چوں کہ شیخ نے ابتداے عمر سے سادگی کے ساتھ بسر کی اس لیے دربار اکبری میں پہنچنے تک تو بغیر کہے ہر شخص خیال کر سکتا ہے کہ اس کو تکلفات کی پروا ہی نہ تھی اور وہ اس قدر صاف اور بے ساختہ پن کے ساتھ رہتا تھا کہ دوسرے سے بن نہ پڑے۔ چنانچہ اس کے حالات خود شاہد ہیں کہ اس نے کبھی نمائش اور تکلف کو پاس نہیں آنے دیا۔ وہ غذا میں تو اس قدر بے پروا تھا کہ کئی مرتبہ اشتہاے صحیح میں اس نے اپنی محبوبہ بیوی کو روٹی پکانے کی بھی تکلیف نہ دی اور دال چانول آٹا جو کچھ موجود ہوتا تھا یوں ہی استعمال کرلیا کرتا۔ اس کو یقیناً معلوم تھا کہ غذا کی غایت پیٹ بھرنا یا بھوک کی تکلیف سے نجات پانا ہے جو بغیر پکائے بھی ممکن ہے، پھر ضرورت کیا کہ ایک وقت طلب امر کے لیے بیوی کو الگ تکلیف ہو اور خود جدا انتظار کی زحمت اٹھائے۔ بھوک میں مٹی کا نوالہ سونے کا ہوتا ہے بس اسی پر اس کا عمل تھا اور بڑی ہمت سے وہ اس پر نباہ بھی کرلیا کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ بیماری کے اسباب اور مرض کے موجبات غذا کی بد پرہیزی یا خارجی علتیں ہرگز نہیں۔ وہ کہتا تھا کہ جس پیٹ میں پکی روٹی ہضم ہو جاتی ہے، کچا آٹا کیوں نہ ہضم ہو۔ ہمیشہ دہی کھایا کرتے ہیں، آج کیا وجہ ہے کہ دہی سے زکام ہو جائے۔ اگر دہی مضر ہوتا تو ہمیشہ مضر ہوتا۔ کبھی ہو کبھی نہ ہو یہ عقل کی بات نہیں ہے۔ یا بیماری میں گھی کم کھایا جائے، دودھ کی ممانعت ہو، شیرینی سے پرہیز کرو۔ یہ سب باتیں واہیات ہیں۔ بیماری میں ضعف ہوتا ہے اور گھی طاقت لانے والی چیز ہے، پس ضرور عین بیماری میں کھانا چاہیے تاکہ ضعف نہ آنے پائے۔ اسی طرح دودھ اور شیرینی تو بخار میں کھانا فرض ہے کیوں کہ منہ کا مزہ کڑوا ہو جاتا ہے، اس کے بدلنے کے لیے میٹھی چیز سے زیادہ کوئی ضروری بات ہی نہیں۔ وہ لرزہ اور بخار کی علت صاف طور پر اس طرح بیان کر دیتا تھا کہ جاہل اور گنوار تک سمجھ جاتے تھے۔ یعنی جب دھوپ میں بہت دیر تک رہو گے ضرور بدن گرم ہو جائے گا۔ یہی بخار ہے اور جاڑا ایسے آتا ہے کہ برسوں سے خصوص سردی کے دنوں میں جو پانی پیا جاتا ہے وہ جمع ہوتے ہوتے اور پیٹ کی کوٹھری میں جہاں مطلق گرمی یا آگ نہیں پہنچ سکتی، ٹھنڈا رہتے رہتے بدن میں کپکپی پیدا کر دیتا ہے۔ یہی لرزہ ہے۔ اسی پر دلیل یہ لاتا تھا کہ دیکھو! جاڑوں میں جب سرد پانی پیو تو بدن کانپنے لگتا ہے پھر پیٹ میں اتنا بہت سا پانی جمع رہے اور لرزہ نہ آئے اس کے کیا معنی۔
دست آنے کے متعلق بھی اس کا یہ اعتقاد تھا کہ کسی دن پانی زیادہ پی لیا گیا پس پیٹ کے اندر فضلہ گھل گیا اور پتلا ہو کے نکلا۔
