اس میں شک نہیں کہ نئے عہد نے ہم پر خوش حالی اور عیش و عشرت کے در وا کئے ہیں سائنس اور ٹکنولوجی نے مادی ترقیات کو تیز رفتاری عطا کی ہے۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے اس وسیع و عریض دنیا کو ایک گلوبل گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے مگر بایں ہمہ ان سائنسی دریافتوں اور فکری جدتوں نے مادی پیش رفت کے پہلو بہ پہلو روحانیت کو بھی مجروح کیا ہے۔ اطمینان، قلبی سکون اور راحت جیسی بے بہا دولت آج قصۂ پارینہ نظر آتی ہے۔ یہ سب اس لئے کہ اعلیٰ اقدار کی پامالی، تہذیب کی شکست و ریخت، خود غرضی اور منافقت جیسی علتیں ہمارے معاشرے کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہی ہیں۔ آج کا انسان کبھی ذات کے محفوظ جزیرے میں قید نظر آتا ہے تو کبھی اجتماعی انتشار کے تپتے ہوئے ریگستانوں میں خود کو نامساعدحالات سے متصادم پاتا ہے۔
اس بحران میں سانس لینے والی نسل زندگی کے چورا ہے پر کھڑی آگے کا راستہ متعین کرنے میں منہمک نظر آتی ہے۔ اس نسل کے فنکاروں میں جنہوں نے گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کے آس پاس اپنے تخلیقی وجود کا ثبوت دینا شروع کیا ان میں سے بیشتر کی شاعری اپنے عہد کا ایک ایسا آئینہ نظر آتی ہے جس میں عہدِ حاضر کے مختلف چہرے عکس ریز ہیں انہیں فنکاروں میں ڈاکٹر فریاد آزر ایک اہم نام ہے۔ وہ خالصتاً غزل کے شاعر ہیں۔ عصری شعور کی حامل ان کی غزلیں سماجی، معاشی اور نفسیاتی رویوں کے ہر رخ کی ترجمانی کے ساتھ بالخصوص امت مسلمہ کی حالتِ زار کا المناک پہلو پیش کرتی ہیں۔ ان غزلوں سے ان کا فکری اخلاص مترشح ہے جن میں سماجی شعور اور اسلامی فکر کی ایسی فضا بندی ہوئی ہے جس سے ان کی غزل گوئی کے وسیع تر امکانات روشن نظر آتے ہیں۔
ان کا حقیقی نام سید فریاد علی ہے اور ادبی دنیا میں ڈاکٹر فریاد آزر کے نام سے معروف ہیں۔ بنارس میں ان کی ولادت ۱۰ جولائی ۱۹۵۶ء کو ہوئی۔ انٹر میڈئٹ وہیں سے کیا اور اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دہلی آ گئے۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے، جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے ایڈوانس ڈپلومہ ان ماس کمیونیکیشن میڈیا، اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ سردست دہلی میں قیام ہے جہاں وہ درس و تدریس کے معزز پیشہ سے سبک دوش ہو کر سماجی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ صحافت کا اچھا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ماہنامہ انٹر نیشنل اردو میڈیا کی ادارت سے تین سال تک وابستہ رہے۔ ماہنامہ ’’عاکف کی محفل‘‘ کے بھی مدیر اعزازی رہے ہیں اور انٹرنیٹ کے ذریعہ اردو کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ گوگل گروپ کے ادب ڈاٹ کوم کے موڈریٹر کی حیثیت سے اپنا ایک ادبی ویب سائٹ بھی چلا رہے ہیں جس کے ہزاروں ممبر ساری دنیا میں موجود ہیں۔ اسی طرح فیس بک پر مختلف اردو گروپ مثلاً اکیسویں صدی کی غزل، دبستانِ طنزو مزاح اور یارانِ جامعہ کے بھی موڈریٹر ہیں۔ ریختہ جیسی بے شمار ویب سائٹس پر آزر کی غزلیں اور ان کی غزلوں پر بڑے بڑے نقادوں کے مضامین موجود ہیں۔ ان کے کئی بلاگ بھی انٹر نیٹ پر موجود ہیں لیکن سب سے اچھا بلاگ، بلاگ اسپاٹ ڈاٹ کوم پر ہے
