عمران شاہدبھنڈر(برطانیہ)
نوٹ: اس مضمون میں سرقہ شدہ ۳اقتباس پہلے والے دہرائے گئے ہیں کیونکہ نفسِ مضمون کے تسلسل میں ان کا حوالہ ضروری تھا۔سرقہ سلسلہ کے یہ مضامین مکمل ہونے پر کتابی صورت میں شائع کیے جائیں گے)
گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ ’’بعض لوگ خودکو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ آخری سچائی انھیں پر اتری ہے۔ افسوس ہے کہ ادب میں نہ تو کوئی آخری پیغمبر ہوتا ہے اور نہ کوئی آخری سچائی ہوتی ہے‘‘ ( اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ، ص ۸۰)۔یہاں چونکہ ادبی سچائی کا ذکر زیادہ اہم ہے اس لئے ہمیں گوپی چند نارنگ کے اس اقتباس کے دوسرے حصے سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ تاہم اس امر کا یقین ہے کہ اقتباس کے پہلے حصے کے بارے میں لکھتے وقت نارنگ صاحب کے ذہن میں ’سچائی‘ کا قدیم معیار ضرور ہوگا جس کی بناء پر انھوں نے ’سچائیوں‘ کے مابین تفریق کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ نارنگ صاحب کے ذہن میں ادب کی سچائی کا تقاضہ کرنے والی سنجیدگی کے برعکس ایک خاص قسم کا تعصب بطورِ قوتِ محرکہ کارفرما ہے۔ بہرحال نارنگ صاحب کے اس اقتباس میں اس طرح کے عوامل پائے جاتے ہیں کہ جن سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ انھوں نے ادبی سچائی کو اپنی مخصوص آئیڈیالوجی کے مطابق آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر نارنگ صاحب کو ادبی ’سچائی‘ ہی درکار ہوتی تو وہ اس ’سچائی‘ کی بنیاد پر محض اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کے لئے ادبی بددیانتی یا ’غیر سچائی‘ کے مرتکب کبھی نہ ہوتے۔چونکہ نارنگ صاحب کا سچائی کا معیار’آخری‘ کے برعکس ’قدیم ‘ہے ، اس لئے علمی بددیانتی کا تقاضا شاید یہی تھا کہ وہ نارنگ صاحب کی ادبی’ سچائی‘ کے مطابق معنی حاصل کرتی۔ادب کا تعلق چونکہ انسان کی ذات کے علاوہ خارجی دنیا کے ساتھ بھی ہے جس میں تغیراتی عوامل کی اولیت کی بناء پر ’ادبی سچائی‘ کا تغیر لازمی ہے، جیسا کہ جدید طبعی سائنس نے بھی ہر مرحلے پر ثابت کیا ہے کہ فطرت کوئی جامد چیز نہیں ہے ۔اگر تغیر حتمی ہے تووہ نظریات جو خارج سے متشکل ہوتے ہیں، ان کا تغیر بھی یقینی ہے۔خارجی تغیر کی نوعیت فطرت کی سی ہو یا سماجی متغیر عمل سے صورت پذیر ہورہی ہو، کسی بھی نقطہء نظر سے اس کی اوریجنیلیٹی کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ خارجی تغیر کی سب سے اہم شہادت نارنگ صاحب کے مندرجہ بالا اقتباس کی بجائے تاریخی مطالعے سے بآسانی اخذ کی جاسکتی ہے۔ فکری وجمالیاتی اعتبار سے تغیر کی سچائی کا انکار ممکن نہیں ہے ،کیونکہ دونوں رجحانات دقیانوسیت کی تبلیغ کے باوجود کلی طور پر خود کو اس عمل سے محفوظ نہیں کر سکتے۔بہرحال یہ طے ہے کہ ادب سے وابستہ لوگوں کے دروغ گوئی پر مبنی رویے ادب کے سب سے گھناؤنے جھوٹ ضرور ہیں، جو ہر لحظہ ادب کو پراگندہ کرتے آرہے ہیں۔اردو کی ادبی تایخ میں شاید ہی کوئی دور ایسا ہو،کہ جس میں ادب کو اخلاقیات سے الگ کرکے دیکھا گیا ہو،حالانکہ ادبی اخلاقیات ،سماجی اخلاقیات سے مختلف ہے، ادبی اخلاقیات کا تقاضا یہی ہے کہ ادب کو بددیانت افعال سے محفوظ رکھا جائے، جمالیات آخری تجزیے میں ہی اپنی جداگانہ حیثیت کو قائم رکھتی ہے۔جمالیات اپنی فطرت میں الگ شعبہ ہے ، جس کے اپنے داخلی تقاضے ہیں(ساختیاتی مفہوم میں نہیں)،جن کا تعلق اکائی کی سطح پر اس کی یکتائی کے اظہار میں ہے ، اکائی الگ ہوتے ہوئے بھی اجتماع میں بامعنی بنتی ہے۔یہاں اکائی سے مراد اس کے اظہار میں ہے، جو ایک طرف تو اجتماعیت سے شناخت کے لمحے کو نہیں روکتی اور دوسری طرف خود کو ظاہر کرکے اجتماعیت میں پہنچتی ہے۔اجتماعیت تک کا سفر سیدھا نہیں ہے، اس کے راستے میں کئی ’اشیاء ، مظاہر، اور سماجی عمل کی اشکا ل ‘ہوتی ہیں۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اکائی کا خودکو اکائی کی شکل میں ظاہر کرنا تاریخی تقاضا ہے۔ اُردو ادب و تنقید کے بڑے حصے میں اس جمالیاتی سچ کا فقدان ہے جس کا اظہار فرد(اکائی) کی انفرادیت میں ہی ممکن ہوتا ہے۔
اردو میں جو مباحث ہوئے ہیں، ان کے مطابق بھی جمالیات کا تعلق انسانی احساس و جذبات کے ساتھ ہے، گو کہ اس میں دیگر عوامل (آئیڈیالوجی، عقلیت وغیرہ)کو بھی حذف نہیں کیا جاسکتا۔جہاں تک جذبات و احساسات کا تعلق ہے تو ابھی تک کوئی ایسی شہادت موجود نہیں ہے جس کے مطابق یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ان کی نوعیت کلی طور پر تجریدی ہوتی ہے۔سماجی عمل میں ان کا متشکل ہونا قبول و استرداد دونوں رویوں میں نمایاں ہوسکتا ہے۔ مغرب میں احساسات و جذبات سے اس لئے دست برداری اختیار کرلی گئی کہ وہ جذبات جن کا اظہار صرف تخیلی سطح پر ہی ممکن تھا، ان کو قابل عمل بنا دیا گیا۔اس لئے ادب کی نفاست کا یہ تصور جو جذبات و احساسات کے ساتھ و ابستہ تھا،روایتی شکل اختیار کرگیا ، اردو میں اس کی صداقت مغرب کے برعکس ادباء کے مجہول رویوں کے عکس کی شکل میں برقرار رہی۔مغرب میں شعور یا جذبات و احساسات کی کئی منزلیں سماجی ارتقاء سے طے ہوئیں،طے ہونے کے اس عمل میں نئے جذبات واحساسات اورشعور جو پہلے جذبات و احساسات اور شعور سے مختلف تھے، ان کے تقاضے مختلف تھے، جب انسان کی حسیات بدل گئیں، اس کے جمالیاتی تقاضے بدل گئے،اسے اپنی طے شدہ منزلوں کا شعور حاصل ہوگیا تو نظری مباحث کی نوعیت کا بدل جانا یقینی ہوگیا۔ مگر یہ تمام عمل خارج سے منقطع ہوکر وقوع پزیر نہیں ہوا۔جہاں تک خارج کا تعلق ہے تو وہ انگنت عوامل کے درمیان آویزش کا نتیجہ ہے۔کوئی ایسا فلسفہ موجود نہیں ہے جو زمان کے اعتبار سے انسانی عمل کو معروض سے منقطع کرسکے ۔
اخلاقی جمالیات کے اعتبار سے اُردوادب کا ذکر کیا جائے تو اذہان میں ایک’ نفیس‘ اور مجہول شخص کی تصویر ابھرتی ہے، جو ردِ عمل کی تمام صلاحیتیں کھو چکا ہے۔جمالیات اس کے لئے اس کی مجہول طبع کا عکس ہے۔اُردو کا گہرا اور غیر جانب دار مطالعہ یہ بھی آشکار کرتا ہے کہ نفاست و مجہولیت کے لبادے میں ادب و تنقیدمیں داخل کی گئی گندگی کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ ادب میں بھی گندگی کو سمونے کااتنا ہی رجحان ہوتا ہے، جتنا کہ سیاست یا انسانی جبلت میں۔ فرق محض یہ ہے کہ ادب کی پراگندگی پر بآسانی جذبوں کی آڑ میں نفاست کا لبادہ چڑھا یا جاسکتا ہے۔ ادب کے نفیس پہلو کی آڑ میں نارنگ صاحب کی حرکت ادبی جرم ہے، چونکہ یہ جرم صاحبِ اقتدار طبقے کی جائیدادیاان کے اقتدار کو کمزور کرنے والے عوامل کی شکل اختیار نہیں کرتا ، اس لئے قانون میں اس کی کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی۔اگر کوئی سرکاری دستاویز (کتاب ) چرائی جاتی تو شاید عبرت ناک سزا متعین کردی جاتی۔ حالانکہ ادبی جرم کہیں زیادہ جذبات کو ’ناپاک ‘ کرتا ہے اور اپاہج بناتا ہے۔اس کی واضح مثال عہد حاضر کا اُردو ادب ہے۔یہ ادبی بددیانتی نہیں تو اور کیا ہے کہ شاعری میں بھی دعوے الہام کے کئے جائیں اور نظمیں یا غزلیں ایلیٹ یا پاؤنڈ کی کسی نظم کو سامنے رکھ کر لکھی جائیں۔ دعویٰ تخلیقی لمحے کے انتظار کا کیا جائے، جو کسی پراسرار قوت کے خود کو ظاہر کرنے کا لمحہ ہے ،لیکن ساختیات کی کوئی کتاب یا فلسفے کی کتاب کو سامنے رکھ کر شاعری بنا لی جائے۔تخلیقی لمحے کو خود پر مسلط کرنے کے لئے ٹی ایس ایلیٹ کے طریقہء کار پر عمل کیا جائے،لیکن تنقید میں اکتسابی عمل کے تجزیے کور خصت کردیا جائے، حوالے کولرج کے پیش کئے جائیں، لیکن اس کی ادبی صداقت کا مذاق بھی اُڑایا جائے۔دعوے بڑے نقاد بننے کے کئے جائیں مگر مغربی دانشوروں کی کتابوں کا سرقہ بھی ضروری سمجھا جائے۔ اس تناظر میں کیا نارنگ صاحب کا سرقہ بھی اس غیر اخلاقی جمالیات کی واضح مثال نہیں ہے؟
نارنگ صاحب کا قدیم ’سچائی‘ کا معیار بجا مگر یہاں پر یہ لازم تھا کہ وہ تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ’ادبی سچائی‘ پر زور دینے کے علاوہ متغیر’ ادبی سچائی‘ تک پہنچنے کے لئے خود سچے ذرائع تلاش کرتے۔ ادب میں اس سے بدترین اور کوئی جھوٹ ہو ہی نہیں سکتا کہ دوسروں کے خیالات کو لفظ بہ لفظ اپنے نام سے شائع کرادیا جائے اور تبلیغ ادبی سچائی کی، کی جائے۔ اس سے بھی بڑھ کریہ کہ اسی جھوٹ کو بنیاد بنا کر ایوارڈ بھی حاصل کئے جائیں۔ سچے ادیب کا فرض ہے کہ اگر اس سے کہیں کوتاہی ہو بھی گئی ہے تو اس حقیقت کو اپنی غلطی سے تعبیر کرے اور اس غلطی کا سچائی کے ساتھ لوگوں کے سامنے اعتراف کرے، نہ کہ چند ایک افراد کو بدیانتی کے دفاع پر مقرر کردے۔ نارنگ صاحب کی سرقے کی گھناؤنی حرکت کو دیکھ کر ان کی سچائی کی تعریف اور معیار پر افسوس ہوتاہے۔اس مضمون میں میں نے نارنگ صاحب کی ’آخری‘ نہیں بلکہ قدیم’ سچائی‘ کے معیار کو ایک بار پھر سامنے لانے کی کوشش کی ہے، جس کے تحت انھوں نے ادبی’ سچائی‘ کے معیار کا ذکر کیا ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی دکھایا ہے کہ قدیم ’سچائی‘ کا نارنگ صاحب کا معیارِ ’سچائی‘ اصل سچائی کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ان کا مقرر کردہ ادبی سچائی کا معیار نئی ’سچائی‘ سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے غلط ثابت ہوجاتا ہے۔قدیم ’سچائی‘ میں بددیانتی (نارنگ صاحب کی) قابلِ تکریم تھی، نئی ’سچائی‘ میں دیانت قابل احترام ہے۔قدیم سچائی غیر حقیقی سچائی ہے ، نئی سچائی حقیقی نوعیت کی ہے۔قدیم سچائی میں جانچ پرکھ کی ضرورت ہی نہیں تھی جو ایک بار طے ہوگیا اس کی اندھی تقلید شروع ہوگئی۔ نئی سچائی مادیت سے آشنائی کے بعد کسی بھی چوکھٹے کو بغیر تنقیدی تجزیے کے قبول نہیں کرتی۔نارنگ صاحب کی قدیم ’سچائی‘ کونئی ادبی سچائی نے کیسے بے نقاب کیا اس مضمون میں قارئین ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیں گے۔
آئیے گوپی چند نارنگ صاحب کے ’سچائی‘ کے قدیم معیار کو نئی’ سچائی‘ کے مقابل رکھ کر پرکھتے ہیں۔ نئی سچائی کا اصرار ہے ،کہ قدیم سچائی کے معیار پر قائم رہنے والے نارنگ صاحب نے پروفیسررامن سیلڈن کی جس اہم تعارفی کتاب سے اپنی کتاب میں کئی باب لفظ بہ لفظ سرقہ کئے ہیں، ان کی حقیقت کو آشکار کرنا ضروری ہے۔اس ’سچائی‘کے انکشاف کے دوران تمام ابواب کو لفظ بہ لفظ رقم کرنا یقیناَ ایک دشوار کن مرحلہ ہے۔ نارنگ صاحب کے اس(سچے) فعل کی وجہ سے کئی مقتدر ادارے انھیں ایوارڈ دینے کے لئے بے چین تھے ، اس لئے انھوں نے سرقے جیسا کٹھن کام بآسانی سرانجام دیا۔آج ثابت ہوگیا ہے کہ اس ایوارڈکی حیثیت ادبی خدمت کے برعکس اُردو ادب کو غلط رجحانات سے مالا مال کرنے کی وجہ سے سیاسی نوعیت کی تھی۔پاکستان کامقتدر طبقہ جس کا تعلیم سے کچھ خاص واسطہ نہیں ہے مگر خود کو’ سیکولر ‘کہلوانے کی ان کی خواہش اس قسم کے ایوارڈ دینے سے مزید نمایاں ہوجاتی ہے۔ہندوستان میں دوسرے کئی طرح کے پروپیگنڈے کے ساتھ ’سیکولر ازم‘ کے نعرے کی نوعیت بھی عملی انسانی اقدار کے برعکس سیاسی نوعیت کی ہے۔ مغرب کی طرح وہاں کے ’ادیبوں ‘اور ’دانشوروں‘ کو ادب میں بھی ہر قیمت پر گمراہ کن رجحانات کی اشاعت پر کمربستہ کیا جاتا ہے،صلے کے طور پربلند عہدوں سے بھی نوازا جاتا ہے۔ادب و آگہی کو جدو جہد سے دور، انسانی زندگی کی لاتعلقی اور خانقاہی نوعیت کی شخصیت پرستی کے فروغ، اقدار کی شناخت سے نجات، ماضی پرستی کے رجحان کے احیاء کے لئے باقاعدہ چندے عنایت کئے جاتے ہیں۔آسکروائلڈ نے جب ادب میں اخلاقی اقدار کا ذکر کرنے والوں کی سخت الفاظ میں تحقیر کی تو کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اخلاقیات سے اس کی نفرت کا محرک اس کی اپنی ہم جنس پرستانہ طبع ہے۔ خارجی عوامل سے قطع نظر آسکر وائلڈ اپنی ذات کے حصار میں مقید ہوگیا، اس طرح اس نے مقصدیت کو صرف خارجی حقیقت سے الگ کیا ، جبکہ مقصدیت کو اپنی جبلی احتیاج کے تابع کردیا۔بالکل اسی طرح نارنگ صاحب الطاف حسین حالی کے بعد سب سے بڑے نقاد بننے کی خواہش رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان میں ضرورت سے زیادہ’ شکتی‘ پیدا ہوگئی۔ اتنی ’شکتی‘ کہ تمام کتاب کو ہی اپنی ’سچائی‘ کے معیار کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے سرقے سے بھر دیا۔ کتاب کے سرورق پر یہ سوچ ، نتیجے اور حقیقی سچائی سے عاری الفاظ ملاحظہ فرمائیں،
’’پروفیسر نارنگ کی اب تک کی علمی و ادبی کتابوں میں سب سے وقیع اور فکر انگیز کام‘ ‘
ادب کے سنجیدہ قاری کے لئے نارنگ صاحب کا سرقہ یقیناََ ایک ’فکر انگیز‘ لمحہ ہے۔نارنگ صاحب کا تو ’فکر انگیزی ‘ کا معیار بالکل مختلف ہے جو ان کی قدیم ’سچائی ‘کی عکاسی کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے، لیکن سنجیدہ قاری کے لئے یہ اس اعتبار سے ’فکر انگیز‘ ہے کہ اردو ادب کو کب تک اس کی اپنی حرکت سے جنم لینے والی ’فکر انگیزی ‘ سے محروم رکھا جائے گا؟ کب تک ادب کی تفہیم اپنے تناظر کی بجائے مغربی تناظر میں کی جاتی رہے گی؟کب تک کتابوں کے سرقے کی روایت قائم رہے گی؟ اس مضمون میں کئے گئے تجزیے کے مطابق نارنگ صاحب کی ’ساختیات، پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘ کا ’فکر انگیز‘ پہلو یہی ہے کہ اگر اس کتاب میں سے سرقہ نکال لیا جائے تو کیا دس صفحات بھی ایسے رہ جائیں گے جو نارنگ صاحب کے اپنے تجزیے پر مبنی ہوں ؟تجزیے کا ذکر نارنگ صاحب کی کتاب کے سرورق پر لکھے گئے ان الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں،
’’نئی ادبی تھیوری ساختیات، پسِ ساختیات اور ردِ تشکیل کا مکمل اور مستند تعارف اور تجزیہ‘‘
