’’اے امّاں یہ تیرا جاجی یہاں سے کب جائے گا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سکینہ نے ہاتھ میں پکڑا ڈائجسٹ میز پر پٹختے ہوئے آج امّاں سے صاف صاف بات کرنے کی ٹھان ہی لی ۔
’’کیوں تجھے کیا کہتا ہے وہ،جو اتنی اوکھی ہو رہی ہے۔۔۔؟؟؟‘‘امّاں نے کچھ دنوں سے اُس سے عجیب سی بے رخی اختیار کر لی تھی۔اُس کی یہ لاتعلقی سکینہ کو اور زیادہ بدگمان کر رہی تھی۔
’’ضروری نہیں ہوتا کہ ہر بات زبان سے ہی کہی جائے،فیر جب وہ ابیّ کے ساتھ واپس سکھر جارہا تھا تو کیا ضرورت تھی اس کو یہاں روکنے کی۔۔۔‘‘سکینہ کے امّاں سے گلے بڑھتے ہی جا رہے تھے۔
’’تجھے ضرورت نہ ہو،لیکن مجھے تو ضرورت تھی۔ پرائے دیس میں کسی مرد ذات کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔۔۔‘‘امّاں نے اپنا فریم اٹھاتے ہوئے دلیل دی۔اس کی اس دلیل پر ایک استہزائیہ سی مسکراہٹ سکینہ کے چہرے پر ٹھہر گئی ۔
’’واہ امّاں،مرد ذات کی کمی کا تجھے بڑی جلد احساس ہو گیا ہے،پچھلے سات آٹھ سالوں میں تو تجھے کبھی یہ خیال نہیں آیا تھا۔‘‘ سکینہ نے تڑخ کر بد لحاظی سے کہا۔
’’ہاں تو یہ کون سی انوکھی گّل اے،اب خیال آگیا اے تو تجھے کیا مسئلہ ہے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کی تیوری کے بل گہرے ہوئے۔
’’مجھے مسئلہ ہے تو رولا ڈال ری ہوں۔۔۔‘‘اُس کے ذہن و دل سخت کھولن کی زد میں تھے ’’ایسے ہی آتے جاتے فری ہونے کی کوشش کرتا ہے۔کبھی رسالے ،کتابیں اٹھا لاتا ہے۔کبھی سیانا بن کے ڈاکٹروں سے میرے علاج کا پوچھنے لگتا ہے۔سخت زہر لگتا ہے مجھے۔۔۔‘‘سکینہ پھٹ ہی تو پڑی تھی۔ جمیلہ مائی نے تاسف بھرے انداز سے سر ہلایا۔
’’پتر بوہتا اوپر نہیں ویکھدے،کدی کدی آسماناں نوں بوہتا ویکھن نال بندے دی گردن اکڑ جاندی اے۔لبھدا کجھ وی نئین،تے بندا مفت دی تکلیف وچ پے جاندا اے‘‘جمیلہ مائی نے بمشکل خود کو مشتعل ہونے سے روکا ۔
’’امّاں تجھے کیا ہے،میری گردن ٹوٹے گی ناں تو ٹوٹنے دے۔۔۔‘‘وہ سخت بدظن تھی۔امّاں کے دل کو دھچکا لگا تھا۔اُس نے خاموشی سے اٹھ کر کھڑکی کا پردہ ہٹایا۔ سامنے ہی آسمان گہرے سیاہ بادلوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ اسلام آباد کا موسم بھی اُس کی بیٹی کے مزاج کی طرح دھوپ چھاؤں جیسا تھا۔
امّاں آج اس سے واقعی خفا ہو گئی تھی ۔اس لیے اُس نے اس کی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔ سکینہ نے بانو قدسیہ کی ’’راجا گدھ‘‘اٹھا لی تھی۔اس کی نظریں کتاب کے صفحات پر جب کہ ذہن میں مختلف سوچوں نے اودھم سا مچا رکھا تھا۔
باہر بادل ایک دم زور سے گرجے۔ سکینہ نے کتاب سے نظریں ہٹا کر باہر لان میں دیکھا۔سامنے درخت کے نیچے رکھے بینچ پر بیٹھا اعجاز اپنے سیل فون پر اللہ جانے کس سے باتوں مین مگن تھا۔وہ پچھلے تین دن سے ان دونوں کا سایہ بنا ہوا تھا۔ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد وہ کمرے میں جھانک کر جمیلہ مائی سے پوچھتا تھا کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔اس کی آمد پر سکینہ کے چہرے پر پھیلنے والی بے زاری جمیلہ مائی کو بہت دکھی کرتی تھی لیکن اس کا مسئلہ تھا کہ وہ اپنی اکلوتی دھی کو کچھ کہہ نہیں پاتی تھی۔اُس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ سکینہ کے دل کی سلیٹ سے ڈاکٹر خاور کا نام ایک لمحے میں مٹا دے۔
