے بعد ہمارے دو بڑوں نے شاید مغرب کے زیر اثر گذرتے ہوئے وقت پر دو عدد سنگِ میل کھڑے کردئیے ۔ایک سنگ میل کو دور جدیدیت کا نام دیا گیا۔ دوسرے کو مابعد از جدیدیت ،جدیدیت ۱۹۶۰ء سے ۱۹۸۰ء تک اور ۱۹۸۰ء کے بعد سے مابعد از جدیدیت جاری و ساری ہے۔ تیسرا بڑا کوئی ابھی تک پیدا نہیں ہوا یا یوں کہئے کہ پیدا ہونے نہیں دیا گیا اس لئے اردو ادب پچھلے ۳۶ سالوں سے مابعد از جدیدیت میں ہی قید سے تیسرا سنگ میل جانے کب قائم ہوگا۔۔۔۔۔۔؟کون کرے گا۔۔۔۔۔۔؟ادب تو یوںہی وقت کے ساتھ ساتھ اپنے نئے نئے رنگوں کے ساتھ رواں دواں رہے گا۔دور جدید نے جہاں افسانے کے با ل و پر منتشر کیئے یعنی اچھے بھلے قصّوں کو اپنے تخلیقی اسلوب سے علامتوں ، تمثیلوں اور تجرید کی خاردار جھاڑیوں میں الجھا دیا۔ قاری اُسے سلجھاتے سلجھاتے اکتا گیا اور اُس نے احتجاج کے طور پر افسانے سے فاصلہ بنانا شروع کردیا۔ جہاں افسانے میں جدیدیت والوں نے تبدیلیاں کیں وہاں یہ دعوٰے کیا گیا کہ جدیدیت کے دور میں افسانہ میں افسانہ نگار کی اپنی Involvationہوئی۔ جدیدیت سے پہلے افسانہ نگار محض تماشائی تھا، افسانے سے دوررہ کر بیان کرتا تھا دور جدیدیت میں افسانہ نگار افسانے میں خود شامل ہوگیا اپنے کرداروں کے دکھ سکھ جھیلنے لگا۔ نقادوں نے آنکھیں موند کر بار بار اس بات کو دہرایا۔ افسانہ گوپی ناتھ پڑھ کر نقادوں کا یہ دعوٰے کھوکھلا نظر آیا۔ استاد منٹو دور جدیدیت شروع ہونے سے پانچ سال قبل دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ اگر وہ دور جدیدیت میں سانس لے بھی لیتے تو اس کو کبھی نہ مانتے وہ فطری طور پر آزاد اور خود دار انسان تھے۔ جو شخص ترقی پسند تحریک سے الگ تھلگ رہا وہ دور جدیدیت کو کب مانتا۔ انہوں نے اپنی مختصر سی زندگی میں بہت سے تجربات کئے Involvationکا تجربہ تو وہ گوپی ناتھ میں کرچکے تھے جس کا دعوٰے پانچ سال بعد کیا گیا۔ گوپی ناتھ ایک اندازے کے مطابق ۱۹۵۰ء میں تخلیق ہوا ہوگا۔ اس افسانے میں منٹو ایک کردار کے طور پر افسانے میں شامل ہیں انہوں نے اپنے کرداروں کے دکھ سکھ کو محسوس کیا ۔اُن کی مشکلات کو سمجھا یعنی اس افسانے میں افسانہ نگار کی Involvationبھر پور ہے یہاں وہ بات غلط ثابت ہو جاتی ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ Involvationدور جدیدیت کی دین ہے۔ گوپی ناتھ کے مطالعہ کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ منٹو جب بمبئی میں تھے تو گوپی ناتھ جیسا کردار اُن کے مشاہدے میں ضرور آیا ہوگا افسانے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سچائیوں کے اردگرد بنا ہوا ہے۔ اگر یہ موضوع محض تصّوراتی مان لیا جائے تو اتنا سمجھ میں آتا ہے کہ جیسے ماں باپ اپنی اولاد کے لئے فکر مند ہوتے ہیں کہ اُن کی اولاد پیروں پر کھڑی ہو جائے۔ کچھ بن جائے اس کے لئے وہ پیسہ بھی خرچ کرتے ہیں بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔کیونکہ وہ اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ گوپی ناتھ میں اس خواہش کا دوسرا زاویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک عاشق اپنی محبوبہ سے بے حد محبت کرتا ہے وہ کوشاں ہے کہ اُس کی محبوبہ کا کوئی رئیس آدمی ہاتھ تھام لے تا کہ اُس کا مستقبل محفوظ ہو جائے کیونکہ گوپی ناتھ کی دولت ختم ہونے والی ہے وہ کنگال ہو کر کسی مزار پر بیٹھنے والا ہے۔ اپنے اس مشن میں وہ دولت لٹا رہا ہے اور مختلف لوگوں کی مدد بھی لے رہا ہے۔ منٹو نے گوپی ناتھ کی محبت کا ایک مختلف پہلو اجاگر کیا ہے۔ محبت کا یہ جذبہ یہ ایثار کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتے۔ گوپی ناتھ میں اس کی طوالت کے علاوہ یہ بات بھی کھٹکتی ہے کہ افسانے میں کرداروں کی بھر مار ہے قاری کو یہ یاد رکھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سا کردار کیا ہے اس کا دوسرے کردار سے کیا تعلق ہے ۔افسانے کا زمانہ دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس افسانے کا دور طویل افسانوں کا دور تھا جس میں آنندی جیسے افسانے تخلیق ہوئے۔
اُس دور میں قاری کے پاس مطالعے کے لئے وقت تھا اور ادب محض تفریح کا سامان نہیں بنا تھا عوام اچھے برے ادب کا اثر قبول کرتے تھے۔ تازہ تخلیقات سامنے آتے ہی لوگ مباحثے کیا کرتے تھے۔ تبھی تو اُس دور میں غیر اخلاقی اور بے حیائی والے (بولڈ) افسانوں پر مقدمات دائیر ہوئے جن کی وجہ سے استاد منٹو کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بہر حال گوپی ناتھ اُن کا ایک مشہور افسانہ ہے جس پر شاید بہت کچھ لکھا جا چکا۔ اظہار خیال کا مجھے بھی حق ہے آئیے گوپی ناتھ سے ملاقات کریں۔
بابو گوپی ناتھ لاہور کے ایک کنجوس بنئے کا اکلوتا لڑکا ہے جس کے باپ کے مرنے کے بعد ۱۹۴۰ء میں دس لاکھ روپے کی جائیداد مل جاتی ہے۔ گوپی ناتھ فطری طور پر عورت اور شراب کا رسیا ہے۔ جو زیادہ تر کوٹھوں پر پڑے رہنا پسند کرتا ہے۔ گوپی ناتھ کو بازار حسن ہیرا منڈی کے ایک کوٹھے پر زینت نام کی ایک کشمیری لڑکی ملتی ہے جو بلا کی حسین ہے اور نہایت ہی سیدھی سادھی بھولی بھالی ہے۔ زینت کو گراہک پھنسانا ااُسے لوٹنا یعنی کوٹھے والیوں کے دائو پیچ نہیں آتے۔ وہ بالکل گھریلو قسم کی عورت ہے۔ گوپی ناتھ کو اس کی خوبصورتی اور بھولا پن پسند آجاتا ہے وہ اکثر اُس کے پاس آنے لگتا ہے۔ گوپی ناتھ زینت کو پیار سے زینی کہتا ہے۔ زینت بھی گوپی ناتھ سے محبت کرنے لگتی ہے وہ گوپی ناتھ کی ہو کر رہ جاتی ہے ۔