اس فقرے میں بھی نارنگ صاحب کو تجزیہ نگار دکھانے کی کوشش کی گئی ہے،اب صورتحال یہاں تک ا ٓپہنچی ہے کہ سرقے اور تجزیے کا امتیاز ہی ختم کردیا گیا ہے ۔ ہمارا مطالعہ ہر لمحہ یہ ثابت کرتاہے کہ نارنگ صاحب کا کردارتجزیہ نگار کا تو دُور،مرتب کا بھی نہیں ہے۔ مرتب تسلیم کرتا ہے کہ وہ دوسروں کی تحریروں کو ترتیب دیتا ہے۔ نارنگ صاحب اس کتاب کی بنیاد پر ایک ’فکر انگیز‘ مکالمہ شروع کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ مکالمہ شروع ہو اور اس کی نوعیت بھی ’فکرانگیز‘ ہو، مگر نارنگ صاحب کی خواہش کے برعکس ہماری خواہش ’سچائی‘ کے فروغ، بددیانتی سے نجات، تقلید سے چھٹکارا، احساسِ کمتری کے خاتمے، تناظر کی اہمیت اور انہی نکات کی بنیاد پر ادب و تنقید کے فروغ کے لئے ہے۔ نارنگ صاحب کی حرکت سے تو یہی ثابت ہوا ہے کہ وہ خود سارق سے نظریہ ساز بننے کی ’معیاری جست‘ لگانے کی سعی پیہم کرتے رہے ہیں۔ نئی ’سچائی‘ چونکہ قدیم سچائی سے زیادہ قوی ہے جس میں حقائق سے پردہ اٹھانے کی صلاحیت اس قدر ہے کہ نارنگ صاحب اپنی شخصیت پرستی کی خواہش کے لازوال نہ ہونے کی وجہ سے صرف ایک ہی دہائی لطف اندوز ہوپائے ہیں۔ قدیم’ سچائی ‘کا جامد معیار تغیر پذیر سماج میں کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لینن نے درست لکھا تھا کہ’ ’مظہر ہمیشہ علم سے زیادہ بھر پور ہوتا ہے۔‘‘ کیونکہ وہ ہمہ وقت حرکت پزیر رہتا ہے،اس کی حرکت علم کے جامد معیار پر قائم قدیم چوکھٹوں کو بے دردی سے چیلنج کرتی ہے۔نارنگ صاحب کی اس حرکت کا انکشاف نئی سچائی کے ارتقاء کے لئے ضرور راستہ ہموار کرے گا۔
سرورق پر نارنگ صاحب کی ’سچائی‘ کا اظہار ان الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں ،’’بنیادی نوعیت کی ایسی کتاب جو کہیں برسوں میں لکھی جاتی ہے اور جس سے نئے ادبی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔‘ ‘ سرقے کو تسلیم کر لینے کی صورت میں بھی، افکار کو ان کے ٹھوس سماجی تناظر سے محروم کرنے کی وجہ سے اس کتاب کا کردار علم کو ترقی دینے کی بجائے گمراہی کے زیادہ قریب رہتا، تاوقتیکہ قاری خود اتنا باشعور ہوتا کہ وہ افکار کے سماجی محرکات، مغربی معاشرے کے انگنت طبقاتی تضادات،’آقاؤں ‘اور ’غلاموں ‘کی شناخت کے لئے مسلسل جدوجہد، اور زرخرید بورژوا دانشوروں کے ’آقاؤں ‘کے نظریاتی اور معاشی عوامل کو تحفظ فراہم کرنے کی تگ و دو کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔اسی وقت وہ دیکھ پاتا کہ روشن خیالی کا استرداد جس ’دوسرے ‘ کو حذف کرنے کی شکل میں ہوا ہے، اس کی اپنی حیثیت صدیوں سے ایک ایسے ’دوسرے ‘کی ہے جس کا مشرقی ’دانشوروں ‘ نے علمی غداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے احساس تک بھی چھین لیا ہے۔ اڈورنو جب یہودیوں کو تحٖفظ فراہم کرنے کے لئے میدان کارزار میں اترتا ہے تاکہ وہ مغربی فکر میں فکری سطح پر کچلنے والے عوامل کو دریافت کرے تو پاک و ہند میں ایک بار پھر تناظر کے دبنے سے صورتحال مسخ ہوجاتی ہے۔ جب یہودی قوت حاصل کرلیتا ہے تو ژاک دریدا ’سچائی‘ اور ’برائی ‘ اور’ شناخت ‘کا ہی منکرہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے جب ’شناخت‘ درکار تھی تو اڈورنو نے یہ خدمت سرانجام دی۔ جب یہودیوں کی کلی’ شناخت ‘قائم ہوگئی اورانھوں نے ’دوسروں‘ کی ’شناخت‘ تسلیم کرنے سے انکار کردیاتو ساتھ ہی نئی تھیوری ابھری جس کا نام ڈیکنسٹرکشن ہے، جو ’شناخت ‘کے لئے جدو جہد سے روکتی ہے۔گیارہ ستمبر سے پہلے جب بورژوا قمار باز دانشوروں نے اپنا مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دے دیا جسے گیارہ ستمبر کے بعد عالمی سطح پر عیسائی دہشت گردی سے پایہء تکمیل تک پہنچانا تھا تو درسگاہوں میں ڈیکنسٹرکشن کا بیوپار بھی شروع ہوگیا۔ مشرقی چرب زدہ تخیل اس کے محرکات کو سمجھے بغیر ہی تبلیغ پر کمربستہ ہوگیا۔
اردو ادب کے ان ’پرانے لکھنے والوں‘کی اکثریت کا المیہ یہ ہے کہ انھوں نے صرف لکھنا ہی سیکھا ،لکھنا کیا تھا اس کے لئے جس تنقیدی بصیرت اور’ تخلیقی تخیل‘ کی ضرورت ہوتی ہے(کانٹین مفہوم میں نہیں) اس کے فقدان کی وجہ سے ’پرانے لکھنے والوں‘ کی اکثریت مغربی علوم یا پھر ماورائیت سے سرقہ کرنے پر مجبور ہوئی ۔ دادی کی سنائی ہوئی بچپن کی ماورائی نوعیت کی کہانیاں انہی ماوارئی خطوط پر ان کی نام نہاد’ تخلیقی‘ اور ’تنقیدی‘ تحریروں کے موضوعات کی شکل میں ظاہر ہوئیں،مگر تجزیے اور تنقید کے لئے جس وسیع مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے یہ ’پرانے لکھنے والے‘ مکمل طور پر نابلد رہے۔ آج ان کے پاس یہ استحقاق تو موجود ہے کہ یہ ’پرانے لکھنے والے‘ ہیں،لیکن یہ لکھ کیا اور کس کے لئے رہے ہیں؟ اسے کوئی پڑھ بھی رہا ہے یا نہیں؟ ان عوامل کے بھر پور تجزیے کی ضرورت ہے، یقیناََ ان تجزیات کے لئے نہ ہی ژاک دریدا سے کوئی مدد لی جاسکتی ہے اور نہ ہی بارتھ وغیرہ سے۔ اس کے لئے اُردو ادب و تنقید کا اپنے مخصوص پس منظر میں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔قطع نظر خیال پرستانہ یا مادی موقف کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کہیں بارتھ وغیرہ کو اُردو ادب سے مخاطب ہونا پڑتا تو وہ کبھی بھی اُردو معاشرے کو نظر انداز نہ کرتے۔وہ اُردو کو اس کے ارتقاء اور اس کی اپنی حرکت میں دیکھتے۔وہ غیر ملکی ادبی کلیوں کو ریاضی کے پہاڑوں کی طرح رٹا نہ لگاتے۔ ان کو اس امر کا احساس ہوتا کہ ایک معاشرے کے جمالیاتی تقاضے کسی دوسرے معاشرے میں ممکن ہے غیر جمالیات میں تبدیل ہوجائیں۔ کیا یہ کہنے میں کوئی مبالغہ ہے کہ نام نہاد مابعد جدیدیت کی آواز فرانس سے بلند ہوئی لیکن جرمنی میں ہیبرماس وغیرہ جرمن فلسفیانہ روایت کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں؟ کیا اڈورنو اپنی برادری کی تمام تر ضرورتوں کے باوجود جرمن روایت کے دو عظیم فلسفیوں (کانٹ، ہیگل)کی روایت پر کاربند نہیں ہے؟کیا دریدا خود کو ہیگلیائی نہیں کہلاتا(دیکھیے، پوزیشنز) مگر فرانسیسی معاشرے اور یہودی روایت کے حصار کو توڑنے میں بھی ناکام رہتا ہے۔ کیا فرانسیسی معاشرے کی مابعد جدیدیت کا اچھائی اور برائی کا عدم امتیاز ان کی تھیوری میں نہیں جھلکتا؟صارفی ثقافت کا تعلق محض حسیاتی مسرت کے ساتھ ہے، تقاضا جس کا صرف اور صرف ’ویلیو ججمنٹ‘ سے نجات ہے۔ کافی حد تک یہ کہا جاسکتا ہے کہ مابعدجدیدیت فرانسیسی یا امریکی معاشرے کی معروضی حالت ہے۔ کیا پاکستان اس سطح پر ہے کہ اچھائی اور برائی کے معیار سے دست بردار ہوجائے؟ اگر نہیں تو ادب و تنقید میں سماجی ’وحدت‘کی بجائے Fragmentationکی تبلیغ کس لئے؟کیا گزشتہ دنوں ہم نے پاکستان میں صرف ایک آمر کی وجہ سے سماج کے ہر شعبے(صحافت، سول سوسائٹی، عدلیہ،وغیرہ) کی شکست و ریخت ’وحدت‘ کے تصور کے تحت ہوتے ہوئے نہیں دیکھی؟مغرب میں بھی اس عمل کے گھناؤنے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں، جو اس عہد کے ادب میں جھلکتے ہیں۔ تاہم ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ’مائیکرو سیاست‘ کا تصور ابھرتاہے، مگر اگر کہیں سماجی تضادات شدت اختیار کرگئے تو کیا ’میکرو سیاست‘ حاوی نہیں ہوجائے گی؟کیا ان حالات میں ادب و تنقید سماجی تقاضوں سے انحراف کرسکیں گے؟اگر ایسا کبھی ہوا ہے تو اس کی مثال بھی تلاش کرنی چاہیے ۔مغربی ادبی تاریخ کا ہر دور سماج کے ساتھ ایک اٹوٹ رشتے میں بندھا رہا ہے، یا تو مثالی حوالوں سے یا پھر مادی نقطہء نظر کے مطابق۔ بے شک اٹھارویں یا انیسویں صدی کی رومانویت ہو یا پھر بیسویں صدی کی جدیدیت۔نارنگ صاحب جیسے نقاد جو سرقے پر گزارہ کرتے ہیں، جو تفکر سے عاری ہیں، کسی کی کاوش کو اپنے نام سے شائع کراتے ہیں۔دوسرے معاشروں کے داخلی تضادات سے ظہور ہونے والے نظریات کو سمگل کرتے ہیں،جوحوالہ جات کو غلط پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔تنقید کے بارے میں حقیقی مسائل سے ان نقادوں کے انحراف کی وجہ ہی سے آج اُردو شعر بازی کا غالب حصہ جنس کے حصار میں ہے ،مکھی پر مکھی ماری جارہی ہے۔ مغرب میں ناولوں یا شاعری میں رجحانات پہلے نمودار ہوئے، ان کو وسیع تناظر میں نظریائے جانے کی کوششوں سے تحاریک نے جنم لیا۔ہمارے ہاں تنقید پہلے ٹپک پڑتی ہے، اس کے بعد متن کا بیڑا غرق کر کے اس میں سے مابعد جدیدیت کو تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آج تک نثری نظم کو رجعت پسندوں کا ایک گروہ شاعری ماننے کو تیار نہیں ہے،مگر تبلیغ مابعد جدیدیت کی ہورہی ہے۔ مغرب میں عروض و بحور کے مباحث ختم ہوئے ایک عرصہ گزرگیا،اگر شاعری یا ناول میں پرانی تکنیک استعمال کرلی جائے،تو مابعد جدیدیت کو فوراَ چیلنج کردیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں لاعلمی کا تقاضا یہ ہے کہ تبلیغ مابعد جدیدیت کی ہورہی ہے، مگر شاعری میں اگر کہیں ’الف‘ اور’ بے‘ کا فرق پڑجائے تو بے وزن کے فتوے صادر کردیے جاتے ہیں۔ ادب ’روحانی پولیس ‘کے پیدا کردہ خوف کا نتیجہ ہے، گو کہ آج خوف ختم ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں یہ خوف ان ’پرانوں‘ کی سرشت کا حصہ بن گیا ہے، جس سے صرف خوف کا احساس ہی ختم ہوسکا ہے۔حقیقت میں یہ خاتمہ واہمے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ان پرانوں کی انتہائی خستہ ادبی حالت کا تقابل برٹرینڈ رسل کی اس وضاحت سے کیا جاسکتا ہے کہ برطانیہ میں تعلیم کے حوالے سے عوام کی صورتحال یہ تھی کہ حکمران طبقہ لوگوں کو پڑھنا تو سکھا دیتا تھا، مگر پڑھنے کے لئے ان کے ہاتھوں میں اخبارات تھما دیے جاتے تھے۔ان اخبارات میں حکمرانوں کے حق میں پروپیگنڈے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا تھا۔عوام اسی کو اخبارات میں چھپا ہوا تصور کر کے سچ تسلیم کر لیتے تھے۔ اُردو میں لکھنے والے شعر بازوں اور ادیبوں کی صورتحال بھی، کم از کم ’پرانوں‘ کے ذکر کے حوالوں سے مختلف نہیں ہے۔ان کو لکھنے کے لئے زیادہ تر موضوعات ’روحانی پولیس‘ نے ہی عطا کئے ہیں۔ نارنگ صاحب کے حوالے سے جہاں تک تنقید کاتعلق ہے، اس میں صرف اور صرف سرقہ ہی اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔مقصود اس بحث سے یہ واضح کرنا نہیں کہ مغربی خطوط پر استوار ہوا جائے بلکہ اپنے ہی خطوط پر استوار ہونا چاہیے،موازنہ اور تقابل سماج کی کلی وحدت میں ہونا چاہیے۔
اگرلکھنے کے حوالے سے ’اچھائی‘اور ’برائی‘ کے ’پرانوں‘کے معیار کی جانچ پڑتال نئے لکھنے والوں نے نہ کی توان ’پرانے لکھنے والوں‘ کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ’اچھائی ‘ اور ’برائی ‘ کایہی عدم امتیاز نارنگ صاحب کو بھی سرقے سے تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ان ’پرانے لکھنے والوں‘ نے قاری کو احمق بنانے کی کوشش ’جلدی میں‘ نہیں بلکہ شعوری طور پر کی ہے۔اس اعتبار سے ’پرانوں‘ کی’ لکھنے‘ کی روایت میں سرقے کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں ہے۔بے شک یہ سرقہ مغربی علوم سے کیا گیا ہے یا پھر نام نہاد روحانیت کے یرغمال بننے کی شکل میں سامنے آیا ہے۔
نارنگ صاحب کی کتاب کے سرورق پر لکھے الفاظ نارنگ صاحب کو حالی کے بعد اُردو دنیا کا سب سے بڑا نقاد اور نظریہ ساز ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔کیا اس سے یہ مطلب اخذ کیا جائے کہ اُردو ادب میں نقاد بننے کے لئے سارق ہونا لازمی ہے؟ایک سو سال پہلے جس حرکت کی بنا ء پر حالی بطورِ نقاد سامنے آئے اس سے کہیں زیادہ سرقے کی گھناؤنی حرکت نارنگ صاحب کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔اس سے قبل کہ نارنگ صاحب کی جانب لوٹیں، پہلے ان کے مزید سرقے کی جانب رخ موڑتے ہیں۔ پروفیسررامن سیلڈن لکھتے ہیں،
There is another stand in poststructuralist thought which believes that the world is more than a galaxy of text, and that some theories of textuality ignore the fact that the discourse is involved in power. They reduce political and economic forces, and ideological and social control, to aspects of signifying processes. When a Hitler or a Stalin seems to dictate to an entire nation by wielding the power of discourse, it is absurd to treat the effect as simply occurring within discourse. It is evident that real power is exercised through discourse, and that this power has real effects……. The father of this line of thought is the German philosopher Nietzsche, who said that people first decide what they want and then fit the facts to their aim: ‘Ultimately man finds in things nothing but what he himself has imported into them.’ All knowledge is an expression of the ‘will to power’.This means that we can not speak of any absolute truths or of objective knowledge…. Foucault regards discourse as a central human activity, but not as a universal, ‘general text’, a vast sea of signification. He is interested in the historical dimention of discursive change. What it is possible to say will change from one era to another. In science a theory is not recognised in its own period if it deos not conform to the power consensus of the institutions and official organs of science. Mendel’s genetic theories fell on deaf ears in the 1860s; they were promulgated in a ‘void’ and had to wait until the twentieth century for acceptance. It is not enough to speak the truth; one must be ‘in the truth‘.
