دادی کے چہرے پر سنجیدگی بڑھ گئی۔
”مزمل بیٹا! میں منظوراں سے وعدہ کر چکی ہوں کہ مزمل برات کے ساتھ ضرور جائے گا۔ اُس بے چاری کا مان رہ جائے گا۔”
”دادو! آپ کچھ زیادہ ہی ماسی منظوراں پر مہربان ہیں۔”مزمل نے خشک لہجے میں جواب دیا۔
”منظوراں کا تجھ پر بڑا احسان ہے۔ مزمل بیٹا۔”
”مجھ پر احسان، وہ کیا؟” مزمل نے حیرت اور تجسس سے کہا۔
”بتائوں گی، ضرور بتائوں گی۔ وقت آنے پر۔”
ممتاز بیگم نے گھائل آواز میں کہا۔ مزمل کے چہرے پر کئی سوال بکھر گئے۔ ممتاز بیگم نے دیکھا تو جلدی سے مسکراتے ہوئے بات بدلی۔
”تم بیٹی پر مہربان ہو۔ میں اُس کی ماں پر۔”
”مائرہ کہاں ہے نظر نہیں آئی۔” مزمل نے پوچھا۔
”تمہارے لیے رشین سیلڈ بنانے گئی ہے۔” ممتاز بیگم نے بتایا۔
”دادو! میں اپنے روم میں جا رہا ہوں آپ کھانا وہیں بھجوا دیجیے گا۔” مزمل یہ کہتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔
”اب تک کھانا تمہارے روم میں لگ چُکا ہوگا۔” ممتاز بیگم نے اعتماد کہا۔
٭…٭…٭
بھائی!السلام علیکم۔”مائرہ نے مزمل کو دیکھتے ہی کہا جو اپنے بیڈ روم میں داخل ہوا تھا۔ مائرہ بیڈ روم میں ڈسٹنگ کر رہی تھی۔
”وعلیکم السلام۔” مزمل نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ الماری سے کپڑے نکالے اور واش روم میں گھس گیا۔ وہ واش روم سے فارغ ہوا، تو مائرہ بھی ٹرالی کے ساتھ کمرے میں وارد ہوئی۔ اُس نے ٹیبل پر کھانا لگانا شروع کر دیا تھا۔مزمل شیشے کے سامنے بالوں میں برش کرنے میں مصروف تھا۔
”بھائی! ڈنر از ریڈی۔” مائرہ نے اسٹائل سے سینٹرل ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اطلاع دی۔
”بھائی! آج میں نے آپ کے لیے فروٹ چاٹ کی جگہ رشین سیلڈ بنایا ہے۔ ڈائجسٹ میں ریسپی پڑی تھی۔” ڈائجسٹ کا نام سُنتے ہی مزمل نے عجیب نظروں سے مائرہ کی طرف دیکھا۔ مائرہ نے اپنی زبان دانتوں تلے دبائی اور چو ر نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ مزمل نے صوفے پر بیٹھنے کے بعد سب سے پہلے رشین سیلڈ ہی اپنی پلیٹ میں ڈالا۔ وہ خاموشی سے کھا رہا تھا اور مائرہ مجرموں کی طرح اُس کے سامنے کھڑی تھی۔
”بھائی! سچ کہوں میں نے پچھلے چھے ماہ سے کوئی ناول کوئی ڈائجسٹ نہیں خریدا ہاں وعدہ خلافی ضرور کی ہے۔ کالج میں سہیلیوں سے لے کر پڑھ لیتی ہوں۔ آج آپ سے پکا وعدہ کرتی ہوں جب تک ڈاکٹر نہیں بن جاتی کوئی ناول نہیں پڑھوں گی چاہے وہ مناہل آپی کا ہی کیوں نہ ہو۔ ” مناہل کا نام سُن کر مزمل نے مائرہ کی طرف دیکھا اُس نے دل میں سوچا مائرہ کو مناہل حیدر کے متعلق بتاتا ہوں۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ مائرہ فوراً بول پڑی:
”سوری بھائی! مجھے پتا ہے آپ میرے لیے ہی کہتے ہو۔ آیندہ مناہل آپی کا ذکر بھی نہیں کروں گی۔ آپ کی قسم۔” مائرہ نے بڑی معصومیت سے قسم اُٹھائی۔ مزمل اُس کے بھول پن پر مسکرا دیا۔ مائرہ نے مزمل کی مسکراہٹ کا فائدہ اُٹھایا اور جلدی سے فرمائش کر دی۔
”بھائی! ایک ریکویسٹ تھی؟” مائرہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ مزمل نے سنجیدگی سے اُس کی طرف دیکھا اور اپنے ابروں سے بولنے کا اشارہ کیا۔
”پلائو بھی کھائیں نا۔” مائرہ نے بات بدل دی ۔ مزمل نے جانچتی نگاہ اُس پر ڈالی اور کہنے لگا:
”اصل بات بتائو۔”
”آپ بھی مبشر بھائی کی برات کے ساتھ چلیں نا۔ امّی نے سارے معراج کے میں مشہور کر دیا ہے کہ ہمارا سیٹھ بھی برات کے ساتھ آئے گا۔”
