ایم بی اے میں اس کی شاندار کامیابی کسی کے لئے بھی حیران کن نہیں تھی۔اس کے ڈیپارٹمنٹ میں ہر ایک کو پہلے سے ہی اس کا اندازہ تھا۔اس کے اور اس کے کلاس فیلوز کے پروجیکٹس اور اسائمنٹس میں اتنا فرق ہوتا تھا کہ اس کے پروفیسرز کو یہ ماننے میں کوئی عار نہیں تھا۔وہ مقابلے کی اس دوڑ میں دس گز آگے دوڑ رہا تھا اور ایم بی اے کے دوسرے سال میں اس نے اس فاصلے کو اور بڑھا دیا تھا۔
اس نے انٹرن شپ اقوامِ متحدہ کی ایک ایجنسی میں کی تھی۔اور اس کا ایم بی مکمل ہونے سے پہلے ہی اس ایجنسی کے علاوہ اس کے پاس سات مختلف ملٹی نیشنل کمپنیز کی طرف سے آفرز موجود تھیں۔
“تم اب آگے کیا کرنا چاہتے ہو؟”اس کے رزلٹ کے متعلق جاننے کے بعد سکندر عثمان نے اپنے پاس بلا کر پوچھا تھا۔
“میں واپس امریکہ جا رہا ہوں۔میں یونائیٹڈ نیشنز کے ساتھ ہی کام کرنا چاہتا ہوں۔”
“لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم اپنا بزنس شروع کرو یا میرے بزنس میں شامل ہو جاؤ۔”سکندر عثمان نے اس سے کہا۔
“پاپا! میں بزنس نہیں کر سکتا۔بزنس والا ٹمپرامنٹ نہیں ہے میرا۔میں جاب کرنا چاہتا ہوں اور میں پاکستان میں رہنا بھی نہیں چاہتا۔”سکندر عثمان حیران ہوئے۔”تم نے پہلے کبھی ذکر نہیں کیا کہ تم پاکستان میں رہنا نہیں چاہتے۔تم مستقل طور پر امریکہ میں سیٹل ہونا چاہتے ہو؟”
“پہلے میں نے امریکہ میں سیٹل ہونے کے بارے میں نہیں سوچا تھا لیکن اب میں وہیں رہنا چاہتا ہوں۔”
“کیوں؟”
وہ ان سے یہ کہنا نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان میں اس کا ڈپریشن بڑھ جاتا ہے۔وہ مسلسل امامہ کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔وہاں ہر چیز اسے امامہ کی یاد دلاتی تھی۔اس کے پچھتاوے اور احساسِ جرم میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔
“میں یہاں ایڈجسٹ نہیں ہو سکتا۔”سکندر عثمان کچھ دیر اسے دیکھتے رہے۔
“حالانکہ میرا خیال ہے تم ایڈجسٹ ہو سکتے ہو۔”
سالار جانتا تھا ان کا اشارہ کس طرف تھا مگر وہ خاموش رہا۔
“جاب کرنا چاہتے ہو؟”ٹھیک ہے ، چند سال جاب کر لو لیکن اس کے بعد آ کر میرے بزنس کو دیکھو۔یہ سب کچھ میں تم لوگوں کے لئے ہی اسٹیبلش کر رہا ہوں ، دوسروں کے لئے نہیں۔”
وہ کچھ دیر اسے سمجھاتے رہے ، سالار خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک ہفتے کے بعد وہ دوبارہ امریکہ آ گیا تھا اور اس کے چند ہفتے کے بعد اس نے یونیسیف میں جاب شروع کر دی۔وہ نیو ہیون سے نیو یارک چلا گیا تھا۔یہ ایک نئی زندگی کا آغاز تھا اور وہاں آنے کے چند ہفتے بعد اسے یہ اندازہ بھی ہو گیا تھا کہ وہ کہیں فرار حاصل نہیں کر سکتا تھا وہ اسے وہاں بھی اسی طرح یاد آ رہی تھی ، اس کا احساسِ جرم وہاں بھی اس کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں تھا۔
وہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے تک کام کرنے لگا۔وہ ایک دن بھی تین چار گھنٹے سے زیادہ نہیں سویا اور دن رات کی اس مصروفیت نے اسے بڑی حد تک نارمل کر دیا تھا اگر ایک طرف کام کے اس انبار نے اس کے ڈپریشن میں کمی کی تھی تو دوسری طرف وہ اپنے ادارے کے نمایاں ترین ورکرز میں شمار ہونے لگا تھا۔یونیسیف کے مختلف پروجیکٹس کے سلسلے میں وہ ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک جانے لگا۔غربت اور بیماری کو وہ پہلی دفعہ اپنی آنکھوں سے ، اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔رپورٹس اور اخباروں میں چھپنے والے حقائق میں اور ان حقائق کو اپنی تمام ہولناکی کے ساتھ کھلی آنکھ سے دیکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے اور یہ فرق اسے اس جاب میں ہی سمجھ میں آیا تھا۔ہر روز بھوکے سونے والے لوگوں کی تعداد کروڑوں میں تھی۔ہر رات پیٹ بھر کر ضرورت سے زیادہ کھا لینے والوں کی تعداد بھی کروڑوں میں تھی۔صرف تین وقت کا کھانا ، سر پر چھت اور جسم پر لباس بھی کتنی بڑی نعمتیں تھیں ، اسے تب سمجھ میں آیا تھا۔
وہ یونیسیف کی ٹیم کے ساتھ چارٹرڈ طیاروں میں سفر کرتے ہوئے اپنی زندگی کے بارے میں سوچتا۔اس نے زندگی میں ایسے کون سے کارنامے انجام دئیے تھے کہ اسے وہ پر آسائش زندگی دی گئی تھی جو وہ گزار رہا تھا اور ان لوگوں سے کیا گناہ ہوئے تھے کہ وہ زندگی کی تمام بنیادی ضروریات سے محروم صرف زندہ رہنے کی خواہش میں خوراک کے ان پیکٹس کے پیچھے بھاگتے پھرتے تھے۔
وہ ساری ساری رات جاگ کر اپنے ادارے میں کے لئے ممکنہ اسکیمیں اور پلان بناتا رہتا۔کہاں خوراک کی ڈسٹری بیوشن کیسے ہو سکتی ہے ، کیا بہتری لائی جا سکتی ہے ، کہاں مزید امداد کی ضرورت ہے ، کن علاقوں میں کس طرح کے پروجیکٹس درکار تھے ، وہ بعض دفعہ اڑتالیس گھنٹے بغیر سوئے کام کرتا رہتا۔
اس کے بنائے ہوئے پرپوزلز اور رپورٹس تکنیکی لحاظ سے اتنے مربوط ہوتے تھے کہ ان میں کوئی خامی ڈھونڈنا کسی کے لئے ممکن نہیں رہتا تھا اور اس کی یہ خصوصیات ، اس کی ساکھ اور نام کو اور بھی مستحکم کرتی جا رہی تھیں اگر مجھے اللہ نے دوسروں سے بہتر ذہن اور صلاحیتیں دی ہیں تو مجھے ان صلاحیتوں کو دوسروں کے لئے استعمال کرنا چاہئیے۔اس طرح استعمال کرنا چاہئیے کہ میں دوسروں کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ آسانی لا سکوں ، دوسروں کی زندگی کو بہتر کر سکوں۔وہ کام کرتے ہوئے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچتا تھا۔
یونیسیف کے لئے کام کرنے کے دوران ہی اس نے ایم فل کرنے کا سوچا تھا اور پھر اس نے ایم فل میں ایڈمیشن لے لیا تھا۔ایوننگ کلاسز کو جوائن کرتے ہوئے اسے قطعاً کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں تھا کہ وہ اپنے آپ کو ایک بار پھر ضرورت سے زیادہ مصروف کر رہا تھا مگر اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔کام اس کا جنون بن چکا تھا یا پھر اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر ایک مشن۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فرقان سے سالار کی پہلی ملاقات امریکہ سے پاکستان آتے ہوئے فلائٹ کے دوران ہوئی۔وہ اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔وہ امریکہ میں ڈاکٹرز کی کسی کانفرنس میں شرکت کر کے واپس آ رہا تھا جبکہ سالار سکندر اپنی بہن انیتا کی شادی میں شرکت کے لئے پاکستان آ رہا تھا۔اس لمبی فلائٹ کے دوران دونوں کے درمیان ابتدائی تعارف کے بعد گفتگو کا سلسلہ تھما نہیں۔
فرقان ، عمر میں سالار سے کافی بڑا تھا ، وہ پینتیس سال کا تھا لندن اسپیشلائزیشن کرنے کے بعد وہ واپس پاکستان آ گیا تھا اور وہاں ایک ہاسپٹل میں کام کر رہا تھا۔وہ شادی شدہ تھا اور اس کے دو بچے بھی تھے۔
چند گھنٹے آپس میں گفتگو کرتے رہنے کے بعد فرقان اور وہ سونے کی تیاری کرنے لگے۔سالار نے معمول کے مطابق اپنے بریف کیس سے سلیپنگ پلز کی ایک گولی پانی کے ساتھ نگل لی۔فرقان نے اس کی اس تمام کاروائی کو خاموشی سے دیکھا۔جب اس نے بریف کیس بند کر کے دوبارہ رکھ دیا تو فرقان نے کہا۔
“اکثر لوگ فلائٹ کے دوران سلیپنگ پلز کے بغیر نہیں سو سکتے۔”
سالار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور کہا۔