(Selden, Raman. Contemporary Literary Theory,3rd ed, Britain,1993,P158-159)
گوپی چند نارنگ کے سرقے کی جانب توجہ مبذول کرتے ہیں،
’’پس ساختیات میں ایک فکری دھارا اور بھی ہے جو اصرار کرتا ہے کہ ’متنیت‘(TEXTUALITY) ہی سب کچھ نہیں، بلکہ دنیا میں طاقت کے کھیل میں بجائے متن کے ’ڈسکورس‘ (مدلل مبرہن بیان) شامل ہے۔ مثل فوکو(MICHEL FOUCAULT) کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ’متنیت‘ کے نظریے سیاسی اور سماجی طاقتوں اور آئیڈیالوجی کو ’معنی خیزی‘ کے وسائل قرار دے کر ان کی حیثیت کو گھٹا دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی ہٹلر، موسولینی،یا اسٹالن ایک پوری قوم کو اپنے حکم پر چلاتا ہے، تو ایسا ’ڈسکورس‘ کی طاقت کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس طاقت کے اثرات کو ’متن‘ تک محدود رکھنا مہمل بات ہے۔ فوکو کہتا ہے کہ اصل طاقت کا استعمال ’ڈسکورس‘ کے ذریعے ہوتا ہے، اور اس طاقت کے ٹھوس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔۔۔۔۔نٹشے نے کہا تھا کہ’لوگ پہلے طے کرتے ہیں کہ انھیں کیا چاہیے،اور پھر حقائق کو اپنے مقصد کے مطابق ڈھال لیتے ہیں‘۔نتیجتاَ انسان کو اشیاء میں وہی کچھ نظر آتا ہے جو ان میں خود اس نے داخل کیا ہے۔ فوکو اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ تمام علم طاقت کی خواہش ( WILL TO POWER) کا مظہر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم مطلق صداقت یا معروضی علم کی بات نہیں کرسکتے۔ لوگ کسی فلسفے یا سائنسی نظریے کو صرف اسی وقت تسلیم کرتے ہیں ، جب وہ اپنے عہد کے سیاسی اور دانشورانہ متقدرات یا آئیڈیالوجی یا سچائی سے لگا کھائے یا وقت کے رائج پیمانوں پر پورا اُترے۔فوکو’ڈسکورس‘ کو ذہنِ انسانی کی مرکزی سرگرمی قرار دیتا ہے، ایک عام آفاقی ’متن‘ کے طور پر نہیں بلکہ ’معنی خیزی‘ کے ایک وسیع سمندر کے طور پر۔وہ تبدیلی کی تاریخی جہت میں دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جو کچھ کہنا ممکن ہے وہ ایک عہد سے دوسرے عہد میں بدل جاتا ہے۔ سائنس میں بھی کوئی نظریہ اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جاتا، جب تک کہ وہ سائنس کے مقتدر اداروں اور ان کے سرکاری ترجمانوں کے طاقتی توافق سے مطابقت پیدا نہ کر لے۔فو کو کہتا ہے کہ مینڈل (MENDEL) کے علم توالّد کے نظریے کی ۱۸۶۰ء کے زمانے میں کوئی پذیرائی نہ ہوئی تھی گویا یہ خیالات خلاء میں پیش ہوئے تھے، اور ان کی اپنی قبولیت کے لئے بیسویں صدی کا انتظار کرنا پڑا۔ اس کا مشہور قول ہے کہ’صرف سچ بولنا کافی نہیں ہے سچائی کے’ اندر ‘ہونا بھی ضروری ہے‘(نارنگ،ص، ۱۹۴۔ ۱۹۶)۔
اس اقتباس میں جگہ جگہ نارنگ صاحب کے واوین کے استعمال کو دیکھا جاسکتا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف یہی تاثر قائم کررہے ہیں کہ انہوں نے اپنے خود ساختہ تجزیے کے دوران دوسروں کی اصطلاحات کا بخوبی خیال رکھا ہے ،اصول یہ تھا کہ نہ صرف یہ اقتباس بلکہ پروفیسر سیلڈن کے فوکو پر لکھے گئے باب کو ، جس کو باتمام و کمال نارنگ صاحب نے سرقہ کیا ہے،واوین میں لکھتے۔انہوں نے ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ہمارا مطالعہ یہ حتمی طور پر ثابت کرتا ہے کہ نارنگ صاحب کی کتاب میں فوکو پر لکھا گیا ہر لفظ پروفیسر سیلڈن کی کتاب کا ترجمہ ہے۔اس اقباس کے بعد نارنگ صاحب مندرجہ بالا واوین میں لکھے گئے اقتباس کو انگریزی میں واوین میں ہی لکھتے ہیں،
‘IT IS NOT ENOUGH TO SPEAK THE TRUTH, ONE MUST BE IN THE TRUTH‘(نارنگ،ص،۱۹۶)۔اس اقتباس کو انگریزی میں بیان کرنے سے نارنگ صاحب کی نیت عیاں ہورہی ہے کہ وہ صرف اسی اقتباس کو ہی مستعار سمجھتے ہیں، لیکن اس انگریزی اقتباس کے بعد صفحہ نمبر کا کوئی حوالہ نہیں ہے، جس سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ وہ اصل مآخذ کو چھپانا چاہتے تھے۔جہاں تک اقتباس کا تعلق ہے جس کو پروفیسر سیلڈن نے بھی فوکو سے جوڑا ہے، دراصل یہ مارکسی جدلیات کا بنیادی پہلو ہے جسے فوکو مارکس ہی سے مستعار لیتا ہے۔اگر نارنگ صاحب اس کے بارے میں کچھ جانتے ہوتے تو اس ’سچائی‘کا انکشاف بھی کرسکتے تھے۔جیسا کہ ہم نے واضح کیا ہے کہ نارنگ صاحب نے اس کتاب سے بیشتر باب سرقہ کئے ہیں، اس دعوے کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے پروفیسر سیلڈن کے جوناتھن کلر پر لکھے گئے باب سے اقتباس پیش کرتے ہیں۔سیلڈن لکھتے ہیں،
Jonathan Culler (see also chapter 5) has argued that a theory of reading has to uncover the interpretative operations used by readers. We all know that different readers produce different interpretations. While this has led some theorists to despair of developing a theory of reading at all, Culler argues in The Pursuit of Signs (1981) that it is this variety of interpretation which theory has to explain. While readers may differ about meaning, they may well follow the same set of interpretative conventions…. (Selden, P62).
نارنگ صاحب کا کارنامہ ملاحظہ فرمائیں،
’’جونتھن کلر اس بات پر زور دیتا ہے کہ قراَت کے نظریے کے لئے ضروری ہے کہ وہ افہام و تفہیم اور تحسین قاری کو ضابطہ بند کر سکے جو بالعموم قارئین قراَت کے دوران استعمال کرتے ہیں۔اس بات کو نظر میں رکھنا چاہیے کہ ایک ہی متن سے مختلف قاری مختلف مفاہیم برآمد کرتے ہیں۔ اگرچہ تعبیر و تفہیم کا یہی تنوع دراصل قاری اساس تنقید کے بہت سے نظریہ سازوں کے لئے دقّت کا باعث بنتا ہے، لیکن کلر بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نظریے کا چیلنج یہی ہے کہ مختلف قرأتوں کے امکانات اور مفاہیم کے تنوع کو ضابطہ بند کیا جائے ، اس لئے قارئین میں معنی کا اختلاف تو ہوسکتا ہے لیکن تفہیم و تعبیر کے لئے قارئین جو پیرائے اور طور طریقے استعمال کرتے ہیں، ان میں کچھ تو ملتے جلتے ہونگے، اُن کو دریافت کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے‘‘(نارنگ،ص،۳۱۸۔۳۱۹)۔
سیلڈن کے جولیا کرسٹیوا پر لکھے گئے باب میں سے اس اقتباس کو ملاحظہ فرمائیں،
The word ‘revolution’ in Kristeva’s title is not simply metaphoric. The possibility of radical social change is, in her view, bound up with the disruption of authoritarian discourses. Poetic language introduces the subversive openness of the semiotic ‘across’ society’s ‘closed’ symbolic order: ‘What the theory of the unconscious seeks, poetic language practices, within and against the social order.’ Sometimes she considers that the modernist poetry actually prefigures a social revolution which in the distant future will come about when society has evolved a more conplex form. However, at other times she fears that bourgeois ideology will simply recuperate this poetic revolution by treating it as a safety valve for the repressed impulses it denies in society. Kristeva’s view of the revolutionary potential of women writers in society is just as ambivalent…. (Selden, P142).
نارنگ صاحب کو دیکھیں،
’’کرسٹیوا کا انقلاب کا تصور یہ ہے کہ سماجی ریڈیکل تبدیلی مقتدر ڈسکورس میں تخریب اور خلل اندازی کے عمل پر منحصر ہے۔ شعری زبان سماج کے ضابطہ بند اور مقید علامتی نظام میں نشانیاتی تخریب کاری کی آزادہ روی ( کھلی ڈھلی تنقید) کو راہ دیتی ہے۔لاشعور جو چاہتا ہے ، شعری زبان اس کو سماج کے اندر اور سماج کے خلاف برت سکنے پر قادر ہے۔کرسٹیوا کو یقین ہے کہ سماجی نظام جب زیادہ ضابطہ بند، زیادہ پیچیدہ ہوجائے گا تو نئی شعری زبان کے ذریعے انقلاب لایا جاسکے گا،لیکن اس کو یہ بھی خدشہ ہے کہ بورژوا آئیڈیالوجی ہر نئی چیز کو اپنا کر اس کا ڈنک نکال دیتی ہے ، چناچہ ممکن ہے کہ شعری انقلاب کو بھی بورژوا آئیڈیالوجی ایک سیفٹی والو کے طور پر استعمال کرے، ان دبے ہوئے ہیجانات کے اخراج کے لئے جن کی سماج میں بالعموم اجازت نہیں ہے‘‘(نارنگ،ص،۲۰۲)۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ نارنگ صاحب کی ساری کتاب ترجمہ ہے ،لیکن انہوں نے چونکہ خود کو مترجم نہیں کہا اس لئے ہمیں ان کو سارق کہنا پڑ رہا ہے۔ سیلڈن کی تمام کتاب چند ایک اقتباسات چھوڑ کر نارنگ صاحب نے اپنے نام سے شائع کرائی ہے۔ نارنگ صاحب کے لئے بیٹھ کر سرقہ لکھنا اس لئے آسان ہوگیا کہ ایوارڈ ان کا منتظر تھا۔ کسی بھی دوسرے شخص کے لئے یہ کام آسان نہیں ہے کہ وہ قاری کو یقین دہانی کرانے کے لئے اپنے وقت کا زیاں کرتا رہے۔اس لئے یہاں پر سیلڈن کی کتاب سے اقتباسات کے مزید حوالے دینے کی بجائے ہم صرف صفحات کی تفصیل دینے پر ہی اکتفا کریں گے ۔ سنجیدہ قاری اصل مآخذات تک ضرور رسائی حاصل کریں گے۔
رامن سیلڈن کی کتاب کے صفحات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گوپی چند نارنگ کی کتاب کے صفحات
2 7- 42۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 7 9-106
4 9- 70۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔28 8- 329
14 9- 158 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔23 4- 240
8 6- 103 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔24 3- 267
ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ سیلڈن کی کتاب سے دئیے گئے تمام صفحات گوپی چند نارنگ نے اپنے نام سے شائع کرائے ہیں۔حیرت زدہ کرنے والا امر یہ ہے کہ نارنگ صاحب نے اس کتاب میں شاید ہی چند الفاظ خود تحریر کئے ہوں۔ راقم کی حیرت میں اس لئے بھی اضافہ ہوا کہ نارنگ صاحب کو کتاب پر بطورِ مصنف اپنا نام لکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا ان کو خود بھی یہ خبر نہ ہو سکی کہ آج نہیں تو کل یہ راز آشکار ہوجائے گا۔
سیلڈن کی کتاب سے نارنگ صاحب کے سرقے کے حقائق بمعہ تمام تر تفصیل پیش کرنے کے اب ایک دوسری کتاب کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ اس کتاب سے نارنگ صاحب نے رولاں بارتھ پر لکھے گئے مضمون کا سرقہ فرمایا ہے۔ یاد رہے کہ اسی مضمون کے بعض حصے جوناتھن کلر کی Structuralist Poeticsسے چرائے گئے ہیں۔لیکن یہاں پر جو اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں وہ John Sturrockکی کتاب سے لئے گئے ہیں ۔ سٹرک نے اس کتاب میں پانچ مابعد جدید مفکروں پر لکھے گئے مضامین کو مرتب کیا ہے ۔جس مضمون کا نارنگ صاحب نے سرقہ کیا ہے وہ سٹرک کا اپنا تحریر کردہ ہے۔سٹرک نے مصنفانہ سچائی کا لحاظ کیا اور تمام مضامین کو ان کے مصنفوں کے نام سے شائع کیا۔ نارنگ صاحب نے دوسری زبان کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے بارتھ پر لکھے ہوئے مضمون کو اپنے نام کرلیا۔آئیے دونوں کا موازنہ پیش کرتے ہیں۔ جان سٹرک لکھتے ہیں،
ؑExistentialism, on the contrary, preaches the total freedom of the individual constantly to change….. Barthes, like Sartre, pits therefore the fluidity, the anarchy, even, of existence against the rigor mortis of essentialism; not least because, again following Sartre, he sees essentialism as the ideology which sustains that tradional bugbear of all French intellectuals, the bourgeoisie… he writes at the conclusion of his most feroriously anti-bourgeois book, the devastating Mythologies (1957………
In one way, Barthes goes beyond Sartre in his abhorrence of essentialism. Sartre, as so far as one can see, allows the human person a certain integrity or unity; but Barthes professes a philosophy of disintegration, whereby the presumed unity of any individual is dissolved into a plurality or discontinuous. This biography is especially offensive to him as a literary form because it represents a counterfeit integration of its individual. It is a false memorial to a living person…….