پیٹ میں درد اس وجہ سے ہوتا ہے کہ آنتیں تو بڑی ہوشیار ہیں۔ جب کھانا ان میں پہنچتا ہے تو اتفاق سے ایک آدھ کو نہیں ملتا ہے۔ بس وہ دوسری آنتوں سے لڑتی اور چھینتی ہے۔ اب یہ سب پیٹ کے اندر دوڑی دوڑی پھرتی ہیں۔ ان کے چلنے اور دوڑنے سے پیٹ میں ان کے پاؤں زور زور سے پڑتے ہیں اور دکھنے لگتا ہے۔
دربار اکبری میں جب وہ پہنچا ہے تو وہاں کے امرا اور خواجہ شیون نے اس کی پر تکلف دعوتیں کیں۔ مگر وہ ہمیشہ شاکی اور متنفر رہا جس کی وجہ یہ تھی کہ کھانے تو اس قدر لذیذ مگر کثرت اتنی کہ ایک ایک لقمہ بھی لیا اور پیٹ بھر گیا۔ پس منہ میں ایک لقمہ کا مزہ کیا معلوم ہوسکتا ہے۔ جب تک ہر چیز کو بہت سی نہ کھایا جائے خاک بھی ذائقہ نہیں ملتا۔ ایسے کھانوں سے بجز اس کے کہ غصہ آئے کہ ہاے کچھ نہ کھایا کوئی حاصل نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس نے چند روز کے بعد دعوتوں میں جانا چھوڑ دیا اور ملا دو پیازہ کے گھر پر چونکہ رہتا تھا ان کے کھانوں سے بھی ہچکچاتا رہتا اور ذرا ان کی آنکھ بچی کہ بازار سے سیر آدھ سیر چنے بھنوا منگائے یا دس پانچ پھوٹیں، دو تین سیر گاجریں، کبھی چنے کے ستو لیے اور پیٹ بھر کھا کے آسودہ ہو گیا۔ جب ملا صاحب کے یہاں رہنے سے زیادہ تکلیف ہونے لگی اور اپنی پسند اور آزادی کے ساتھ کھانے کا موقع کم ملنے لگا تو شیخ الگ مکان میں اٹھ گیا، مگر باورچی خانہ کا انتظام نہ کیا اور کھڑا کھیل فرخ آبادی بازار سے کچھ لیا، کھا پی کے ٹھکانے لگا دیا۔
لباس میں ہمیشہ سادگی کا لحاظ رکھا۔ یورپ کے اصول اس کو اس وقت معلوم تھے جن پر آج عمل ہو رہا ہے یعنی وہ موٹے کپڑے کو بہت پسند کرتا تھا اور اس زمانہ میں ملکی صنعت کے گاڑھے دھوتر اس کی مرغوب ترین چیزیں تھیں۔ دو سوتی کی مرزائی یا پنبی پاجامہ وہ اکثر پہنتا۔ گرمیاں، جاڑے، برسات ہر موسم میں اصول صحت کے قاعدہ سے اس کا لباس خالی نہ تھا۔ یعنی جاڑوں میں مسامات بند ہونے کا اس کو کامل یقین تھا، اس لیے مصلحتاً باریک کپڑا استعمال کرتا۔ جس کی کھلی دلیل یہ تھی کہ ایک تو مسامات بند اس پر اگر گرم لباس پہنا جائے تو یقیناً دوران خون میں فرق واقع ہوگا اس لیے ہلکا اور باریک لباس پہننا چاہیے۔ اسی طرح گرمیوں میں گرم اور موٹا لباس اختیار کرتا۔
