” اپریل ظالم ترین مہینہ ہے۔ ” یہ بچھڑوں کی یاد دلاتا ہے، بھولی کہانیاں تازہ کرا دیتا ہے۔ اپریل پرانے زخموں کو ہرا کر دینے والی رُت ہے۔ یہ رت نسیاں کی سکون بخش برف کو پگھلا کر انسان کو یادوں کی تپتی دھوپ میں بٹھا دیتی ہے۔
وادی میں برف پگھل چکی ہے لیکن پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کا پھٹا ہوا کفن چمک رہا ہے۔ ہر طرف ہریالی ہے۔ خوشگوار ہوا چل رہی ہے۔ شگوفے زخموں کی طرح پھوٹ رہے ہیں۔ کشمیر میں لنگڑاتی زندگی چھوٹے بچے کی طرح اپنے پاوؤں پر چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وقت کی سوئی دھیرے دھیرے زخموں کو سی رہی ہے۔ امید اور عزم زندہ اور جواں ہیں۔ ہوا میں ہر طرف تعمیر نو کی خوشبو ہے۔ پرندے ہوا میں مصروف ہیں اور زمین پر انسان اور چیونٹیاں !
دو مریل کتوں کے بھونکنے کے شور میں، میں ایک بوڑھی، کمان بنی عورت سے پوچھتا ہوں ” ماسی عمر دراز کا گھر کہاں ہے ؟”
“یہاں ہے بیٹا، سامنے، گلی کے سرے پر۔ ”
” دائیں طرف؟”
“نہیں، بائیں طرف۔ ”
“سبز دروازہ؟”
” سر! سر! آپ کس کے گھر کا پوچھتے ہیں ؟ “ایک خوبصورت بانکی لڑکی ہرنی کی طرح دوڑتی ہوئی آتی ہے۔ اس کی سفید کومل کلائی پر نفیس کالی گھڑی ایسے جمی ہوئی ہے جیسے کسی ہاتھی دانت کے نازک مینار سے چھوٹا کالا سانپ لپٹا سردیوں کی پیلی دھوپ میں اونگھ رہا ہو۔ اس کے روشن نچلے ہونٹ پر ایک چھوٹا سا زخم ایسے دہک رہا ہے جیسے جواں شمع کا گھائل شعلہ جلتا ہے۔
“آپ مجھے جانتی ہیں ؟” میں لڑکی سے پوچھتا ہوں۔
“جی سر۔ ”
“کیسے ؟ میں تو یہاں نیا آیا ہوں۔ آپ نے مجھے کہاں دیکھا ہے ؟”
“اسکول میں سر ! آپ ہمارے نئے انگلش ٹیچر ہیں نا!آج آپ نے ہمیں انگریزی پڑھائی تھی۔ میرا نام ثانیہ ہے۔ میں نویں جماعت میں پڑھتی ہوں۔ ”
میں اس لڑکی کو کلاس میں کیوں نہیں دیکھ پایا تھا؟ شاید یہ سب سے آخری ڈیسک پر بیٹھی تھی اور ہاں آج اسکول میں بجلی بھی تو نہیں تھی اور آسمان پر بادل بھی تھے۔
” سر آپ کو عمر دراز سے کیا کام ہے ؟”
“کسی نے بتا یا ہے کہ اس کے پاس کرائے کے لئے گھر خالی ہے۔ ”
“ہاں اس کے پاس خالی گھر ہے۔ سر آپ کا گھر کہاں ہے ؟”
“میں نعمان پورہ سے آیا ہوں۔ ”
تین دن بعد میں اپنی بوڑھی ماں اور بہن کے ساتھ نئے گھر شفٹ ہو جاتا ہوں۔ اس دن بہت سی عورتیں اور لڑکیاں میری ماں اور بہن کو ملنے آتی ہیں اور دیر تک بیٹھی رہتی ہیں۔ ثانیہ مراد بھی آتی ہے اور معصوم آنکھوں سے میری ماں کو دیکھتی رہتی ہے جو کہانیوں کے انداز میں باتیں کرتی ہے۔
لڑکیاں بھی عجیب مخلوق ہیں، جذبات کی ڈھیریاں، نفاست کی ڈلیاں، با توں کی گٹھڑیاں، وہ شور کرتی چڑیوں کے پھڑ پھڑاتے جھنڈ کی طرح کمرۂ جماعت میں داخل ہوتی ہیں۔ کمرے میں پہنچنے پر اپنی بڑی کالی چادروں کو نفاست سے لپیٹ کر کرسیوں کی پشت پر رکھ دیتی ہیں۔ سروں پر سفید دوپٹے لیتی ہیں۔ بیگوں سے بڑے پیار سے کتابیں نکالتی ہیں۔ پنسلوں کو احتیاط سے گھڑ کر برادہ اپنے اپنے بیگوں کی جیبوں میں ڈالتی ہیں۔ ہلکی ہلکی پھونکیں مار کر اپنی انگلیوں اور شاپنروں کو صاف کرتی ہیں۔ پھر ایک دوسرے سے سر ملا کر ہولے ہولے میٹھی میٹھی باتیں کرتی ہیں۔