آسمان سے گرنے والی بوندیں بڑی قوت سے زمین کی گود میں گر رہی تھیں۔ بوندوں کے تسلسل میں روانی تھی۔نم ہوا سکینہ کے چہرے سے ٹکرا کر اُسے طمانیت کا احساس بخش رہی تھی۔موسم کی خوشگواریت نے اس کے مزاج پر اچھا اثر چھوڑا تھا۔اُس نے کنکھیوں سے سوئی میں دھاگا ڈالتی امّاں کو دیکھا جس کے چہرے کی نرمی میں ایک محسوس کی جانے والی سنجیدگی چھلک رہی تھی۔اُسے امّاں سے کچھ دیر پہلے کی جانے والی بدتمیزی پر ندامت سی ہوئی۔
’’امّاں،کیا ناراض ہے مجھ سے۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس کے خفت زدہ چہرے پر جمیلہ مائی نے سر اٹھا یا۔کمرے میں اندھیرا بڑھنے سے سوئی میں دھاگا ڈالنے میں دقت ہو رہی تھی۔
’’ناراض ہو کے مجھ نمانی نے کہاں جانا ہے۔ہماری تو مجبوری ہے پتّر،اکوں اک اولادہے جب اللہ سے اتنی فرمائشیں کر کے لی ہے تو منتوں مرادوں والی اولاد کے نخرے بھی ہمیں ہی سہنے ہیں ناں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کا لہجہ افسردگی میں ڈوبا ہوا تھا۔
’’امّاں تو ،میری باتوں پر ناراض نہ ہوا کر،میں ٹھہری پاگل،تو ،تو میری سیانی امّاں ہے ناں۔۔۔‘‘اُس نے امّاں کو مسکا لگانے کی ایک کوشش کی ۔
’’پتر اولاد بھی اللہ کی طرف سے ایک امتحان ہی ہوتی ہے۔سارے سیانے پن کے سبق اُس کی محبت میں دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔تجھے صرف اس لیے سمجھاتی ہوں کیونکہ تیری اُداسی میرا دل چیرتی ہے اور میں سوہنے ربّ سے تیرے لیے پتا نہیں کیا کیا مانگنے لگتی ہوں۔اللہ جانے وہ تیرے لیے بہتر بھی ہے کہ نہیں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے ایک دفعہ پھر سوئی میں دھاگا ڈالنے کی کوشش کی۔
’’ادھر لا امّاں،میں ڈال دوں دھاگا،تو خوا مخواہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔‘‘سکینہ نے امّاں کو چھیڑا۔
’’یہ ہی چیز میں بھی تجھے سمجھاتی ہوں کہ پرائے اندھیرے میں ہاتھ پیر مارنے سے کچھ نہیں ملتا ۔اپنی چھوٹی موٹی روشنی میں گذارا کرنا سیکھ لے۔‘‘امّاں کی گہری بات پر وہ ایک لمحے کو ساکت رہ گئی۔اچانک اس کی نظر کھڑکی سے باہر لان کے پاس پارکنگ میں پڑی۔ڈاکٹر خاور نے بارش کی تیز بوچھاڑ سے بچنے کے لیے چھاتا کھولا تھا۔ان کے ساتھ ہنستی ہوئی ڈاکٹر زویا کو دیکھ کر سکینہ کو سخت دھچکا لگا ۔
ڈاکٹر خاور نے چلتے چلتے جھک کر ڈاکٹر زویا سے کچھ کہا تھا وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔سرخ رنگ کے اسٹائلش سے سوٹ میں اس کا سراپا ایک خوبصورت سانچے میں ڈھلا لگ رہا تھا۔وہ بالکل ایک نازک سی گڑیا کی طرح تھیں۔۔سکینہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس سخت ناپسندیدہ منظر پر آنکھیں جما رکھی تھیں۔ اُس کے دل پر آرے چل رہے تھے۔محبت میں رقابت کا جذبہ انسان کو کتنا اذیت دیتا ہے ۔وہ اس اذیت کے کڑے مرحلے سے آج کل بار بار گذر رہی تھی ۔