“میں سلیپنگ پلز کے بغیر نہیں سو سکتا۔فلائٹ میں ہوں یا نہ ہوں ، اس سے فرق نہیں پڑتا۔”
“سونے میں مشکل پیش آتی ہے؟”فرقان کو ایک دم کچھ تجسس ہوا۔
“مشکل؟”سالار مسکرایا۔”میں سرے سے سو ہی نہیں سکتا۔میں سلیپنگ پلز لیتا ہوں اور تین چار گھنٹے سو لیتا ہوں۔”
“انسو مینیا؟”فرقان نے پوچھا۔
“شاید ، میں نے ڈاکٹر سے چیک اپ نہیں کروایا مگر شاید یہ وہی ہے۔”سالار نے قدرے لاپرواہی سے کہا۔
“تمہیں چیک اپ کروانا چاہئیے تھا ، اس عمر میں انسو مینیا ۔۔۔۔۔ یہ کوئی بہت صحت مند علامت نہیں ہے۔میرا خیال ہے تم کام کے پیچھے جنونی ہو چکے ہو اور اسی وجہ سے تم نے اپنی سونے کی نارمل روٹین کو خراب کر لیا ہے۔”
فرقان اب کسی ڈاکٹر کی طرح بول رہا تھا۔سالار مسکراتے ہوئے سنتا رہا۔وہ اسے نہیں بتا سکتا تھا کہ وہ اگر رات دن مسلسل کام نہ کرے تو وہ اس احساسِ جرم کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا تھا جسے وہ محسوس کرتا ہے۔وہ اسے یہ بھی نہیں بتا سکتا تھا کہ وہ سلیپنگ پلز کے بغیر سونے کی کوشش کرے تو وہ امامہ کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔اس حد تک کہ اسے اپنا سر درد سے پھٹتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔
“کتنے گھنٹے کام کرتے ہو ایک دن میں؟”فرقان اب پوچھ رہا تھا۔
“اٹھارہ گھنٹے ، بعض دفعہ بیس۔”
“مائی گڈنیس! اور کب سے؟”
“دو تین سال سے۔”
“اور تب ہی سے نیند کا مسئلہ ہو گا تمہیں ، میں نے ٹھیک اندازہ لگایا۔تم نے خود اپنی روٹین خراب کر لی ہے۔”فرقان نے اس سے کہا۔”ورنہ اتنے گھنٹے کام کرنے والے آدمی کو تو ذہنی تھکن ہی ایک لمبی اور پُر سکون نیند سلا دیتی ہے۔”
“یہ میرے ساتھ نہیں ہوتا۔”سالار نے مدھم لہجے میں کہا۔
“یہی تو تمہیں جاننے کی کوشش کرنی چاہئیے کہ اگر یہ تمہارے ساتھ نہیں ہوتا تو کیوں نہیں ہوتا۔”سالار اس سے یہ نہیں کہہ سکا کہ وہ وجہ جانتا ہے۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد فرقان نے اس سے کہا۔
“میں اگر تمہیں کچھ آیتیں بتاؤں رات کو سونے سے پہلے ، تو تم پڑھ سکو گے؟”
“کیوں نہیں پڑھ سکوں گا۔”سالار نے گردن موڑ کر اس سے کہا۔
“نہیں ، اصل میں تمہارے اور میرے جیسے لوگ جو زیادہ پڑھ لیتے ہیں اور خاص طور پر تعلیم مغرب میں حاصل کرتے ہیں وہ ایسی چیزوں پر یقین نہیں رکھتے یا انہیں پریکٹیکل نہیں سمجھتے۔”فرقان نے وضاحت کی۔
“فرقان! میں حافظِ قرآن ہوں۔”سالار نے اسی طرح لیٹے ہوئے پُر سکون آواز میں کہا۔
فرقان کو جیسے کرنٹ لگا۔
“میں روز رات کو سونے سے پہلے ایک سپارہ پڑھ کر سوتا ہوں ، میرے ساتھ یقین یا اعتماد کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔”سالار نے بات جاری رکھی۔
“میں بھی حافظِ قرآن ہوں۔”
فرقان نے بتایا۔سالار نے گردن موڑ کر مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔یہ یقیناً ایک خوشگوار اتفاق تھا۔اگرچہ فرقان نے داڑھی رکھی ہوئی تھی مگر سالار کو پھر بھی یہ اندازہ نہیں ہو پایا تھا کہ وہ حافظ قرآن ہے۔
“پھر تو تمہیں اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئیے۔قرآن پاک کی تلاوت کر کے سونے والے انسان کو نیند نہ آئے ، یہ مجھے عجیب لگتا ہے۔”
سالار نے فرقان کو بڑبڑاتے سنا۔وہ اب اپنے حواس کو ہلکا ہلکا مفلوج پا رہا تھا۔نیند اس پر غلبہ پا رہی تھی۔اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
“تمہیں کوئی پریشانی ہے؟”اس نے فرقان کی آواز سنی۔وہ نیند کی گولیوں کے زیرِ اثر نہ ہوتا تو مسکرا کر انکار کر دیتا مگر وہ جس حالت میں تھا اس میں وہ انکار نہیں کر سکا۔
“ہاں ، مجھے بہت زیادہ پریشانیاں ہیں۔مجھے سکون نہیں ہے ، مجھے لگتا ہے میں مسلسل کسی صحرا میں سفر کر رہا ہوں ، پچھتاوے اور احساسِ جرم مجھے چھوڑتے ہی نہیں۔مجھے۔۔۔۔۔ مجھے کسی پیر کامل کی تلاش ہے ، جو مجھے اس تکلیف سے نکال دے ، جو مجھے میری زندگی کا راستہ دکھا دے۔”
فرقان دم بخود اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔سالار کی آنکھیں بند تھیں ، مگر وہ اس کی آنکھوں کے کونوں سے نکلتی نمی کو دیکھ رہا تھا۔اس کی آواز میں بھی بےربطی اور لڑکھڑاہٹ تھی۔وہ اس وقت لاشعوری طور پر سلیپنگ پلز کے زیرِ اثر بول رہا تھا۔
وہ اب خاموش ہو چکا تھا۔فرقان نے مزید کوئی سوال نہیں کیا۔بہت ہموار انداز میں چلنے والی اس کی سانس بتا رہی تھی کہ وہ نیند میں جا چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جہاز میں ہونے والی وہ ملاقات وہیں ختم نہیں ہوئی۔وہ دونوں جاگنے کے بعد بھی آپس میں گفتگو کرتے رہے۔فرقان نے سالار سے ان چند جملوں کے بارے میں نہیں پوچھا تھا ، جو اس نے نیند کی آغوش میں سماتے ہوئے بولے تھے۔خود سالار کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس نے سونے سے پہلے اس سے کچھ کہا تھا اگر کہا تھا تو کیا کہا تھا۔
سفر ختم ہونے سے پہلے ان دونوں نے آپس میں کانٹیکٹ نمبرز اور ایڈریس کا تبادلہ کیا پھر سالار نے اسے انیتا کی شادی پر انوائٹ کیا۔فرقان نے آنے کا وعدہ کیا مگر سالار کو اس کا یقین نہیں تھا۔ان دونوں کی فلائیٹ کراچی تک تھی پھر سالار کو اسلام آباد کی فلائٹ لینی تھی جبکہ فرقان کو لاہور کی۔ائیرپورٹ پر فرقان نے بڑی گرمجوشی کے ساتھ اس سے الوداعی مصافحہ کیا۔
انیتا کی شادی تین دن بعد تھی اور سالار کے پاس ان تین دنوں کے لیے بھی بہت سے کام تھے۔کچھ شادی کی مصروفیات اور کچھ اس کے اپنے مسئلے۔
وہ اگلے دن شام کو اس وقت حیران ہوا جب فرقان نے اسے فون کیا۔دس پندرہ منٹ دونوں کی گفتگو ہوتی رہی۔فون بند کرنے سے پہلے سالار نے ایک بار پھر اسے انیتا کی شادی کے بارے میں یاد دلایا۔
” یہ کوئی یاد دلانے والی بات نہیں ہے ، مجھے اچھی طرح یاد ہے۔میں ویسے بھی اس ویک اینڈ پر اسلام آباد میں ہی ہوں گا۔”فرقان نے جواباً کہا۔”وہاں مجھے اپنے گاؤں میں اپنا اسکول دیکھنے بھی جانا ہے۔اس کی بلڈنگ میں کچھ اضافی تعمیر ہو رہی ہے ، اسی سلسلے میں ۔۔۔۔۔تو اسلام آباد میں اس بار میرا قیام کچھ لمبا ہی ہو گا۔”سالار نے اس کی بات کو کچھ دلچسپی سے سنا۔
“گاؤں ۔۔۔۔۔اسکول۔۔۔۔۔کیا مطلب؟”
“ایک اسکول چلا رہا ہوں میں وہاں ، اپنے گاؤں میں۔”فرقان نے اسلام آباد کے نواحی علاقوں میں سے ایک کا نام لیا۔”بلکہ کئی سالوں سے۔”
“کس لئے؟”
“کس لئے؟”فرقان کو اس کے سوال نے حیران کیا۔”لوگوں کی مدد کے لئے اور کس لئے۔”
“چیریٹی ورک ہے؟’
“نہیں ، چیریٹی ورک نہیں ہے۔یہ میرا فرض ہے۔یہ کسی پر کوئی احسان نہیں ہے۔”فرقان نے بات کرتے کرتے موضوع بدل دیا۔اسکول کے بارے میں مزید گفتگو نہیں ہوئی اور فون بند ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فرقان انیتا کی شادی میں واقعی آ گیا تھا۔وہ خاصی دیر وہاں رکا مگر سالار کو محسوس ہوا کہ وہ کچھ حیران تھا۔
“تمہاری فیملی تو خاصی مغرب زدہ ہے۔”
سالار کو ایک دم اس کی الجھن اور حیرانی کی وجہ سمجھ میں آ گئی۔
“میرا خیال تھا کہ تمہاری فیملی کچھ کنزرویٹو سی ہو گی کیونکہ تم نے بتایا تھا کہ تم حافظ قرآن ہو اور تمہارا لائف اسٹائل مجھے کچھ سادہ سا لگا مگر یہاں آ کر مجھے حیرانی ہوئی۔تم اور تمہاری فیملی میں بہت فرق ہے۔” I think you are the odd one out”.