ان لڑکیوں کے کتنے دشمن ہیں، زمانہ کتنا بیری ہے ان کا! یہ کتنی غیر محفوظ ہیں ! میں سوچتا ہوں۔ بظاہر خوش و خرم اور پر سکون نظر آنے والی ان لڑکیوں کے لا شعور میں خوف کی کتنی موٹی تہیں جمی ہوئی ہیں۔ کچھ لڑکیوں کی کلائیوں میں نظر بد سے بچنے کے لئے کالا دھاگا ہے۔ جنوں بھوتوں کے سایوں سے بچنے کے لئے کچھ کے گلوں میں تعویذ جھول رہے ہیں۔ صبح ان کی مائیں ان کا ما تھا چوم کر،دعاؤں کے ساتھ بھوت پریت، نظر بد، دیوانے عاشقوں اور نا گہانی حادثوں سے بھری دنیا میں دھکیل دیتی ہیں۔ چھٹی کے وقت ان کی نظریں گھڑی کی سوئیوں پر ٹک جاتی ہیں اور وہ ان کی بخیریت واپسی کا بے قراری سے انتظار کرتی ہیں۔ اگر بیٹیوں کو آنے میں تھوڑی سی بھی دیر ہو جائے تو ماؤں کے ماتھوں پر پسینہ آنے لگتا ہے۔ ان کے کلیجے الٹنے لگتے ہیں، رگوں میں بل آنے لگتے ہیں۔
ثانیہ مراد جب بھی کسی کام سے یا پانی پینے کمرۂ جماعت سے باہر جاتی ہے تو اپنی ساتھی لڑکی کے کندھے سے کندھا ملا کر چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتی ہے۔ ان کے قدموں کی آہٹ تو سنائی نہیں دیتی مگر ان کے کپڑوں کی دل آویز سرسراہٹ آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ریشم کے کئی تھان ہوا میں لہرا رہے ہوں۔ تھوڑی دیر بعد وہ مسکراتی ایک دوسرے کو ہلکے ہلکے کہنیاں مارتی واپس آتی ہیں، چہکتے ہوئے اپنے ڈیسک پر پھولوں کی ٹوکریوں کی طرح گر جاتی ہیں۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے وہ ڈیسک کے سخت تختے سے ٹکرا کر پتی پتی ہو جائیں گی۔
میری کلاس کی لڑکیاں بالکل چپ نہیں رہتیں۔ وہ ہر وقت شریر چڑیوں کی طرح چڑ چڑ کرتی رہتی ہیں۔ ایک بوڑھے پادری کی طرح میں ڈائس پر کہنیاں جمائے سوچتا ہوں، شاید انسان کو بولنا عورت نے سکھایا تھا۔ جب انسان غاروں میں رہتا تھا تو تاریک اور خاموش را توں میں عورت مردوں کو قصے سنا کر سلا دیتی تھی۔ شکاری دور میں مرد شاید عورت کو پیچھے اس لئے چھوڑ جاتے تھے کہ وہ بولنے سے باز نہیں آتی تھی اور اپنی جھک جھک سے شکار کو خبردار کر دیتی تھی۔ الف لیلہ کے سارے قصے بھی تو عورت کی زبان سے سنائے گئے ہیں۔
میں کلاس سے نکلنے کی تیاری کرتا ہوں۔ لڑکیاں کجلی آنکھیں گھما کر اور گالوں میں گڑھے بنا کر ایک دوسرے سے پیاری پیاری باتیں کرتی ہیں۔ لڑکے کوؤں کی طرح بھدا شور کرتے ہیں۔ کھردرے ہاتھوں اور بالوں سے بھرے بازوؤں کو بے ہنگم انداز میں ایسے اوپر نیچے کرتے ہوئے جیسے گدھ اڑنے کی تیاری میں پروں کو پھڑ پھڑا رہے ہوں۔ لڑکے اودھم مچاتے ہیں۔ ان کے ڈیسکوں اور بنچوں سے ایسی آوازیں آتی ہیں جیسے کباڑ خانے میں مزدور کام کر رہے ہوں۔
پانچویں اور چھٹے دن بھی ہمارے نئے آستا نے پر عورتوں اور لڑکیوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ کوئی انڈے لا رہی، کوئی دہی اور دودھ، تو کوئی گھریلو سادہ مٹھائی۔ ثانیہ بھی آتی ہے۔ وہ کٹورے میں مرغی کا سالن لائی ہے۔ سالن میں مرغی کی ایک ٹانگ ایسے پڑی ہے جیسے چولھے کے اوپر سے چھلانگ لگاتے وقت مرغی کی ایک ٹانگ دیگچی میں گر گئی ہو اور باقی کی مرغی فرار ہو گئی ہو۔ کبھی میں خود کو بہت خوش قسمت تصور کرتا ہوں، کیونکہ سر شام ہر روز کھانے کی ڈھیر ساری چیزیں مجھے مفت مل جاتی ہیں اور بعض اوقات میں خود کو بھکاری سمجھتا ہوں، جس کی میلی گدڑی پر لوگ اپنی بچی کھچی چیز پھینک رہے ہیں۔