باہر کے منظر کو دیکھتے ہوئے سکینہ کے چہرے پر کرب کے سائے اتنے گہرے تھے کہ جمیلہ مائی کو اپنے اعصاب پر کوئی ہتھوڑا سا گرتا ہوا محسوس ہوا تھا ۔اُس نے فوراً ہاتھ میں پکڑا فریم میز پر رکھ دیا ورنہ وہ اُس کے ہاتھ سے گر جاتا۔
’’امّاں،بارش کتنی بُری ہوتی ہے ناں۔۔۔؟؟؟؟‘‘سکینہ نے آنکھیں بیدردی سے بند کرتے ہوئے کہا۔اُس کی آواز اتنی آہستہ تھی کہ جمیلہ مائی بمشکل سن سکی ۔
’’پتّر، اکھیاں بند کرن نال سچائی دا سورج ڈبدا نئیں۔دل تے پیر رکھنا سِکھ لے دھی رانی،تے تیری جندگانی آسان ہو جاوے گی۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کا ناصحانہ انداز سکینہ کو اور مضطرب کر گیا تھا۔امّاں نے اٹھ کرفوراً کھڑکی بند کر دی تھی۔کاش کہ اُس کے بس میں ہوتا تو بیٹی کے دل کا دروازہ بھی ایسے ہی بند کر سکتی۔
* * *
بھوربن مری کے آسمانوں پر آج صبح سے کالے سیاہ بادل اٹھکیلیاں کرتے پھر رہے تھے۔ مئی کا مہینہ تھا لیکن موسم کی حدّت میں اضافہ بہت تیزی سے ہوا تھا۔مسز رحیم پچھلے تین دن سے اپنی ساری فیملی کے ساتھ آرمی گیسٹ ہاؤس میں مقیم تھی۔چنار گولف کلب میں عائشہ اور بابا آ کر ہمیشہ انجوائے کرتے تھے۔اس وقت وہ سفید ٹراؤز پر پنک شرٹ پہنے لائم جوس کے ہلکے ہلکے سپ لیتی ماما اور کے ساتھ میس ہال کے برآمدے میں رکھے کین کے صوفے پر براجمان تھی۔اس کی نظریں سامنے لش گرین لان پر جمی ہوئی تھی جہاں بابا اپنے دوست کے ساتھ ایک دفعہ پھر گولف کھیلنے میں مگن تھے۔سامنے گول گیند نما کرسیوں کے پاس موحد اپنی وہیل چئیر پر کسی سوچوں میں گم تھا۔
’’ماما،کیا ہوا ہے ؟پچھلے تین دن سے آپ سخت رنجیدہ ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے مسز رحیم کو مخاطب کیاجو خاصی افسردہ تھیں۔بھوربن کے خوشگوار موسم نے بھی ان کے مزاج پر کوئی اثر نہیں ڈالا تھا۔
’’عائشہ میں موحد کی طرف سے سخت خوفزدہ ہو گئی ہوں۔مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ موحد ایسا بھی کر سکتا ہے۔اتنا،غصّہ،اتنا اشتعال،اور اتنی بد گمانی،اُس نے اس دن اپنے کمرے کی ہر چیز توڑ دی،مائی گاڈ۔۔۔‘‘مسز رحیم کو پانچ دن پہلے کا منظر بھولتا ہی نہیں تھا جب موحد نے ایک طوفان برپا کر دینے کے بعدخود کواپنے کمرے میں مقید کر لیاتھا ۔تب عائشہ نے گھبرا کر بابا کو فون کیا جو پہلی فلائیٹ پر پشاور سے اسلام آباد پہنچے ۔انہوں نے ہی آ کر پورے اڑتالیس گھنٹو ں کے بعد موحد کے کمرے کا دروازہ کھلوایا تھا۔پچھلے تین دن سے وہ لوگ اپنی ساری مصروفیات کو پس پشت ڈالے بھوربن میں تھے۔
’’ماما ہم نے بھی تو حد ہی کر دی تھی ۔اُن کو گھر میں ڈال کر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔‘‘ عائشہ آجکل ضرورت سے زیادہ بھائی کی طرفداری کرنے لگی تھی۔
’’آپ اور بابا گھر نہیں تھے اور میں اپنی سولو ایگزیبیشن کی تیاریوں میں مگن،ایسے میں بھائی کو تو لگنا ہی تھا ناں کہ کسی کے پاس بھی ان کے لیے وقت نہیں۔۔۔‘‘ عائشہ نے ہاتھ میں پکڑا گلاس میز پر رکھا۔جب کہ مسز رحیم کے دل پر ایک بوجھ سا آن گرا۔