درباری لباس میں اس کو ہمیشہ الجھن اور بے چینی رہی۔ بڑے بڑے گھیردار جامے اور کمر میں پانچ سیر کا پٹکا، سر پر گراں بار رفیدہ، شلوار کی قطع نرالی، یہ تکلفات اس کو بہت ناگوار تھے۔ وہ بے قید رہنا زیادہ پسند کرتا تھا اور اسی وجہ سے وہ کبھی کبھی دربار میں بالکل تحت اللفظ ایک جانگھیا یا مرزائی پہنے چلا جاتا۔ اس کے الناس باللباس کے مشہور مقولہ سے کبھی اتفاق نہ تھا۔ وہ ذاتی خوبیوں کے سامنے صفات اضافی کو کچھ چیز ہی نہ سمجھتا۔ اس کا قول تھا کہ گدھا جُلّ اطلس سے گھوڑا ہو جائے تو ہو جائے، مگر انسان لباس فاخرہ سے گھوڑا ہو نہیں سکتا۔ نہ برہنہ رہنے سے وہ گاے بیل ہو جائے گا۔ انسانی خوبیاں تمام لباس اور آرائش سے افضل ہیں اور کامل آدمی کبھی اس کا مقید ہو ہی نہیں سکتا۔ ستر عورت کے متعلق اس کا انوکھا خیال آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ یعنی جب تمام اعضا ایک ہی جسم میں ایک ہی انسان کی ملکیت ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہر عضو کے کھولنے یا چھپانے پر تو آدمی آزاد ہو اور ایک خاص چیز کو ہمیشہ بند اور ڈھنکا رکھنے پر مجبور رہے۔ کیا اس پر ہم کو حق ملکیت حاصل نہیں ہے۔ کیا ہم اس کے مطیع ہیں کہ ہمیشہ ڈھانپے رہیں۔اصول صحت کے اعتبار سے بھی وہ اس پر بحث کرتا تھا کہ اعضا کو ہوا پہنچنے سے تازگی اور تندرستی رہتی ہے، پھر کیوں سب کے ساتھ یکساں برتاؤ نہ کیا جائے۔ اس حکیمانہ خیال سے وہ کبھی کبھی مخلیٰ بالطبع ہو کے بالکل برہنہ ہو جاتا یا جسم اسفل کو کھلا رکھتا اور اعلی کو ڈھانپ لیتا۔
اخلاق کے اعتبار سے وہ ایک سراپا تہذیب بلکہ شرح تہذیب تھا۔ اس نے بارہا لوگوں سے محض اخلاقاً ایسے وعدے کر لیے جن کے پورے کرنے کا اسے خیال بھی نہ آیا۔ وہ کسی کی دل شکنی گناہ کبیرہ سمجھتا تھا۔ اکثر اس نے دروغ مصلحت آمیز بہ از راستیِ فتنہ انگیز کے بھروسے پر سازشی گواہی دی اور کسی مجرم کو بچا لیا۔ دعوتیں تو اکثر دے دیا کرتا اور مہمانوں کی خاطر مدارات یا کھانا موجود نہ ہونے کی صورت میں وہ کسی پڑوسی کے مال پر تصرف کرنا نہ صرف ضروری سمجھتا تھا بلکہ واجب خیال کرتا تھا۔
لڑکوں کے ڈھیلوں کا اس نے کبھی خیال ہی نہ کیا اور تحمل کے ساتھ ان کی اذیت گوارا کر لیا کرتا مگر محض اس خیال ہم دردی سے کہ لڑکے زیادہ شوخ نہ ہو جائیں اور ایسی ہی کوئی حرکت اپنے والدین سے نہ کر بیٹھیں، راہ چلتے کسی لڑکے کو پکڑ کے وہ قرار واقعی گوشمالی کر دیا کرتا تھا۔ یہ اس کی انسانی ہمدردی قابل تعریف ہے۔
وہ زاہد خشک تو خدانخواستہ کیوں ہونے لگا بلکہ ایک بذلہ شیخ خوش مزاج آدمی تھا۔ ظرافت اور مزاح میں کبھی نہ چوکتا۔ ایک بار اس نے اپنے مہمان کو جمال گوٹے دے دیے کہ اس سے زیادہ تفریح کا مشغلہ بھی نہ تھا۔ ملا دو پیازہ کے طہارت کے لوٹے میں مرچیں گھول دیں۔ ملا صاحب کا خفا ہونا اور اس کا مارے ہنسی کے لوٹنا عجب سماں تھا۔ ایک بڑھیا اکبر آباد میں رستے سے جا رہی تھی، آپ نے اس کے قریب جا کے باد مخالف صادر کر دی اور بڑھیا سے کہا: “لے دے میرا نام”۔
