(Last Updated On: )
یہاں سے آگے نشیب ہے اور اس سے آگے
غروب کی گھاٹیاں ہیں، جن میں
لڑھک کے روپوش ہو گیا ہے
سوار دن کا
ذرا ذرا سے چراغ لے کر ہتھیلیوں پر
چلے ہیں با بالشتیے اندھیرے کے چوبداروں کے پیچھے پیچھے
قدم ملاتے ہوئے صدا پر صدا لگاتے
بتاؤ یہ آنکھ کا خلا ہے کہ وقت کا شہ نشیں ہے خالی
کہاں گیا ہے مکیں مکاں کا
کھلا ہے دروازہ آسماں کا
یہاں سے آگے
چبوترے سے اترے کے اک عکس روشنی کا
چلا ہے بے انت بھول کی
گیلری کی جانب
جہاں عجائب سجے ہوئے ہیں
٭٭٭