(Sturrock, John. Structuralism and Since. London, Oxford University Press,1979, P 53)
نارنگ صاحب کی طرف چلتے ہیں:
’’ لازمیت‘‘(ESSANTIALISM) کے مقابلے میں وجودیت نے انسان کی اس بنیادی آزادی پر زور دیا تھا جو ہر تبدیلی کی بنیاد ہے۔ بارتھ بھی سارتر کی طرح لازمیت اور جبریت کے خلاف ہر طرح کی بغاوت بلکہ نراجیت (انارکی) تک کا قائل تھا۔ سارتر کی طرح وہ بھی لازمیت کو بورژوازی کا نشان سمجھتا تھا، اور پوری قوت سے اس کو رد کرتا تھا جیسا کہ اس کی ایک ابتدائی بحث انگیز تصنیف MYTHOLOGIES (1957) سے ظاہر ہے۔
لازمیت اور بورژوازی کی مخالفت میں بارتھ ایک اعتبار سے سارتر سے بھی آگے نکل گیا، کیونکہ سارتر وحدت اور سا لمیت (INTEGRITY)کا منکر نہیں تھا،لیکن بارتھ اپنی دھن میں بورژوازی سا لمیت کے خلاف شکست و ریخت کے فلسفے کی حمایت تک سے گریز نہیں کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا انسان کی وحدت ایک طرح کا واہمہ ہے، اگر غور سے دیکھا جائے تو ہم میں سے ہر ایک دراصل ’کئی‘ ہے۔ وہ وحدت کا سرے سے قائل ہی نہیں تھا، خدا کا بھی نہیں، ہر وہ چیز جو غیر مسلسل اور غیر واحد ہے، بارتھ اس کی حمایت کرتا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ سوانح اسی لئے ادب نہیں کہ وحدت پیدا کرنے کی کوشش میں جعل کا نمونہ پیش کرتی ہے اور غیر اصل ہے۔ ‘‘(نارنگ، ص،۱۶۲۔۱۶۱)۔
جان سٹرک کے اسی مضمون میں سے ایک اور اقتباس پر غور کرتے ہیں،
his arch enemy is the doxa, the prevailing view of things, which very often prevails to the extent that people are unaware it is only one of several possible alternative views. Barthes may not be able to destroy the doxa but he can lesson its authority by localizing it, by subjugating it to a paradox of his own……
Barthes is only fully to be appreciated, then, as some one who set out to disrupt as profoundly as he could the orthodox views of literature he found in France………..The grievances against contemporary criticism with which Barthes began were deeply influential on what he came to write later. There were four main ones. First, he objected that literary criticism was predominantly ahistorical, working as it did on the assumption that the moral and the formal values of the texts it studied were timeless…..Barthes was never a member of the Communist party – let us say neo-Marxist objection. He dismissed existing histories of French literature as meaningless choronicles of names and dates… (Sturrock, P, 54-55)
اسی صفحے پر نارنگ صاحب نے قاری کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے لئے پیراگراف کی تفصیل کو بڑی مہارت سے تبدیل کیا ہے،اگر قاری بھی سمجھ بوجھ کا حامل ہو تو یہ سرقہ بھی اس کی نظر سے اوجھل نہیں رہ سکتا۔نارنگ صاحب کے اقتباس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
’’DOXAیعنی اشیاء و صورتحال کا تسلیم شدہ تصور جسے اکثریت قبول کرتی ہو، اُسے بارتھ اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا تھا۔ وہ DOXAکو تباہ کر سکا یا نہیں، لیکن اس نے اسکا احساس دلا دیا کہ حقیقت کا وہ تصور جسے بالعموم لوگ صحیح سمجھتے ہیں، حقیقت کے ممکنہ تصورات میں سے محض ایک ہوتا ہے۔ ۔۔۔چنانچہ ادب کے مقلدانہ تصور پر بھی رولاں بارتھ نے کاری ضرب لگائی۔ مدرسانہ تنقید اور مکتبی تنقید پر اس نے بار بار حملے کیے۔اُسے ادبی نظریات پر چار خاص اعتراض تھے:اوّل یہ کہ ادبی تنقید میں غالب رجحان غیر تاریخیت کا ہے، کیونکہ عام خیال ہے کہ متن کی ہئیتی اور اخلاقی اقدار دائمی ہیں۔بارتھ کبھی کمیونسٹ نہیں رہا لیکن ادب کی تاریخیت کے بارے میں اس کا نظریہ مارکسی نہ سہی تو نو مارکسی ضرور ہے۔ اس نے اپنے عہد کی ادبی تاریخوں کو ناموں اور سنین کا بے جان پُشتارہ قرار دیا‘‘(نارنگ، ص، ۱۶۳۔۱۶۲)۔
سٹرک نے بارتھ کے حوالے سے دوسرا اعتراض ان الفاظ میں اٹھایا ہے:
Barthes’s second complaints against academic criticism was that it was psychologically naive and deterministic….when critics chose to explain textual data by biographical ones, or the work by the life….The elements of a literary work – and this is an absolutely central point in literary structuralism – must be understood in the first instance in their relationship to other elements of that work….. (Sturrock, P,56)
نارنگ صاحب نے سٹرک کے بارتھ کے حوالے سے دوسرے اعتراض پر ان الفاظ میں قبضہ جمانے کی کوشش کی ہے:
’’ مکتبی یک سطحی تنقید پر اس کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ مکتبی تنقید کا نفسیات کا شعور مجرمانہ حد تک معصومانہ ہے۔ سوانح معلومات کی مدد سے متن کو سمجھنا اس کے نزدیک ناقابلِ معافی جرم تھا۔۔۔اس کے نزدیک ادبی متن کے عناصر کو صرف ان داخلی رشتوں کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے جو وہ متن کے دوسرے عناصر سے رکھتے ہیں۔ یہ نکتہ ساختیاتی فکر کا بنیادی پتھر ہے‘‘ (نارنگ، ص، ۱۶۳)۔
سٹرک کے بارتھ کے حوالے سے مکتبی تنقید پر تیسرا اعتراض سٹرک کے الفاظ میں کچھ یوں ہے:
They could see only one meaning in the texts they concerned themselves with, and that one meaning was usually a very literal one. This they subsequently held the meaning of the text, and that to search further for supplementary or alternative meanings was futile. They were men of narrow and autocratic temper who fancied they were being scientific when they were merely being culpably dogmatic. Their minds were closed to the ambiguities of language, to the co-existence of various meaning within a single form of words,……. (Sturrock, P 57-58)
نارنگ نے سٹرک کے بیان کردہ بارتھ کے تیسرے اعتراض کو ان الفاظ میں اپنے سرقے کی بھینٹ چڑھایا ہے:
’’مکتبی تنقید متن کے صرف متعینہ طے شدہ معنی کو صحیح سمجھتی ہے اور نہایت ڈھٹائی سے اس پر اصرار کرتی ہے۔ متعینہ معنی تو صرف لغوی معنی ہوسکتے ہیں ، اور ادب میں اکثر و بیشتر بے ہودگی کی حد تک غلط ہوتے ہیں۔ مکتبی نقادوں کے بارے میں بارتھ نے لکھا ہے کہ اُن کا ذہن چھوٹا اور نظر محدود ہوتی ہے،وہ ادعایت کا شکار ہیں اور ادب میں اکثریت کے علمبردار ہیں۔ ۔۔ادب فی نفسہ ابہام سے لبریز ہے اور ایک ہی فارم میں کئی معنی ساتھ ساتھ عمل آراء ہوسکتے ہیں‘‘ (نارنگ، ص، ۱۶۳)۔
یہاں پر ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ چوتھے ’اعتراض‘ کی سچائی جاننے کے لئے قاری جان سٹرک کے صفحہ نمبر ۵۹۔۵۸اور نارنگ صاحب کی کتاب کے صفحہ نمبر ۱۶۴کا خود مطالعہ کرے گا۔ ہمارا یہاں نارنگ صاحب کے مسروقہ’ اعتراضات‘ پر یہ اعتراض ہے کہ وہ اس حد تک سرقے کے مرتکب ہوکر اُردو ادب میں پہلے سے قائم روایت کو کیوں طول دینا چاہتے تھے؟ قاری ان اقتباسات کے بعد یہ قطعاََ نتیجہ اخذ نہ کرے کہ نارنگ صاحب کے بارتھ پر لکھے گئے مضمون کے حوالے سے سرقے کی حد صرف یہاں تک ہی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ نارنگ صاحب نے سٹرک کے مضمون میں بارتھ کی تمام کتابوں کے مختصر تجزیے کو بھی لفظ بہ لفظ سرقہ کیا ہے۔ جان سٹرک کا یہ مضمون ستائیس صفحات پر مشتمل ہے ۔ سٹرک کا پیش کردہ تجزیہ بھی بھر پور نوعیت کا ہے۔نارنگ صاحب نے چونکہ کسی بھی اصل مآخذ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اس لئے ان کی علمی قابلیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔بہرحال ان کے علاوہ کچھ مزید کتب پر غور کرتے ہیں۔کیتھرین بیلسی لکھتی ہے:
From this post-Saussurean perspective it is clear that the theory of literature as expressive realism is no longer tenable. The claim that a literary form reflects the world is simply tautological. If by ‘the word’ we understand the world we experience, the world differentiated by language, then the claim that realism reflects the world means that realism reflects the world constructed in language. This is a tautology…………….
(Belsey, Catherine. Critical Practice, London, Routledge, 2003, P,43)
نارنگ صاحب یوں سرقہ فرماتے ہیں:
’’اس سوسیئری تناظر سے ظاہر ہے کہ ادب کا وہ نظریہ جسے حقیقت نگاری کہتے ہیں ،قابلِ مدافعت نہیں ہے۔ یہ دعوی ٰکہ ادبی فارم حقیقت کا عکس پیش کرتی ہے ،صرف تکرار بالمعنی، (Tautological) ہے۔اگر حقیقت سے ہماری مراد وہ حقیقت ہے جس کا ہم تجربہ کرتے ہیں،یعنی جو تفریقی طور پر زبان کے ذریعے قائم ہوتی ہے تو یہ دعوی کہ ’حقیقت نگاری حقیقت کا عکس پیش کرتی ہے ، دراصل یہ ہوا کہ ،حقیقت نگاری اس دنیا کا عکس پیش کرتی ہے جو زبان کے ذریعے قائم ہوتی ہے‘(Constructed in Language) ظاہر ہے یہ’ تکرار بالمعنی‘ (Tautology) کے سوا کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔(نارنگ ،ص،۷۸)
گوپی چند نارنگ نے جو اقتباس سرقہ کیا ہے اس میں سے بیلسی کے لفظ’ پوسٹ ‘کو حذف کردیاہے جس سے بیلسی کا قائم کردہ معنی متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے صفحہ نمبر کا حوالہ بھی کہیں نہیں دیا گیا۔ دوسرا انھوں نے مندرجہ بالا اقتباس میں ” تکرار بالمعنی” کو واوین میں لکھ کر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ خاص اصطلاح کسی دوسرے مفکرسے ماخوذہے اور یہ عظیم کام نارنگ صاحب خود سرانجام دے رہے ہیں، ہمارا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ نارنگ صاحب نے غلط تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ سارے کا سارا اقتباس ،جسے یہاں مختصراَ پیش کیا گیا ہے ،بیلسی کی کتاب سے ہو بہوماخوذہے ۔ مندرجہ بالا تجزیہ کیتھرین بیلسی کا ہے ،گوپی چند نارنگ کا نہیں ہے ۔مغرب میں بیلسی کی یہ کتاب ایک تعارفی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے ،جو برطانیہ میں بی اے کے طلبہ کے لیے تنقیدی نظریات کا مختصر تعارف پیش کرتی ہے ۔ یہاں قارئین کے لیے اس امر کا ادراک بھی ضروری ہے کہ گوپی چند نارنگ نے محض ایک ہی اقتباس کو نقل نہیں کیا بلکہ انھوں نے بیلسی کی اسی کتاب سے کئی اقتباسات لفظ بہ لفظ ترجمہ کر کے اپنے نام سے شائع کرائے ہیں ۔اب بیلسی کی طرف رجوع کرتے ہیں:
Saussure’s argument depends on the different division of the chain of meaning in different languages. ‘ If words stood for pre-existing concepts’ they would all have exact equivalents in meaning from one language to the next; but this is not true’ (Saussure, 1974: 116). The truth is that different languages divide or articulate the world in different worlds. Saussure gives a number of examples. For instance, where French has the single mouton, English differentiates between mutton, which we eat, and sheep………….(Belsey, 36-37).