وہ اپنے آخری جملے پر خود ہی مسکرا دیا۔وہ دونوں اب فرقان کی گاڑی کے قریب پہنچ چکے تھے۔
“میں نے صرف دو سال پہلے قرآن پاک حفظ کیا اور دو تین سال سے ہی میں odd one out ہوا ہوں۔پہلے میں اپنی فیملی سے بھی زیادہ مغرب زدہ تھا۔”اس نے فرقان کو بتایا۔
“دو سال پہلے قرآن پاک حفظ کیا۔امریکہ میں اپنی اسٹڈیز کے دوران ، مجھے یقین نہیں آ رہا۔”فرقان نے بےیقینی سے سر ہلایا۔
“کتنے عرصے میں کیا؟”
“تقریباً آٹھ ماہ میں۔”
فرقان کچھ دیر تک کچھ نہیں کہہ سکا ، وہ صرف اس کا چہرہ دیکھتا رہا ، پھر اس نے ایک گہرا سانس لے کر ستائشی نظروں سے اسے دیکھا۔
“تم پر اللہ کا کوئی خاص ہی کرم ہے ، ورنہ جو کچھ تم مجھے بتا رہے ہو یہ آسان کام نہیں ہے۔میں فلائٹ میں بھی تمہارے کارناموں سے کافی متاثر ہوا تھا ، کیونکہ جس عمر میں یونیسکو میں جس سیٹ پر تم کام کر رہے ہو ہر کوئی نہیں کر سکتا۔”
اس نے ایک بار پھر بڑی گرمجوشی کے ساتھ سالار سے ہاتھ ملایا۔چند لمحوں کے لئے سالار کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوا۔
“اللہ کا خاص کرم! اگر میں اسے یہ بتا دوں کہ میں ساری زندگی کیا کرتا رہا ہوں تو یہ ۔۔۔۔۔”سالار نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے سوچا۔
“تم پرسوں کسی اسکول کی بات کر رہے تھے۔”سالار نے دانستہ طور پر موضوع بدلا۔
“تم اسلام آباد میں نہیں رہتے؟”
“نہیں ، میں اسلام آباد میں ہی رہتا ہوں مگر میرا ایک گاؤں ہے۔آبائی گاؤں ، وہاں ہماری کچھ زمین ہے ، ایک گھر بھی تھا۔”فرقان اسے تفصیل سے بتانے لگا۔”کئی سال پہلے میرے والدین اسلام آباد شفٹ ہو گئے تھے۔میرے والد نے فیڈرل سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں اپنی زمینوں پر ایک اسکول بنا لیا۔اس گاؤں میں کوئی اسکول نہیں تھا۔انہوں نے پرائمری اسکول بنوایا تھا۔سات آٹھ سال سے میں اسے دیکھ رہا ہوں۔اب وہ سیکنڈری اسکول بن چکا ہے۔چار سال پہلے میں نے وہاں ایک ڈسپینسری بھی بنوائی۔تم اس ڈسپنسری کو دیکھ کر حیران رہ جاؤ گے۔بہت جدید سامان ہے اس میں۔میرے ایک دوست نے ایک ایمبولینس بھی گفٹ کی ہے اور اب صرف میرے گاؤں کے ہی نہیں بلکہ ارد گرد کے بہت سارے گاؤں کے لوگ بھی اسکول اور ڈسپنسری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔”
سالار اس کی باتیں توجہ سے سن رہا تھا۔
“مگر تم یہ سب کیوں کر رہے ہو۔تم ایک سرجن ہو ، تم یہ سب کیسے کر لیتے ہو اور اس کے لئے بہت پیسے کی ضرورت ہے۔”
“کیوں کر رہا ہوں ، یہ تو میں نے اپنے آپ سے کبھی نہیں پوچھا۔میرے گاؤں میں اتنی غربت تھی کہ یہ سوال پوچھنے کی مجھے کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ہم لوگ بچپن میں کبھی کبھار اپنے گاؤں جایا کرتے تھے۔یہ ہمارے لئے تفریح تھی۔ہماری حویلی کے علاوہ گاؤں کا کوئی مکان پکا نہیں تھا اور سڑک کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ہم سب کو یوں لگتا تھا جیسے ہم جنگل میں آ گئے ہیں ، اب اگر ہم جانور ہوتے تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔شہر کی طرح ہم جنگل میں دندناتے پھرتے۔یہی سوچ کر کہ سب ، ہم سب سے مرعوب ہیں اور کوئی بھی ہمارے جیسا نہیں نہ کوئی ہماری طرح رہتا ہے ، نہ ہمارے جیسا کھاتا ہے ، نہ ہمارے جیسا پہنتا ہے مگر انسان ہو کر یہ برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ہمارے اردگرد کے انسان جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ہو سکتا ہے کچھ انسانوں کو اس سے خوشی محسوس ہوتی ہو کہ انہیں ہر نعمت میسر ہے اور باقی سب ترس رہے ہیں مگر ہمارا شمار ایسے لوگوں میں نہیں ہوتا تھا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کیا کیا جائے۔میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی تو تھی نہیں کہ میں اسے ہلاتا اور سب کچھ بدل دیتا ، نہ ہی بےشمار وسائل۔تمہیں میں نے بتایا ہے نا کہ میرے والد سول سرونٹ تھے ، ایمان دار قسم کے سول سرونٹ۔میں اور میرا بھائی دونوں شروع سے ہی اسکالرشپ پر پڑھتے رہے ، اس لئے ہم پر ہمارے والدین کو زیادہ خرچ نہیں کرنا پڑا۔خود وہ بھی کوئی فضول خرچ نہیں تھے ، اس لئے تھوڑی بہت بچت ہوتی رہی۔ریٹائرمنٹ کے بعد میرے والد نے سوچا کہ لاہور یا اسلام آباد کے کسی گھر میں اخبار پڑھ کر ، واک کر کے یا ٹی وی دیکھ کر زندگی گزارنے کی بجائے ، انہیں اپنے گاؤں جانا چاہئیے۔وہاں کچھ بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔”
وہ دونوں گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے تھے۔
“مشکلات کا تم اندازہ نہیں کر سکتے گاؤں میں نہ بجلی تھی ، نہ صاف پانی ، کچھ بھی نہیں تھا۔بابا نے پتا نہیں کہاں کہاں بھاگ کر یہ ساری چیزیں منظور کروائیں۔جب وہاں پرائمری اسکول بن گیا ، ایک سڑک بھی آ گئی ، بجلی اور پانی جیسی سہولتیں بھی آ گئیں تو گورنمنٹ کو اچانک وہاں ایک اسکول بنانے کا خیال آیا۔میرے والدین کی خوشی تھی کہ گورنمنٹ ان کے اسکول کو اپنی زیرنگرانی لے لے۔اس میں اپنے ٹیچرز بھجوائے اور کچھ عرصے کے بعد اس اسکول کو اپ گریڈ کر دے ، مگر محکمہ تعلیم کے ساتھ چند رابطوں میں ہی بابا کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ایسا ہونے کی صورت میں ان کی ساری محنت پر پانی پھر جائے گا۔بابا وہاں بچوں کو سب کچھ دیتے تھے۔کتابیں ، کاپیاں ، یونیفارم اور ایسی کچھ ضروری چیزیں۔انہوں نے باقائدہ اس کے لئے فنڈز رکھے ہوئے تھے ، مگر تم اندازہ کر سکتے ہو کہ گورنمنٹ کے پاس چلے جانے کے بعد اس اسکول کا کیا حشر ہوتا۔سب سے پہلے وہ فنڈز جاتے پھر باقی سب کچھ۔اس لیے بابا خود ہی اس اسکول کو چلاتے رہے۔
محکمہء تعلیم نے وہاں اسکول پھر بھی کھولا مگر وہاں ایک بچہ بھی نہیں گیا پھر ہار مان کر انہوں نے وہ اسکول بند کر دیا اور ہمارے اسکول کو اپ گریڈ کر دیا۔بابا کے کچھ دوستوں نے اس سلسلے میں ان کی مدد کی ، اسی طرح اس کی اپ گریڈنگ ہوتی گئی۔میں ان دنوں لندن میں پڑھتا تھا اور میں روپے بچا بچا کر بھیجا کرتا تھا۔ابھی بھی ہم اس کو اور ترقی دے رہے ہیں ، آس پاس کے گاؤں کے لوگ بھی اپنے بچوں کو ہمارے پاس بھجواتے ہیں۔میں جب پاکستان واپس آیا تو میں نے وہاں ایک با ضابطہ قسم کی ڈسپنسری قائم کی۔گاؤں کی آبادی بھی اب بہت بڑھ گئی ہے لیکن گاؤں میں غربت ابھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔تعلیم سے اتنا ضرور ہوا ہے کہ گاؤں کے کچھ بچے باہر شہر میں آگے پڑھنے کے لیے جانے لگے ہیں۔کچھ مختلف ہنر سیکھ رہے ہیں۔وہ جو غربت کا ایک چکر تھا وہ ختم ہو رہا ہے۔ان کی یہ نسلیں نہیں تو اگلی نسلیں شاید تمہارے اور میرے جیسے تعلیمی اداروں سے اعلیٰ ڈگریز لے کر نکلیں۔کون کہہ سکتا ہے۔”وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
“میں ہر ماہ ایک ویک اینڈ پر گاؤں جاتا ہوں ، وہاں دو کمپاؤنڈر ہیں مگر کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ایک ویک اینڈ پر میں وہاں جاتا ہوں ، باقی تین ویک اینڈز پر بھی ہم کسی نہ کسی کو وہاں بھجوا دیتے ہیں پھر میں وہاں ہر تین ماہ بعد ایک میڈیکل کیمپ لگواتا ہوں۔”
“اور اس سب کے لئے روپیہ کہاں سے آتا ہے؟”