’’بیٹا ،ہم سب تو شروع سے ہی اپنی اپنی لائف میں مگن ہیں لیکن موحد کا مزاج اتنا جارحانہ ہو گا اس کا مجھے پہلی دفعہ اندازہ ہوا ہے۔۔۔‘‘وہ ابھی تک سخت تشویش کا شکار تھیں۔
’’ماما پہلے کی بات اور تھی اب بھائی کے ساتھ اتنا بڑا حادثہ ہوا ہے،آپ یہ بات کیوں بھول جاتی ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘ عائشہ نے نرم لہجے میں انہیں یاد دلایا۔
’’لیکن بیٹا ،میرا نہیں خیال کہ آرمی کی تربیت کے بعد بھی کوئی شخص اپنی ذات کے بارے میں اتنی جذباتیت کا شکار ہو سکتا ہے۔۔۔‘‘مسز رحیم کے انداز میں بے یقینی اور تعجب کی فراوانی تھی۔انہیں اس دن کا صدمہ بھولتا ہی نہیں تھا ۔
’’ماما مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ آپ لوگ آرمی والوں کو پتھر کیوں سمجھتے ہیں۔اُن کے سینوں میں بھی ویسا ہی دل دھڑ کتا ہے جیسا کہ عام انسانوں کے،ان کو بھی اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی ہمیں۔۔۔‘‘ عائشہ کے لہجے میں ایک محسوس کی جانے والی برہمی بالکل فطری تھی۔
’’میرا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا بیٹا۔۔۔‘‘ مسز رحیم نے گھبرا کر صفائی دی۔
’’آپ خود سوچیں کہ کسی جیتے جاگتے انسان کے وجود کا ایک حصّہ اس سے علیحدہ ہو جائے تواُس کے دل پر کیا بیتتی ہے۔اُس کے کرب اور تکلیف کا اندازہ وہ ہی کر سکتا ہے جو اس سانحے سے گذرا ہو۔۔۔‘‘عائشہ نے انتہائی دکھ اور تکلیف سے اپنے بھائی کو دیکھا ۔جس کے قدموں کے نیچے کبھی زمین ہوا کرتی تھی اور اب وہ بالکل بے بس تھا۔
’’یہ سب تو اللہ کے کام ہیں بیٹا،اُس نے وطن کے لیے اپنے وجود کا قیمتی حصّہ دیا ہے ۔اللہ اُسے اس کا اجر ضرور دے گا۔۔۔‘‘مسز رحیم نے ویٹر کو پائن ایپل جوس لانے کا اشارہ کیا۔عائشہ اٹھ کر گولف کلب کے لان کی طرف چل پڑی۔
’’موسم کتنا بدل گیا ہے ناں۔۔۔‘‘ عائشہ نے بہت محبت سے پیچھے سے آکر اپنے بھائی کے گلے میں بازو ڈالے ۔ یہ اس کی محبت کے اظہار کا ایک مخصوص انداز تھا۔جس پر کسی زمانے میں موحد بہت چڑا کرتا تھا۔
’’ہوں۔۔۔‘‘وہ جیسے گہری نیند سے جاگا ۔اُس نے سرعت سے گردن اٹھا کر دیکھا۔’’موسم تو بدلنے میں پھر بھی کچھ نہ کچھ وقت لیتے ہیں لیکن انسان تو موسموں سے بھی زیادہ سرعت سے تبدیل ہوتا ہے،بالکل گرگٹ کی طرح لمحوں میں کئی رنگ بدلتا ہے۔۔۔‘‘عائشہ نے موحد کے چہرے پر پھیلا تلخی کا دھواں اپنے دل میں اترتا محسوس کیا تھا۔وہ اس کے بالکل سامنے سفید گیند نما کرسی پر بیٹھ گئی ۔
’’ایسے گرگٹ نما دوستوں کے بدلنے پرخود کو دُکھی کرنا کہاں کی دانشمندی ہے بھائی۔۔۔‘‘ اُس کے ناصحانہ انداز پر وہ زبردستی مسکرایا ۔وہ اس کی بات کے پیچھے چھپے معنی کو سمجھ چکا تھا۔
’’دل کو ایسی باتیں آسانی سے سمجھ آ جائیں تو اُسے دل کون کہے۔۔۔؟؟؟‘‘وہ کسی گہری سوچ کے زیر اثر تھا۔
’’دل کو خودپر اتنا سوار نہیں کرتے ورنہ یہ زندگی کو تنگ کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتا۔اس کی باگیں اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں۔‘‘ عائشہ کے مشورے پر وہ پھیکے سے انداز کے ساتھ مسکرایا
’’دل کی باگیں کیسے کنٹرول میں رکھتے ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘وہ سخت رنجیدگی سے سامنے سے گذرتے ہوئے گھوڑوں کو دیکھ رہا تھا۔ہارس رائیڈنگ اس کا جنون تھی۔