حاضر جوابی میں اس کا کوئی مقابل ہی نہ تھا۔ شیخ اور میخ کے قافیہ کا مشہور لطیفہ اسی کی طبیعت خداداد کا نتیجہ ہے جس سے جاٹ بے چارہ کولہو کا نام سن کے حیران رہ گیا۔ ایک شیعی عالم سے اکبر نے اس کا مناظرہ کرا دیا اور انصافاً بازی شیخ کے ہاتھ رہی۔ عالم نے کہا کہ ہاتھ باندھ کے نماز پڑھنا درست نہیں ہے، مشرکین مکہ آستینوں میں بت رکھ کے نماز میں شریک ہوتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی کہ ہاتھ باندھ کے نماز نہ پڑھی جائے۔ اس کا جواب شیخ نے یہ دیا کہ ہاں واقعی حکم ہوا تھا مگر جن کی آستینوں سے بت نکلے ان کو تو ہاتھ کھول کے نماز پڑھنے کا ارشاد ہوا اور جن کے پاس نہیں نکلے وہ ہاتھ باندھ کے پڑھتے رہے۔
اس کا حافظہ معمول سے زائد قوی تھا۔ اکبر آباد میں جب وہ آیا تو پہلے پہل ہاتھی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس نے اس کو اپنی کتاب یادداشت میں ٹانک لیا: ہاتھی۔ چند روز کے بعد فصلی میوہ امرود بازار میں دیکھا، اس کا نام بھی پوچھ کے لکھ لیا: امرود۔ زمانہ گذر گیا اور یہ دونوں لفظ اس کے پاس لکھے رہے۔ جب وہ دربار سے خفا ہو کے گھر چلا آیا اور جھونپڑے میں رہنے لگا، ایک دن ایک ہاتھی چرکٹا لے کے ادھر سے نکلا۔ گاؤں کے لوگوں نے ایسی عجیب چیز دیکھ کے بڑی حیرت کی اور سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ ہے کیا۔ شیخ چلی کو خبر ہوئی اور ہاتھی دیکھ کے فوراً حافظہ نے یاد دلایا کہ میں نے اس کو دیکھا ہے اور لکھ بھی لیا ہے۔ جلدی جلدی یادداشت نکالی اور لوگوں سے کہنے لگا: میں سمجھ گیا۔ تم گھبراؤ نہیں، یا تو یہ ہاتھی ہے ورنہ امرود ضرور ہی ہے۔ یہ کہہ کے شیخ رو پڑا کہ ہمارے بعد یہ باتیں کون بتائے گا۔
شیخ کی شجاعت کا رتبہ تہوّر تک پہنچ گیا تھا جس کی نظیر تو ہیمو کے واقعہ سے مل سکتی ہے۔ اس کی پر قوت طبیعت میں خوف و ہراس پیدا ہی نہ ہوئے تھے، نہ اس نے کبھی جبن سے کام لیا۔ مستقل مزاجی شجاعت کا ایک خاص جوہر ہے، وہ شیخ کو پوری پوری حاصل تھی جس کی وجہ سے اس کے کسی کام میں ہلا پتی اور بے ترتیبی ہونے ہی نہ پاتی تھی۔ گھبرانا یا پریشان ہونا تو اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ مگر تمام عمر میں ایک بار وہ ایسا بوکھلا گیا اور اتنا بدحواس ہوا کہ گویا وہ مجنون ہو جائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ جب گھر سے نکل کے سفر کر رہا تھا، ایک دن ایک قصبہ میں پہنچا۔ وہاں ایک مبتذل سرا تھی جس میں وہ فروکش ہوا۔ کوٹھریاں تنگ، سائبان ندارد، صحن چھوٹا اور غلیظ، لید اور گوبر کے انبار لگے ہوئے، کوڑا کچڑا ڈھیروں پڑا ہوا۔ اور برسات کا موسم، نیم کے پھل تمام سڑے ہوئے صحن میں پھیلے ہوئے تھے۔ کیچڑ کی انتہا نہیں۔ ایسی خراب جگہ میں اس طرح کا میرزا منش اور نازک مزاج آدمی ایک گھڑی نہیں ٹھہر سکتا۔ مگر مجبوری لاچاری سب کچھ کراتی ہے۔ شیخ بیچارہ ایک کوٹھری میں ٹھہرا، امس اور گرمی کا تو اس نے کچھ خیال نہ کیا نہ اس کی اصلی صحت اور طبعی قوت ان خارجی امور کو مانتی تھی۔ مگر رات کو مچھروں نے شیخ کی گرمیِ صحبت کو اپنا افتخار سمجھا اور چاروں طرف سے دَل کے دَل ٹوٹ پڑے۔ شیخ نے پہلے تو ہاتھوں سے کام لیا اور بعض دفعہ کان کے پاس مچھر نے جب نفیری بجائی اور باضابطہ نوٹس دی کہ میں آ پہنچا، غصہ میں ایسا لپڑ جمایا کہ اپنی ہی کنپٹی جھنا گئی۔ جب مچھروں نے زیادہ نرغہ اور دست درازی کی تو بہادر شیخ نے جھپٹ کے تلوار گھسیٹ لی اور بزن بول دیا۔ مچھروں کے کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ لاش پر لاش گرتی تھی۔ سارا پلنگ، تمام کوٹھری لہولہان ہو گئی اور یہ بہادر شیر دل برابر دو دستی پھینک رہا ہے۔ مچھر نے چیں کی اور شپ سے رسید کر دی۔ کان کے پاس بولا اور پینترا بدل کے طمانچے کا ہاتھ مارا۔ مگر مچھر بھی بلائے بے درماں تھے، ایک ہوں دو ہوں، سو ہوں ہزار ہوں تو کوئی مارے؛ یہ تو لاکھوں تھے اور تابڑ توڑ مدد آ رہی تھی۔ فوجوں پر فوجیں چلی آتی ہیں۔ جس طرح آج کل ٹرنسوال پر لام بندھا ہوا ہے۔ نفیری بج رہی ہے جس سے کوٹھری گونج اٹھی۔ اب شیخ تھکا اور بازو سست ہو گئے۔ پھر برابر تلوار کرتا رہا۔ آخر کب تک تازہ دم رہتا، ساتھ ہی حواس بھی بگڑے۔ آپ جانیے لڑائی میں حواس ہی کا کھیل ہے۔ یہ نہیں تو کچھ نہیں۔ اور غضب یہ ہوا کہ ایک تازہ دم فوج مچھروں کی اسی دم آ پڑی اور یہ خاص ملیشیا کی پلٹنوں سے مرتب تھی۔ لیجیے اور بھی ہوش بگڑے۔ باہر مینہ موسلا دھار برس رہا ہے۔ بھاگنے کا بھی رستہ نہیں، کس مصیبت میں جان پڑی ہے۔ سب پر طرہ یہ کہ لوگ سنیں گے تو کیا کہیں گے، مچھروں نے بھگا دیا۔ مگر اب تو جان ہی پر بنی ہے اور طاقت و حواس دونوں نے جواب دیا۔ ناچار اسی طرح شمشیر خونچکاں ہاتھ میں لیے ہوئے شیخ کوٹھری سے بھاگا۔ صحن میں کیچڑ اور پانی سے پاؤں نہیں ٹھہرتا۔ گھبراہٹ میں ایک گھوڑے کی پچھاڑی سے پیر الجھا اور دھڑام سے گرا، اٹھا اور پھر بھاگا۔ پھاٹک بند، سارے مسافر سو رہے ہیں۔ بھٹیاریاں الگ خراٹے لیتی ہیں۔ کدھر جائیے کیا کرے۔ آخر زور سے غل مچا دیا کہ دوڑو لوگو دہائی ہے۔ سب اٹھ پڑے تو شیخ صاحب کو اس ہیئت کذائی سے دیکھا کہ ننگی تلوار ہاتھ میں، خون ٹپک رہا ہے، کپڑوں پر لہو کے لختے جمے ہیں اور سخت بدحواس ہے۔ لوگ سمجھے ڈاکہ پڑا۔ اب پوچھتے ہیں تو شیخ کچھ بتاتا نہیں۔ ایک تو تھکاوٹ، دوسرے گھبراہٹ۔ بارے دیر کے بعد حواس ٹھکانے ہوئے، قصۂ جہاد بیان کیا۔ لوگوں نے دلاسا دیا، بڑی تعریف کی۔ بس یہاں تو شیخ کے استقلال اور جمعیت خاطر میں ذرا سا اختلال آگیا تھا ورنہ کیا طاقت کہ وہ سخت سے سخت معرکہ میں بھی گھبرائے ؎