جب گوپی ناتھ ہفتوں دوسرے کوٹھوں پر پڑا رہتا ہے تو وہ دوسرے آدمی کا مونہہ دیکھنا پسند نہیں کرتی اور اپنا زیور بیچ کر کھاتی ہے ۔گوپی ناتھ اُسے بہت سمجھاتا ہے کہ اُس نے کوٹھوں پر رہنا ہے اُسے کوٹھوں والیوں کے انداز سیکھ لینے چاہئیں اُس کی طرح کسی دوسرے مالدار آدمی کو پھنسا کر اپنا کام چلانا چاہئے۔ رینت پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔گوپی ناتھ اُسے سمجھاتا ہے کہ ایک دن اُس کی دولت ختم ہوجائے گی۔ وہ دنیا سے کنارہ کشی کرلے گا کسی مزارپرجا بیٹھے گا بہتر ہے وہ کسی اور کی ہو جائے مگر زینت گوپی ناتھ سے ہی محبت کرتی ہے۔ ایک دن گوپی ناتھ زینت کو کوٹھے سے بھگا لے جاتا ہے۔ کوٹھے کی خرانٹ عورت گوپی ناتھ پر مقدمہ دائیر کردیتی ہے۔ گوپی ناتھ مقدمہ جیت جاتا ہے اور وہ زینت کو بمبئی لے آتا ہے اُن دنوں بمبئی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں طوائفیں کامیاب ایکٹر یس بن جاتی ہیں اپنی مدد کے لئے گوپی ناتھ اپنے ساتھ عبدالعحیم سینڈو اور غفار سائیں جو اُس کا ایڈوائیزر ہے کو ساتھ لے آتا ہے۔ بمبئی میں اُس کو ایک کالے رنگ کی منجھی ہوئی ویشیا سردار مل جاتی ہے اور ایک نوکر غلام علی بھی گروپ میں شامل ہو جاتا ہے ۔زینت میں ایک دو فلم ڈائیریکٹر دلچسپی لیتے ہیں اور گوپی ناتھ کو دھوکا دے کر چلے جاتے ہیں۔ گوپی ناتھ کو زینت کے مستقبل کی فکر ہے کہ اُسے کوئی مناسب سہارا مل جائے ۔وہ پچاس ہزار کی رقم لے کر آیا تھا جو برابر خرچ ہو رہی تھی۔ اس بیچ عبدالرحیم سینڈو گوپی ناتھ کو منٹو سے ملواتا ہے اور رات کو ڈنر پر مدعو کرتا ہے۔ منٹو بڑا رائٹر ہے جو ایک ہفتہ وار اخبار کا ایڈیٹر بھی ہے۔ یہاں سے افسانے میں منٹو داخل ہوتے ہیں۔ گوپی ناتھ منٹو سے کہتا ہے منٹو صاحب زینت کے لئے ایک موٹر خرید لیتے ہیں کیونکہ بمبئی میں موٹر کا ہونا ضروری ہے ۔دوسرے دن ایک موٹر خرید لی جاتی ہے زینت سردار کو لے کر روزانہ اپولو بندر جاتی ہے تا کہ کوئی رئیس آدمی پھانس لیا جائے ۔زینت کو محمد شفیق طوسی نام کا آدمی ملتا ہے جو عیاش طبع ہے ۔منٹو اُسے جانتاہے تھوڑے دن زینت کے ساتھ رہ کر وہ غائب ہو جاتا ہے ایک دن وہ منٹو کو مل جاتا ہے تو بتاتا ہے کہ اُسے زینت پسند نہیں آئی وہ گھریلو قسم کی عورتوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر ایک ہوٹل کا مالک یٰسین احمد زینت سے جڑ جاتا ہے۔ وہ بھی دھوکا دیتا ہے ۔انہی چکروں میں بابو گوپی ناتھ کے پیسے ختم ہو جاتے ہیں۔ وہ غفار سائیں کو لے کر لاہور روپوں کا انتظام کرنے چلا جاتا ہے گوپی ناتھ کی غیر حاضری میں سردار اور سینڈو زینت سے پیشہ کروانے لگتے ہیں۔ زینت کو کہہ دیتے ہیں کہ اب گوپی ناتھ نہیں آئے گا۔منٹو کو یہ بات بُری لگتی ہے وہ زینت کو سمجھاتا ہے ۔زینت کہتی ہے ۔بھائی جان یہ لوگ جو کہتے ہیں میں مان لیتی ہوں!