انھیں یوں تو بچپن سے شاعری کا شوق رہا ہے مگر اس کا باقاعدہ آغاز۱۹۸۰ء کے آس پاس کیا۔ پہلے ساجن پردیسی مرحوم سے اصلاحیں لیں اور آخر میں پروفیسر عنوان چشتی مرحوم کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا۔ اب ماشاء اللہ وہ اس مقام پر ہیں کہ دوسرے ان سے کسب فیض کر رہے ہیں۔ یوں تو طالب علمی کے دور سے ہی ان کی تخلیقات شاعر، شب خون، آہنگ، سب رنگ، ادب لطیف، افکار (پاکستان) جیسے مقتدر رسائل کی زینت بننے لگی تھیں مگر اب یہ حال ہے کہ بیشتر رسائل میں نظر آتے ہیں اور اپنی ایک منفرد شناخت بھی بنائی ہے تصنیفات میں بچوں کا مشاعرہ کے علاوہ دو (غزلیہ) شعری مجموعے خزاں میرا موسم اور قسطوں میں گزرتی زندگی منظر عام پر آ کر خراج تحسین وصول کر چکے ہیں اوراس کے بعد ان کا تیسرا شعری مجموعہ کچھ دن گلوبل گاؤں میں منظرِ عام پر آیا ہے جو در اصل پہلے دو مجموعوں کا ایک جامع انتخاب ہے۔ انتخابی مجموعہ کو پیش کرنے کا عمل اس نقطۂ نظر سے لائق تحسین ہے کہ ان کی نمائندہ تخلیقات یکجا نظر آئیں گی۔ جو لوگ تحقیقی امور جڑے ہیں وہ اگر آزرؔ صاحب پر کچھ لکھنا چاہیں تو اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ یہیں نہیں رک گئے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ نیا کلام بھی عوام اور خواص سے داد و تحسین حاصل کرتا رہا جس کا مجموعہ ایلئین کی شکل میں 2016 میں نمودار ہوا۔ آزر صاحب کی شاعری کے متعلق لب کشائی سے پہلے میں ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کا یہ قول پیش کرنا چاہوں گا۔ ’’شاعر وہی اچھا ہے جو اپنی مہر بند شخصیت میں روزن بنا کر خود کو لا متناہیت کے لمس سے آشنا کرے‘‘ ۔ ڈاکٹر فریاد آزر کی غزلوں میں واحد متکلم اگر چہ اپنی ہی ذات کے خول میں نظر بند آتا ہے۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو وہ اپنی ذات کے اندر محدود نہ رہ کر ہر دور کے معاشرے کا ایک ایسانمائندہ فرد ہے جس کی نظیر مسائل کی دھوپ میں تپتے ہوئے ریگستانوں میں کھڑے اس شخص سے دی جا سکتی ہے جو ہمدردی اور خلوص کی چادر سے محروم ہے۔ تینوں مجموعوں کے بیشتر اشعار سے یہ گمان ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فریاد آزر کی وسطی زندگی جہد مسلسل میں گزری ہے اور زندگی کی کڑی دھوپ کے صحرا میں مدتوں آبلہ پائی کے کرب سے دوچار رہے ہیں۔ واللہ علم بالصواب۔ ان کے کچھ اشعار میرے اس گمان کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔ مثلاً:
وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں
خبر نہ تھی کہ نکالے گا جان قسطوں میں
تمام عمر بھٹکتا رہا میں خانہ بدوش
خرید بھی نہ سکا اک مکان قسطوں میں
تمام قرض ادا کر کے ساہوکاروں کا
بچا ہی لوں گا بزرگوں کی آن قسطوں میں
جو مکاں اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی
اس مکاں میں ہم کرایہ دار ہو کر رہ گئے
صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے
سب میں کرایہ داروں کے پائے گئے نشاں
جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا
ان اشعار سے ظاہر ہے کہ آزر صاحب کی زندگی میں جو کڑے لمحے آئے ہیں ان میں بے گھری کا کرب سب سے نمایاں ہے۔ بنارس سے دہلی ہجرت اور پھر دہلی میں مستقل قیام کے دوران کی ذاتی زندگی میں اچانک قیامتِ صغرا کی زبر دست ہنگامہ آرائی بھی ان کی شاعری میں جا بجا محسوس کی جا سکتی ہے۔ شخصیت اور شاعری کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ شاعر جو محسوس کرتا ہے یا اس کے اپنے جو مشاہدات و تجربات ہوتے ہیں انہیں اس طرح شعری لباس عطا کرتا ہے کہ فردیت اجتماعیت کا روپ دھار لیتی ہے۔ فریاد آزر چونکہ ایک حساس انسان ہیں اس لئے عصرِ حاضر کی قہر سامانیاں ان پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کی شاعری انسانیت کو درپیش مسائل سے مکالمہ آرائی کرتی نظر آتی ہے، آج کی صارفیت اور عالم گیریت کی اندھی دوڑ میں جبکہ اخلاقی قدریں اور ترجیحات یکسر بدل چکی ہیں، انسانیت کا قتلِ عام جاری ہے ایسے میں آزر صاحب نے اپنی شاعری سے نوک نشتر کا کام لینے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جنمیں عہدِ حاضر کا منظر نامہ قاری کو لمحۂ فکریہ عطا کرتا ہے۔
پھر گھٹ کے مرگیا مرے اندر کا آدمی
پھر آ کے بس گیا کوئی پتھر کا آدمی
ہم سمجھنے لگے مجرم ہے ہمیں میں کوئی
حادثہ ایسا رچایا گیا سوچا سمجھا
اب کے برس بھی جھوٹ ہمارا پیٹ بھرے گا
سچائی افلاس لکھے گی اب کے برس بھی
آج کی مادہ پرست دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ رشتوں میں استواری نہیں رہی۔ اگر دنیا سکڑتی جا رہی ہے تو فرد سے فرد کی دوری بھی بڑھنے لگی ہے۔ اس فکری بعد اور ذہنی فاصلہ نے انسان کو اپنی ذات کے خول میں بند کر دیا ہے۔ تنہائی اس کا مقدر بن چکی ہے۔ چنانچہ شناسا لوگ بھی نظر پھیر کر گزر جاتے ہیں۔ بے حسی ایسی کہ منھ اور کان
رہتے ہوئے بھی انسان گوں گا اور بہرا لگتا ہے اور تو اور شہر ایک ایسا طلسم خانہ بن چکا ہے جس کی حدود میں قدم رکھتے ہی لوگ پتھر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے یہ شعر ملاحظہ ہوں۔۔ ۔
وقت کے ٹھکرائے کو گردانتا کوئی نہیں
جانتے ہیں سب مجھے پہچانتا کوئی نہیں
پہلے تو اس نے شہر کو بہرا سمجھ لیا
پھر یوں ہوا کہ خود کو ہی گوں گا سمجھ لیا
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں
جو بھی جا تا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے
اب ذرا دنیا کی تیز رفتاری اور خاندان کے بکھراؤ کے ساتھ ساتھ جدید دور کہ یہ کرشمے بھی دیکھیں کہ کمپیوٹر نے اب بچوں کی کتابوں کے بستہ کی شکل لے لی ہے۔ اوزون کے سوراخ سے در آنے والی بنفشی شعاعوں کا حملہ بھی ہونے لگا ہے جس سے عمل تنفس کا متاثر ہونا یقینی ہے اور لمحوں میں صدیوں کا فاصلہ طے کرنا کوئی محیر العقول بات نہیں رہی۔
ننھا کمپیوٹر، قلم، کاپی، کتابوں کی جگہ
اس قدر سوچا نہ تھا ہو جائیں گے بستے جدید
ورنہ ہم سانس لینے کو ترس جائیں گے
سطح اوزون کو فضلات سے آزادی دے
چلے تو فاصلہ طے ہونہ پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ ڈاکٹر فریاد آزرؔ کی شاعری کا کینوس بے حد وسیع ہے جس جدید معاشرے کے جملہ مسائل اپنی تمام تر سنگینیوں کے ساتھ واضح نظر آتے ہیں تاہم ان کی شاعری کا ایک خوشگوار پہلو ایسا بھی ہے جو ان سب پر حاوی نظر آتا ہے اور وہ پہلو ہے ان کی اسلامی فکر جسے ان کی شاعری میں اساسی حیثیت حاصل ہے۔ عہدِ حاضر میں اسلام مخالف طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب آج عالم اسلام جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے وہ ہر ذی فہم کیلئے کسی لمحۂ فکریہ سے کم نہیں۔ ایسے میں ایک قلم کار کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے قلم سے تلوار کا کام لے اور اسلام مخا لف سازشوں کا پردہ چاک کرے۔ آزر صاحب نے اس فریضہ کو بحسنِ خوبی نبھایا ہے۔ اس ذیل میں انہوں نے انگنت شعرکہے ہیں۔ کہیں تلمیح سے کام لیا ہے تو کہیں ایمایئت سے اور کہیں کہیں برملا اظہار بھی ہے۔ طوالت کے خوف سے صرف چند اشعار کا حوالہ پیش ہے۔
ظالموں کے لئے وہ کام قلم سے لوں گا
جو نہ کر پائے گی تلوار بھی انشا اللہ