“شروع میں تو یہ بابا کا روپیہ تھا۔ان ہی کی زمین پر اسکول بنا ، ان کی گریجویٹی سے اس کی تعمیر ہوئی۔میری امی نے بھی اپنے پاس موجود رقم سے ان کی مدد کی ، پھر بابا کے کچھ دوست بھی مالی امداد کرنے لگے۔اس کے بعد میں اور مہران بھی اس میں شامل ہو گئے پھر میرے کچھ دوست بھی۔میں اپنی انکم کا ایک خاص حصہ ہر ماہ گاؤں بھجوا دیتا ہوں۔اس سے ڈسپنسری بڑے آرام سے چلتی رہتی ہے ، جو ڈاکٹرز وہاں مہینے کے تین ویک اینڈز پر جاتے ہیں وہ کچھ چارج نہیں کرتے۔ان کے لیے یہ سوشل ورک ہے۔میڈیکل کیمپس بھی اسی طرح کے لگ جاتے ہیں اور اسکول کے پاس اب اتنے فکسڈ ڈیپازٹس ہو چکے ہیں کہ ان سے آنے والی رقم ٹیچرز کی تنخواہ اور دوسرے اخراجات کے لیے کافی ہوتی ہے۔ہم چند سالوں میں وہاں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے لئے بھی کچھ کام کرنا چاہتے ہیں۔”
“تم کب جا رہے ہو وہاں؟”
“میں تو صبح نکل رہا ہوں۔”
“اگر میں تمہارے ساتھ جانا چاہوں؟”سالار نے کہا۔
“موسٹ ویلکم ۔۔۔۔۔مگر کل تو ولیمہ ہو گا ، تم یہاں مصروف ہو گے۔”فرقان نے اسے یاد دلایا۔
“ولیمہ تو رات کو ہے ، سارا دن تو میں فارغ ہی ہوں گا۔کیا رات تک پہنچنا مشکل ہو گا؟”
“نہیں ، بالکل بھی نہیں۔تم بہت آسانی سے پہنچ سکتے ہو۔صرف صبح کچھ جلدی نکلنا پڑے گا۔اگر تم واقعی وہاں چند گھنٹے گزارنا چاہتے ہو ، ورنہ پھر تم واپس آ کر خاصے تھک جاؤ گے۔”فرقان نے اس سے کہا۔
“میں نہیں تھکوں گا ، میں یونیسیف کی ٹیمز کے ساتھ کیسے کیسے علاقوں میں سفر کرتا رہا ہوں ، تمہیں اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔میں فجر کے بعد تیار رہوں گا ، تم مجھے وقت بتا دو۔”
“ساڑھے پانچ۔”
“اوکے ، تم گھر سے نکلتے ہوئے مجھے ایک بار موبائل پر کال کر لینا اور دو تین بار ہارن دینا یہاں آ کر ، میں نکل آؤں گا۔”
اس نے فرقان سے کہا اور پھر خدا حافظ کہتا ہوا اندر مڑ گیا۔
اگلی صبح فرقان ٹھیک ساڑھے پانچ بجے اس کے گیٹ پر ہارن دے رہا تھا اور سالار پہلے ہی ہارن پر باہر تھا۔
“تم واپس پاکستان کیوں آ گئے؟تم انگلینڈ میں بہت آگے جا سکتے تھے؟”گاڑی شہر سے باہر والی سڑک پر بھاگ رہی تھی۔انہیں سفر کرتے آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا ، جب سالار سے اچانک اس نے پوچھا۔
“انگلینڈ کو میری ضرورت نہیں تھی ، پاکستان کو تھی ، اس لئے میں پاکستان آ گیا۔”فرقان نے بڑے نارمل انداز میں کہا۔
“وہاں ایک ڈاکٹر فرقان کے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہاں ایک ڈاکٹر فرقان کے نہ ہونے سے بہت فرق پڑ جاتا۔یہاں میری خدمات کی ضرورت ہے۔”اس نے آخری جملے پر زور دیتے ہوئے کہا۔
“مگر وہاں اتنے سالوں میں تم بہت آگے جا سکتے تھے۔پھر پروفیشنلی بھی تم بہت کچھ سیکھتے۔فنانشیلی بھی تم اس پروجیکٹ کے لئے زیادہ روپیہ حاصل کر سکتے تھے ، جو تم نے شروع کیا ہوا ہے۔آفٹر آل ، پاکستان میں تم اتنے کامیاب نہیں ہو سکتے۔”سالار نے کہا۔
“اگر کامیابی سے تمہاری مراد پاؤنڈز کی تعداد اور سہولتوں سے ہے تو ہاں ، دونوں جگہوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے لیکن اگر تمہارا اشارہ علاج کی طرف ہے تو میں یہاں زیادہ لوگوں کو زندگی بانٹ رہا ہوں جو اطمینان ڈاکٹر اپنے صحت یاب ہونے والے مریض کو دیکھ کر حاصل کرتا ہے تم اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔انگلینڈ اونکولوجسٹ سے بھرا ہوا ہے۔پاکستان میں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔میں وہاں رہ کر پیسوں کا ڈھیر بھی یہاں بھجواتا رہتا تو کوئی فرق نہ پڑتا۔جہاں ایک فرد کی کمی ہوتی ہے وہاں اس فرد سے ہی وہ کمی پوری ہوتی ہے۔روپیہ یا دوسری کوئی چیز اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔میں بہت قانع ہوں سالار ! میری پوری فیملی بہت قانع ہے۔اگر میں نے کوئی چیز سیکھی ہے تو وہ سب سے پہلے میرے اپنے لوگوں کے کام آنی چاہئیے۔میں اپنے لوگوں کو مرتا چھوڑ کر دوسرے لوگوں کی زندگی نہیں بچا سکتا۔پاکستان میں کچھ بھی صحیح نہیں ہے ، سب کچھ خراب ہے ، کچھ بھی ٹھیک نہیں ، سہولتوں سے خالی ہاسپیٹلز اور حد سے زیادہ برا اور کرپٹ ہیلتھ سسٹم۔جس برائی اور خامی کا سوچو وہ یہاں ہے مگر میں اس جگہ کو نہیں چھوڑ سکتا۔اگر میرے ہاتھ میں شفا ہے تو پھر سب سے پہلے یہ شفا میرے اپنے لوگوں کے حصے میں آنی چاہئیے۔”
سالار بہت دیر تک کچھ نہیں بول سکا۔گاڑی میں یک دم خاموشی چھا گئی تھی۔
“تم نے مجھ سے تو یہ سوال پوچھ لیا کہ میں پاکستان کیوں آ گیا ، کیا اب میں تم سے یہ سوال پوچھوں کہ تم پاکستان کیوں نہیں آ جاتے؟ “فرقان نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مسکراتے ہوئے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا اب میں تم سے یہ سوال پوچھوں کہ تم پاکستان کیوں نہیں آ جاتے؟ “فرقان نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مسکراتے ہوئے کہا۔
“میں یہاں نہیں رہ سکتا۔”سالار نے بےاختیار کہا۔
“تم پیسوں اور سہولتوں کی وجہ سے یہ کہہ رہے ہو؟”
“نہیں ، پیسہ یا سہولتیں میرا مسئلہ نہیں ، نہ اب ، نہ ہی پہلے کبھی۔تم میرا فیملی بیک گراؤنڈ جان چکے ہو۔”
“پھر؟”
“پھر۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔بس میں یہاں نہیں آ سکتا۔”اس نے قطعی لہجے میں کہا۔
“یہاں تمہاری ضرورت ہے۔”
“کس کو؟’
“اس ملک کو۔”
سالار بےاختیار مسکرایا۔”میں تمہاری طرح کی حب الوطنی نہیں رکھتا۔میرے بغیر بھی سب کچھ ٹھیک ہے یہاں۔ایک ڈاکٹر کی اور بات ہے مگر ایک اکانومسٹ تو کسی کو زندگی اور موت نہیں دے سکتا۔”
“تم جو سروسز وہاں دے رہے ہو ، وہ یہاں کے اداروں کو دے سکتے ہو جو کچھ اپنے لیکچرز میں وہاں کی یونیورسٹیز میں سکھا رہے ہو ، یہاں کی یونیورسٹیز میں سکھا سکتے ہو۔”
اس کا دل چاہا ، وہ فرقان سے کہے کہ وہ یہاں آ کر کچھ بھی سکھانے کے قابل نہیں رہ سکے گا ، مگر وہ خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا۔
“تم نے افریقہ کی غربت ، بھوک اور بیماری دیکھی ہے۔تم یہاں کی غربت ، بھوک اور بیماری دیکھو گے تو حیران رہ جاؤ گے۔”
“یہاں صورت حال ان ملکوں کی طرح خراب نہیں ہے فرقان! یہاں اتنی پسماندگی نہیں ہے۔”
“اسلام آباد کے جس سیکٹر میں تم پلے بڑھے ہو وہاں رہ کر اردگرد کی زندگی کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔تم اسلام آباد کے قریبی گاؤں میں چلے جاؤ تو تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ یہ ملک کتنا خوشحال ہے۔”
“فرقان! میں تمہارے اس پروجیکٹ میں کچھ کنٹری بیوشن کرنا چاہتا ہوں۔”سالار نے یک دم بات کا موضوع بدلنا چاہا۔
“سالار! میرے اس پروجیکٹ کو فی الحال کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔تم اگر ایسا کوئی کام کرنا چاہتے تو تم خود کسی گاؤں میں اس طرح کا کام شروع کرو ، تمہارے پاس فنڈز کی کمی نہیں ہو گی۔”
“میرے پاس وقت نہیں ہے ، میں امریکہ میں بیٹھ کر یہ سب نہیں چلا سکتا۔تم اگر یہ چاہتے ہو تو کہ کسی دوسرے گاؤں میں بھی کوئی اسکول قائم کیا جائے تو میں اسے سپورٹ کرنے کو تیار ہوں۔میرے لئے ذاتی طور پر وقت دینا مشکل ہے۔”
فرقان اس بار خاموش رہا۔شاید اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ سالار اب اس کے اس اصرار پر کچھ جھنجھلا رہا تھا۔بات کا موضوع ایک بار پھر فرقان کے گاؤں کی طرف مڑ گیا۔
وہ دن سالار کی زندگی کے یادگار ترین دنوں میں سے ایک تھا۔وہ اس اسکول کو دیکھ کر واقعی بڑا متاثر ہوا تھا مگر اس سے بھی زیادہ متاثر وہ اس ڈسپنسری کو دیکھ کر ہوا تھا جہاں وہ گیا تھا۔اسے ایک چھوٹا ہاسپٹل کہنا زیادہ بہتر تھا۔ڈاکٹر کے نہ ہونے کے باوجود وہ بڑے منظم طریقے سے چلایا جا رہا تھا۔اس دن فرقان کی آمد متوقع تھی اور اس کے انتظار میں مریضوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی فرقان آتے ہی مصروف ہو گیا۔ہاسپٹل کا احاطہ مریضوں سے بھرا ہوا تھا۔وہاں ہر عمر اور ہر طرح کے مریض تھے۔نوزائیدہ بچے ، عورتیں ، بوڑھے ، جوان۔