گوپی ناتھ رقم کا انتظام کرکے بمبئی لوٹتا ہے اور منٹو کی مدد سے زینت کو ڈھونڈھ لیتا ہے ۔عبدالرحیم سینڈو گوپی ناتھ کو بتاتا ہے کہ زینت سندھ حیدر آباد کیت ایک رئیس زمیندار کو پسند آگئی ہے۔ جو اس سے شادی کرنے کو تیار ہے گوپی ناتھ دس ہزار کی رقم لے کر بمبئی لوٹا ہے وہ سوچتا ہے کہ وہ تمام رقم زینت کی شادی پر خرچ کردے گا۔ دولہا غلام حسین خوبصورت اور وجیہہ آدمی تھا۔ شادی کی دعوت کے بعدگوپی ناتھ سب کے ہاتھ دھلواتا ہے اور منٹو سے کہتا ہے، منٹو صاحب ۔۔۔۔۔۔! ذرا اندر جا کر دیکھئے تو ،زینو دلہن کے لباس میں کیسی لگتی ہے۔ منٹو دلہن کے کمرے میں جاتا ہے اور مسہری پر بکھرے ہوئے پھول دیکھ کر کہتا ہے۔ یہ کیا مسخرہ پن ہے ۔۔۔۔۔۔!؟زینت منٹو کی طرف دیکھتی ہے اُس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ وہ کہتی ہے آپ مذاق کررہے ہیں بھائی جان ۔بابوگوپی ناتھ کمرے میں داخل ہوتا ہے اور کہتا ہے۔ منٹو صاحب زینو کا مذاق اُڑانے سے پہلے سوچ لیا ہوتا۔۔۔۔۔۔!منٹو لکھتے ہیں ۔گوپی ناتھ کے لہجے میں وہ عقیدت جو اُسے مجھ سے تھی زخمی نظر آئی۔۔۔۔۔۔بابو گوپی ناتھ نے زینت کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے خلوص کے ساتھ کہا۔خدا تمہیں خوش رکھے۔۔۔۔۔۔!
منٹو بابو گوپی ناتھ کے ایک نیک مشن کا قصّہ سنا رہے ہیں کہ وہ اپنی محبوبہ کا مستقبل سنوارنے کی غرض سے اُس کی شادی کروادیتا ہے گو، گوپی ناتھ کو کئی مسائل کا مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑا آخر وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ افسانہ بڑے آرام سے چلا اور ختم ہو گیا۔ بڑا ہی سپاٹ، اینٹی کلائمیکس افسانہ ہے نہ کہانی میں کوئی ٹوسٹ ہے نہ کوئی چونکا دینے والی بات نہ تجسّس ، طوالت بھی بلاوجہ، گوپی ناتھ کے بمبئی میں روپے ختم ہو گئے وہ پنجاب آتا ہے رقم کا انتظام کرکے پھر واپس آجاتا ہے۔ اس سے اُس کی لگن اور چاہت کا اظہار تو ہوتا ہے۔ وہ پہلی بار ایک لاکھ لے کر بمبئی آسکتا تھا ۔دس لاکھ کی جائیداد کا مالک تھا۔ سینڈو اور سردار انتہائی کمینے اور خرانٹ لوگ دکھائے ہیں وہی زینت کے لئے رشتہ تلاش کرلیتے ہیں۔ جبکہ زینت اور گوپی ناتھ تو اُن کے کھانے پینے اور شراب کا ذریعہ تھے۔افسانے میں منٹو کا اپنا کردار ذیلی ہے ۔تجربے کے طور پر منٹو نے خود کو ہیلپنگ کریکٹر کے طور پر کھڑا کیا ہے۔ زینت کی شادی ہوتی ہے شادی میں سارے کرداروں کو اس طرح اکٹھا کردیا جاتا ہے جیسے ڈرامہ ختم ہونے پر سٹیج پر تمام کلاکار آجاتے ہیں۔ مثلاً محمد شفیق طوسی، محمد یٰسین پروپرائیٹر نگینہ ہوٹل، عبدالرحیم سینڈو، میوزک ٹیچر، غلام علی ،منٹو اور گوپی ناتھ وغیرہ۔