نارنگ صاحب کے کارنامے کی طرف دیکھیں:
’’ سیو سئر کی دلیل لفظوں کی ان کڑیوں پر مبنی ہے جو ایک تصور کے لیے مختلف زبانوں میں پائے جاتے ہیں ۔’اگرلفظ ما قبل موجود تصورات کے لیے قائم ‘ ہوتے تو ایک زبان سے دوسری زبان میں ان کے معنی متبادل پائے جاتے ،لیکن ایسا نہیں ہے ،(کورس ص،۱۱۶) حقیقت یہ ہے کہ مختلف زبانیں دنیا کی چیزوں کو مختلف طور پر دیکھتی اور ظاہر کرتی ہیں ۔سیوسئر نے کئی مثالیں دی ہیں ۔فرانسیسی میں ایک لفظ ہےMoutonاس کے برعکس انگریزی اس کے متبادل Muttonاور Sheepمیں فرق کرتی ہے‘ (گوپی چند نارنگ ،ص،۶۸)۔
طوالت کے باعث اس اقتباس کو بھی مختصر رکھا گیا ہے ۔اس اقتباس میں انتہائی قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ بیلسی نے اپنے تجزیے میں سیوسئر کی کتاب سے لیے گئے حوالے کو بشمول صفحہ نمبر پیش کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیلسی سیوسیئر کا تجزیہ اپنے انداز میں پیش کررہی ہے۔ نارنگ صاحب یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیوسئر کا حوالہ انھوں نے بیلسی کی کتاب سے اخذ نہیں کیا بلکہ انھوں نے سیوسئر کا براہِ راست مطالعہ کیا ہے ۔یہ ادبی بددیانتی کی واضح مثال ہے۔
نارنگ صاحب بہرحال اس حوالے سے کافی متحرک واقع ہوئے ہیں کہ انہوں نے کسی ایک کتاب پر ہاتھ صاف نہیں کیا بلکہ کئی کتابوں کو یرغمال بنایا ہے،ایک طرف تو ان کو کتاب کی ضخامت درکار تھی جبکہ دوسری طرف شاید انہیں اپنی ادبی قامت مطلوب تھی۔ان کو یہ بھی احساس تھا کہ اہلِ اردو کی اکثریت جو چند ایک انگریزی کے ناموں سے ہی متاثر ہوجاتی ہے،کئی طرح کی کتابوں کے نام لینے سے کئی دہائیاں ان کے اذہان پر نارنگ صاحب کے کارنامے کا اثر رہے گا۔بہرحال صرف ایک دہائی تک ہی ان کی اس خواہش کی تسکین ہوپائی ہے،اس کے بعدنارنگ صاحب کی ’سچائی‘ کے معیار کے برعکس سچائی کا انکشاف لازمی تھا۔نارنگ صاحب نے مندرجہ بالا تمام مصنفین کا تمسخر اڑانے کے بعد رابرٹ سکولز پر بھی اپنی ’سچائی‘ کو مسلط کیا ہے۔آئیے پہلے سکولز کی طرف چلتے ہیں:
Attempting to distinguish between constant and variable elements in a collection of a hundered Russian fairytales, Propp arrives at the principle that though the personage of a tale are variable, their functions in the tales are constant and limited. Describing function as “an act of a character, defined from the point of view of its significance for the course of the action,” Propp developed inductively four laws which put the study of folk literature and of fiction itself on a new footing. I their baldness and universality, laws 3and 4have the shocking effect of certain scientific discoveries:
1. Functions of characters serve as stable, constant elements in a tale, independent of how and by whom they are fulfilled. They constitute the fundamental components of a tale.
2. The number of function known to the fairy-tale is limited.
3. The sequence of functions is always identical.
4. All fairy tales are of one type in regard to their structure.
(Morphology of the Folktale, pp. 21,22,23)
In comparing the functions of tale after tale, Propp discovered that his total numbers of functions never surpassed thirty-one, and that however many of the thirty-one functions a tale had (none has every one) those that it had always appeared in the same order…. After the initial situation, in which the members of a family are enemerated or the future hero is introduced, a tale begins, consisting of some selection of the following functions in the following order:
1. One of the members of a family absents himself from home.
2. An interdiction is addressed to the hero.
3. The interdiction is voilated.
4. The villain makes an attempt at reconnaissance.
5. The villain recieves information about his victim.
6. The villain attempts to deceive his victim in order to take possession of him or of his belongings.
7. The victim submits to deception and thereby unwittingly helps his enemy.
یہ فہرست اکتیس پر جاکر ختم ہوتی ہے۔ مکمل فہرست دینے سے مضمون کی طوالت میں اضافہ ہوجائے گا، جو قطعی غیر ضروری ہوگا۔اگر مکمل فہرست دی جائے تو صفحات کی تعداد تقریباَ نو تک چلی جاتی ہے۔اس لئے قاری ان صفحات پر ازخود غور کرئے، جبکہ نارنگ کے سرقے کی تفصیل میں قلمبند کررہا ہوں
Scholes, Robert, Structuralism in Literature, New York, Vail-Ballou Press,197 4P, 62-70.
نارنگ صاحب کی حرکت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں:
’’پروپ نے ایک سو لوک کہانیوں کا انتخاب کیا اور اپنے تجزیے سے بتایا کہ کرداروں اور ان کے ’تفاعل‘( FUNCTIONS) کی بناء پر ان لوک کہانیوں کی داخلی ساخت کو بے نقاب کیا جاسکتا ہے، اور ان کی درجہ بندی کس خوبی سے کی جاسکتی ہے۔ اس نے ان کہانیوں کے مختلف اور مشترک عناصر کا تجزیہ کیااور اس نتیجے پر پہنچا کہ ان کہانیوں میں اگرچہ کردار بدلتے رہتے ہیں ، لیکن کرداروں کا ’تفاعل‘ (FUNCTIONS) مقرر ہے، اور تمام کہانیوں میں ایک سا رہتا ہے۔ کردار کے تفاعل کو کردار کا وہ عمل قرار دیتے ہوئے جو کہانی کی معنویت کے دوسرے اجزا سے جڑا ہوا ہے ، پروپ نے استقراری طور پر چار قوانین مرتب کیے جنھوں نے آگے چل کر لوک ادب اور بیانیہ کے مطالعے کے نئی دنیا فراہم کردی ۔ آفاقی اطلاقیت اور صداقت کے اعتبار سے قانون تین اور چار کو اکثر مفکرین نے سائنسی دریافت کا درجہ دیا ہے:
۱۔ کرداروں کے تفاعل کہانی کے راسخ اور غیر مذبذب عناصر ہیں،قطع نظر اس سے کہ کون ان کو سر انجام دیتا ہے،یہ کہانی کے بنیادی اجزا ہیں۔
۲۔ ’تفاعل ‘ کی تعداد کہانیوں میں محدود ہے۔
۳۔ ’ ’تفاعل‘ کی ’ترجیع ‘(SEQUENCE) ہمیشہ ایک سی رہتی ہے۔
۴۔ باوجود تنوع کے تمام کہانیوں میں ساخت ایک جیسی ہے۔
کرداروں کے ’تفاعل‘ (FUNCTIONS) کے اعتبا ر سے ایک کے بعد ایک کہانی کا تجزیہ کرتے ہوئے پروپ اس نتیجہ پر پہنچا کہ کہانیوں میں کرداروں کے ’تفاعل‘(FUNCTIONS) کی کُل تعداد اکتیس۳۱سے کسی طرح نہیں بڑھتی،اور اگرچہ بعض کہانیوں میں عمل کی کچھ لڑیاں نہیں ملتیں، لیکن ہمیشہ اُن کی ترتیب وہی رہتی ہے۔۔۔۔۔ابتدائی منظر کے بعد جب گھرانے کے افراد سامنے آتے ہیں، اور ہیرو کی نشاندہی ہو جاتی ہے تو کہانی ان تفاعل (FUNCTIONS) میں سے سب یا بعض کی مدد سے اسی ترتیب سے بیان ہوتی ہے:
۱۔ خاندان کا کوئی فرد گھر سے غائب ہو جاتا ہے۔
۲۔ ہیرو کی ممانعت کی جاتی ہے۔
۳۔ممانعت کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
۴۔ولن جاسوسی کی کوشش کرتا ہے۔
۵۔ولن کو اپنے ’شکار‘ (VICTIM) کے بارے میں اطلاع ملتی ہے۔
۶۔ولن اپنے ’شکار ‘ کو دھوکہ دیتا ہے تا کہ اس پر یا اس کے مال و اسباب پر قبضہ کر لے۔
۷۔ ’شکار‘ دامِ تزویر میں آجاتا ہے اور نادانستہ اپنے دشمن کی مدد کرتا ہے۔ (نارنگ، ص، ۱۰۹۔۱۱۰)۔
نارنگ صاحب بھی اس فہرست کو اکتیس تک لفظ بہ لفظ نقل کرنے کے علاوہ سکولز کے تجزیے کو لفظ بہ لفظ نقل کرتے ہوئے صفحہ نمبر۱۱۷تک لے جاتے ہیں، لیکن کہیں بھی حوالہ دینا ضروری نہیں سمجھتے۔
ان صفحات کے علاوہ نارنگ صاحب اسی کتاب کے مختلف حصوں سے بھی خاطر خواہ اقتباسات کا سرقہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آئیے پہلے انگریزی میں رابرٹ سکولزکے اس اقتباس پر غور کریں :
The last half of the nineteenth century and the last half of the twentieth were charecterized by the fragmentation of knowledge into isolated disciplines so formidable in their specialization as to seem beyond all synthesis. Even philosophy, the queen of the human sciences, came down from her throne to play solitary word games. Both the language -philosophy of Wittgenstein and the existentialism of the Continental thinkers are philosophy of retreat……
Scholes, Structuralism in Literature, New York, Vail-Ballou Press,1974, p,1) )
گوپی چند نارنگ کے مندرجہ ذیل اقتباس کو دیکھئے:
’’ ا نیسویں صدی کے نصفِ آ خر اور بیسویں صدی نصفِ اوّل میں فکرِ انسانی تخصیص کے مختلف میدانوں میں بٹ بٹا کر اس حد تک پارہ پارہ ہوگئی تھی کہ اس میں کسی طرح کی کوئی شیرازہ بندی ممکن نظر نہیں آتی تھی ۔ اور تو اور خالص فلسفہ بھی جسے علومِ انسانیہ کا بادشاہ کہا جاتا ہے ،وہ بھی لفظوں کے الگ تھلگ پڑ جانے والے کھیل میں لگ چکا تھا۔وٹگنسٹائن کا فلسفہ لسان ہو یا یورپی مفکرین کی وجودیت ،اصلاََ یہ سب مراجعت کے فلسفے ہیں۔۔(ص، ۳۴ )۔
اس اقتباس میں سکولز بیسویں صدی کی اس صورتحال کو اپنے زاویے سے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ مسٹر نارنگ اگر ان مغربی تحریکوں سے براہ راست واقفیت رکھتے تو شاید اس سے مختلف نتائج اخذ کرتے۔ بیسویں صدی میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والی تباہی کے ہندوستان پر بھی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ نارنگ صاحب کو اس امر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ تویہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ انہوں نے وٹگنسٹائن کا مطالعہ کیا ہے۔اگر یہ خود وٹگنسٹاین کامطالعہ کرنے کی زحمت فرماتے تو مختلف نتائج اخذ کرسکتے تھے مگر وہ سکولز پر پختہ اعتقاد رکھتے ہیں ۔ اس کے نتائج کو نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی حتمی قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ رابرٹ سکولز کی مذکورہ بالا کتاب سے مسٹر نارنگ نے اپنی کتاب کے کئی ابتدائی صفحات نقل کیے ہیں ۔اس کے علاوہ سیوسئر اور ساختیات پر لکھا گیا سارا مواد اسی کتاب کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے۔ رابرٹ سکولز نے اس کتاب میں ساختیات کی حمایت میں لکھا ہے ۔یہ ان کا تجزیہ ہے جسے مدلل طریقے سے مسترد بھی کیا جاسکتا ہے۔ اُنیسویں اور بیسویں صدی کے سماجی ،سیاسی یا پھر معاشی کشمکش کے نتیجے میں نظریات کی تخریب اور تشکیل کے بعد جو ساختیاتی ماڈل انھوں نے ماہرِ لسانیات سیوسیرسے مستعار لیا ہے اس کا انہدام بھی پسِ ساختیات کے مباحث کے آغاز کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ اس وقت کئی مفکر خود کو ساختیات کا حامی کہنے سے کترانے لگے ۔ مختصر یہ کہ یہ تجزیہ شولز کے مکتبہ ءِ فکر کا نقطہء نظر ہے۔ ریڈیکل مارکسی مفکرین اس اجتماعی تناظر کی مختلف طرز پر تشریح و تجزیہ پیش کرتے ہیں جو پوسٹ ماڈرن تھیوری کے حوالے سے مضبوط بھی ہے اور مو ئثر بھی ۔ سوال یہ ہے کہ گوپی چند نارنگ کہاں کھڑے دکھائی دیتے ہیں؟ ۔۔۔۔۔برطانوی سوشل مفکرکرسٹو فر نورس لکھتے ہیں:
Derrida’s professional training was as a student of philosophy (at the Ecol Normale Superieure in Paris, where he taught until recently), and his writings demand of the reader a considerable knowledge of the subject. Yet Derrida’s texts are like nothing else in modern philosophy, and indeed represent a challenge to the whole tradition and self-understanding of that discipline.
Norris, Christopher. Deconstruction.3rd ed, London, Routledge,2002, P18-19)
نارنگ صاحب لکھتے ہیں:
’’تربیت کے اعتبار سے بھی دریدا فلسفی ہے، اور اس وقت بھی وہ۔۔Ecol Normale Superieure, Parisمیں فلسفے کا استاد ہے۔ نیز اس کی تحریروں کو فلسفے کی بنیادی باتوں کو جانے بغیر سمجھنا بھی ناممکن ہے۔تاہم دریدا کی تحریروں کو فلسفے میں شمار کرنا بھی مشکل ہے، اس لئے کہ فلسفے میں دریدا کی تحریروں کے مماثل کوئی چیز نہیں ملتی، کیونکہ وہ پوری فلسفیانہ روایت کو اور ان بنیادوں کو جن پر فلسفہ بحیثیت ضابطہ علم قائم ہے ،چیلنج کرتا ہے‘‘ (نارنگ، ص ۲۱۷)۔ ۔۔۔۔کرسٹوفر نورس لکھتے ہیں:
Derrida refuses to grant philosophy the kind of privileged status it has always claimed as the sovereign dispenser of reason. Derrida confronts this pre-emptive claim on its own chosen grounds. He argues that philosophers have been able to impose their various systems of thought only by ignoring, suppressing, the disruptive effects of languages. His aim is always to draw out these effects by a critical reading which fastens on, and skilfully unpicks, the elements of metaphor and other figural devices at work in the texts of philosophy. Deconstruction in this, its most rigorous form acts as a constant reminder of the ways in which language deflects or complicates the philosophers project. Above all deconstruction works to undo the idea-according to Derrida, the ruling illusion of Western metaphysics- that reason can somehow dispense with language and achieve a knowledge ideally unaffected by such mere linguistic foibles. Norris, P18-19). )
گوپی چند نارنگ کی کتاب کے اس اقتباس پر غور کریں :
’’دریدا فلسفے کو بحیثیت ضابطہ علم یہ آمرانہ درجہ دینے کو تیار نہیں کہ فکرِ انسانی کے جملہ حقوق فلسفے کے نام محفوظ کردیے جائیں ۔اس کا دعویٰ ہے کہ فلاسفہ اپنے نظام ہائے فکر کو مسلط کرنے کے لیے زبان کے داخلی تضادات کو دباتے،پسِ پشت ڈالتے یا نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ دریدا اپنے ردِ تشکیلی مطالعات میں فلسفے کی ان کمزوریوں اور معذوریوں کو نمایا ں کرتا ہے۔ وہ بار بار نہایت سختی سے یاد دلاتا ہے کہ زبان کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ فلسفی کے کام کو مشکل سے مشکل تر بناتی ہے۔ اگرچہ مغربی مابعد الطبیعات میں یہ خیال عام رہا ہے کہ فکر انسانی کسی نہ کسی طرح زبان سے چھٹکارہ پاسکتی ہے اور سچائی کو بیان کرنے کا کوئی خالص اور مستند طریقہ وضع کر سکتی ہے۔۔۔(ص،۲۱۸۔۲۱۷)
کرسٹوفر نورس سوشل فلاسفر ہونے کی حیثیت سے فلسفے کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔اس لئے وہ کوئی ایسا انتہا پسندی پر مبنی بیان جاری نہیں کرتے، جس سے فلسفے کی غیر ضروری تضحیک کی جائے۔مندرجہ بالا اقتباس میں جہاں پر انہوں نے ڈیکنسٹرکشن کے حوالے سے فلسفے کا ذکر کیا ہے ،وہاں پر انہوں نے واضح الفاظ میں ’’دریدا کے مطابق‘‘ لکھ دیا ہے۔نارنگ صاحب کی اگر اب تک کی تصانیف کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے مضامین میں کسی بھی فلسفی کے افکار پر بحث نہیں اٹھائی۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ فلسفے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، جو ان کے اس اقتباس سے واضح ہے’’لیکن دریدا ناقابلِ تردید طور پر ثابت کرتا ہے کہ فلسفے کی یہ توقع واہمے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، اور فلسفے کا زبان کے شکنجے سے آزاد ہونا قطعاَ ناممکن ہے‘‘(ص۲۱۸)۔
یہ سوال انتہائی بچگانہ ہے کہ زبان کے بغیر کسی قسم کا کوئی خیال پیش کیا جاسکتا ہے، یا کسی معروض کو اس کے تمام تر یا کسی بھی پہلو کو بیان کیا جا سکتا ہے۔اس کے لئے دریدا سے کسی مصدقہ سند کی ضرورت نہیں ہے۔تفکراتی فلسفے میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ ڈیکنسٹرکشن جیسی تھیوریوں کو بآسانی خود میں سمیٹ سکے۔ ابھی تک مغرب میں صرف مابعد جدید مفکروں بالخصوص دریدا کی ڈیکنسٹرکشن تفکراتی فلسفے کے خلاف عمل آراء ہوتی ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ڈیکنسٹرکشن ہیگلیائی کلیت یا لازمیت کو رد کرسکی ہے یا دلائل کی بنا پر اس کو غلط ثابت کر سکی ہے یا اس کی حدود کا تعین کرپائی ہے؟نارنگ صاحب بھی مغربی مابعد جدیدیت کے علم برداروں کی تقلید میں یہ نعرہ بھی بلند کرچکے ہیں کہ’’ مابعد جدیدیت ہر طرح کی کلیت پسندی کو رد کرتی ہے۔‘‘ رد کیوں اور کیسے کرتی ہے؟ اس کے بارے میں نارنگ کے علاوہ کسی بھی نقاد کے پاس کہنے کو چار فقرے تک نہیں ہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ ادب سے زیادہ فلسفے کا مسئلہ ہے اور فلسفے کے مباحث کا اُردو میں فقدان رہا ہے۔اُردو میں ان لوگوں کو فلسفی تصور کر لیا گیا ہے جو فلسفے سے زیادہ تصوف کی تبلیغ پر کمر بستہ رہے ہیں۔
نارنگ صاحب کا مغرب کے کسی شارح کو بنیاد بنا کر ہیگلیائی کلیت یا لازمیت کے سوال کو بطور ’سچائی‘ پیش کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اس کی حیثیت بھی نارنگ صاحب کے اپنے ’سچائی‘ کے معیار سے مختلف نہیں ہے۔جہاں تک ژاک دریدا کا تعلق ہے تو وہ تمام زندگی ہیگل کا معتقد رہا ہے۔جن اصحاب نے ہیگل کا توجہ سے مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ ہیگل کے لئے ’افتراق‘ کی حیثیت تضاد کی بنا پر حتمی ہے، لیکن ہیگل کے تضادکی تحلیل ہوجاتی ہے، یعنی نفی کی نفی،لیکن افتراق ہر وقت برقرار رہتا ہے۔ اس طرح ہیگل کا افتراق ایک منزل طے کر کے بھی حتمی رہتا ہے۔ دریدا ہیگل کے افتراق کی جگہ اپنے Differanceکو شامل کرلیتا ہے، جس کا کام افتراق کی حتمیت کی بنا پر شناخت کو روکنا ہے۔ اسی نکتے پر ژاک دریدا ، ہیگل کی عظمت کوان الفاظ میں تسلیم کرتا ہے،
Differance (at a point of almost absolute proximity to Hegel, as I have emphasised…. (Positions, 1982, P44).