’’جس طرح گولف کھیلتے ہوئے گولف اسٹک کو اور گھوڑے کی سواری کے دوران گھوڑے کو اپنے قابو میں رکھتے ہیں۔۔۔‘‘ عائشہ کی شرارت بھری مثالوں پر وہ آخر کار ہنس ہی پڑا تھا۔عائشہ نے ایک پرسکون سی سانس فضا میں خارج کی لیکن یہ لمحات خاصے مختصر تھے۔
’’ اس گولف کلب میں آ کر میرا دل کر رہا ہے کہ میں ایک دفعہ تو زمین کی سختی کو اپنے پیروں پر محسوس کر سکوں۔ایک وقت تھا جب کبھی انتہائی فاتحانہ انداز سے زمین پر چلتے ہوئے کبھی میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا جب میں زمین کے سینے پر قدم رکھنے کو ترس جاؤں گا۔انسان کتنا عجیب ہے ناں زندگی میں ہمیشہ بہترین کے لیے سوچتا ہے لیکن خود کو کبھی بدترین کے لیے تیار نہیں کرتاپھر میری طرح قنوطیت کے جال میں پھنس کر کڑھتا رہتا ہے۔‘‘ اُس کے سنجیدہ لہجے میں دکھ کی آنچ آ رہی تھی۔
’’بھائی کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ انسان کو بناتے ہوئے اللہ نے کیا یہ سوچا ہوگا کہ اس کی مٹّی میں مایوسی اور نا امیدی خود بخود شامل ہو جائے گی۔۔‘‘وہ ہلکے پھلکے انداز میں گویا ہوئی تو اُس نے انتہائی محبت سے اپنی سادہ دل بہن کو دیکھا۔جس کا بس نہیں چلتا تھا کہ موحد رحیم کو ایک لمحے میں بھرپور زندگی گذارنے پر راضی کر لے۔
’’کیا مطلب۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘ اُس نے الجھ کر بڑی ٹٹولتی ہوئی نظروں سے عائشہ کو دیکھا۔
’’جس دن آپ اس بات پر یقین کر لیں گے کہ آپ کی قسمت میں ان تمام چیزوں کو ایسے ہی شامل ہونا تھا ،یقین کریں زندگی میں سکون آجائے گا۔‘‘عائشہ کی نصیحت کا اُس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا کیونکہ ایک تمسخرانہ سی مسکراہٹ اُس کے چہرے پر بے ساختہ چھلکی ۔
’’کاش کبھی قسمت میرے ہاتھ لگ جائے تو میں اُس سے پوچھوں،تمہیں زندگی سے بھرپور چہروں کے ساتھ کھیلتے ہوئے ذرا بھی رحم نہیں آتا۔۔۔‘‘ اُس کے چہرے پرگہری رنجیدگی، افسردگی اور بے بسی کے سارے ہی رنگ تھے ۔
’’قسمت کو کوسنے سے کہیں بہتر ہے کہ بندہ اپنے لیے نئے راستے تلاش کرے،ستاروں سے آگے کئی اور جہان ہمیشہ انسان کے منتظر رہتے ہیں۔بس ہمت پکڑنے کی دیر ہوتی ہے‘‘ عائشہ اب اٹھ کر اس کے بالکل قریب آ گئی تھی ۔اُس نے محبت سے موحد کے بکھرے بالوں کو اپنی انگلیوں سے سنوارا
’’تمہیں یاد ہے عاشودو سال پہلے جب تم،میں اور ماہم شام موسیقی میں شرکت کرنے کے لے پی سی بھوربن میں آئے تھے۔۔۔‘‘اُس کے چہرے پر کسی خوبصورت سوچ کا عکس اتنا واضح تھاکہ عائشہ کو اپنے دل میں موجود دکھ کا حجم ایک دم ہی بڑھتا محسو س ہوا ۔
’’بھائی میں ’’ماضی‘‘ کی ان خوبصورت یادوں کو کبھی نہیں دہراتی جن کا اعادہ میرے ’’حال‘‘ کوبرباد کر دے۔۔۔‘‘موحد کو اس لمحے اپنی بہن بڑی بے رحم لگی ۔اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اس موضوع پر گفتگو کرنا نہیں چاہتی جو موحد کے لیے خوشی کے ساتھ ساتھ تکلیف کا بھی باعث بنتا تھا۔موحد نے شکوہ کناں نظروں سے اُسے دیکھا جولاپرواہی سے کسی مشہورانگلش سونگ کوگنگناتے ہوئے یہ بھول گئی تھی کہ کسی دور میں یہ سونگ بھی وہ تینوں بلند آواز میں گایا کرتے تھے۔