سالار احاطے میں لاشعوری طور پر چہل قدمی کرتا رہا۔وہاں موجود چند لوگوں نے اسے بھی ڈاکٹر سمجھا اور اس کے قریب چلے آئے۔سالار ان سے بات چیت کرنے لگا۔
زندگی میں وہ پہلی بار کینسر کے ایک اسپیشلسٹ کو ایک فزیشن کے طور پر چیک اپ کرتے اور نسخے لکھتے دیکھ رہا تھا اور اس نے اعتراف کیا۔اس نے زندگی میں فرقان سے اچھا ڈاکٹر کبھی نہیں دیکھا تھا۔وہ بےحد پروفیشنل اور بےحد نرم مزاج تھا۔اس تمام عمل میں اس کے چہرے کی مسکراہٹ ایک لمحہ کے لئے بھی غائب نہیں ہوئی تھی۔سالار کو یوں لگ رہا تھا جیسے اس نے اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ کو کسی چیز کے ساتھ چپکایا ہوا تھا ، کچھ وقت گزرنے کے بعد اس نے سالار کو ایک آدمی کے ساتھ اسکول بھجوا دیا تھا وہ وہاں اس کے والدین سے ملا۔
وہ اس کی آمد سے پہلے ہی با خبر تھے ، یقیناً فرقان نے ان کو فون پر بتا دیا تھا وہ ان کے ساتھ اسکول میں پھرتا رہا۔اسکول کی عمارت اس کی توقعات سے برعکس بہت وسیع اور بہت اچھی بنی ہوئی تھی۔اسے وہاں موجود بچوں کی تعداد دیکھ کر بھی حیرت ہو رہی تھی۔
وہاں کچھ گھنٹے رکنے کے بعد وہ ان دونوں کے ساتھ ان کی حویلی میں آ گیا ، حویلی کے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی بےاختیار اس کا دل خوش ہوا تھا۔اسے اس گاؤں میں اس قسم کے شاندار لان کی توقع نہیں تھی۔وہاں پودوں کی بھرمار تھی مگر بےترتیبی نہیں تھی۔
“بہت شاندار لان ہے ، بہت آرٹسٹک۔”وہ تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکا۔
“یہ شکیل صاحب کا شوق ہے۔”فرقان کی امی نے کہا۔
“میرا اور نوشین کا۔”فرقان کے والد نے اضافہ کیا۔
“نوشین؟”سالار نے سوالیہ انداز میں کہا۔
“فرقان کی بیوی۔۔۔۔۔یہ آرٹسٹک ٹچ اسی کا ہے۔”انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“فرقان نے مجھے بتایا تھا کہ اس کی فیملی لاہور میں ہوتی ہے۔”سالار کو یاد تھا۔
“ہاں ، وہ لوگ لاہور میں ہی ہوتے ہیں مگر فرقان مہینے میں ایک ویک اینڈ یہاں گزارتا ہے پھر وہ اپنی فیملی بھی یہاں لاتا ہے۔یہ سلائیڈز اس کے بچوں کے لیے لگوائی ہیں۔نوشین بھی ڈاکٹر ہے۔ابھی بچے چھوٹے ہیں ، اس لئے پریکٹس نہیں کرتی مگر جب یہاں آتی ہے تو فرقان کے ساتھ ڈسپنسری جاتی ہے۔اس بار وہ اپنے بھائی کی شادی میں مصروف تھی ، اس لئے فرقان کے ساتھ نہیں آ سکی۔”وہ اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتا ان کی باتیں سنتا رہا۔
وہ ان کے ساتھ لنچ کرنے کے لئے گھر پر آیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ کچھ دیر تک فرقان بھی آ جائے گا مگر جب کھانا لگنا شروع ہو گیا تو اس نے فرقان کے بارے میں پوچھا۔
“وہ دوپہر کا کھانا یہاں نہیں کھاتا۔صرف ایک سینڈوچ اور چائے کا کپ لیتا ہے۔اس میں بھی پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگتے۔اس کے پاس مریض اتنے ہوتے ہیں کہ وہ شام تک بالکل فارغ نہیں ہوتا۔کھانا وانا بالکل بھول جاتا ہے۔”
فرقان کی امی نے اس سے کہا۔وہ ان کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے کھانا کھانے لگا۔فرقان کے والد فنانس ڈویژن میں ہی کام کرتے رہے تھے اور بیسویں گریڈ میں ریٹائر ہوئے تھے۔یہ جان کر کہ سالار کا تعلق بھی فنانس سے ہی تھا۔ان کے جوش میں کچھ اضافہ ہو گیا تھا۔سالار کو ان سے باتیں کرتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا۔سالار نے ان سے اس اسکول کے حوالے سے بات کی۔
“اسکول کے لئے ہمیں فی الحال کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ہمارے پاس خاصے فنڈز ہیں۔فرقان کا ایک دوست ایک نیا بلاک بھی بنوا رہا ہے بلکہ بن ہی چکا ہے ، تم نے تو دیکھا ہی ہے۔ہاں ، تم اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو ڈسپنسری کے لئے کرو۔ہمیں ایک مستقل ڈاکٹر کی ضرورت ہے اور ہم اس کے لئے ہیلتھ منسٹری میں بہت دفعہ درخواستیں دے چکے ہیں۔فرقان نے اپنے تعلقات بھی استعمال کیے ہیں مگر کوئی بھی ڈاکٹر یہاں مستقل طور پر آ کر رہنے کو تیار نہیں اور ہمیں ایک ڈاکٹر کی اشد ضرورت ہے۔تم نے مریضوں کی تعداد تو دیکھی ہی ہو گی۔ایک قریبی گاؤں میں ایک ڈسپنسری اور ڈاکٹر ہے ، مگر ڈاکٹر مستقل چھٹی پر ہے اور اگلا ڈاکٹر بھی آنے سے پہلے ہی چھٹی پر چلا جاتا ہے۔”
“میں اس سلسلے میں جو کچھ کر سکا ضرور کروں گا لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس اسکول کے لئے بھی کچھ کروں۔میں واپس جانے کے بعد کوشش کروں گا کہ آپ کو یونیسکو کی طرف سے کسی این جی او کے ذریعے ہر سال کچھ گرانٹ بھی ملتی رہے۔”
“لیکن ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔یہ سب کچھ جو تم نے دیکھا ہے یہ سب ہم لوگوں نے خود کیا ہے۔ہماری فیملی نے ، رشتہ داروں نے ، فیملی فرینڈز نے ۔ میرے واقف کاروں نے ، میرے بچوں کے دوستوں نے۔ہمیں کبھی کسی حکومتی یا بین الاقوامی ایجنسی کی گرانٹ کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔کب تک یونیسکو آ کر ہمارے لوگوں کی بھوک ، جہالت اور بیماری ختم کرتی رہے گی۔جو کام ہم اپنے وسائل سے کر سکتے ہیں وہ ہمیں اپنے وسائل سے ہی کرنے چاہئیں۔”
“میں صرف یہ چاہتا تھا کہ آپ اس پروجیکٹ کو اور بڑھائیں۔”سالار بےاختیار بولتے ہوئے لڑکھڑایا۔
“یہ بہت بڑھ جائے گا ، تم بیس سال بعد یہاں آ کر دیکھو گے تو یہ گاؤں تمہیں ایک مختلف گاؤں ملے گا۔جتنی غربت تم نے آج یہاں دیکھی ہے وہ تب نہیں ہو گی۔ان کا “کل” آج سے مختلف ہو گا۔”
فرقان کے والد نے بےحد اطمینان سے کہا۔سالار چپ چاپ انہیں دیکھتا رہا۔
سہ پہر کے قریب اسے فرقان نے ڈسپنسری سے فون کیا۔کچھ دیر رسمی گفتگو کے بعد اس نے سالار سے کہا۔
“اب تمہیں واپس اسلام آباد کے لئے نکل جانا چاہئیے۔میں چاہتا تھا کہ خود تمہیں واپس چھوڑ کر آؤں مگر یہاں بہت رش ہے جو لوگ دوسرے گاؤں سے آتے ہیں اگر میں انہیں آج چیک نہیں کر سکا تو انہیں بہت زحمت ہو گی ، اس لئے میں اپنے ڈسپنسر کو بھجوا رہا ہوں۔وہ گاڑی میں تمہیں اسلام آباد چھوڑ آئے گا۔”اس نے پروگرام طے کیا۔
“اوکے۔”سالار نے کہا۔
“جانے سے پہلے ڈسپنسری آ کر مجھ سے مل لینا۔”اس نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔
سالار نے ایک بار پھر فرقان کے والدین کے ساتھ چائے پی۔گاڑی تب تک وہاں آ چکی تھی ، پھر وہ وہاں سے گاڑی میں فرقان کے پاس چلا گیا۔صبح والی بھیڑ اب کم ہو چکی تھی۔وہاں اب صرف پچیس تیس کے قریب لوگ تھے۔فرقان ایک بوڑھے آدمی کا معائنہ کر رہا تھا۔سالار کو دیکھ کر مسکرایا۔
“میں دو منٹ میں انہیں چھوڑ کر آتا ہوں۔”
اس نے مریض سے کہا اور پھر اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔سالار کے ساتھ چلتا ہوا وہ باہر گاڑی تک آیا۔
“تم کب تک پاکستان میں ہو؟”اس نے سالار سے پوچھا۔
“ڈیڑھ ہفتہ۔”
“پھر تو دوبارہ ملاقات نہیں ہو سکے گی تم سے کیونکہ میں تو اب اگلے ہی ماہ اسلام آباد اور یہاں آؤں گا لیکن میں تمہیں فون کروں گا ، تمہاری فلائٹ کب ہے؟”
سالار نے اس کے سوال کو نظر انداز کیا۔
“ملاقات کیوں نہیں ہو سکتی ، میں لاہور آ سکتا ہوں ، اگر تم انوائٹ کرو۔”فرقان کچھ حیران انداز میں مسکرایا۔
سالار اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا۔