مغرب میں اس طرح کی فضا قائم ہوگئی ہے کہ جہاں ادبی و تنقیدی تھیوریوں کے حوالے سے نظریہ ساز اپنی حیثیت کو سیاست کے حوالے سے واضح کرنا بہت ضروری سمجھتے ہیں۔اسی طرح ان کے شارحین کو پروپیگنڈا کرنے کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ان کا کام ہی یہ ہے کہ وہ مختلف افکار کو بورژوازی کے مفادات کی روشنی میں واضح کریں۔مغربی نظریوں کے حوالے سے اس پس منظر کو سامنے رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ انسانی ذہن کے اندر جنم لینے والے خیالات کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں ہوتی جب تک ان کی کوئی عملی شکل موجود نہ ہو۔پس ساختیاتی رجحان کے وجود میں آتے ہی اسے سماجی، سیاسی، اور معاشی تھیوری کا حصہ سمجھ لیا گیا۔جامعات میں اس پر مباحث اٹھائے گئے ۔ سماجی رجحانات کو پسِ ساختیات کی رو سے جاننے کی کوشش کی گئی، جسے مابعد جدیدیت کا نام دیا گیا،تاکہ عمل میں اس کی حقیقت کھل سکے۔ کیا نارنگ صاحب جانتے ہیں کہ ہیگل کی کلیت پسندی کیا ہے؟ اگر انہیں اس بات کا یقین ہے کہ مابعد جدیدیت ’کلیت پسندی‘ کے خلاف ہے تو خود ایک مضمون تحریر کریں جس میں اس امر کو واضح کریں کہ ان کی مابعد جدیدیت کیسے کلیت پسندی کو رد کرتی ہے؟جہاں تک دریدا کا تعلق ہے تو وہ یہودیت کے تناظر میں کلیت پسندی سے نجات چاہتا ہے۔یہ فکر اڈورنو سے جنم لیتی ہوئی دریدا تک پہنچتی ہے،ان مفکروں کو یقین تھا کہ ہولوکاسٹ کو نظری جواز تفکراتی فلسفے (ہیگلیائی جدلیات)نے مہیا کیا ہے، کونکہ وہ معروض (دوسرا)کو اس کی اپنی حرکت میں دیکھنے کی بجائے اس کو اپنی حرکت(پہلے) کے مطابق ڈھالنے کی سعی کرتی ہے اور یہ عمل صرف نظریے کی شکل میں تفکر کے ذریعے طے ہوتا ہے، اس لئے اصل کی حقیقت مخفی رہتی ہے۔عدم شناخت کے یہ تصوارت ہیگل کے فلسفے میں پہلے سے موجود تھے۔ اڈورنو اس حوالے سے ہیگل کے تضادات کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہندستانی تناظر میں ڈیکنسٹرکشن اہم ہے یا ہیگل کی کلیت؟اس امر پر بحث کی ضرورت ہے۔ دریدا یا پسِ ساختیات کا کردار اس لئے بھی زیادہ اہم نہیں ہے کہ اس کی حیثیت سماجی عوامل سے کٹنے کی وجہ سے تجریدی ہوجاتی ہے۔بہرحال اس بار نارنگ یا ان کے ہم خیال ساتھیوں کو سرقے سے گریز کرکے یہ واضح کرنا چاہیے کہ ان کے تناظر میں کس فلسفے سے مطابقت قائم کی جاسکتی ہے اور کس کا کلی یا جزوی استرداد ضروری ہے؟ہیگلیائی کلیت نارنگ یا ان جیسے کسی دوسرے خیال پرست کے ذہن میں تشکیل نہیں پاتی۔ہیگل اس کو’جوہر‘ میں تلاش کرتا ہے۔ہیگل کے لئے اہمیت’ حسی تیقن‘ کی ہے لیکن اس تیقن سے قبل ہی وہ سپرٹ کی مظہریت کو تصورکرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہیگل کے ’تصور‘ میں شعور کی موجودگی سے معروض کی اپنی جدلیاتی حرکت متاثر ہوتی ہے،لیکن اس پہلو سے آسانی سے یہ کہنا مشکل ہے کہ ہیگل خیال پرست ہے یا وہ صرف شعور ہی کے ذریعے حقیقت کو مسخ کرتا ہے۔ لینن اپنی ’فلسفیانہ نوٹ بک‘ میں ہیگل کی مختصر منطق‘ کا بھر پور تجزیہ پیش کرتے ہوئے اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ ’’سوچ کو معروض کی حرکت میں جاننا ہے لیکن سوچ کو جدلیاتی انداز اختیار کرنا چاہیے۔ ۔ ۔ حسیات حرکت کو بحیثیت کل نہیں جان سکتیں، لیکن سوچ ایسا کرسکتی ہے اور اسے ایسا کرنا چاہیے‘‘ (ص،۲۲۷)۔لینن ، ہیگل کی خیال پرستی کو ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں کہ حسیاتی انعکاس سے حاصل کی گئی سوچ ، حقیقت کو منعکس کرتی ہے؛زمان معروضی حقیقت کے وجود کی شکل ہے۔لیکن ہیگل ایسا زمان کے تصور میں نہ کہ نمائندہ حسیات کی سوچ سے تعلق کی بناء پر خیال پرست ہے۔لینن انتہائی باکمال طریقے سے ہیگل کی خیال پرستی کو واضح کرتے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ خیال پرست فلسفیوں کے لئے (برکلے وغیرہ) ہیگل خیال پرست نہ ہو۔یہاں پر مابعد جدید مفکر(سرقے باز نہیں) یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ وہ ’شعور‘ کی بحث میں الجھنا ہی نہیں چاہتے، کیونکہ ان کو تو زبان کے حوالے سے ’بھگوان ‘کے آشیر باد سے قدیم ’سچائی‘کی اشاعت کا لائسنس جاری ہوچکا ہے۔اس طرح تو عین ممکن ہے کہ وہ زندگی کے تمام فیصلے بھی زبان کے فونیم کی’ کریپا‘ سے کرنا چاہیں ۔ نارنگ صاحب دو چار اقوال سن کر فتوے صادر فرما رہے ہیں۔ مابعد جدید مفکروں کی اندھی تقلید میں ہر اس فلسفے کو صرف فیشن کے طور پر مسترد کردینا چاہتے ہیں، جو تناظر کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ ان کے لئے لازم ہے کہ وہ ان فلسفیانہ قضایہ کا علم حاصل کریں اور مغربی تھیوریوں پر اپنی حیثیت کو اپنے تناظر میں واضح کریں۔علمی قضایا کی بحث میں الجھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ نارنگ صاحب کو ان کے سرقے کے بارے میں یاد دہانی کرائی جائے ۔ویسے اگر نارنگ صاحب کو سرقے سے فرصت ملتی تو شاید ان قضایا کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ ایک اور اقتباس کو دیکھتے ہیں۔ کرسٹوفر نورس لکھتے ہیں ،
In this sense Derria’s writings seem more akin to literary criticism than philosophy. They rest on the assumption that modes of rhetorical analysis, hitherto applied mainly to literary texts, are infact indispensable for reading any kind of discourse, philosophy included. Literature is no longer seen as a kind of poor relation to philosophy, contenting itself with mere fictive or illusory appearances and forgoing any claim to philosophic dignity and truth. This attitude has, of course, a long prehistory in Western tradition. It was plato who expelled the poets from his ideal republic, who set up reason as a guard against the false beguilements of rhetoric, and who called forth a series of critical ‘defences’ and ‘apologise’ which runs right through from Sir Philip Sydney to I. A. Richards and the Americans new critics. The lines of defence have been variously drawn up, according to whether the critic sees himself as contesting philosophy on its own argumentative ground, or as operating outside its reach on a different – though equally privileged – ground. (Norris,P19)
نارنگ صاحب اس اقتباس سے متاثر ہوکر کیاکمال دکھا رہے ہیں:
’’اس نظر سے دیکھا جائے تو فلسفے سے زیادہ ادب کی ذیل میں آتی ہیں، اس کا بنیادی ایقان یہ ہے کہ لسانی یا بدیعی تجزیہ جو فقط ادبی متن کا منصب سمجھا جاتا ہے، وہ درحقیقت کسی بھی بیان(discourse)بشمول فلسفیانہ بیان کے سنجیدہ مطالعے کے لئے ضروری ہے۔دریدا کا موقف ہے کہ ادب فلسفے کا دور کا رشتہ دار نہیں، جس کو فلسفی محض لفظوں کے تخیلی توتے مینا بنانے والے ضابطے کے طور پر رد کرتے رہے ہیں، بلکہ سچائی کا حصہ دار ہونے کے ناطے ادب اسی عزت و افتخار کا مستحق ہے جو فلسفے کے لئے مخصوص ہے۔ اتنی بات معلوم ہے کہ افلاطون نے ادیبوں، شاعروں کو اپنی مثالی ریاست سے اسی لئے خارج کردیا تھا کہ عقل کے مقابلے میں ادب کی مجازیت قابلِ برداشت نہ تھی۔ سر فلپ سڈنی سے لے کر رچرڈز اور نئی تنقید تک ادب کی آزادانہ حیثیت کا دفاع کیا جاتا رہا ہے۔۔۔۔۔‘‘(نارنگ،ص،۲۱۸)۔
نارنگ صاحب نے یہاں پر نورس کے لفظ ’امریکی‘ کو حذف کردیا ہے ، کہیں اُردو والے امریکہ کے نام سے ناراض نہ ہوجائیں۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ڈسکورس کو انگریزی میں لکھ دیا ہے، جس سے یہ تاثر ابھرے کہ نارنگ صاحب خود یہ تجزیہ پیش کر رہے ہیں جہاں انہوں نے ضروری سمجھا انگریزی لفظ کا استعمال بھی کردیا۔
راقم کا یہ دعویٰ ہے کہ گوپی چند نارنگ کی کتاب میں دریدا اور ردِ تشکیل پرلکھا ہواتمام مواد کرسٹوفر نورس کی کتاب سے ہوبہو ترجمہ ہے۔آئیے ایک اور اقتباس پر غور کریں۔کرسٹوفر نورس لکھتے ہیں:
The counter-arguments to deconstruction have therefore been situated mostly on commonsense, or ‘ordinary-language’ ground. There is support from the philosopher Ludwig Wittgenstein (1889-1951) for the view that such sceptical philosophies of language rest on a false epitemology, one that seeks (and inevitably fails) to discover some logical correspondence between language and the world. Wittgenstein himself started out from such a position, but came round to believing that language had many uses and legitimating ‘grammars’, non of them reducible to a clear-cut logic of explanatory concepts. His later philosophy repudiates the notion that meaning must entail some one-to-one link or ‘picturing’ relationship between propositions and factual status of affairs. Languages now conceived of as a repertoire of ‘games’ or enabling conventions, as diverse in nature as the jobs they are require to do (Wittgenstein 1953). The nagging problems of philosophy most often resulted, Wittgenstein thought, from the failure to recognise multiplicity of language games. Philosophers looked for logical solutions to problems which were only created in the first place by a false conception of language, logic and truth. Scepticism he argued, was the upshot of a deluded quest for certainty in areas of meaning and interpretation that resist any such strictly regimented logical account. (Norris, P127-128).