اگلے دن ثانیہ اپنی کلاس فیلو ریحانہ کے ساتھ ہمارے گھر آتی ہے۔ دونوں آتے ہی کام میں جت جاتی ہیں۔ ریحانہ جھاڑو دینے کے بعد چلی جاتی ہے مگر ثانیہ چھوٹے موٹے کام کرتی رہتی ہے۔ کام ختم کرنے کے بعد میں اسے چائے پینے کیلئے کہتا ہوں۔ وہ میرا حکم بجا لانے کے لے ادب سے میرے سامنے بیٹھ کر چائے پینے لگتی ہے۔ چائے کی پیالی ہلکے سے اس کے نازک سندر ہونٹوں سے مس کرتی ہے اور چائے بے آواز طریقے سے اس کے ہونٹوں میں غائب ہو جاتی ہے، جیسے گلاب کی پتیوں میں شبنم غائب ہوتی ہے۔ میں اس سے اس کے گاؤں کے بارے میں پوچھتا ہوں اور وہ سکڑی، ہلکے سے جھولتی، آنکھیں اٹھاتی کبھی نیچے کرتی، مؤدب طریقے سے میرے فضول سوالوں کے جواب دیتی ہے۔
کلاس میں سبق کے دوران میں ثانیہ کو تکتا ہوں۔ جب وہ نشیلی آنکھیں اٹھا کر میری طرف دیکھتی ہے تو میں اپنی آنکھیں دوسری طرف پھیر لیتا ہوں۔ پھر وہ نظریں نیچے کر لیتی ہے اور میں اسے پھر سے تکنا شروع کرتا ہوں۔ پھر وہ نظریں اوپر اٹھاتی ہے اور میں نیچے دیکھنے لگتا ہوں۔ کبھی کبھی میری اور ثانیہ کی نظریں ایک دم ٹکراتی ہیں۔ اک سریلا شور اٹھتا ہے۔ رنگین دھول اور خوشبودار دھواں اڑتا ہے، اس کی قاتل نگاہوں کے سامنے میں خود کو بے بس پاتا ہوں۔ میں اس کی طلسماتی آنکھوں سے نکلنے والی غیر مرئی ٹھاٹھیں مارتی لہروں میں تنکے کی طرح بہتا چلا جاتا ہوں۔
ایک دن تفریح میں ثانیہ میرے پاس آتی ہے اور رنگ برنگی ٹافیوں سے بھری مٹھی میرے سامنے کھولتی ہے۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے ٹافیاں اس کی گوری چٹی ہتھیلی سے تتلیاں بن کر اڑ جائیں گی اور وہ خود پری بن کر ان تتلیوں کو پکڑنے کے لئے ہوا میں اڑ جائے گی۔ مدھر موسیقی کا مرغولہ کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ تتلیوں کے رنگ برنگے پروں سے بنے تاج محل فضا میں تیرتے ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ وہ ٹافیوں سے مٹھی بھرے، مسکراتی اسی طرح میرے سامنے کھڑی رہے اور میں اسے دیکھتا رہوں۔ پھر اس کی مٹھی سے ایک ٹافی اٹھاتا ہوں اور جیب میں محفوظ کر لیتا ہوں۔
ایک لڑکا ریحان اکثر ثانیہ سے بولتا رہتا ہے۔ اسے کاپی دیتا یا اس سے لیتا ہے۔ اس سے پین اور پنسل کا تبادلہ کرتا رہتا ہے۔ مجھے اس لڑکے پر غصہ آتا ہے۔ میں اسے سمجھانے کے لیے سزادیتا ہوں حالانکہ اس نے کوئی خاص غلطی بھی نہیں کی ہے۔ مگر وہ پھر بھی نہیں سمجھتا اور مسلسل ثانیہ سے بولتا ہے، چیزیں دیتا اور لیتا ہے۔ حتیٰ کہ ٹافیوں اور بسکٹوں کا تبادلہ کرتا ہے۔ میں اسے علیحدہ میں سمجھاتا ہوں: “ریحان تم لڑکیوں کو تنگ کیوں کرتے ہو؟ تم یہاں صرف پڑھنے کے لیے آتے ہو۔ ”
” سر میں تو کسی لڑکی کو تنگ نہیں کرتا۔ ”
“جھوٹ مت بولو! تم ثانیہ کو کیوں تنگ کرتے ہو؟”
“ثانیہ۔۔ ۔ وہ۔۔ ۔ سر۔۔ ۔ میری بہن ہے !”