سالار نہیں جانتا تھا اسے کون سی چیز اس طرح اچانک فرقان کے اتنے قریب لے آئی تھی۔وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ فرقان کو کیوں اتنا پسند کر رہا تھا۔وہ اس کی وجہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
فرقان کے ساتھ اس کاگاؤں دیکھنے کے چار دن بعد وہ لاہور گیا۔وہ وہاں ایک دن کے لئے گیا تھا اور اس نے فرقان کو فون پر اس کی اطلاع دی۔فرقان نے اسے ائیرپورٹ پر پک کرنے اور اپنے ساتھ رہنے کی آفر کی ، مگر اس نے انکار کر دیا۔
وہ فرقان سے طے شدہ پروگرام کے مطابق چار بجے کے قریب اس کے گھر پہنچا۔وہ ایک اچھے علاقے میں ایک عمارت کے گراؤنڈ فلور کے ایک فلیٹ میں رہتا تھا۔دروازے کے ساتھ موجود بیل دبا کر وہ خاموشی سے کھڑا ہو گیا۔اندر سے یک دم کسی بچے کے بھاگنے کی آواز آئی۔ایک چار پانچ سال کی بچی ڈور چین کی وجہ سے دروازے میں آنے والی جھری سے اس کو دیکھ رہی تھی۔
“آپ کو کس سے ملنا ہے؟”سالار اسے دیکھ کر دوستانہ انداز میں مسکرایا تھا مگر اس بچی کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں آئی۔وہ بڑی سنجیدگی سے سالار سے پوچھ رہی تھی۔
“بیٹا! مجھے آپ کے پاپا سے ملنا ہے۔”
اس بچی اور فرقان کے چہرے میں اتنی مماثلت تھی کہ اس کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ فرقان کی بیٹی تھی۔
“پاپا اس وقت کسی سے نہیں ملتے۔”اسے بڑی سنجیدگی سے اطلاع دی گئی۔
“مجھ سے مل لیں گے۔”سالار نے قدرے محفوظ ہوتے ہوئے کہا۔
“آپ سے کیوں مل لیں گے؟”فوراً جواب آیا۔
“کیوں کہ میں ان کا دوست ہوں ، آپ انہیں جا کر بتائیں گی کہ سالار انکل آئے ہیں تو وہ مجھ سے مل لیں گے۔”سالار نے مسکراتے ہوئے نرمی سے کہا۔وہ اس کی مسکراہٹ سے متاثر نہیں ہوئی۔
“لیکن آپ میرے انکل تو نہیں ہیں۔”
سالار کو بےاختیار ہنسی آ گئی۔
“آپ نہ ہنسیں۔”وہ بےاختیار بگڑی۔سالار پنجوں کے بل اس کے مقابل بیٹھ گیا۔
“اچھا میں نہیں ہنستا۔”اس نے چہرے کی مسکراہٹ کو چھپایا۔
“آپ اس فراک میں بہت اچھی لگ رہی ہیں۔”وہ اب کچھ قریب سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔اس کی تعریف نے دروازے کی جھری میں سے جھانکتی ہوئی محترمہ کے تاثرات اور موڈ میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
“لیکن آپ مجھے اچھے نہیں لگے۔”
اس کے جملے سے زیادہ اس کے تاثرات نے سالار کو محفوظ کیا۔وہ اب کچھ دور سے فلیٹ کے اندر کسی کے قدموں کی آواز سن رہا تھا۔کوئی دروازے کی طرف آ رہا تھا۔
“کیوں ، میں کیوں اچھا نہیں لگا؟”اس نے مسکراتے ہوئے اطمینان سے پوچھا۔
“بس نہیں اچھے لگے۔”اس نے ناگواری سے گردن کو جھٹکا۔
“نام کیا ہے آپ کا؟”وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
“امامہ!”سالار کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔اس نے دروازے کی جھری میں سے امامہ کے عقب میں فرقان کو دیکھا۔وہ امامہ کو اٹھاتے ہوئے دروازہ کھول رہا تھا۔
سالار کھڑا ہو گیا۔فرقان نہا کر نکلا تھا ، اس کے بال گیلے اور بےترتیب تھے۔سالار نے مسکرانے کی کوشش کی وہ فوری طور پر کامیاب نہیں ہو سکا۔فرقان نے اس سے ہاتھ ملایا۔
“میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔”وہ اس کے ساتھ اندر جاتے ہوئے بولا۔وہ دونوں اب ڈرائنگ روم میں داخل ہو رہے تھے۔
امامہ فرقان کی گود میں چڑھی ہوئی تھی اور اسے مسلسل کان میں کچھ بتانے کی کوشش کر رہی تھی ، جسے فرقان مسلسل نظر انداز کر رہا تھا۔
“انکل سالار سے ملی ہیں آپ!” فرقان نے سالار کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے امامہ سے پوچھا۔وہ اب خود بھی صوفے پر بیٹھ رہا تھا۔
“یہ مجھے اچھے نہیں لگتے۔”اس نے باپ تک اپنی ناپسندیدگی پہنچائی۔
“بہت بُری بات ہے امامہ! ایسے نہیں کہتے۔”فرقان نے سرزنش کرنے والے انداز میں کہا۔
“آپ انکل کے پاس جائیں اور ان سے ہاتھ ملائیں۔”
اس نے امامہ کو نیچے اُتار دیا۔وہ سالار کی طرف جانے کی بجائے ایک دم بھاگتے ہوئے باہر چلی گئی۔
“حیرانی کی بات ہے کہ اسے تم اچھے نہیں لگے ، ورنہ اس کو میرا ہر دوست اچھا لگتا ہے۔آج اس کا موڈ بھی کچھ آف ہے۔”فرقان نے مسکراتے ہوئے وضاحت کی۔
“یہ نام کا اثر ہے مجھے حیرانی ہوتی اگر اسے میں اچھا لگتا۔”سالار نے سوچا۔
چائے پیتے ہوئے وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے اور باتوں کے دوران سالار نے اس سے کہا۔
“ایک دو ہفتےتک تم لوگوں کی ڈسپنسری میں ڈاکٹر آ جائے گا۔”اس نے سرسری انداز میں کہا۔
“یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔”فرقان یک دم خوش ہوا۔
“اور اس بار وہ ڈاکٹر وہاں رہے گا۔اگر نہ رہے تو مجھے بتانا۔”
“میری سمجھ میں نہیں آتا میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں۔ڈسپنسری میں ایک ڈاکٹر کی دستیابی سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔”
“اس کی ضرورت نہیں ہے۔”وہ رکا۔”وہاں جانے سے پہلے مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ تم اور تمہاری فیملی اس کام کو اس اسکیل پر اور اتنے آرگنائزڈ انداز میں کر رہے ہو میں تم لوگوں کے کام سے درحقیقت بہت متاثر ہوا ہوں اور میری آفر ابھی بھی وہی ہے۔میں اس پروجیکٹ کے سلسلے میں تمہاری مدد کرنا چاہوں گا۔”
اس نے سنجیدگی سے فرقان سے کہا۔
“سالار! میں نے تم سے پہلے بھی کہا ہے کہ میں چاہوں گا ، تم اسی طرح کا کوئی پروجیکٹ وہاں کسی دوسرے گاؤں میں شروع کرو۔تمہارے پاس مجھ سے زیادہ ذرائع ہیں اور تم مجھ سے زیادہ اچھے طریقے سے یہ پروجیکٹ چلا سکتے ہو۔”
“میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا میرا مسئلہ وقت ہے ، میں تمہارے جتنا وقت نہیں دے سکتا اور پھر میں پاکستان میں رہ بھی نہیں سکتا۔تمہاری طرح میرے فیملی ممبرز بھی اس معاملے میں میری مدد نہیں کر سکتے۔”سالار نے اپنا مسئلہ بتایا۔
“چلو اس پر بعد میں بات کریں گے ، ابھی تو تم چائے پیو پھر میں تمہیں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔”فرقان نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
“کہاں؟”
“یہ تو میں تمہیں راستے میں ہی بتاؤں گا۔”وہ عجیب سے انداز میں مسکرایا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“میں وہاں جا کر کروں گا کیا؟”سالار نے گاڑی میں بیٹھے ہوئے فرقان سے پوچھا۔
“وہی جو میں کرتا ہوں۔”وہ سگنل پر گاڑی روکتے ہوئے بولا۔
“اور تم وہاں کیا کرتے ہو؟”
“یہ تم وہاں پہنچ کر دیکھ لینا۔”
فرقان اسے کسی ڈاکٹر سبط علی کے پاس لے کر جا رہا تھا جس کے پاس وہ خود بھی جایا کرتا تھا۔
وہ کوئی مذہبی عالم تھے اور سالار کو مذہبی علماء سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔وہ پچھلے چند سالوں میں اتنے مذہبی علماء کے اصلی چہرے دیکھ چکا تھا کہ وہ اب مزید ان جگہوں پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔
“فرینکلی اسپیکنگ فرقان! میں اس ٹائپ کا ہوں نہیں جس ٹائپ کا تم مجھے سمجھ رہے ہو”۔اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرقان کو مخاطب کیا۔
“کس ٹائپ کے؟”فرقان نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
“یہی پیری مریدی۔۔۔۔۔یا بیعت وغیرہ۔۔۔۔۔یا جو بھی تم سمجھ لو۔”اس نے قدرے صاف گوئی سے کہا۔
“اسی لئے تو میں تمہیں وہاں لے جا رہا ہوں ، تمہیں مدد کی ضرورت ہے؟”سالار نے چونک کر اسے دیکھا۔وہ سڑک کو دیکھ رہا تھا۔
“کیسی مدد؟”