* * *
’’مجھے ہر حال میں تم سے ملنا ہے بس۔۔۔‘‘رامس کے لہجے میں بے چینی،بے تابی اور بے صبری وہ اتنی دور ہوتے ہوئے بھی محسوس کر سکتی تھی۔تکیے کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے اُس نے فون پر دوسری طرف موجود رامس کو تسلی دی۔
’’تم یہاں پہنچو تو سہی،پھر دیکھتے ہیں۔۔۔‘‘ وہ نمکو کا جار گود میں رکھ کر اب ٹانگیں پھیلا کر بڑی فرصت سے نیم دراز ہو گئی ۔
’’میں اس شہر میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے تمہارا چہرہ دیکھنا چاہتا ہوں،اس لیے تم فوراً ائیرپورٹ آ جاؤ۔۔۔’’مونگ پھلی کا دانہ منہ میں ڈالتے ہوئے وہ اس کی فرمائش پر ہنس پڑی تھی۔وہ ابھی کراچی سے سوار بھی نہیں ہوا تھا اور اُسے ائیر پورٹ پر ابھی سے پہنچنے کا کہہ رہا تھا۔
’’تم سوچ نہیں سکتیں کہ میں نے تمہیں کتنا مس کیا۔‘‘محبت سے بھرپور لہجہ اس کی سماعتوں سے ٹکرا کر اُسے عجیب سی سرشاری بخش رہا تھا۔
’’تم میرا لکی بانڈ بن گئی ہو ماہم۔۔۔‘‘دوسری طرف وہ بڑی ترنگ میں تھا اس کی بات پر ماہم کھلکھلا کر ہنس پڑی۔نمکو کے جار میں اس کی ساری دلچسپی ختم ہو گئی تھی وہ اب صرف اور صرف رامس علی کی طرف متوجہ تھی۔جس کا لہجہ محبت کی شرینی سے لبریز تھا۔
’’جب سے تم میری زندگی میں آئی ہوکامیابیوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ہے۔‘‘اُس کی بات پر ماہم نے جی جان سے قہقہہ لگا یا ۔
’’خیر ہے ناں یہ فون پرکون سے لطیفے سنے جا رہے ہیں۔۔۔‘‘عائشہ نے اُس کے بیڈ روم میں بڑا کامیاب چھاپا مارا تھا۔اُسے دیکھتے ہی ماہم نے فوراً خداحافظ کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔
’’کچھ نہیں یار،رامس کا فون تھا،اُسے ایک فرم میں بہت شاندار جاب مل گئی ہے۔‘‘ماہم کی اطلاع پر اُس نے بُرا سا منہ بنایا اور اس کے ساتھ ہی بیڈپر ڈھیر ہو گئی۔
’’کتنی فضول لڑکی ہو تم،اکیلے اکیلے سیر سپاٹے کر کے میرا خیال آ گیا تمہیں۔۔۔‘‘ماہم کو بروقت یاد آیا کہ وہ بھوربن ٹرپ کے بعد پہلی دفعہ اس سے مل رہی ہے۔
’’یار اکیلی کہاں تھی،بابا،ماما،اور بھائی بھی ساتھ تھے۔۔۔‘‘ اُس نے فورا تصحیح کی۔
’’اس قدر ہنگامی دورے کی وجہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم نے حیرت سے پوچھا۔وہ اُس دن موحد کے بھڑک جانے کے بعد دانستہ عائشہ کی طرف نہیں گئی تھی۔
’’بس یار بھائی بہت اپ سیٹ تھا اس لیے بابا نے ساری ایکٹویٹز کینسل کر کے پروگرام بنا لیا،لیکن کوئی خاص مزا نہیں آیا۔‘‘
’’کیوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ماہم کو تعجب ہوا۔
’’بس یار ماما بھائی کی وجہ سے اپ سیٹ تھیں ۔۔۔‘‘عائشہ نے بے زاری سے تکیہ گود میں رکھتے ہوئے بتایا ’’بھائی صاحب اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے ہوئے تھے اور بابا کو وہاں اپنے کچھ فرینڈ مل گئے،ایسے ہی بے کار گئے تین دن۔‘‘ عائشہ کی صاف گوئی پر وہ کچھ سنبھل کر گویا ہوئی۔
