ترنم ریاض کااقتباس
انہیں دنوں میں نے اپنا نیا ناول، ’ صحرا ہماری آنکھ میں ‘ شروع کیا تو ہم دونوں ماں بیٹوں نے ہیروئن کا نام متفقہ طور پر شیبا رکھ دیا۔ ادھر اس کی ڈیوٹی بین الاقوامی اڑان کی طرف منتقل ہوگئی اور وہ اور بھی زیادہ مصرو ف ہوگئی۔میرے دل میں اسے دیکھنے کی اوربہ نفسِ نفیس اسے ڈھیروں دعائیں دینے کی تمنا پنپتی ہی رہی ۔ مگر میرے بیٹے کے ہر جنم دن کی صبح، اس کی طرف سے آیا بہت سے گلابی پھولوں والابڑا سا گلدستہ ’ لابی ‘ کی میز پر سجتا رہا۔ پھر کچھ وقت بعد اس کی زندگی میں ایک اچھا لڑکا آیا تووہ اپنی دوست، اس کے چھوٹے بھائی اور میرے بیٹے کی منظوری کے بعد اُسے گھر والوں سے ملوانے پونا لے گئی۔اب تین سال سے وہ اس کا منگیتر تھا اوران دونوں کی حال ہی میں شاد ی بھی ہونے والی تھی ۔امتحان سے لوٹ کر اخبار دیکھنے کے بعد جب میرا بیٹا چہرے پر دو جہاں کی رنجیدگی لئے سامنے آیا تو میں نے دیکھا کہ سا نولے سلونے چہرے اور چمکتی آنکھوں والی جس لڑکی نے سینے پر گولی کھائی تھی وہ شیبا تھامس تھی۔ میرے دل میں کسی نے نیزہ سا چبھو دیا۔
اس ملک کا ’لا اینڈ آرڈر‘ کب تک ایسے اد ھ کھلے گلابوں کی زندگیوں کے تحفظ میں ناکام رہے گا۔میرے بیٹے نے کچھ دیر پہلے انٹرنیٹ پر شیبا تھامس کا ، سڑک پر گراخاکی جسم دیکھا تھاجس کے قریب ایک اُجڑا اُجڑا سا نوجوان اپنا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ایستادہ تھا ۔ اس نے مجھے تصویر کے بارے میں بتایا تو میری آنکھیں پھر بھر آئیں اور ’ فائل فوٹو ‘ والا سلونا سا مکھڑا میرے ذہن میں مسکراتا رہا ۔ناول میں اپنی ہیروئن کا رول آگے بڑھاتے، آج سے پہلے میرے اندر عجب سی ممتا موج زن رہا کرتی تھی۔ اب اس کردار کی تکمیل مجھے ہمیشہ رلایا کرے گی۔ خون کے آنسو!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...