اکیسویں تاریخ جنوری 1838ء کے دو گھڑی رات رہے میں جاگا۔ جہاز کے قریب بڑا سا پہاڑ نظر آیا۔ میں متحیر ہوا کہ یہ پہاڑ کہاں سے آیا۔ پوچھنے سے معلوم ہوا کہ یہی ہے قلعہ جبالٹرکا۔ یہ شہر سابقاً ترک کے عمل میں تھا۔ جبالٹر مخفف ہے جبال ٹائر کا۔ ٹائر نام حاکم کا تھا، یہ قلعہ اسی کے نام پر مشہور ہوا، پس جبال ٹائر کہلایا۔ اب بسبب کثرت استعمال کے جبالٹر نام پڑ گیا۔ ترک سے انگریزوں کے قبضہ میں آیا۔ جب جہاز وہاں پہنچا سب لوگ ناؤ پر سوار ہوئے، قلعہ کی سیر کو چلے۔ بی بی اسمٹ کی دو بیٹیاں بھی اتریں، میں نے ان سے کیفیتیں جہاز کی پوچھیں۔ انھوں نے کہا ہم نے توبہ کی کہ پھر جہاز پر نہ سوار ہوں کبھی۔ قلعہ کے دروازے پر ایک چوکیدار بیٹھا تھا، سب کو اندر جانے دیا مگر مجھ کو روکا۔ اس وجہ سے کہ میں پروانۂ سند نہ رکھتا۔ میں نے کہا اپنی خوشی سے تیرے پاس بیٹھا ہوں، کہیں نہیں جاتا ہوں۔ مگر میرے کھانے پینے کی فکر کر۔ بعد دو گھڑی کے ایک انگریز آیا۔ میری وضع سے حال لیاقت دریافت کر کے دلاسا دینے لگا اور ایک بلند کرسی پر بٹھلا کر کہا تم کچھ رنج اور فکر نہ کرو، میں حاضر ہوں تمھاری خدمت گزاری کو۔ ناگاہ پرنکل صاحب میرے دوست نظر آئے۔ ولایت سے ہندوستان آتے تھے۔ مجھ کو اس حال میں دیکھ کر تسلی دینے لگے کہ ہم جاتے ہیں تمہاری تدبیر کے لیے۔ یہ کہہ کر وہاں کے حاکم پاس گئے، میرے لیے پروانہ لکھوا کر چھڑا لائے اور سرا میں اپنےمقام پر لے گئے۔ تعریف مہربانی انگریزوں کی کیا کروں، یاراے زبان نہیں رکھتا ہوں۔ پرنکل صاحب سے اور مجھ سے فقط شناسائی تھی، نہ رتبہ اتحاد و فرطِ دوستی۔ پاس شناسائی سے انھوں نے مجھ کو چھڑایا۔ ہندوستان میں ایسی محبت اپنے ہم جنسوں سے کوئی نہیں کرتا۔ میں جب تک دم میں دم رکھتا ہوں، دم شکر گزاری ان کے کا بھرتا ہوں۔
قلعہ جبالٹر کا یہ حال دیکھا کہ توپ کے گولوں کا انبار تھا۔ ہر چہار طرف اس کے توپیں لگیں۔ آدمی مقرر ہیں، چوکی پہرے کی تھیں۔ گرد قلعہ کے پہاڑ ہیں، ان کے گرد دریائے قہار۔ دریا میں چاروں طرف جہاز جنگی حفاظت کےلیے رہتے ہیں مستعد اور تیار۔ بلندی قلعہ کی چودہ سو فٹ کی۔ ایک مکان اَور اس کے سوائے ہے، اس کے گرد بھی توپیں ہیں۔ اونچائی اس کی گیارہ سو پچیس فٹ کی ہے۔ اس پر سے جہاز تینتیس کوس کے مفاصلے کے نظر آتے ہیں۔ پہاڑ میں بڑے بڑے غار ہیں۔ انگریزوں نے اسے تراش کر عمارت سنگی بنائی ہے استوار۔ اس میں لوہے کی گاڈیوں پیچدار پر توپیں لگائی ہیں۔ جدھر کل گاڈی کی پھیرتے ہیں، مونھ توپ کا بھی ادھر پھر جاتا ہے۔ سوا ان کے اور بھی توپیں ہیں۔ چاروں طرف پہاڑ کے سمندر ہے مگر ایک طرف سوکھی رہگذر ہے۔ ادھر سے قریب شہر اسپانیل ہے۔ وہاں سے پاؤ کوس پر عمل اسپانیل کا ہے۔ جب چاہتے ہیں اس راہ خشک کو بھی پانی لا کر بند کر دیتے ہیں۔ کسی غیر قوم آدمی کو رات کے رہنے کا وہاں حکم نہیں۔ دن کو اسپانیل یہاں کی سیر کو جاتے ہیں۔ یہاں کے رہنے والے بھی عمل اسپانیل میں کھیتی کرتے ہیں، دن ہی کو چلے آتے ہیں۔ لارڈ بنکم صاحب حسبِ اتفاق ان دونوں اس قلعہ میں آیا تھا۔ قلعہ دار مراسم مہمانداری میں بہ دل و جان مصروف ہوا۔ قواعد پلٹوں نمبر تینتیس، چھیالیس، باون، اکیاسی، بیاسی کی دکھلائی۔ لارڈ صاحب نے قواعد دیکھ کر بہت خوش ہوکر عنایت مبذول فرمائی۔ جو مسافر وہاں پہنچے، چاہیے کہ ضرور اس قلعہ کو دیکھے۔ اگر بارہ لاکھ آدمی اس پر حملہ کریں، میری عقل ناقص میں یہ ہے کہ ہرگز فتحیاب نہ ہوئیں۔ بلکہ سابق اسپانیل اور فرانسیس اور پرتکیز نے مل کر اس کو گھیرا تھا، دو تین برس تک لڑتے رہے مگر فتحیاب نہ ہوئے۔ آخر ناامید پھر گئے۔ غرض کہ ایسا قلعہ مستحکم روئے زمین میں کہیں نہیں ہے۔ ہم نے کرایہ جہاز کا کرلوزاند سے جبا لٹر تک ایک سو اسی روپیہ دیے۔ وہاں سے اسپٹ فابہ جہاز پر سوار ہو کر تیسری فروری کو آگے چلے۔ کرایہ جہاز کا جبرالٹر سے مالٹا تک کا ایک سو تیس روپئے ٹھہرائے۔ وقت روانگی جہاز کے، دو تین عورتیں اسپین کی نظر آئیں۔ جمال میں غیرتِ مہرتاباں تھیں۔ دل میرے سے بے اختیار شور اٹھا کہ پھر ان کا دیکھنا کاہے کو میسر آوے گا۔ راہ میں جہاز پر سے پہاڑ اسپین کے نظر آتے۔ زیادتی برف باری سے سپید ہوئے تھے۔
چوتھی فروری کو جہاز ہمارا قریب شہر الجر کے کہ کوہستان ہے، پہنچا۔ سابق وہ عمل عرب میں تھا۔ اہل عرب زمانہ حکومت اپنی میں جہازوں کو لوٹتے، آدمیوں کو جان سے مار ڈالتے۔ جو کوئی زندہ رہتا اس کو غلام بنا کر زندگی بھر نہ چھوڑتے۔ اس سبب سے جہاز اس راہ سے نہ جاتے۔ اسی خیال سے فرانسیس اس شہر کو اپنے قبض و تصرف میں لائے۔ اب جہاز اس راہ سے بخیریت جاتا ہے۔ کوئی مزاحمت نہیں پہنچاتا ہے۔
ساتویں فروری کو جہاز قریب اس قلعہ کے پہنچا کہ ڈزرٹا نام رکھتا۔ خوب مضبوط بنا۔ اس کے برابر ایک شہر بسا۔ جھول نام، بہت آباد عمل عرب میں تھا۔ اس سے ایک شہر لطافت بنیاد خوب آباد توئس نام رکھتا۔ چند روز پیشتر وہاں عربوں سے لڑتے تھے۔ دونوں طرف سے ہزاروں آدمی کام آئے۔ سوا اس کے اور شہر بہتیرے دیکھے کہ بہت آباد اور عرب کے عمل میں تھے۔ اس کے بعد شہر حبش اور اٹلی اور اٹنا پہاڑ نظر آیا۔ اس سے شعلہ آگ کا نکلتا، مگر بہ جہت دوری اور تاریکی ابر غلیظ کے دھویں کی صورت دکھائی دیتا۔