’’ہاں موحد نے قنوطیت اور مایوسی کی چادر کو خوامخواہ اوڑھ لیا ہے۔نہ وہ ایڈ منسٹریشن کو جوائن کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی کوئی اور ایکٹویٹی کرنے کو تیار ۔‘‘ ماہم کو بھی اس سے کافی شکایتیں تھیں۔
’’وہ کبھی بھی ایسا نہیں تھا ماہم۔۔۔‘‘عائشہ نے فورا اس کی بات رد کی ’’اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی وہ تین چار ماہ بالکل ٹھیک ٹھاک رہاتھا لیکن ہم لوگ بزی ہوئے تو اُسے لگا کہ ہم اُسے نظر انداز کر رہے ہیں بس اسی سوچ نے اُسے سب سے بد دل کر دیا۔‘‘
’’خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں،ہم سب تو ویسے کے ویسے ہی ہیں ،وہ ضرورت سے زیادہ حساّس ہو گیا ہے۔‘‘ ماہم نے منہ بناتے ہوئے لوشن اٹھایا اور ہاتھوں کا مساج شروع کر دیا۔
’’اُس کی حسّاسیت بھی ہمارے بدلتے روّیوں کی مرہون منت ہے۔ہم سب سمجھنے لگے ہیں کہ شاید وہ زندگی کی دوڑ میں اب ہمارا ساتھ نہیں دے پائے گا ‘‘ عائشہ کے لہجے میں میں اپنے بھائی کے لیے چھلکنے والا دکھ بڑا فطری سا تھا۔
’’یار وہ جس طرح ہر وقت جلی کٹی سناتا ہے کون اس کے پاس جا کر بیٹھے گا۔طنزیہ گفتگو اور شعلہ برساتی آنکھیں،وہ کسی طرح بھی پہلے والا موحد نہیں لگتا۔‘‘ماہم نے سارا قصور اُسی کے کھاتے میں ڈال دیا تھا۔ عائشہ اُسے بہت کچھ کہتے کہتے چپ کر گئی۔ ’’چھوڑو ان باتوں کو،یہ بتاؤ،کیا ہو رہا ہے آج کل۔۔۔‘‘؟؟؟
’’کچھ نہیں یار،وہ ہی کلینک کی مصروفیات ہی سکون لینے نہیں دیتیں۔۔۔‘‘ ماہم نے سستی سے جمائی لی ’’انکل جواد نے کلینک کا سیٹ اپ بڑا کیا ہے خود بھی پاکستان آ رہے ہیں ایک سائیکاٹرسٹ اور دو سائیکالوجسٹس کی بھی تقرری کی ہے۔بس اُسی سلسلے میں کچھ زیادہ مصروف ہوں،تم سناؤ۔۔۔‘‘ماہم نے مساج کریم ڈریسنگ پر رکھتے ہوئے اُس سے پوچھا۔
’’میری تو ایگزیبیشن سر پر سوار ہے۔بابا نے میریٹ میں ہال کی بکنگ کروا دی ہے۔بس دن رات وہ ہی کام نبٹا رہی ہوں۔۔۔‘‘ عائشہ نے کشن سر کے نیچے رکھتے ہوئے تفصیل سے بتایا۔وہ آج کافی دن کے بعد ماہم کی طرف آئی تھی۔
’’اوہ میریٹ سے مجھے یاد آیا کہ ایک مشہور برینڈ کی لان کی بھی وہاں ایگزیبیشن چل رہی ہے ،آج شام میں وزٹ نہ کر کے آئیں وہاں کا۔۔۔‘‘ ماہم بڑے جوش سے اٹھ بیٹھی تھی۔
’’توبہ ہے ماہم،تم شاپنگ کے لیے کیسے ہر گھڑی تیار کامران رہتی ہو۔۔۔‘‘ عائشہ نے بیزاری سے اس کا پرجوش چہرہ دیکھا۔
’’اور تم کتنی پوستی اور آدم بیزار لڑکی ہو،دنیا سے نرالے تمہارے شوق ہیں،کچیّ بستیوں میں جانا ہو،کوئی سوشل ورک کرنا ہو تو ایک منٹ میں تیار ہو جاتی ہو۔۔۔‘‘ماہم نے کھاجانے والی نظروں سے اُسے دیکھا تھا جس کے ماتھے پر پینٹ لگا ہوا تھا۔وہ منہ ہاتھ دھوئے بغیر ادھر آگئی تھی۔
’’میری تیاری کو کون سا وقت لگتا ہے دوچار منہ پر چھینٹے مارے،سن گلاسز،بیگ ،اور سیل فون اٹھایا اور تیار شیار۔۔۔‘‘
’’ہاں اور آج تومنہ پر دو چار چھینٹے مارنے کی بھی زحمت نہیں کی ،بندہ گھر سے نکلتے ہوئے کم از کم منہ تو دھو لیتا ہے۔‘‘ماہم کو اس کی لاپرواہی پر بعض دفعہ بہت غصّہ آتا تھا۔
’’یار مجھے کس نے دیکھنا ہے پھر کسی شاعر نے میرے لیے ہی کہا ہے نئے کپڑے بدل کے جاؤں کہاں،اور بال بناؤں کس کے لیے۔۔۔؟؟؟‘‘ عائشہ ابھی بھی غیر سنجیدہ تھی۔