ریحان۔۔ ۔ لوہے میں ڈوبا، خون آلود سپاہی۔۔ ۔ ایک دم سرخ میدان جنگ سے اٹھ کر ماں کی گود میں گر کر انگوٹھا چوسنے لگتا ہے۔ مجھے اس سے دودھ کی بو آنے لگتی ہے۔
میں ہر روز شیو بنا کر، صاف ستھرے کپڑے پہنتا ہوں، ولایتی پرفیوم لگا کر لش پش ہو کر ڈیوٹی پر آتا ہوں۔ ثانیہ کی ہو شربا آنکھیں مجھے دوڑا کر سکول لے آتی ہیں۔ میں سارا دن مضبوط گھوڑے کی طرح کام کرتا ہوں۔ ثانیہ سے نظروں کی آنکھ مچولی ہوتی ہے اور اس چالاکی اور مہارت سے کہ دوسرے لڑکے لڑکیوں کو شک بھی نہیں گزرتا۔ سبق کے خاتمے پر کبھی کبھار اپنے اسٹوڈنٹس کو شرافت، حیا اور ایمانداری پر چھوٹاسا لیکچر دیتا ہوں۔
جب چھٹی کی گھنٹی بجتی ہے تو مجھے بخار سا آنے لگتا ہے۔ مٹیالی مکڑیاں مجھے نقاہت کے جال میں جکڑتی جاتی ہیں۔ نیم مردہ ریشم کے کیڑے کی طرح مجھے اپنا آپ کو کون کے کفن میں لپٹا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ سورج دوبارہ مشرق کی طرف چلا جائے، دوبارہ صبح ہو جائے، لڑکے لڑکیوں کے چہرے شبنم میں دھلے ہوئے پھولوں کی طرح تازہ اور شگفتہ ہو جائیں۔ دوبارہ سکول لگنے کی سریلی گھنٹی بجے۔ میری منڈھی ہوئی داڑھی کی ننھی سر مئی کونپلیں جلد میں جذب ہو جائیں اور میں دوبارہ نویں جماعت کو پڑھانے میں جت جاؤں۔
میرا ایک ہم کار داؤد جو نویں جماعت کو ریاضی پڑھاتا ہے، مجھ سے زیادہ خوبصورت اور اسمارٹ ہے۔ ایک دن وہ اسکول نہیں آتا اور ثانیہ بھی اسکول نہیں آتی۔ مجھے سارا دن یہ غم ڈستا رہتا ہے کہ داؤد اور اس کے درمیان کوئی سمجھوتا ہے۔ اس نے ثانیہ کو فون پر بتا دیا ہو گا کہ وہ اسکول نہیں آ رہا۔ ثانیہ کو داؤد کے بغیر اسکول سونا سونا لگتا ہو گا، اس لیے وہ بھی اسکول نہیں آئی۔ میری نیندیں اچاٹ ہو جاتی ہیں، اور کئی دن تک میں پریشانی کے بھنور میں رہتا ہوں۔ میں ثانیہ کو سزادے کر سبق سکھانا چاہتا ہوں مگر مجھے کوئی بہانہ نہیں ملتا۔ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ داؤد ثانیہ کو کتابوں کے ساتھ سکول بیگ میں بند کر کے گھر لے جاتا ہے۔ گھر پہنچ کر وہ اسے ایک کتاب میں رکھ کر بھول جاتا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد میں اس کتاب کو کھولتا ہوں اور ثانیہ کو پرانے پھول کی طرح کاغذی اور سوکھا ہوا پاتا ہوں۔ وہ پھِدّی کی طرح بولتی ہے اور تتلی کی طرح اڑ جاتی ہے۔ میں کئی دنوں تک بے حال رہتا ہوں، میری بھوک جاتی رہتی ہے۔ میرا معدہ الٹ جاتا۔ آخر ایک دفعہ جب میں ثانیہ اور دوسری لڑکیوں کو داؤد کے ٹیچنگ میتھڈ کا مذاق اڑاتے سنتا ہوں تو بہت خوش ہوتا ہوں، میرا الٹا ہوا معدہ ایک خوشگوار جھٹکے سے سیدھا ہو جاتا ہے۔ میرے پیٹ میں بھوک کی پھلجھڑیاں چھوٹنے لگتی ہیں۔ ثانیہ رجسٹر میں لکھ رہی ہے۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے وہ کچن میں کھانا پکا رہی ہو، اس کا گھومتا ہوا پین چمچہ بن جاتا ہے۔ اس کے رجسٹر کے ورق سے بھاپ اٹھنے لگتی ہے۔ کلاس روم کھانے کی خوشبو سے بھر جاتا ہے۔
ایک دفعہ ثانیہ پورے تین دن تک سکول نہیں آتی۔ میں بے قرار رہتا ہوں۔ مارے شرم کے کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا کہ وہ کہاں گئی ہے۔