“اگر کوئی حافظِ قرآن رات کو ایک پارہ پڑھے اور پھر بھی نیند لانے کے لئے اسے نیند کی گولیاں کھانی پڑیں تو پھر کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہے۔کئی سال مجھے بھی ایک بار بہت ڈپریشن ہوا تھا۔میرا ذہن بھی بہت اُلجھ گیا تھا پھر کوئی مجھے ڈاکٹر صاحب کے پاس لے کر گیا تھا۔آٹھ دس سال ہو گئے ہیں مجھے اب وہاں جاتے ہوئے۔تم سے مل کر مجھے احساس ہوا کہ تمہیں بھی میری طرح کسی کی مدد کی ضرورت ہے ، رہنمائی کی ضرورت ہے۔”فرقان نے نرم لہجے میں کہا۔
“تم کیوں میری مدد کرنا چاہتے ہو؟”
“کیونکہ دین کہتا ہے کہ تم میرے بھائی ہو۔”اس نے موڑ موڑتے ہوئے کہا۔سالار نے گردن سیدھی کر لی۔وہ اس سے مزید کیا پوچھتا۔
اسے مذہبی علماء سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ہر عالم اپنے فرقے کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملانے میں ماہر تھا۔ہر عالم کو اپنے علم پر غرور تھا۔ہر عالم کا لب لباب یہی ہوتا تھا۔میں اچھا ہوں ، باقی سب برے ہیں۔میں کامل ہوں باقی سب نامکمل ہیں۔ہر عالم کو دیکھ کر لگتا اس نے علم کتابوں سے نہیں ، براہِ راست وحی کے ذریعے حاصل کیا ہے جس میں غلطی کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔اس نے آج تک ایسا عالم نہیں دیکھا تھا جو اپنے اوپر تنقید سنے اور برداشت بھی کرے۔
سالار خود اہلِ سنت مسلک سے تعلق رکھتا تھا مگر جو آخری چیز وہ کسی سے ڈسکس کرنا چاہتا تھا وہ مسلک اور فرقہ تھا اور ان مذہبی علماء کے پاس ڈسکس کرنے کے لئے سب سے پہلی چیز مسلک اور فرقہ ہی تھا۔ان علماء کے پاس جاتے جاتے وہ رفتہ رفتہ ان سے برگشتہ ہو گیا تھا۔ان کی پوٹلی میں صرف علم بھرا ہوا تھا ، عمل نہیں۔وہ “غیبت ایک گناہ” پر لمبا چوڑا لیکچر دیتے ، قرآنی آیات اور احادیث کے حوالے دیتے اور اگلی ہی سانس میں وہ اپنے کسی ہم عصر عالم کا نام لے کر اس کا مذاق اُڑاتے ، اس کی علمی جہالت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔
وہ اپنے پاس آنے والے ہر ایک کا پورا بائیوڈیٹا جانتے اور پھر اگر وہ بائیوڈیٹا ان کے کام کا ہوتا تو مطالبوں اور سفارشوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا اور اس بائیوڈیٹا کو وہ اپنے پاس آنے والوں کو متاثر کرنے کے لئے بھی استعمال کرتے کہ ان کے پاس کس وقت ، کون آیا تھا۔کس طرح کون ان کے علم سے فیض یاب ہوا تھا۔کون بڑا آدمی ہر وقت ان کی جوتیاں سیدھی کرتے رہنے کو تیار رہتا ہے۔کس نے انہیں گھر بلایا اور کس طرح خدمت کی۔وہ اب تک جن عالموں کے پاس ایک بار گیا تھا دوبارہ نہیں گیا اور اب فرقان اسے پھر ایک عالم کے پاس لے کر جا رہا تھا۔
وہ شہر کے اچھے علاقوں میں سے ایک میں جا پہنچے تھے۔وہ علاقہ اچھا تھا ، مگر بہت پوش نہیں تھا۔اس سڑک پر پہلے بھی بہت سی گاڑیاں کھڑی تھیں۔فرقان نے بھی ایک مناسب جگہ پر گاڑی سڑک کے کنارے پارک کر دی ، پھر وہ گاڑی سے نیچے اُتر گیا۔سالار نے اس کی پیروی کی۔تین چار منٹ چلتے رہنے کے بعد وہ ان بنگلوں میں سے ایک نسبتاً سادہ مگر پروقار اور چھوٹے بنگلے کے سامنے پہنچ گئے۔نیم پلیٹ پر ڈاکٹر سید سبط علی کا نام تحریر تھا۔فرقان بلا جھجک اندر داخل ہو گیا۔سالار نے اس کی پیروی کی۔
بنگلے کے اندر موجود چھوٹے سے لان میں ایک مالی اپنے کام میں مصروف تھا۔فرقان نے پورچ میں ایک ملازم کے ساتھ دعا سلام کا تبادلہ کیا پھر وہ مزید کچھ آگے چلتا ہوا ایک دروازے کے سامنے پہنچ گیا اور وہاں اس نے اپنا جوتا اتار دیا۔وہاں پہلے بھی بہت سے جوتے پڑے تھے۔اندر سے باتوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔سالار نے بھی دیکھا دیکھی اپنے جوتے اتار دئیے۔سالار نے ایک قدم اس کے پیچھے اندر رکھتے ہوئے ایک ہی نظر میں پورے کمرے کا جائزہ لے لیا۔وہ ایک کشادہ کمرے میں تھا جس کے فرش پر کارپٹ بچھا ہوا تھا اور بہت سے فلو کشنز بھی پڑے ہوئے تھے۔کمرے میں فرنیچر کے نام پر صرف چند معمولی سی چیزیں تھیں اور دیواروں پر کچھ قرآنی آیات کیلی گرافی کی صورت میں لگی ہوئی تھیں۔کمرے میں بیس پچیس کے قریب مرد تھے جو آپس میں گفتگو میں مصروف تھے۔فرقان نے اندر داخل ہوتے ہی بلند آواز میں سلام کیا اور پھر چند لوگوں کے ساتھ کچھ خیر مقدمی کلمات کا تبادلہ کیا پھر وہ ایک خالی کونے میں بیٹھ گیا۔
“ڈاکٹر سید سبط علی کہاں ہیں؟”سالار نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے مدھم آواز میں پوچھا۔
“آٹھ بجتے ہی وہ اندر آ جائیں گے ، ابھی تو صرف سات پچیس ہوئے ہیں۔”فرقان نے اس سے کہا۔
سالار گردن ہلا کر کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا جائزہ لینے لگا۔وہاں ہر عمر کے افراد تھے۔چند ٹین ایج لڑکے۔اس کے ہم عمر افراد ، فرقان کی عمر کے لوگ ، ادھیڑ عمر ۔۔۔۔۔۔اور کچھ عمر رسیدہ بھی۔فرقان اپنی دائیں طرف بیٹھے کسی آدمی کے ساتھ مصروف گفتگو تھا۔
ٹھیک آٹھ بجے اس نے ساٹھ پینسٹھ سال کے ایک آدمی کو ایک اندرونی دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوتے دیکھا۔اس کی توقع کے برعکس وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کوئی بھی استقبال کے لئے احتراماً کھڑا نہیں ہوا۔آنے والے نے ہی سلام میں پہل کی تھی جس کا جواب وہاں موجود لوگوں نے دیا۔آنے والے کے احترام میں کھڑا نہ ہونے کے باوجود سالار اب اچانک وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کی نشست کے انداز میں احترام دیکھ رہا تھا۔وہ سب یک دم بہت چوکنے اور محتاط نظر آنے لگے تھے۔
آنے والے یقیناً ڈاکٹر سید سبط علی تھے۔وہ کمرے کی ایک دیوار کے سامنے اس مخصوص جگہ پر بیٹھ گئے جنہیں شاید ان ہی کے لئے چھوڑا گیا تھا۔وہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔ان کی رنگت سرخ و سفید تھی اور یقیناً جوانی میں وہ بہت خوبصورت ہوں گے۔ان کے چہرے پر موجود داڑھی بہت لمبی نہیں تھی مگر بہت گھنی اور نفاست سے تراشی گئی تھی۔داڑھی مکمل طور پر سفید نہیں ہوئی تھی اور کچھ یہی حال ان کے سر کے بالوں کا بھی تھا۔سفید اور سیاہ کے امتزاج نے ان کے چہرے اور سر پر موجود بالوں کو بہت با وقار کر دیا تھا۔وہ وہاں بیٹھ کر دائیں طرف موجود کسی آدمی کا حال دریافت کر رہے تھے۔شاید وہ کسی بیماری سے اٹھ کر آیا تھا۔سالار نے چند ہی لمحوں میں ان کے سراپے کا جائزہ لے لیا تھا۔وہ اور فرقان باقی لوگوں کے عقب میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔
ڈاکٹر سبط علی نے اپنے لیکچر کا آغاز کیا۔ان کا لب و لہجہ بےحد شائستہ تھا اور انداز دھیما تھا۔کمرے میں مکمل سکوت تھا ، وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کوئی بھی حرکت نہیں کر رہا تھا۔سالار کو ان کے ابتدائی چند جملوں سے ہی اندازہ ہو گیا تھا وہ ایک غیر معمولی عالم کے سامنے تھا۔
ڈاکٹر سبط علی شکر کے بارے میں بات کر رہے تھے۔