ہم سمجھنے لگے مجرم ہے ہمیں میں کوئی
حادثہ ایسا رچایا گیا سوچا سمجھا
دہر میں زندہ ابھی نمرود کا ہمزاد ہے
امتحاں میں اب بھی ابراہیم کی اولاد ہے
کربلا ہو کہ فلسطین کہ ہو بوسنیہ
درد صدیوں سے مرا نام و نسب جانتا ہے
سب سنائی دیتا ہے آزرؔ اذانوں کے سوا
محوِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدید
صحرا سے العطش کی صدا آ رہی ہے پھر
تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے پھر
آزر صاحب کی شاعری سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ مروجہ یکسانیِ فکر کی عام روش سے ہٹ کر انہوں نے جو اشعار کہے ہیں ان میں مواد اور ہیئت کے درمیان فاصلہ کو انہوں نے جس کامیابی سے طے کیا ہے اس سے ان کی فنی اور فکری بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ لسانی اور اسلوبیاتی سطح پر بھی وہ راہِ اعتدال سے متجاوز نہیں ہوئے ہیں۔ مشکل تراکیب اور مشکل استعارات سے عمداً گریز سے ابلاغ و ترسیل کا مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وہ محاسن ہیں جن کی بدولت ان کی شاعری قاری کے انجذابِ توجہ کا باعث بنتی ہے۔ ان کے ہاں کچھ اشعار ایسے بھی مل جاتے ہیں جنہیں ان کا شناس نامہ کہا جا سکتا ہے۔ مثلاً ان کا یہ اولین شعر دیکھیں۔
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
بیشتر اشعار میں ان کی ایسی سوچ بھی کار فرما ہے جس سے ان کے فکری ارتفاع اور تخلیقی جوہر کا پتہ چلتا ہے۔ خصوصاً لفظوں کو انہوں نے جو کثیر الجہتی عطا کی ہے اس کے سبب ان کی شاعرانہ آواز اپنے ہم عصروں میں دور سے پہچانی جا سکتی ہے۔ اس قبیل کے چند اشعار دیکھیں۔
ظالموں کے لئے وہ کام قلم سے لوں گا
جو نہ کر پائے گی تلوار بھی انشا اللہ
ہم نے گزار دی جسے چھاؤں میں بیٹھ کر
وہ زندگی تھی دھوپ سے لڑ نے کی زندگی
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
بزرگوں کی کبھی خدمت نہ کر پائے تھے آزر
سو اپنے آپ کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں
جو تھے مخصوص کبھی اور ہی قوموں کے لئے
کچھ عذاب ایسے بھی امت پہ اتر آئے ہیں
وہ فراعین ہیں کہ روحِ زمیں کانپتی ہے
اور اس عہد میں آیا نہیں موسا کوئی
درخت یوں ہی اگر سبز سبز کٹتے رہے
بدل نہ جائے زمیں پر نصاب موسم کا
نغمگی سے مرے اشعار ہیں خالی آزرؔ
میرے افکار میں پازیب کی جھنکار نہیں
بدلے میں اس کی موت مرا میں تمام عمر
وہ شخص جی گیا مرے حصے کی زندگی
سب کی آنکھیں تھیں رکھی گروی میرے دشمن کے پاس
کون میرے گھر کی بربادی کا منظر دیکھتا
نہ ہو گر خوفِ دوزخ اور نہ لالچ بھی ہو جنت کا
بھرم کھل جائے پھر ہم جیسے لوگوں کی عبادت کا
تو پھر اقوامِ متحدہ میں بھی جمہوریت لائے
اگر سچ مچ ہی دشمن ہے وہ ظالم آمریت کا
اہلِ صحرا بھی بڑھے آتے ہیں شہروں کی طرف
سانس لینے کو جہاں صرف دھواں باقی ہے
اس میں شک نہیں کہ آزر صاحب حرف کے مزاج داں ہیں اور ان کا کلام صلابتِ فکری اور شعری بصیرت کا نمونہ اس کے ساتھ ساتھ جدید حسیت، سماجی شعور اور اسلامی افکار سے وابستگی کے سبب ان غزلوں میں جو دلکش فضا بندی ہوئی ہے وہ ان کی شعری جہات کے وسیع ترامکانات کا جواز فراہم کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کے گلوبل گاؤں کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر فریاد آزؔر نے وقت کے محضر نامہ پر اپنے فکرو فن کے جو دستخط ثبت کئے ہیں ان کی شناخت لکیروں کے ازدحام میں بڑی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔
٭٭٭