تین دن بعد۔۔ ۔ ایک لمبی قیامت خیز جدائی کے بعد۔۔ ۔ جبکہ میں خود کو بوڑھا محسوس کر رہا ہوں۔ ثانیہ جب سکول آتی ہے تو اس کے سفید ہاتھوں پر مہندی سے لمبی اور نازک بیلیں بنی ہوتی ہیں، اس کی گوری چاندی جیسی کلائیوں پر رنگ برنگی چوڑیاں کھنک رہی ہیں، اس کے چمکدار کالے بال کسی اور طرح سے گندھے ہوئے ہیں اور ان میں رنگ برنگی چھوٹی چھوٹی کلپیاں جگنوؤں کی طرح چمک رہی ہیں۔ آج وہ ایسے لہک لہک کر بول رہی ہے جیسے بلبل بہار کی آمد پر بولتی ہے۔ وہ اپنی لمبی سفید انگلیوں کو سنہری مچھلیوں کی طرح ہوا میں تیراتی ہے، خوبصورت آنکھوں کو بنٹوں کی طرح گھما کر لڑکیوں کو شادی، دلہن، نئے کپڑوں اور زیورات کے بارے میں بتا رہی ہے۔
میرا جی چاہتا ہے کہ اپنی کرسی اس کے ڈیسک کے قریب رکھ لوں، اس کی خوشبو کے حلقے میں بیٹھ جاؤں اور اس کی میٹھی میٹھی باتیں سنوں مگر میں پڑھانے کا عزم رکھتا ہوں۔ میں کتاب لیے ڈیسکوں کی قطاروں کے درمیان لنگڑے، شب گرفتہ بھنورے کی طرح بھنبھناتا ہوں۔ لڑکیوں کے سر کتابوں سے اٹھ کر ثانیہ کے سر سے جڑ جاتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے کئی تتلیاں ایک پھول پر بیٹھ گئی ہوں۔ میٹھے، نقرئی قہقہے اڑتے ہیں۔ پھولوں کے بستروں میں سو کر اٹھنے والی پریوں کی طرح ثانیہ کے کپڑوں میں لگے پرفیوم کی مہک انگڑائیاں لیتی ہے۔ میں اس خوشبو کوسونگھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لنگڑا بھنورا پھول کی پتی سے ٹکرا کر بے ہوش ہو جاتا ہے۔ مجھے اپنا آپ صفحہ ہستی سے مٹا ہوامحسوس ہوتا ہے۔ میرا وجود ٹھنڈا پانی بن کر بہہ جاتا ہے۔ کلاس میں خاموشی چھا جاتی ہے۔ میں کئی ہزاریاں عالم نسیاں میں گزار تا ہوں۔ پھر میں خود کو snail کی طرح رینگتا محسوس کرتا ہوں۔ لڑکوں لڑکیوں کی بھنبھناہٹ میرے سُن کانوں کو کریدتی ہے۔ میں خود کو ثانیہ مراد کے قدموں سے قطرہ قطرہ چنتا ہوں۔ میں اپنے ہاتھوں، کانوں اور ناک کو اپنی اپنی جگہ ٹانکتا ہوں، کھوپڑی کے کھوکے کی بھول بھلیوں میں بھیجے کے گلابی گچھوں کو ایڑی سے دبا کر اپنی جگہ پر بھر تا ہوں۔ رگوں کی وائرنگ کو دوبارہ فٹ کرتا ہوں، ہڈیوں کے ڈھانچے پر گوشت منڈھ کر اوپر سے بھوری چمڑی کا لیپ کر دیتا ہوں۔ رو بوٹ کی طرح میرے جسم پر کئی قمقمے جلنے لگتے ہیں۔ میرا انگ انگ زندگی کی تپش سے چیخنے لگتا ہے۔ میں دوبارہ سبق پڑھانا شروع کرتا ہوں۔ سبق کے دوران دو تین دفعہ میں ثانیہ کو ڈانٹتا ہوں۔
” ثانیہ باتیں مت کرو، سبق کو دیکھو!”مگر وہ چہکتی رہتی ہے۔ پھلجھڑی ایک دفعہ آگ پکڑ لے تو پھر اسے کون روک سکتا ہے۔ میں کتاب لئے کلاس روم میں کولھو کے بیل کی طرح گھومتا رہتا ہوں۔ میری کتاب کے حروف اڑ جاتے ہیں۔ مجھے اب وہ زیورات اور مہندی کے ڈیزائنوں والی کتاب لگتی ہے۔ میں سبق پڑھاتے وقت تین چار جگہوں پر غلطی کرتا ہوں۔ ایک دفعہ دو سطریں چھوڑ جاتا ہوں۔ دوسری دفعہ ایک لفظ کا غلط معنی کرتا ہوں اور تیسری دفعہ سبق کے درمیان ایک ایسا جملہ کہہ دیتا ہوں جس کا سبق سے کسی طور کوئی تعلق نہیں بنتا۔ شاید وہ جملہ مہندی یا چوڑیوں کے بارے میں تھا۔
“دلہن کے ہاتھوں پر مہندی تو اللہ۔۔ ۔ اس کے زیور۔۔ ۔ بھاری کڑھائی والا نیلا دوپٹہ۔۔ ۔ ”