“انسان اپنی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز سے گزرتا ہے۔کبھی کمال کی بلندیوں کو جا چھوتا ہے ، کبھی زوال کی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے۔ساری زندگی وہ ان ہی دونوں انتہاؤں کے درمیان سفر کرتا رہتا ہے اور جس راستے پر وہ سفر کرتا ہے ، وہ شکر کا ہوتا ہے یا ناشکری کا۔کچھ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ زوال کی طرف جائیں یا کمال کی طرف جائیں ، وہ صرف شکر کے راستے پر ہی سفر کرتے ہیں۔کچھ ایسے ہوتے ہیں جو صرف ناشکری کے راستے پر سفر کرتے ہیں ، چاہے وہ زوال حاصل کریں یا کمال اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ان دونوں پر سفر کرتے ہیں۔کمال کی طرف جاتے ہوئے شکر کے اور زوال کی طرف جاتے ہوئے ناشکری کے۔انسان اللہ کی ان گنت مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے۔اشرف المخلوقات ہے مگر مخلوق ہی ہے۔وہ اپنے خالق پر کوئی حق نہیں رکھتا ، صرف فرض رکھتا ہے۔وہ زمین پر کسی ایسے ٹریک ریکارڈ کے ساتھ نہیں اُتارا گیا کہ وہ اللہ سے کسی بھی چیز کو اپنا حق سمجھ کر مطالبہ کر سکے مگر اس کے باوجود اس پر اللہ نے اپنی رحمت کا آغاز جنت سے کیا ، اس پر نعمتوں کی بارش کر دی گئی اور اس سب کے بدلے اس سے صرف ایک چیز کا مطالبہ کیا گیا شکر کا۔کیا محسوس کرتے ہیں آپ ! اگر آپ زندگی میں کسی پر کوئی احسان کریں اور وہ شخص اس احسان کو یاد رکھنے اور آپ کا احسان مند ہونے کی بجائے آپ کو ان مواقع کی یاد دلائے جب آپ نے اس پر احسان نہیں کیا تھا یا آپ کو یہ جتائے کہ آپ کا احسان اس کے لیے کافی نہیں تھا۔اگر آپ اس کے لئے “یہ” کر دیتے یا “وہ” کر دیتے تو زیادہ خوش ہوتا۔کیا کریں گے آپ ایسے شخص کے ساتھ؟دوبارہ احسان کرنا تو ایک طرف ، آپ تو شاید اس سے تعلق رکھنا تک پسند نہ کریں۔ہم اللہ کے ساتھ یہی کرتے ہیں۔اس کی نعمتوں اور رحمتوں پر اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے ہم ان چیزوں کے نہ ملنے پر کڑھتے رہتے ہیں ، جنہیں ہم حاصل کرنا چاہتے تھے۔اللہ پھر بھی رحیم ہے ، وہ ہم پر اپنی نعمتیں نازل کرتا رہتا ہے۔ان کی تعداد میں ہمارے اعمال کے مطابق کمی بیشی کرتا رہتا ہے مگر ان کا سلسلہ کبھی بھی مکمل طور پر منقطع نہیں کرتا۔”
سالار پلکیں جھپکائے بغیر ان کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
“شکر ادا نہ کرنا بھی ایک بیماری ہوتی ہے ، ایسی بیماری جو ہمارے دلوں کو روز بہ روز کشادگی سے تنگی کی طرف لے جاتی ہے جو ہماری زبان پر شکوہ کے علاوہ اور کچھ آنے ہی نہیں دیتی۔اگر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنے کی عادت نہ ہو تو ہمیں انسانوں کا شکریہ ادا کرنے کی بھی عادت نہیں پڑتی۔اگر ہمیں خالق کے احسانوں کو یاد رکھنے کی عادت نہ ہو تو ہم کسی مخلوق کے احسان کو بھی یاد رکھنے کی عادت نہیں سیکھ سکتے۔”
سالار نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ناشکری کیا ہوتی ہے ، کوئی اس سے زیادہ اچھی طرح نہیں جان سکتا تھا۔اس نے ایک بار پھر آنکھیں کھول کر ڈاکٹر سید سبط علی کو دیکھا۔
پورے ایک گھنٹے کے بعد انہوں نے اپنا لیکچر ختم کیا ، کچھ لوگوں نے ان سے سوال کیے پھر لوگ باری باری اٹھ کر جانے لگے۔
باہر سڑک پر لوگ اپنی گاڑیوں پر بیٹھ رہے تھے ، وہ بھی اپنی گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے۔رات اب گہری ہو رہی تھی۔سالار کے کانوں میں ابھی بھی ڈاکٹر سبط علی کی باتیں گونج رہی تھیں۔فرقان گاڑی سٹارٹ کر کے واپسی کا سفر شروع کر چکا تھا۔
سات دن پہلے وہ فرقان نامی کسی شخص سے واقف تک نہیں تھا اور سات دن میں اس نے اس کے ساتھ تعلقات کی بہت سی سیڑھیاں طے کر لی تھیں۔اسے حیرت تھی وہ لوگوں کا عادی نہیں تھا۔کچھ تعلقات اور روابط اوپر کہیں طے کیے جاتے ہیں۔کس وقت۔۔۔۔۔کون کسے۔۔۔۔۔کہاں۔۔۔۔۔۔کس لئے ملے گا اور زندگی میں کیا تبدیلی لے آئے گا یہ سب۔
وہ صرف ایک دن کے لئے لاہور آیا تھا ، مگر وہ پاکستان میں اپنے قیام کے باقی دن اسلام آباد کے بجائے لاہور میں ہی رہا اور باقی کے دن وہ ہر روز فرقان کے ساتھ ڈاکٹر سبط علی کے پاس جاتا رہا۔وہ ایک دن بھی ان سے براہِ راست نہیں ملا۔صرف اُن کا لیکچر سُنتا اور اُٹھ کر آ جاتا۔
ڈاکٹر سبط علی کی زندگی کا بڑا حصہ مختلف یورپی ممالک کی یونیورسٹیز میں اسلامک اسٹڈیز اور اسلامک ہسٹری کی تعلیم دیتے گزرا تھا۔پچھلے دس بارہ سال سے وہ پاکستان میں یہاں کی ایک یونیورسٹی سے وابستہ تھے اور فرقان تقریباً اتنا ہی عرصہ سے انہیں جانتا تھا۔
جس دن اسے لاہور سے اسلام آباد اور پھر وہاں سے واپس واشنگٹن جانا تھا اس رات پہلی بار وہ لیکچر کے ختم ہونے کے بعد فرقان کے ساتھ وہاں ٹھہر گیا۔باری باری تمام لوگ کمرے سے نکل رہے تھے۔ڈاکٹر سبط علی کھڑے تھے اور کچھ لوگوں سے الوداعی مصافحہ کر رہے تھے۔
فرقان اس کے ساتھ ڈاکٹر سبط علی کی طرف بڑھ آیا۔
ڈاکٹر سبط علی کے چہرے پر فرقان کو دیکھ کر مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔وہ کمرے میں موجود آخری آدمی کو رخصت کر رہے تھے۔
“کیسے ہیں آپ فرقان صاحب!” انہوں نے فرقان کو مخاطب کیا۔”بڑے دنوں کے بعد رُکے آپ یہاں پر۔”
فرقان نے کوئی وضاحت دی پھر سالار کا تعارف کروایا۔
“یہ سالار سکندر ہیں ، میرے دوست ہیں۔”
سالار نے اپنا نام سننے پر انہیں یک دم چونکتے دیکھا اور پھر وہ کچھ حیران ہوئے مگر اگلے ہی لمحہ ان کے چہرے پر ایک بار پھر پہلے والی مسکراہٹ تھی۔فرقان اب اس کا تفصیلی تعارف کروا رہا تھا۔
“آئیے بیٹھئیے ۔”ڈاکٹر سبط علی نے فرشی نشست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔فرقان اور وہ ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھے گئے۔وہ فرقان کے ساتھ اس کے پروجیکٹ کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔سالار خاموشی سے باری باری ان دونوں کے چہرے دیکھتا رہا۔گفتگو کے دوران ہی ان کا ملازم اندر آیا اور انہوں نے اسے کھانا لانے کے لیے کہا۔
ملازم نے اس کمرے میں دسترخوان بچھا کر کھانا لگا دیا۔فرقان یقیناً پہلے بھی وہاں کئی بار کھانا کھاتا رہا تھا۔
وہ جب ہاتھ دھو کر کھانا کھانے کے لیے واپس کمرے میں پہنچا اور دسترخوان پر بیٹھا تو ڈاکٹر سبط علی نے اچانک اسے مخاطب کیا۔
“آپ مسکراتے نہیں ہیں سالار؟”وہ ان کے سوال سے زیادہ سوال کی نوعیت پر گڑبڑا گیا۔کچھ ہونق سا وہ انہیں دیکھتا رہا۔
“اس عمر میں اتنی سنجیدگی تو کوئی مناسب بات نہیں۔”سالار کچھ حیرانی سے مسکرایا ، پندرہ بیس منٹ کی ملاقات میں وہ یہ کیسے جان گئے تھے کہ وہ مسکرانے کا عادی نہیں رہا تھا۔وہ فرقان کی طرف دیکھ کر کچھ جھینپا ، پھر اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔یہ آسان کام ثابت نہیں ہوا۔
“کیا میرا چہرہ میرے ہر احساس کو ظاہر کرنے لگا ہے کہ پہلے فرقان اور اب ڈاکٹر سبط علی مجھ سے میری سنجیدگی کی وجہ جاننا چاہتے ہیں۔”اس نے سوچا۔
“ایسی کوئی بات نہیں ہے۔میں اتنا سنجیدہ نہیں ہوں۔”اس نے ڈاکٹر سبط علی سے زیادہ جیسے خود کو بتایا۔
“ممکن ہے ایسا ہی ہو۔”ڈاکٹر سبط علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
کھانے کے بعد دونوں کو رخصت کرنے سے پہلے وہ اندر گئے۔واپسی پر ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی وہ کتاب انہوں نے سالار کی طرف بڑھا دی۔
“آپ کا تعلق معاشیات سے ہے ، کچھ عرصے پہلے میں نے اسلامی اقتصادیات کے بارے میں یہ کتاب لکھی ہے۔مجھے خوشی ہو گی اگر آپ اسے پڑھیں تاکہ آپ کو اسلامی اقتصادی نظام کے بارے میں بھی کچھ واقفیت حاصل ہو۔”
سالار نے کتاب ان کے ہاتھ سے پکڑ لی ، کتاب پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اس نے مدھم آواز میں ڈاکٹر سبط علی سے کہا۔
“میں واپس جا کر بھی آپ سے رابطہ رکھنا چاہتا ہوں۔میں آپ سے صرف اقتصادیات کے بارے میں نہیں سیکھنا چاہتا اور بھی بہت کچھ جاننا چاہتا ہوں۔”ڈاکٹر سبط علی نے نرمی سے اس کا کندھا تھپتھپایا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...