نارنگ صاحب کی ’لسانیاتی چال‘ دیکھیں:
’’دریدا کی ردِ تشکیل کے خلاف جتنی بھی بحث کی گئی ہے وہ عام زبان (ORDINARY-ANGUAGE) کے نکتہء نظر سے کی گئی ہے۔خاطر نشان رہے کہ ایسے لوگوں سے پہلے لدو گ وٹگنسٹائن۔۔(LUDWIG WITTGENTEIN 188 9- 1951)کہہ چکا ہے کہ زبان سے متعلق متشککانہ نظریے اس جھوٹی علمیات (EPISTEMOLOGY) کا حصہ ہیں جو زبان اور اشیاء میں کسی نہ کسی طرح کا منطقی ربط پیدا کرنا چاہتی ہے۔وٹگنسٹائن نے خود اپنا فلسفیانہ سفر اسی تشکیک سے شروع کیا، لیکن بعد میں وہ اسی نتیجے پر پہنچا کے زبان کے کئی طرح کے استعمال ہیں، جن سے کئی طرح کی گرائمریں پیدا ہوتی ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی گرائمر منطق کے صاف شفاف اصولوں کی سطح پر نہیں لائی جاسکتی۔وٹگنسٹائن کا فلسفہ اس بات کی تردید ہے کہ زبان میں لفظ اور شئے میں ایک اور ایک کا رابطہ ہے۔وہ زبان کا تصور ایک ایسے نظام کے طور پر کرتا ہے جس میں طرح طرح کے مقاصد کے لئے طرح طرح کے کھیل کھیلے جاتے ہیں وٹگنسٹائن کا کہنا ہے کہ فلسفے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ زبان کی کثیرالمعنیت کو زیرِ دام نہیں لاسکتا۔ فلاسفہ کو مسائل کے منطقی حل کی ضرورت ہوتی ہے،اور تشکیک تیقن کی کھوج کا نتیجہ ہے کیونکہ معنی کی منطقی تحلیل ممکن نہیں۔ غرض بقول وٹگنسٹائن وہ تمام متشککانہ فلسفے جو زبان ، منطق اور حقیقت کے درمیان مختلف النوع مطابقتوں کو نہیں دیکھ سکتے ،حیرت کا شکار ہونے پر مجبور ہیں۔‘‘(نارنگ،ص، ۲۱۹)۔
اس پیراگراف کے بعد کرسٹو فر نورس ،وٹگنسٹائن کے فلسفے کی روشنی میں ردِ تشکیل کے خلاف بحث کا آغاز کرتے ہیں۔ کرسٹوفر نورس نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ وٹگنسٹائن بطور فلسفی سیوسئیر اور مابعد سیوسئیری لسانیاتی نظریے میں کن نقائص کو دیکھتا ہے؟نارنگ صاحب وٹگنسٹائن کی سیوسئیر پر فلسفیانہ تنقید کو پیش کرنا مناسب نہیں سمجھتے، کیونکہ اس طرح نارنگ صاحب کی ساختیات کی تبلیغ متاثر ہوجاتی۔اسی لئے نارنگ صاحب کو وٹگنسٹائن کی تنقید پسند نہیں آئی۔ انہیں تو صرف ان پیراگراف کا سرقہ مقصود تھا جوان کے نزدیک ردِ تشکیل کی سچائی ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ نارنگ صاحب کا کوئی بھی مسروقہ اقتباس ’’واوین میں نہیں ہے، لیکن مندرجہ بالا اقتباس کے بعد والے اقتباس کو واوین میں لکھتے ہیں، گو کہ یہ اقتباس بھی انہوں نے نورس کی کتاب ہی سے اٹھایا ہے۔ نارنگ وٹگنسٹائن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں،’’اگر تم ہر چیز پر شک کرنے لگو گے تو پھر تم کسی چیز پر بھی شک نہ کرسکو گے۔ہر شک کی تہہ میں تیقن ہوتا ہے‘‘ (نارنگ، ص،۲۱۹)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نارنگ کو اس امر کا ادراک ہے کہ کس طرح انہوں نے قاری کی آنکھوں میں دھول جھونکنی ہے۔ اسی لئے ایک ہی صفحے پر لکھے گئے اقتباسات میں سے صرف دو جملوں کو ہی واوین میں دکھاتے ہیں جبکہ بیشتر حصے کو اپنی’ تجزیاتی بصیرت‘ کا کرشمہ ثابت کر رہے ہیں۔
نارنگ صاحب کے اس طرح سرقہ کرنے کے بعد اس خیال کاذہن میں ابھرنا جائزہے کہ اگر نارنگ صاحب خود مابعد جدید تھیوری کو نہیں سمجھ سکے تو طالب علموں کو کیسے سمجھا سکتے ہیں؟ اگر وہ خود اس تھیوری کو سمجھ چکے ہوتے تو لفظ بہ لفظ سرقے کی ضرورت پیش نہ آتی۔اگر تھیوری کو سمجھ کر اسے مغربی پس منظر میں بیان کرتے، یعنی ماڈرنٹی کے امتیازی اوصاف جو اسے پوسٹ ماڈرنٹی سے الگ کرتے ہیں، اس کے بعد برِصغیر کی سماجی یا ثقافتی صورتحال کے ساتھ اس کا موازنہ اور ان امتیازات کی نشاندہی جو ان دونوں تناظر میں موجود ہیں۔ اس صورت میں یہ نارنگ صاحب کا ایک اہم کارنامہ تصور کیا جاتا۔مشکل فکر پر مبنی کتابوں کے بارے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی مفکر تعارف پیش کرتا آیا ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کتاب کے مشکل مفہوم کو اس طرح پیش کیا جائے کہ دوسروں کے لئے اسے سمجھنا آسان ہوجائے۔جہاں تک فلسفیوں یا عالموں کا تعلق ہے تو ان کے باطن میں علمی تجسس کی شدت ہی اس قدر ہوتی ہے کہ وہ براِ ہ راست ا صل ذرائع کا فہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ الفارابی لکھتا ہے کہ اس نے ارسطو کی شہرہء آفاق تصنیف ’میٹافزکس‘ کا چالیس بار مطالعہ کیا لیکن پھربھی اسے سمجھ نہ پایا۔اس طرح مغربی فلسفی شوپنہاور کہتا ہے کہ وہ کانٹ کی بے مثل تصنیف ’’تنقید عقل محض‘‘ کو اسّی بار پڑھنے کے بعد سمجھ پایا۔اُردو کے ’عالموں ‘سے یہ توقع کرنا بے کار ہے کہ وہ کسی فلسفیانہ کتاب کو چند بار پڑھنے کے بعد اگرتفہیم نہیں ہوسکی تواس کودوبارہ سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے نزدیک کسی مفکر کے پیش کردہ تعارف کو بغیر تفہیم کے اپنے نام سے منسوب کردینا زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔گوپی چند نارنگ نے جو حرکت کی ہے وہ بھی اسی ذیل میں آتی ہے۔ اگر وہ مابعد جدید تھیوری کو سمجھ چکے ہوتے تو اس کے بعد اسے اپنے الفاظ میں بیان کرنا مشکل نہ ہوتا۔اس طرح ان پر سرقے کی مصدقہ مہر بھی چسپاں نہ ہو پاتی۔اگر وہ مابعد جدید تھیوری کو اس کے تناظر یعنی ان تمام تر سماجی، سیاسی اور معاشی تضادات کی روشنی میں اورمغربی مفکروں کے افکار کو تجریدی انداز میں نہیں بلکہ ان کے تناظر کو سمجھنے کی سعی کے طور پر پیش کرتے تو اُردو کے طالب علم کے لئے تھیوری کا پسِ منظر عیاں ہونے سے تاریخ، سماج اور معیشت جیسے عوامل کی اہمیت سماجی تشکیل کے حوالے سے قابلِ تفہیم ہوتی۔نارنگ صاحب نے جو طریقہ ء کار اختیار کیا ہے، ایک طرف تو وہ کھلم کھلا سرقہ ہے دوسری طرف انہوں نے مابعد جدیدتھیوری کو جنم دینے والے تضادات کو نظر انداز کر کے مابعد جدید تھیوری کو مکمل طور پر تجریدی رنگ میں نہ صرف پیش کیا ہے، بلکہ اسے قبول بھی کیا ہے۔ جہاں تک نارنگ صاحب کی اپنی علمیت کا سوال ہے تو ظاہر ہے کہ جو شخص صرف سرقہ ہی پیش کرسکا ہے اور ظاہر ہونے کے بعدسرقے کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے تو اس کا محرک یقیناََ علم سے محبت نہیں بلکہ شخصیت پرستی کا پہلوہے۔ مغربی زر خریددانشوروں کی تقلید میں شخصیت پرستی کے پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے سبجیکٹ کے ختم ہونے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ جبکہ اسی سبجیکٹ پر شخصیت پرستی کے تمام تصور کی بنیاد ہے،اگر یہ تصورِ سبجیکٹ ختم ہوگیا ہے، تو وہ کون سی حتمی شناخت قائم کرنے کا داعی ہے؟ نارنگ صاحب کو تو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ عدم شناخت کا تمام تصور ہی بے کار ہے۔لیکن سب سے پہلے یہ ہمیں ہر انسان کے باطن میں ملتا ہے، جو سماجی عوامل کی مطابقت یا عدم مطابقت سے کمزور یا مضبوط ہوتا ہے۔ شناخت کا تصور، جس کے خلاف مابعد جدید مفکر برسرِ پیکار ہیں،وہ ہمیں ہیگل کے فلسفے میں ملتا ہے، مگر اس مفہوم میں نہیں کہ جس میں اسے پیش کیا جارہا ہے، بلکہ اس تصور کو مغربی بورژوائی کے مفادات سے ہم آہنگ کر کے پیش کیا جارہا ہے۔ ہیگل کے لئے ’دوسرا‘ اہم ہے، اس کا استحصال نہیں ہوسکتا، گو کہ ہیگل کے لئے یہ تصور خیال پرستانہ انداز میں موجود ہے۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہیگل معروضی تقاضوں کے تحت انسانی پیداواری عمل کی قوت سے آگاہ نہیں تھا۔یہ درست ہے کہ ہیگل کا’ تصور‘کافی حد تک عمل کے برعکس تفکر کے ذریعے تبدیلی کا خواہاں ہے۔مارکس نے ہیگل کی کتاب ’سپرٹ کی مظہریات‘ میں محنت سے وابستہ اس پہلو کو دیکھ لیا تھا۔ اور اس کی اتھاہ گہرائی میں اتر کر تفکراتی فلسفے کی بجائے تبدیلی کو عمل سے مشروط کردیا۔ژاک دریدا بھی مارکس کی تفکر کے برعکس عمل میں تبدیلی کے عمل کو واضح طور پر دیکھتا ہے مگر وہ ہیگل کے فلسفے میں ان عوامل کو نہیں دیکھ سکا جو مارکس نے کافی عرصہ قبل دیکھ لئے تھے(دریدا کے اس پر ذکر کے حوالے سے دیکھیے ’پوزیشنز‘ صفحہ نمبر، ۴۳)۔دریدا جانتا ہے کہ تفکراتی فلسفے پر حملہ کرنا آسان ہے، اسی وجہ سے اس کا حملہ اسے اس مقام پر لے جاتا ہے جہاں پر ژاک دریدا صرف اور صرف خیال پرست بن کر ہی سامنے آتا ہے، کیونکہ وہ بھی تفکراتی جدلیات کو عمل کے برعکس زبان میں ہی تلاش کرتا ہے۔جہاں تک مارکس ، اینگلز اور لینن کا تعلق ہے تو ان کے خلاف دریدا کوئی بھی حتمی بیان جاری نہیں کرتا ۔ وہ جانتا ہے کہ مارکس یا لینن کا شعور ہیگل کے شعور سے بنیادی طور پر مختلف ہے اس لئے اس کوDifferanceکے احاطے میں گھسیٹنا درست نہیں ہے، سماجی سطح پر مادی جدلیات بنیادی طور پر پیداواری عمل اور انسانوں کے عمل سے جنم لینے کی وجہ سے تفکراتی جدلیات سے مختلف ہے، جس میں عامل عمل کے دوران نہ صرف خارجی صورتحال کو پیش نظر رکھتا ہے بلکہ وہ خود کو عمل اور اس عمل کو نظریائے جانے کے عمل کو بھی تجزیے میں شامل کرتا ہے۔اس طرح وہ خود تجزیے کے دوران تجزیے میں داخلی اور معروضی حوالوں سے شامل ہوتا ہے۔معروضیت سے یہاں مراد تجزیے کے عمل کی معروضیت سے بھی ہے۔دریدا کہتا ہے:
But it is true that in Marx, as in Engels and Lenin, the putting into question of the self-certainty of consciousness is not “based on Differance”.(Position,P62)
اگر مارکس اور اینگلز کا قائم کردہ تصورِ شعور ،جو سماجی حرکت سے تشکیل پاتا ہے ، وہ نہیں ہے جو ساختیاتی خیال پرست یقین کرتے ہیں تو دریدا کی مارکسیت پر تنقید یا دریدا کے مبلغوں کی مارکسیت پر اپنی اذعانی طبع کے تحت فضول قسم کی تنقید کا کوئی جواز موجود نہیں رہ جاتا، کیونکہ دریدا کے فلسفے میں Differanceکا کردار بنیادی ہے جو ’التوا‘ اور ’مختلف‘ کے راستے میں حائل رہتا ہے اور شناخت کو قائم نہیں ہونے دیتا۔ دریدا واضح الفاظ میں یہ اعتراف کرتا ہے کہ’’ مارکسیت کے خلاف وہ کچھ نہیں کہہ رہا کیونکہ وہ اس کا قائل ہے‘‘ (ایضاََ،ص، ۶۳)۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ دریدا کو مادیت پسند تصور کیا جائے۔خودکو مادیت پسند کہنے سے مادیت کا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ مادیت کا مسئلہ یہ ہے کہ خارجی عمل کو کچھ اس طرح نظریایہ جائے کہ مادیت کا تصور ذہن سے ابھرنے کی بجائے خارجی حقیقت اور اس تک پہنچنے والے عمل کا احاطہ کرلے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دریدا کی بجائے اڈورنو اپنے فلسفے کے تمام تر نقائص کے باوجود مادیت پسند ہے۔ہیگل پر اڈورنو کی تنقید اس کا واضح ثبوت ہے۔ دریدا کے برعکس خارجی دنیا اڈورنو کے لئے اسی لئے اہم ہے کہ وہ مادیت کی تلاش میں مابعد الطبیعات کی آغوش میں پناہ نہیں لیتا۔ اڈورنو کا لوکاچ پر حملہ بھی اس کے ’شعور‘ کے خلاف ردِ عمل کا نتیجہ ہے، اسی وجہ سے پرولتاریہ کی شعور کے ذریعے ہوئی علمیاتی تفریق کو اڈورنو تنقید کا نشانہ بناتا ہے، لوکاچ کے لئے شناخت انقلاب کے لئے ضروری ہے گو کہ وہ سماجی کے برعکس شعوری ہے۔ اڈورنو کے نزدیک تفکراتی شناخت کا ہر تصور معروض کی خود میں شناخت ختم کرنے کے مترادف ہے ۔ (یہاں پر یہ واضح رہے کہ اڈورنو اور دریدا دونوں یہودی ہیں اور دونوں کے لئے ’دوسرے ‘کا سوال اہم تھا ، دونوں ’دوسرے‘ کو ہیگلیائی کلیت سے نجات دلوانا چاہتے تھے)۔ وہ اس حقیقت سے باخبر ہے کہ مادی جدلیات میں سچائی (نارنگ صاحب کی سچائی نہیں) کی حیثیت اضافی اور محدود ہے جو خود کو معروضی حرکت سے مطابقت قائم کرنے کے عمل میں تقویت بخشتی ہے۔مادی جدلیات معروض کو جمود کے برعکس اس کی حرکت میں دیکھتی ہے، جس میں حرکت ہمہ وقت تضادکو خود میں شامل رکھتی ہے، جس سے تغیر بھی مستقل ہوتا ہے۔ اس طرح جدلیات ازخود تشکیل پاتی ہے۔