جوں جوں ثانیہ دلہن کو میک اپ کراتی جاتی ہے۔ میرے خیالوں میں وہ خود دلہن بنتی جاتی ہے۔ گہنے پہنتی جاتی ہے، اس کے دوپٹے پر باریک کیسری بیلیں اگتی جاتی ہیں اور اس کا خوبصورت چہرہ گھونگھٹ میں چھپتا جاتا ہے۔
میں مہینے میں ایک بار ثانیہ سے پنسل، ربر یا بال پوائنٹ مانگتا ہوں اور انہیں اپنے پاس سنبھال کر رکھ لیتا ہوں۔ کیا وہ میری اس حرکت کو بھانپ گئی ہے۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔
مونہہ میں پین ڈال کر سوچنا اور بورڈ کی طرف دیکھنا اس کی عادت ہے۔ ایک دن وہ لیک پین کو مونہہ میں ڈالے رہتی ہے۔ نیلی روشنائی اس کے سامنے والے دانتوں کی رنگتی رہتی ہے۔ جب وہ اپنی کاپی چیک کرانے میرے پاس آتی ہے تو اس کے سامنے والے دانت نیلم کے بنے ہوئے لگتے ہیں۔
جس دن ثانیہ اسکول نہیں آتی تو مجھے سکول اجڑا اجڑا نظر آتا ہے۔ میری طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ میں دل لگا کر نہیں پڑھاتا۔ شاگردوں کا بولنا اور سوال پوچھنا مجھے بہت برا لگتا ہے۔ مجھے ان کی شکلیں بری لگتی ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے شاگردوں کو چھت سے الٹا لٹکا کر پیٹوں۔ کلاس روم کی دیواروں پر مجھے کائی جمی ہوئی لگتی ہے۔ میری ناک میں پھپھوندی لگی کھمبیوں کی عفونت چڑھ جاتی ہے اور میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔ سکول کی عمارت مجھے دشمن کی خوفناک چھاؤنی لگتی ہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ اسے ڈائنا مائٹ سے اڑا دوں۔ بوڑھے پرنسپل کی عینک توڑ دوں اور اپنے ہم کار اساتذہ کو ذلیل کر کے نوکری سے نکال دوں !
کام نہ کرنے پر میں لڑکوں کو سزا دیتا ہوں مگر لڑکیوں کو نہیں مارتا۔ ایک دن میں لڑکیوں کو بھی مارتا ہوں۔ ثانیہ کو بھی تین چھڑیاں لگاتا ہوں۔ وہ مار کھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مجھ سے غصے اور تیزی میں چھڑی اس کی کلائی پر لگتی ہے۔ اس کی چوڑیاں چھڑنگ کر کے ٹوٹتی ہیں۔ ٹوٹے شیشوں کی رنگیں آتش بازی ہوتی ہے۔ اک دلآویز شور ہوتا ہے اور کرچیوں کی ننھی آبشار فرش پر گرتی ہیں۔ پھر یکایک خاموشی در آتی ہے۔ اس کی آنکھوں کے کالے حاشیوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔ ٹوٹی چوڑیوں کی کرچیاں اس کی کلائی کو زخمی کر دیتی ہیں۔ مجھے اپنے آپ جلاد لگتا ہے۔ میں اپنی کرسی پر چلا جاتا ہوں اور وہ چاک کو پیس کر اپنے زخموں پر لگا تی ہے۔ معصوم میمنے کی طرح مجھے آبدیدہ آنکھوں سے دیکھتی ہے۔ چھٹی کے بعد جب سب لڑکے لڑکیاں کلاس روم سے نکل جاتی ہیں تو میں ثانیہ کے ڈیسک کے پاس جاتا ہوں۔ چوڑیوں کے رنگ برنگے ٹکڑوں کو چنتا ہوں اور چوم کر جیب میں ڈال لیتا ہوں۔ مجھے اپنا آپ صدیاں غار میں گزارنے والے صوفی کی طرح لگتا ہے۔ میرے گلے میں لمبی تسبیحیں اور پتھریلے منکوں کے ہار کھنکھناتے ہیں۔ میں ایک نروان یافتہ سادھو کی طرح انسانی آبادی کی طرف چل پڑتا ہوں۔
اسی دن شام سے ذرا پہلے ثانیہ ہمارے گھر آتی ہے۔ گھر کے کام میں اماں کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ سفید ہاتھوں پر کالی راکھ لگا کر برتنوں کو رگڑتی ہے۔ تیزابی راکھ اس کی کلائی کے زخموں کو چاٹتی ہے۔ کبھی کبھار بھیگی آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھتی ہے اور پھر نظریں جھکا کر ہلی ہلکی سسکیاں لینے لگتی ہے۔