”سیٹھ؟” مزمل نے سیٹھ سُن کر عجیب سا منہ بنایا۔
”امّی نے معراج کے میں سب لوگوں کو آپ کا نام سیٹھ صاحب ہی بتایا ہے۔ اگر آپ نہ گئے تو سارے شریکے میں امّی کی ناک کٹ جائے گی۔”
”مائرہ!یو نو… میں ایسی تقریبات میں نہیں جاتا۔” مزمل نے حتمی انداز میں کہا۔
”بھائی! آئی نو آپ مجھے بہن جیسی سمجھتے ہیں نا پلیز میری خاطر ہی سہی۔”مائرہ نے مودبانہ گزارش کی۔
”آپ کو طے کرنا ہے مائرہ آپ کی بہن ہے یا نہیں جیسی کو بیچ میں سے نکال دو۔”مناہل حیدر کے الفاظ مزمل کے کانوں میں گونجے۔ مزمل نے چشم الفت سے مائرہ کو دیکھا پھر کہنے لگا:
”تم بہن جیسی نہیں بلکہ تم میری بہن ہو، ہے تو بہت مشکل پھر بھی میں برات کے ساتھ ضرور جائوں گا۔” مائرہ کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
”تھینکس۔ مزمل بھائی۔”
٭…٭…٭
مزمل گاڑی پارک کر نے کے بعد بے زار سا اپنی گاڑی سے اُترا برات شادی ہال کے بیرونی دروازے تک پہنچ گئی تھی۔
دُلہن کی سہیلیوں نے مبشر کا گلاب کی پتیوں سے استقبال کیا۔ ماسی منظوراں اپنے بیٹے کے واری جا رہی تھی۔ مائرہ کبھی اپنے بھائی کی طرف دیکھتی اور کبھی مڑ مڑ کر مزمل کی طرف دیکھتی جو برات ہی کی طرف آرہا تھا۔
”ہے تو ڈف اینڈ ڈم پر ہے خوب صورت۔” ماہ نور نے سرگوشی کے انداز میں ماہم کے کان میں کہا۔
”یہ بھی؟ ہائے اللہ۔” ماہم نے دھیمے لہجے سے کہا۔ وہ مزمل کو دیکھ رہی تھی۔ اُسے ماہ نور کی بات سن کر انتہائی دُکھ ہوا۔
”بڑا حوصلہ ہے مسرت کا جو ایک گونگے بہرے بندے سے شادی کر رہی ہے۔” مدیحہ نے ناک چڑھاتے ہوئے معصومہ سے کہا ۔مائرہ نے یہ بات سُن لی، برات شادی ہال میں داخل ہو چکی تھی۔ مائرہ بیرونی دروازے پر مزمل کا انتظار کر رہی تھی۔
”یہ جیمز بانڈ کون ہے؟” معصومہ نے جلدی سے مدیحہ کے کان میں کہا۔ اِس سے پہلے کہ وہ اُسے کوئی جواب دیتی ماہ نور نے صدا لگائی:
”ہیلو مزمل بیگ۔” مزمل نے اجنبی نظروں سے ماہ نور کی طرف دیکھا پھر کچھ لمحے سوچ کر بولا:
”ہیلو۔” اور مائرہ کی طرف بڑھ گیا۔ ماہم نے زور سے ماہ نور کو کہنی مارتے ہوئے کہا:
”یہ تو بولتا ہے۔”
”میں نے کب کہا یہ گونگا ہے۔” ماہ نور نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔ مائرہ اور مزمل بھی شادی ہال میں داخل ہو چکے تھے۔ مائرہ نے اِدھر اُدھر دیکھا اور ایک کونے میں مزمل کو لے جا کر بولی :
”بھائی آپ پلیز رخصتی تک مبشر بھائی کے ساتھ ہی رہیں۔ ہمارے رشتے دار اور یہاں کے لوگ بڑے عجیب سے ہیں۔”
”ڈونٹ وری مینا۔” مزمل نے شفقت سے مائرہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی دی اور اسٹیج کی طرف چل دیا۔
برائیڈ ل روم کے باہر ماہم اور ماہ نور اُسے دیکھ رہی تھیں تو دوسری طرف ہال کی درمیانی پارٹیشن عورتوں کی طرف جانے والے دروازے کے پاس سے معصومہ اور مدیحہ اُس پر نظریں جمائے ہوئے تھیں۔
مزمل جا کر مبشر کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔
”میں نے تم سے پوچھا تھا یہ جیمز بانڈ کون ہے؟” معصومہ نے مدیحہ سے ایک ایک لفظ پر زور دے کر پھر سوال کیا۔
”یہ دولہا کا باس ہے۔ بہت امّیر ہے۔ میں نے سنا ہے شادی کا سارا خرچہ اِسی نے کیا ہے۔” مدیحہ نے مزمل کو چشم حسرت سے دیکھتے ہوئے معصومہ کو بتایا۔ دوسری طرف ماہ نور نے سینہ تان کر ماہم کو خبر دی:
”یہ ہمارا ریلٹو ہے۔” ماہم نے شکی مسکراہٹ سے ماہ نور کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”چل جھوٹی۔ ریلٹو اور تمہارا؟”
”آئی سوئیر” ماہ نور نے یقین دلانے کی کوشش کی پھر بھی ماہم کے چہرے پر بے یقینی ہی تھی۔
”کرتا کیا ہے؟” ماہم نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”ابّا بتا رہے تھے۔ بہت بڑا بزنس مین ہے۔” ماہ نور نے اطمینان سے جواب دیا۔
”حکیم چچا آگئے۔” ماہم نے عجلت سے کہا اور ساتھ ہی برائیڈل روم میں گھس گئی۔ ماہ نور نے بھی جلدی سے اُس کی تقلید کی اِس کے برعکس مدیحہ اور معصومہ اپنی جگہ پر ہی کھڑی رہیں۔
حکیم مسلم انصاری کے ہاتھ میں رجسٹر تھا، وہ دولہے کے اسٹیج کی طرف جا رہے تھے۔ اُن کے ساتھ دُلہن کا باپ اور اُس کے چند قریبی عزیز و اقارب بھی تھے۔ مائرہ فکر مندی سے ہال کی پارٹیشن والی جگہ معصومہ اور مدیحہ سے تھوڑی دور کھڑی تھی جہاں ایک طرف عورتیں بیٹھی تھیں اور دوسری طرف مرد حضرات۔ ننھی سی عمر اور اتنی فکر مندی مائرہ سیکنڈ ائیر کی اسٹوڈنٹ ہے اور ڈاکٹر بننا چاہتی ہے وہ اپنے چشمے کے اوپر سے دیکھ رہی تھی جیسے کوئی بوڑھا حالات و واقعات کا جائزہ لے رہا ہو۔
”نکاح شروع کرو۔” مظہر حسین دُلہن کے باپ نے دیسی انداز میں کہا۔ اُس کا کہنا حکم یا اجازت کے زمرے میںنہیں آتا تھا۔ مزمل نے دولہے مبشر کی طرف دیکھ کر اُسے اشاروں سے سمجھایا مبشر نے سر کو ہاں میں جنبش دی۔
”جی بسم اللہ کریں۔” مزمل نے حکیم صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”حق مہر کتنا ہوگا؟”دُلہن کا باپ یک لخت بولا۔ مزمل نے مبشر کی طرف دیکھا اچانک اُس کی نظر مائرہ پر پڑی اُس نے کھڑے ہو کر مائرہ کو ہاتھ کے اشارے سے اسٹیج کی طرف بلایا مائرہ تیز تیز قدموں سے اسٹیج کی طرف آئی تو مزمل بولا:
”مینا! یہ پوچھ رہے ہیں” حق مہر کتنا ہوگا۔
” وہی شرعی۔” مائرہ نے جلدی سے جواب دیا۔
”حق مہر شرعی نہیں ہوگا بلکہ پانچ لاکھ ہوگا۔” مظہر نے حتمی انداز سے فیصلہ سنایا۔
”خالو جی! میں نے آپ سے پوچھا تھا۔ آپ نے تو اُس وقت جواب دیا تھا وہی شرعی۔” مائرہ نے شکایتی انداز میں مظہر سے کہا۔
”اب بھی میں ہی کہہ رہا ہوں۔” مظہر نے سینہ تان کر جواب دیا جیسے اپنا حق مانگ رہا ہو۔ مزمل کو اُس کا انداز اور رویہ پسند نہ آیا پھر بھی اُس نے بڑے اطمینان سے پوچھا:
”حق مہر کیا ہے؟”مظہر کو کسی ایسے سوال کی توقع نہ تھی۔ اُس نے پریشانی سے حکیم صاحب کی طرف دیکھا جیسے اُن سے مدد مانگ رہا ہو۔
”حق مہر عورت کا حق ہے۔ شریعت نے اُس کی کوئی حد مقرر نہیں کی۔” حکیم صاحب نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔
”اِسی لیے تو میں بھی پانچ لاکھ کہہ رہا ہوں۔” مظہر پھر جوش سے بولا۔ مائرہ نے بے چارگی سے مزمل کی طرف دیکھا جو پہلے ہی سے مائرہ کو دیکھ رہا تھا۔ مبشر سُن تو نہیں سکتا تھا، لیکن اپنے خالو کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا، اُس نے اشاروں سے مائرہ سے پوچھا کہ خالو کیا بول رہا ہے۔ مائرہ نے اُسے ساری بات سمجھائی مبشر نے مزمل کو بازو سے پکڑ کر ہلایا اور اشاروں سے کہا کہ آپ بات کرو۔
”حق مہر معجل ہوگا یا غیر معجل؟” مزمل نے مظہر سے پوچھا۔
”کیا ہوگا؟” مظہر نے حیرانی سے حکیم صاحب کی طرف دیکھا۔ حکیم صاحب کے بولنے سے پہلے ہی مزمل پھر بول پڑا :
”معجل مطلب موقع پر ادا کر دینا اور غیر معجل بعد میں ادا کرنا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...