اس اعتبار سے دیکھیں تو دریدا کی Trace’نشان‘کو اس اعتبار سے پیش کرتی ہے کہ وہ تناظر کے حوالے سے تاریخ (ماضی)اور مستقبل کے عوامل کو ’نشان‘ میں شامل کرلے۔’نشان‘ کا اس طرح خارجیت سے تشکیل پانا اسے معروضایہ ہوا تصور کرنے کے لئے شواہد فراہم کرتا ہے۔ دریدا چونکہ ہیگل، کانٹ اور مارکس وغیرہ سے متاثر ہے اس لئے متن کے باہر سے وہ داخلی حس، مادیت، مابعدالطبیعات اور دیگر عوامل کو شامل کرتا ہے۔اگر دریدا ایسا نہیں کرتا تو اس کے لئے ڈیکنسٹرکٹ کرنے کا عمل مشکل ہوجاتا ہے۔’ٹریس‘ کے دم چھلے سے مندرجہ بالا عوامل کی شمولیت کے اسی عمل کی بناء پر وہ خود کو مادیت پسند بھی کہلوانا چاہتا ہے۔چونکہ وہ دیگر عوامل کو بھی شامل سمجھتا ہے اس لئے اسے مادیت پسند کہنا مناسب نہیں ہے۔مارکسی مادیت میں ان عوامل کو ذہن نشین کیا جاتا ہے۔ اور خیال پرستانہ عوامل کی شناخت قائم کر کے جدلیات کی روشنی میں سارے عمل کو نظریایہ جاتا ہے۔دریداجن موجود عوامل کو وہ متن میں شامل کرتا ہے پھر انہی کو وہ اپنی خود ساختہ تھیوری کے ذریعے ڈیکنسٹرکٹ کرنے کا دعوی کرتا ہے۔ دریدا اس عمل کو صرف زبان کے اندر سرانجام دیتا ہے۔ جبکہ حقیقی مادیت کے لئے خارجیت میں انسانی عمل سے ارتباط میں سچائی کا ظہور پذیر ہونا ضروری ہے۔ اس اعتبار سے دریدا کو مادیت پسند کہنا صحیح نہیں ہے۔ (دریداخود کو مادیت پسند کہلا کر فخر محسوس کرتا تھا) ۔ دریداکے حوالے سے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ وہ مارکسزم کی سچائی کو ایک ایسے وقت تسلیم کرنے لگا،جب مغرب اور امریکہ میں مارکسیت کی موت کے دعوے کئے جارہے تھے۔اس کی وجہ سیاسی اور معاشی حالات تھے، جن کو نظر انداز کر کے مغربی مابعد جدیدیت کی تبلیغ کسی ادبی گناہ سے کم نہیں ہے۔ قاری کو یہ علم ہونا چاہیے کہ مابعد جدیدتھیوری کا دعوی ۱۹۴۰کے بعد ہی کیوں کیا گیا ہے؟ ڈیکنسٹرکشن پندرھویں صدی میں سامنے کیوں نہیں آئی؟ سماجی حوالوں سے ماڈرنٹی کا تعلق صنعتی انقلاب کے ساتھ کیوں قائم کیا جاتا ہے؟کیا صرف سوچ بدلتی ہے اور خارجی عوامل جوں کے توں رہتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ خارج میں برپا ہونے والی تبدیلیاں فکری اعتبار سے صورتحال کو نظریانے کی کوشش ہوتی ہے۔ اگر سوچ ہی سب کچھ ہوتی تو زمان کے دورانیے کی ضرورت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
پاکستان یا ہندوستان میں خود ساختہ نقادوں کا مغربی تھیوری کو اس کے پس منظر سے محروم کر کے بیان کرنے کا عمل مجرمانہ سرگرمی کے مترادف ہے۔طالب علم یا قاری حقیقی دنیا سے کٹ کر صرف خیالات کی دنیا میں بسیرا کر لیتا ہے۔ایک ایسا قاری جس کے لئے استحصال اور شناخت کا مسئلہ زیادہ اہم ہے۔ افسوس کہ ایسے نقادوں کے تجریدی سرقوں کی وجہ سے ہی دربار کے خاتمے کے باوجود اس کا بھرپور احساس ذہنوں سے محو نہیں ہوتا۔ درباری سوچ آج بھی زندہ ہے، شاعری میں قافیہ پیمائی یا یوں کہیں مکھی پہ مکھی مارنے کے رجحان کے علاوہ کوئی مثبت رجحان نہ پنپ سکا۔آج اسی سوچ کے تحت شاعری اور تنقید تماش بینی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔شناخت اور عملی زندگی میں جدوجہد جیسی اقدار ،ان سارق ’نقادوں ‘کے ناقابلِ معافی جرائم کے فروغ کی وجہ سے رخصت ہو گئی ہیں،ان کے پاس ’سچائی‘ کا اپنا معیار ہے جو کسی صورت بھی عہدِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ کسی ایسی سچائی کو حاصل کر رہے ہیں جو بیش قیمت ہے۔ ویسے تو اس سوچ کا ماخذ قدیم توہم ہی ہے، مگر جدید دور میں جمالیات کو اس نظر سے دیکھنے کا رجحان جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ کے زور دار ’جمالیات محض‘ کے فلسفے سے پروان چڑھا ہے۔ کانٹ کی قائم کردہ عقل و وجدان کی یہ تفریق عہدِ قدیم کی خوف زدہ صورتحال کی عکاسی کرتی معلوم ہوتی ہے،جب عیسائی دہشت گرد پادری آزاد طبع فلسفیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔مغربی تہذیب کا یہ پہلو عیسائی دہشت گردی کی وجہ سے دب گیا،جسے صرف عیسائی دہشت گردوں کے ماوارائی مفادات کے تحت دیکھ کر ہی قابل فہم بنایا جاسکتا ہے۔ جب تک ان فلسفوں کے ظہور کے محرکات کا سراغ نہیں لگایا جاتا اس وقت تک گمراہی کے اس سلسلے کو دوام حاصل رہے گا۔ علم صرف مغربی درسگاہوں میں ہی نہیں بکتا بلکہ ہمارے سماج کے ہر پہلو سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔آقا اور غلام کی برسوں پرانی تفریق کے ختم ہونے کا وقت ہے۔
جرمن فلسفی ہیگل Master اور Slaveکے درمیان دوطرفہ شناخت کو خود شعوری کے احساس میں شعور کی اپنی خواہش کو مدِ نظر رکھ کر کرتا ہے ،جس کے مطابق ’معروض‘ کو فنا کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ اسے تسلیم کرنا ضروری ہوتاہے۔’دوسرے ‘کو ختم کر کے قائم کی گئی شناخت کا رخ بدل بھی سکتا ہے۔اس لئے آقا کی فتح مکمل نہیں بلکہ اندر سے خالی ہے۔ہیگل واضح کرتا ہے کہ’دوسرا ‘بھی ایسا کرسکتا ہے۔اس لئے اصل سوال ہم آہنگی قائم کرنے کا ہے۔ہیگل کا مسئلہ یہ رہا کہ اس نے صرف تفکراتی جدلیات کے ذریعے ،یعنی فکر کے ذریعے، اس عمل پر قابو پانے کی کوشش کی۔اڈورنو جب ہیگل پر اپنی ’منفی جدلیات ‘ میں حملہ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں ’دوسرے ‘کا تصور ہٹلر کی’ہولوکاسٹ‘ کی شکل میں موجود ہے، جو مغربی بورژوازی کے مطابق یہودیوں پر مسلط کی گئی ۔اڈورنو کے مطابق ’دوسرے‘ سے مراد یہودی ہے، جسے تفکر کرنے والا صرف تفکر سے فتح کرنا چاہتا ہے۔جہاں کہیں ظلم ٹوٹتا ہے وہاں پر’شعور‘ جواز فراہم کرتا ہے۔اس طرح اڈورنو اسے ’شعور‘ کا کارنامہ قرار دے کر ہیگل کے فلسفے سے جوڑتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اڈورنو کی فکر کسی حد تک مارکسی خطوط پر استوار ہے، لیکن آخری تجزیے میں اڈورنومارکس کے عظیم مقصد سے بے نیاز ہوکریہودیت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ہیگل کی مخالفت کا مقصد بھی یہی ہے۔ اس کی واضح مثال فرانس میں ۱۹۶۸کے طالب علم انقلاب کے اس واقعے کی صورت میں ملتی ہے ،جب ایک ایرانی طالب علم کا قتل ہوا۔ اڈورنو سے کہا گیا کہ وہ اپنا لیکچر منسوخ کرکے طالب علم انقلاب کی حمایت کرے، مگراس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔اڈورنو مارکسیت کے مرکزی خیال ،جو کہ پرولتاریہ کی جدوجہد سے وابستہ ہے، کے معیار پر پورا نہ اتر سکا۔
اس مغربی تناظر میں ۱۹۴۰کے بعد ’روشن خیالی پروجیکٹ ‘کی مخالفت کا تصور کلی طور پر سماجی، سیاسی، اور معاشی عوامل کا تابع ہے، جس نے یہودیوں کی شناخت کو داؤ پر لگا دیا۔اس لئے اس کا اصل محرک یہودیوں کی ’شناخت‘ کا مسئلہ ہی رہا ہے۔جہاں تک دوسرے پسے ہوئے طبقات کا تعلق ہے ، ان کی جدوجہد ان کی نظریاتی وابستگیوں کے مطابق آگے بڑھتی رہی ہے۔اس اعتبار سے مغرب میں افکار کی جنگ مغربی زمین پر لڑی گئی ،جس کا محرک زمینی تضادات کے علاوہ آسمانی آئیڈیالوجی بھی ہے۔ اگر کہیں تھیوری نے کلی تجریدی شکل اختیار کی (آلتھیوسے وغیرہ کی سائنسی جبریت کی شکل میں)، وہاں پر بھی حقیقی عوامل کا تعلق سماج کے ساتھ ہی رہا، جو ہر نئی سماجی تشکیل اور معاشی ارتقاء سے معنی بدلتا رہا۔ ان عوامل کو کلی طور پر سمجھے بغیر اس کے بارے میں معقول بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اُردو کے نقاد جب مغربی اصطلاحات ،روشن خیالی، ماڈرنٹی یا پوسٹ ماڈرنٹی کا ذکر کرتے ہیں تو وہ واضح نہیں کر پاتے کہ ان اصطلاحات سے ان کی کیا مراد ہے؟ مغربی پوسٹ ماڈرنٹی کو مشرقی پوسٹ ماڈرنٹی کے مقابل کیسے رکھا جائے؟(کیا پاکستان یا ہندوستان میں پوسٹ ماڈرنٹی کا ظہور ہوچکا ہے؟’نقادوں‘ کے تبلیغی عمل کے حوالے سے نہیں،بلکہ ٹھوس سماجی اور پیداواری قوتوں کے حوالوں سے جن کے ارتقاء سے مابعد جدیدیت کی بحث کا آغاز ہوا)۔ مغربی ماڈرنٹی کا گہرا تعلق صنعتی انقلاب کے ساتھ ہے جو برطانیہ میں واقع ہوا، روشن خیالی کی تحریک کا آغاز فرانس میں ڈیکارٹ کی عقلیت پسندی سے ہوا۔اگرپاکستان یا ہندستان کے تناظر میں ان اصطلاحات کا استعمال مغربی تناظر میں پیداواری ساختوں اور سماجی عمل میں عقلی و وجدانی کردار کو واضح نہیں کرتا ، تو یہ صورتحال کو گنجلک بنانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ایک ایسا گمراہ کرنے والا عمل جس کی پھیلائی گئی پراگندگی کی صفائی کا ذمہ آنے والی نسلوں کے سر رہے گا۔
نارنگ صاحب فلسفیانہ مباحث میں اپنی غیر تفکرانہ طبع کی وجہ سے قدیم ’سچائی‘ کے معیار کی تبلیغ کے علاوہ ، ہر طرح کی تنقیدی بصیرت سے عاری دکھائی دیتے ہیں، اسی وجہ سے وہ سرقہ کرنے پر مجبور ہوئے ۔ان حالات میں فلسفے سے بے زاری کے ا ظہار کا محرک بھی فطری نوعیت کا ہے ۔ کرسٹوفر نورس کے تمام اقتباسات کو جناب نارنگ اپنے نام سے منسوب کرتے ہیں مگر جہاں نورس بحیثیت فلسفی(کسی حد تک) فلسفے کا ذکر کرتے ہیں، نارنگ صاحب ان کو نظر انداز کردیتے ہیں۔جہاں پر نورس، وٹگنسٹائن کے حوالے سے سیوسئیرپر اس کی تنقید کا ذکر کرتے ہیں، نارنگ صاحب اس کو کمال صفائی سے حذف کر جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ وٹگنسٹائن کا فکری رویہ’ اینٹی ڈیکنسٹرکشنسٹ ‘ ہے ۔ نورس کاخیال ہے کہ وٹگنسٹائن کے نزدیک مابعد سیوسیئر ی متونی مباحث میں کئی قباحتیں پائی جاتی ہیں(جن مفکروں نے سیوسئیر کا خود مطالعہ کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ سیوسئیر کبھی تو زبان کو معروض سے جوڑ کر دیکھتا ہے اور کبھی سیوسئیر کے تجزیے میں زبان اور معروض کے تعلق میں معروض حذف ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ وٹگنسٹائن کا خیال ہے کہ ’’سگنیفائر اور سگنیفائڈ کے درمیان شگاف کا مطلب تشکیک پسندی کے روایتی فلسفے کی غلطی کو دہرا نے کے مترادف ہے‘‘)۔ نارنگ صاحب ان قباحتوں کا ذکر نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ اس سے ان کے ماورائی موقف اور ان کی تجزیے سے یکسر عاری علمیت کو زک پہنچتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ’ سچائی‘ کے بارے میں ان کے اپنے نظریات انتہائی پختہ ہیں۔ انھیں صرف اس قدیم ’سچائی‘ کی تبلیغ ہی مطلوب ہے، جس کا دامن انھوں نے اپنی ’شہرۂ آفاق‘ کتاب کی تکمیل کے دوران تھامے رکھا ۔ان کے افکار کس آئیڈیالوجی سے جنم لے رہے ہیں، یہ ان کے یک طرفہ انتہا پسندانہ تبلیغی رویے سے ظاہر ہو رہا ہے۔ انھیں’ردِ تشکیل ‘بھی شاید اسی لئے پرکشش دکھائی دیتی ہے کہ اس میں قدیم توہم کا پر تو نظر آتا ہے۔شاید اسی لئے ہیگلیائی ’ کلیت‘ کی تفہیم کے بغیر صرف اور صرف مغربی بورژوا ’دانشوروں‘ کی تقلید میں رد کرنے کا واویلا کررہے ہیں۔یہ استرداد کیسے ہوا ؟اس کے بارے میں تجزیہ تو دور ،ان کی شہرہء آفاق مسروقہ کتاب سے چند متعلقہ فقرے تک تلاش کرنا ایک عملِ بیکار سے زیادہ کچھ نہیں ،جو کلیت یا لازمیت پر ان کی فلسفیانہ بصیرت(اگر ہے) کی جانب اشارہ کرسکیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اُردو زبان میں عمانوئیل کانٹ ، ہیگل یا مارکس کے فلسفے کا بھر پور تنقیدی جائزہ کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ خود ساختہ نقادوں کی اکثریت نے ایک یا دو ’فقرے‘ یاد کر رکھے ہوتے ہیں، کسی مخصوص آئیڈیالوجی کے مطابق وہ ان فقروں کو ’احکامات‘ کی شکل میں پیش کرتے ہیں، جبکہ مخالفین متخالف نظریات سے چند فقروں کو اپنی آئیڈیالوجی کے تحت ’احکامات‘ ہی کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ اس طرح بیشتر نقاد ایک یا دو فقروں میں فلسفے کا ذکر کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ وہ لاعلم قاری جو فلسفیوں کے فلسفے کی پیچیدگیوں سے قطعاَ ناواقف ہوتا ہے، جسے اشعار پر ’واہ واہ ‘کرنے کا پیشہ عنایت کیا گیا ہے ، وہ ان نقادوں کے ان ’احکامات‘ پر بھی ستائش کے رویے کو قائم رکھتا ہے۔ فلسفیانہ گہرائی یا فلسفے کی تفہیم کی صورت میں فلسفے کے اثرات نہ ہی نقادوں کے افکار میں کہیں دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی قاری کے عملِ قرأت سے مطالعے کا احساس جھلکتا ہے۔عدم تفہیم کی وجہ سے سماجی تغیر میں لازمیت کے متقاضی موقف کی تشکیل ہی نہیں ہوپاتی۔اس طرح بیسویں صدی اور پہلی صدی کے امتیازی خدوخال ان نقادوں کی ماورائیت میں نجات پانے کی خواہش کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ان گمراہ کرنے والے رویوں سے نجات پانے کے لئے آج جہاں سرقے سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے تو وہاں علوم کو تنقیدی نظر سے اپنے تناظر میں دیکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مابعد جدیدیت کی اصلیت کی ایک جھلک؟؟
’’شیطانی آیات‘‘ کے حوالے سے سلمان رشدی مابعد جدیدیت کا علم بردار
’’یہ میرے لیے بے حد دلچسپی کی بات تھی کہ مجھے جدیدیت کے عظیم نمائندہ جوزف کونراڈکے بعد ما بعد جدیدیت کے علم بردار سلمان رُشدی پر کام کرنے کا موقع ملا۔۔۔رُشدی کی بطور مصنف نشوونما اور اس کے فن کی اختراعی نوعیت نے اسے مابعد جدیدیت فکر کا بڑا نمائندہ بنا دیا ہے۔‘‘
(مابعد جدید مفکرD.C.R.A. Goonetilleke کی کتاب Salman Rushdie سے اقتباس)