ایک دن بوڑھے پرنسپل کو مجھ سے زیادہ قابل ٹیچر مل جاتا ہے اور وہ چٹکی بجا کر مجھے اسکول سے ایسے باہر پھینک دیتا ہے جیسے کوئی چڑ چڑی بڑھیا کسی شریر مرغ کو ٹانگ سے پکڑ کر شریف مرغیوں کے دڑبے سے نکال دیتی ہے۔ میں گاؤں میں آوارہ گردی کرتا ہوں۔ دل میں منصوبے بناتا ہوں۔ میں کنجوس پرنسپل کو گولی مار دوں گا۔ سکول کو بم سے اڑا دوں گا۔ اگر میرے پاس پیسے آ جائیں تو ایک ہفتے کے اندر اندر ایسا شاندار تعلیمی ادارہ کھولوں گا جس میں بچوں سے فیس کم لی جائے گی اور استادوں کو تنخواہ دگنی ملے گی۔ اس طرح لوبھی پرنسپل کی تعلیم کے نام پر تجارت کو ناکام بنا دوں گا۔ میں گلیوں میں مٹر گشت کرتا ہوں۔ کبھی دکان والے کے پاس بیٹھ کر سگریٹ پھونکتا ہوں یا پھر اپنے پڑوسی فیضو کے کھیت میں چلا جاتا ہوں۔ وہ مجھے کیڑے مار دواؤں میں ملاوٹ کی لعنت پر بھاشن دیتا ہے۔ یکا یک زمین ہلتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کی میرا سر چکرا گیا ہے۔ ساتھ ہی عمارتوں کے گرنے کی آوازیں آتی ہیں۔ ہر طرف دھول کے بادل اٹھنے لگتے ہیں۔ میں گاؤں پر نظر ڈالتا ہوں، مجھے ایسے لگتا ہے جیسے کسی جنگی فلم کا خوفناک سین دیکھ رہا ہوں۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا ہے۔
میری دائیں طرف میرا کرائے والا گھر ہے اور بائیں طرف سکول۔ میں یکایک سکول کی طرف دوڑتا ہوں۔ پھر مجھے بوڑھی ماں اور بہن یاد آتی ہیں اور میں گھر کی طرف بھاگ کھڑا ہوتا ہوں مگر پھر مجھے ثانیہ کی آنکھیں یاد آتی ہیں۔ میں بلا تامل سکول کی طرف بھاگتا ہوں۔ جہاں سکول تھا اب وہاں اینٹوں اور کنکریٹ کا ایک بے ترتیب ڈھیر پڑا ہے۔ چند بچے اور دو تین حواس باختہ استاد ملبے کے ڈھیر کے ارد گرد چیخ رہے ہیں۔
اینٹوں اور کنکریٹ کے ڈھیر سے رونے اور چیخنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ ثانیہ کس کمرے اور کس جگہ پر بیٹھتی ہے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے۔ میں اس جگہ کی طرف بڑھتا ہوں۔ آٹھ نو اینٹوں اور کنکریٹ کے ٹکڑوں کو ادھر ادھر پھینکتا ہوں مگر گری ہوئی کنکریٹ کی چھت کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو ہٹانا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ کمرے سے دوسری آوازوں کے ساتھ ساتھ ثانیہ کے چیخنے کی آواز بھی آ رہی ہے۔
” ثانیہ میں آ گیا ہوں، تم ڈرو نہیں ! میں پہنچ گیا ہوں نا، تھوڑی دیر میں میں تمھیں یہاں سے نکال لوں گا۔ ”
“امی بچا ؤ! جلدی کرو! امی جلدی کرو ورنہ میں مر جاؤں گا۔ ”
” ابو مجھے بچا لو ! اینٹوں کا ڈھیر میرے سینے پر پڑا ہوا ہے۔ میرے سر سے خون بہہ رہا ہے۔ ابو جلدی کرو۔ ”
” سر مجھے یہاں سے نکالو، میرا دم گھٹ رہا ہے۔ میں مر جاؤں گی۔ ”
لڑکے لڑکیاں چلا رہی ہیں، شاید وہ نہیں جانتی کہ ان میں اکثر کے والدین خود بھی کہیں ایسی ہی مصیبت میں گرفتار پڑے ہیں۔
آدھے گھنٹے کے بعد میں اور دوسرے اساتذہ ایک دوسرے کی موجودگی سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ہم مل کر کنکریٹ کی چٹانوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر بے سود!