’’نئے کپڑے پہن کر بھی تم جس انداز سے گھومتی ہو لگتا ہی نہیں ہے کہ نئے ہیں یا پرانے،پتا نہیں کون سی بڈھی روح گھسی ہوئی ہے تمہارے اندر۔۔۔‘‘ماہم سخت چڑی تھی۔
’’بھئی ہم مست ملنگ فقیرلوگ قلندرانہ مزاج رکھتے ہیں ظاہری حلیوں کی بجائے دلوں میں جھانکتے ہیں اورانسانیت سے پیار کرتے ہیں۔ہم درویشوں سے خفا نہ ہو ا کرو‘‘اُس کی بے نیازی میں شرارت کا عنصر نمایاں تھا ۔ماہم نے اس کی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔
’’مجھے چھوڑو یہ بتاؤ کہ تمہارے اس سفید کبوتر کا کیاحال ہے۔۔۔؟؟؟؟عائشہ نے اُس کا موڈ سیٹ کرنے کے لیے اُسے چھیڑا۔
’’کون سفید کبوتر۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم نے سخت تحیر بھرے اندازسے اُس کی آنکھوں میں مچلتی شرارت کو دیکھا۔
’’بھئی وہ ہی جس کو آج کل تم خوب ’’دانہ‘‘ڈال رہی ہو،حالانکہ وہ جال میں پہلے سے ہی پھنسا بیٹھا ہے۔۔۔‘‘ عائشہ کے ذومعنی انداز کو اب اُس نے فوراً بوجھا تھا۔
’’کون۔۔۔؟؟؟رامس علی۔۔۔؟؟؟‘‘ ماہم کھلکھلا کر ہنسی ۔اس کی آنکھوں میں خیراں کر دینے والی روشنی آجکل اسی ایک نام سے آتی تھی۔
’’ظاہر ہے ،اُس کے علاوہ میں کسی اور کو کیوں کہوں گی۔۔۔‘‘ عائشہ نے بُرا سا منہ بنا کر ڈریسنگ کے آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر منہ دھونے کا ارادہ ایک دفعہ پھر ترک کر دیا تھا۔
’’اُف کتنی بدتمیز لڑکی ہو تم اور انداز گفتگو کتنا فضول ہو گیا ہے تمہارا۔۔۔‘‘ ماہم نے مصنوعی صدمے سے اُسے دیکھا جو سستی اور کاہلی کا پہاڑ بنے لیٹی ہوئی تھی۔
’’بھئی ہم بندے کی شخصیت کے مطابق ہی اُسے ٹائیٹل دیتے ہیں ،تم اپنے ایمان سے کہو کہ سفید جنگلی کبوتر نہیں لگتا وہ۔۔۔‘‘اُس نے بڑے اشتیاق بھرے انداز سے دریافت کیا۔
’’اچھے خاصے ہینڈسم اور ڈیشنگ بندے کے لیے تمہیں سفید کبوتر کا خطاب ہی ملا تھا۔۔۔‘‘ماہم کو نہ چاہتے ہوئے بھی ہنسی آ گئی ۔
’’ویسے یار،اُس نے تو مجھے حیران کر دیا ہے۔بہت جلدی بہتری آئی ہے اُس میں۔تم سوچ نہیں سکتی ہو کہ مجھے اُس کی حالت دیکھ کر کتنی خوشی ہوتی ہے۔۔۔‘‘ماہم نے کھلے دل سے اُسے سراہا ۔
’’ظاہر ہے کہ اُس کی حالت دیکھ کر تم سے زیادہ کون خوش ہو سکتا ہے۔۔۔‘‘عائشہ نے طنزیہ انداز سے بھنویں اچکا کر اُس کے چہرے پر پھیلی دھنک کو دیکھا۔کبھی یہ رنگ صرف موحد کے آنے پربے اختیاری میں چھلکتے تھے۔
’’بھئی میرا مریض ہے وہ۔۔۔‘‘ماہم نے کھسیا کر اُسے یاد دلایا۔
’’اور مریض کو صحت مند ہوتے دیکھنا کسی بھی مسیحا کے لیے خوشی کی بات ہی ہوتی ہے۔‘‘ ماہم کی وضاحت پر ایک طنزیہ مسکراہٹ بڑی سرعت سے عائشہ کے چہرے پر پھیلی ۔
’’ایک تو میں ان مریض محبت ٹائپ لوگوں سے بہت تنگ ہوں،جو دیکھتے دیکھتے محبت کے تاج محل قائم کر لیتے ہیں اور پھر اُسی تاج محل پرجب ان کی محبت کا مقبرہ بنتا ہے تو دھاڑیں ماڑ ماڑ کر روتے ہیں۔۔۔‘‘عائشہ کے لہجے کی تلخی پر وہ چونکی وہ ایک لمحے میں سمجھ گئی تھی کہ اس کا اشارہ موحد رحیم کی طرف ہے لیکن وہ دانستہ چپ رہی۔
* * *
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...