اعجاز تما پوری مرحوم نے شاعری میں غزل،نظم،رباعیات،قطعات،ہائیکواوردوہے تک ساری اصناف کو برتاہے۔غزل ان کے شعری مزاج کی اولین شناخت ہے۔ان کی نظمیں بھی غزل کے زیرِ اثر دکھائی دیتی ہیں۔انہوں نے روایتی نظم کو اہمیت دی ہے تاہم جدید نظم سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا۔رباعیات اور قطعات کی روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اعجاز تما پوری نے اپنے شعری امکانات کو ممکنہ حد تک اجاگر کیا ہے۔ہائیکو چونکہ جاپان سے لائی گئی صنف تھی،اس لیے اس کے بنیادی ڈھانچے کواس کی جاپانی مقامیت کے حوالے سے سمجھے بغیرہمارے ہاں تین یکساں مصرعوں کی نظمیں ہائیکو کے نام سے پیش کی جاتی رہی ہیں،تاہم بار بار توجہ دلانے کے بعد اب اس خامی پر قابو پا لیا گیا ہے۔
اعجاز تما پوری نے اردو میں ہائیکو نگاری کے ابتدائی دور میں ہائیکو لکھے تھے سو ان میں وہ بے خبری راہ پا گئی ہے۔انہوں نے سادگی کے ساتھ تین ہم وزن مصرعوں کے ’’ہائیکو‘‘ لکھ دئیے ہیں۔لیکن ہائیکو کے دوش بدوش اعجاز تما پوری نے جو دوہے لکھے ہیں وہ دوہے کی روایت کے عین مطابق ہیں۔بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ ایسے موسم میں جب پاکستان کے بعض’’عالی مقام‘‘شاعروں نے دوہے کے مقررہ چھندوں یا بسرام کا التزام کیے بغیر غزل کے مطلعوں کے انبار لگا کر انہیں دوہے کا نام دے رکھا ہے،اعجاز تما پوری نے اردو دوہے کو ہندی دوہے کی روایت سے دور نہیں ہونے دیا۔
اعجاز تما پوری کا یہ شعری مجموعہ’’گوہرِاعجاز‘‘ان کے جملہ شعری امکانات کو ساتھ لیے ہوئے ہے۔اس مجموعہ سے اردو شاعری میں ان کی شعری خدمات کا جائزہ لیا جا سکے گا۔اعجاز تما پوری کی وفات کے بعد ان کا یہ شعری سرمایہ یک جا کرکے شائع کرنے والے ان کے سارے عزیز اور احباب اس کارِ خیر کو مکمل کرنے پر لائقِ تحسین ہیں۔میں اس مجموعہ کی اشاعت پر اپنی دلی مسرت کا اظہار کرتا ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(’’گوہرِ اعجاز ‘‘میں شامل تاثرات)