آن نہ من باشم کہ روز جنگ بینی پشت من
آن منم کاندر میان خاک و خون بینی سری
قصبات دیہات میں خانہ جنگیوں کی کیا کمی۔ شیخ کو ایسے اتفاقات بارہا پڑے ہیں۔ وہ اکیلا دس دس کے مقابلہ میں ڈٹ گیا۔ گھر میں جھنیگر بولا اور اس نے دھڑےسے لاٹھی رسید کی۔ چوہوں کا تو ناس ہی کردیا۔ کھیت میں چڑیوں کو پھٹکنے تک نہ دیتا۔ کتے اس کی تلوار کے گھاٹ روز ہی اترا کرتے۔ اس کی دھاک تمام قصبہ میں اور اردگرد کے دیہات میں بندھی ہوئی تھی۔ ایسا جیالا منچلا سپاہی دیکھا ہی نہیں۔
ایک دفعہ اس کے قصبہ میں ایک شیر جنگل سے بھٹک کے آگیا اور کئی آدمیوں کو زخمی کر ڈالا۔ شیخ کو اس وقت خبر ہوئی جب لوگوں نے شیر کا کام تمام کر دیا تھا۔ مگر اس بہادر کو اس قدر جوش اور غصہ آیا کہ میان گھر ہی میں چھوڑی اور تلوار سونت کے لپکا۔ شیر کی نعش مارے تلواروں کے چو رنگ بنا دی، تب اس کا غصہ جلادت ٹھنڈا ہوا۔
شیخ کی غیوری کا کچھ ٹھکانا نہ تھا۔ فاقہ کی حالت میں بھی کسی سے سوال کرنا اس کے لیے موت تھی۔ اہل جیران اس کی مصیبت میں کبھی شریک ہو جاتے تو اس پر لاکھوں گھڑے پانی پڑ جاتا اور مارے غیرت کے جس طرح ممکن ہوتا وہ اس احسان کا بدلہ ضرور کر دیتا۔ اس کا چھوٹا بچہ جاتا رہا۔ اہل محلہ مخصوص ہمسایہ کے لوگ شریک ہوئے اور معمولی طور پر کفن دفن سے فراغت ہو گئی۔ اب شیخ کو فکر ہوئی کہ کسی طرح پڑوسی کا احسان اترے، مگر اتفاق سے جلد کوئی موقع نہ ملا۔ مدت کے بعد ایک بڑھیا چل بسی۔ شیخ سویرے ہی دروازہ پر پہنچ گئے اور کمال کشادہ پیشانی سے شریک رہے۔ جب سب باتوں سے فراغت ہو گئی، شیخ نے بڑے ناز کے ساتھ صاحب میت سے کہا کہ بھائی! آج اللہ نے تم سے سرخرو کیا اور تمھارا احسان سر سے اترا۔ آئندہ بھی ضرورت ہو تو مجھے ضرور خبر کرنا۔
جن دنوں شیخ سفر غربت میں تھا، ایک دن ایک گاؤں میں پہنچا۔ وہاں نہ دوکان تھی، نہ مسافر خانہ، نہ سرا۔ اور کسی سے جان نہ پہچان مگر گاؤں کے زمیندار نے اس کو کمال منت سے اپنے گھر لے جا کے کھانا کھلایا۔ شیخ نے بہ بمقتضاے انسانیت کھانا تو منظور کرلیا۔ لیکن اس کے دروازے پر سونے کے لیے محض غیرت کی وجہ سے کسی طرح گوارا نہ کیا اور میدان میں ایک املی کے درخت پر چڑھ کے رات بسر کردی۔ صبح کو اپنے میزبان کا شکریہ ادا کیا اور چل دیا۔