ہمارے اردو ادب میں نء تنقید لکھنے والے کسی تخلیقی ادب پارے پر بات کرنا کسر شان سمجھتے ہیں،ان کے نزدیک علمیت کا واحد معیار یہی قائم ہوا ہے کہ گلوبلائزیشن کے مختلف عناصر پر مغربی فکر کی جگالی کی جائے اور ان پہلووں کو موضوع بنایا جائے جس کا براہ راست تعلق ادب کے ساتھ تو نہیں بن سکتا البتہ علمیت کا رعب کسی حد تک ضرور قائم ہو جاتا ہے۔۔۔آج کل ہمارے جدید اردو نقاد اس بنے بنائے سانچے پر کائنات کی ہر شئے کو فٹ کرنے میں سرگرداں ہیں۔۔۔ہمارے یہ نقاد اگر غلطی سے کسی ادب پارے پر بات کر بھی لیں تو وہ اسی سانچے پر اسے بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔اس وقت ہمارے بیشتر اردو نقاد یہ باور کرانے میں غلطاں و پیچاں ہیں کہ وہ مغرب کے تمام علوم و فنون راتوں رات گھول کر پی چکے ہیں اور اب ان کی علمی بصیرت اس مقام پر فائز ہو چکی ہے کہ اہل مغرب بھی انھیں حیرت سے دیکھتے ہیں۔ کیا یہ رویہ ہمارے اردو نقادوں کی کھوکھلی روح کو ظاہر نہیں کرتا۔۔۔کیا یہ تنقید کے بابو اردو کو ثروت مند بنا رہے ہیں۔۔۔کیا یہ احساس کہتری کسی اچھی صورت حال پر منتج ہو گا۔۔۔مغرب کی جگالی سے ہم نے ماضی میں کیا فیض پایا تھا کہ اب اسے پانا لازمی ہے۔۔۔کیا ہم چند اصطلاحات کا ورد کر کے اپنے جاہل شیطان کو بھگا نے میں کامیاب ہو جائیں گے۔۔۔کیا وہی اردو نقاد ہمارے ہاں محترم ہو گا جو اپنی علمیت جتانے میں کامیاب ہو جائے گا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...