میں اپنے گھر کی طرف بھاگتا ہوں۔ گھر مٹی کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ عصر تک میں اپنی ماں اور بہن کی لاشیں نکال لیتا ہوں۔ شام کے وقت میں دوبارہ سکول جاتا ہوں۔ اینٹوں اور کنکریٹ کے ڈھیر سے اب کم آوازیں آ رہی ہیں۔ جو آوازیں آ رہی ہیں وہ تھکی تھکی ہوئی ہیں۔ میں اب بھی ثانیہ کی آواز کو پہچان سکتا ہوں۔ لیکن میں اسے بچا نہیں سکتا۔
شام کا وقت ہے، خیموں میں نیم تاریکی اور خاموشی ہے جیسے وہ کسی شکست خوردہ فوج کا پڑاؤ ہو۔ پہاڑوں کی چوٹیاں صحرا میں بھٹکے اونٹوں کے قافلے کی طرح لگ رہی ہیں۔
کچھ دیر بعد کھانا تقسیم ہونا شروع ہوتا ہے۔ میری جبلت مجھے اس طرف کھینچ کر لے جاتی ہے جہاں لوگ ہاتھوں میں برتن لیے قطار میں کھڑے ہیں۔ میں ہاتھ میں کالی دیگچی لیے خیالوں میں گم کھڑا ہوں۔ ایک دم میرے کندھے پر زور سے چھڑی پڑتی ہے۔
“ذرا آگے ہو جاؤ!دوسروں کا بھی ذرا خیال کرو۔ ” ایک سپاہی کڑک کر بولتا ہے۔
صبح ٹھنڈی ہوا چلتی ہے۔ میرے مٹیالے خیمے کا کنارہ ایسے پھڑ پھڑاتا ہے جیسے ثانیہ کی چنی کا پلو ہو۔ میں اپنے ٹھنڈے بستر سے اٹھتا ہوں۔ رات کا باسی کھانا ناشتے میں کھاتا ہوں۔ سب لوگ ایک میدان میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ نام لکھے جا رہے ہیں۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی میدان کی طرف روانہ ہو جاتا ہوں۔ میرے راستے میں ہر طرف قبریں ہی قبریں ہیں۔ زلزلے کے بعد اس دھرتی کے سینے پر جیسے قبروں کی فصل اگ آئی ہو! چھوٹی قبریں، بڑی قبریں، بے ترتیب، جلدی میں بنائی گئی قبریں، بغیر کتبوں کے گوں گی گمنام قبریں !
بہار نے زمین کی گود کو سبزے اور جنگلی پھولوں سے بھر دیا ہے۔ سکول جاتے ہوئے میں کچھ جنگلی پھول چنتا ہوں اور ثانیہ کی قبر پر رکھ دیتا ہوں۔ ہمارا نیا سکول ایک بڑے تمبو میں چل رہا ہے، اساتذہ کم ہیں، کلاسوں میں طلبا کی تعداد بھی کم ہے۔ شور بھی کم ہے۔ یہ سکول نہیں بچوں کی جیل لگتی ہے۔ بچے پلاسٹک کی ڈمیوں کی طرح سر ہلاتے ہوئے آہستہ آہستہ سبق پڑھتے ہیں۔ وہ آپس میں کم بولتے ہیں۔ زلزلہ ان کے ہونٹوں سے مسکراہٹیں لے گیا ہے۔ میری نظریں کچھ چہروں کو ڈھونڈتی ہیں، میرے مرحوم ہم کار، عینک والے پرنسپل، میرے چہچہاتے شاگرد اور چونچلے کرتی ثانیہ ! کتنے خوبصورت اور معصوم چہروں کو زمین نگل گئی ہے۔
صدر، وزیر اعظم اور بڑے بڑے لیڈر آتے ہیں، بچوں میں کھلونے اور ٹافیاں تقسیم کرتے ہیں، ایک مصنوعی ہمدردی اور کاغذی مسکراہٹ کے ساتھ بے سہارا یتیم بچوں کے ساتھ فوٹو کھینچواتے ہیں۔ پھر انھیں سردی اور اندھیروں میں چھوڑ کر خود اپنے ہیلی کاپٹروں میں اڑانیں بھر کر شہروں کی روشنیوں، آرام اور تحفظ کی طرف چلے جاتے ہیں۔
رات کو برفانی ہوائیں چلتی ہیں۔ تمبوؤں کے کونے ایسے پھڑ پھڑاتے ہیں جیسے مردہ روحیں کفن کے لیے چیخ رہی ہوں۔ آسمان میں ننھے ستارے سردی سے ٹھٹھرتے رہتے ہیں۔ میرے خیمے سے کچھ فاصلے پر میری اماں اور بہن ٹھنڈی بے چراغ قبروں میں سوئی ہوئی ہیں اور دوسری طرف ثانیہ۔ مجھے دیر تک نیند نہیں آتی۔ میرے ذہن میں ماضی کے اچھے برے منظر تیرتے ہیں۔ میں انھیں بھلانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے دماغ کا آسمان صاف ہو جاتا ہے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ دماغ کے آسمان میں یادوں کے دیئے ستاروں کی طرح ٹکتے جاتے ہیں اور پھر میرے دماغ میں یادوں کے ہزاروں چراغ جلتے ہیں۔
سانسوں کی نازک ڈور کے سوا میرے پاس بچا ہی کیا ہے !میں زمین پر سویا ہوا ہوں، میرے سرہانے کے قریب دو پرانی پنسلیں، ایک خالی پین، گھساہوا ایک ربر، ایک ٹافی اور ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی رنگ برنگی کرچیاں پڑی ہیں۔ میں ان سے کھیلتا رہتا ہوں اور پھر صبح ہونے سے تھوڑی دیر پہلے مجھے نیند آ جاتی ہے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...