اگر گوپی ناتھ کو منٹو کے دوسرے شاہکار افسانوں، کھول دو، ٹھنڈا گوشت یا پھاہا کے مقابلے میں رکھا جائے تو گوپی ناتھ کا کلائمیکس بہت کمزور نظر آئے گا۔ مثلاً کھول دو میں یہ کلائمیکس کس قدر زور دار تھا۔
سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش ہوئی اُس نے بے جان ہاتھوں سے ازار بند کھولا اورشلوار نیچے سرکا دی۔ ٹھنڈا گوشت کا کلائمیکس کہ ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاط نکلے، وہ مری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔لاش تھی اور پھاہا میں۔ نرملا نے پھاہے پر پھونک ماری اور اُسے ننھے سے ابھار پر جمادیا۔ اب ان تینوں کے اختتام کے مقابلہ میں گوپی ناتھ کا اختتام دیکھ کر آپ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کیسا ہے۔ گوپی ناتھ کے مطالعے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ واقعی گوپی ناتھ اور زینت اُن کی زندگی میں آئے ہوں گے۔ اُستادکا مسہری کے پھول دیکھ کر والہانہ کہنا یہ کیا مسخرہ پن ہے ۔۔۔۔۔۔؟ ایسی باتیں منٹو ہی کیا کرتے تھے وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ اُن کی اس بات کا سامنے والے پر کیا اثر ہوا ہوگا، بس جو جی میں آیاکہہ دیا ۔یہ اُن کی ذاتی زندگی کا عکس نظر آیا۔ کیوں وہ اگر کسی آدمی کو پسند نہیں کرتے تھے کہہ دیتے تھے کہ آپ سے مل کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی ۔سامنے والاسر پیٹ لیتا۔ گوپی ناتھ میں بابو گوپی ناتھ کا بہت زور دار کردار ہے جو اپنے اعمال سے قاری کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔اختتام پر گوپی ناتھ کا زینت کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دینا اُس کو مہان بنا گیا۔ دلہن کے سر پر ہاتھ پھیر کر بزرگ دعا دیا کرتے ہیں۔ بزرگ کی حیثیت سے گوپی ناتھ نے زینت کی شادی کاانتظام کیا۔ خرچہ کیا۔
بابو گوپی ناتھ کے کچھ مکالمے منٹو نے اچھے تخلیق کئے ہیں۔
’’بابو صاحب سے کریون۔اے کے سگریٹ اور سکاچ وہسکی کے پیگ پی کر دعا کرتے ہیں کہ انجام نیک ہو۔۔۔۔۔۔‘‘
’’رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کراتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’اس لئے کہ ان دونوں جگہوں (رنڈی کے کوٹھے اور تکیئے ) فرش سے لے کر چھت تک دھوکا ہی دھوکا ہوتا ہے۔ جو آدمی خود کو دھوکا دینا چاہے اس سے اور اچھا مقام کیا ہوسکتا ہے۔ عبدالرحیم سینڈو کے خود ساختہ الفاظ مثلاً اینٹی کی پینی پو، کنٹی نیوٹلی، دھڑن تختہ، مٹن پٹوتی، فِل فِل فوٹی وغیرہ ،مناسب استعمال کئے گئے ہیں جو مزاح پیدا کرتے ہیں۔ کل ملا کر منٹو کا یہ بہترین افسانہ ہے ۔بھلے بے جا طویل ہے مگر استاد منٹو کے ہاں کہانی پن بہت مضبوط ہوتا ہے کیا مجال قاری افسانہ پورا پڑھے بغیر افسانے سے الگ ہو جائے۔
٭٭٭