لڑکی گاڑی روکنے کا اشارہ کرتے ہوئے پرنسپل صاحبہ کی گاڑی کے سامنے آکر اس طرح کھڑی ہوگئی کہ ان کو اپنی گا ڑی کو لگام دینی ہی پڑی۔ اگر لڑکی اس طرح نہیں کرتی تو وہ ہرگزگاڑی نہیں روکتیں خواہ وہ لڑکی کتنی ہی چیختی چلاتی۔ ایک تو وہ کالج کی لڑکیوں پر اپنا دبدبہ قائم رکھنے کے لیے انسانی اخلاقی رویوں سے تجاوز کرنے سے پس و پیش نہیں کرنے والی خاتون تھیں، دوسرے یہ کہ جس لڑکی نے ان کی گاڑی روکی تھی اس کا تعلق ایک ایسی طلبہ تنظیم سے تھا جس کے لیے ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہ تھا۔ پاکستان بھر کی تمام درس گاہوں میں مستثنیات کو چھوڑ کر سبھی اساتذہ اپنے طلبہ کی مانند گروہی سیاست میں ملوث اور بٹے ہوئے تھے۔ وہ کالج کی سربراہ تھیں اور بظاہر ایک غیرملوث، غیرجاب دار منتظم کا چولا پہنے پھرتی تھیں۔ اس زمانے میں طلبہ سیاست میں کراچی خون خرابے کی حد تک بڑھا ہوا تھا۔
انتہائی بے بسی کے عالم میںگاڑی روک کر انھوں نے لڑکی سے ڈانٹنے کے انداز میں پوچھا، ’’راستے میں گاڑی رکوانے کی تمھیں ہمت کیسے ہوئی، کل صبح بات نہیں کرسکتی تھیں؟‘‘
’’سوری میڈم!‘‘ لڑکی گریہ کناں آواز میں بولی۔ ’’میں نے مجبوری میں آپ کی گاڑی روکی۔‘‘
’’کیسی مجبوری؟‘‘ لڑکی کو دبتا ہو ا دیکھ کر پرنسپل نے گرجتے ہوئے پوچھا۔
اسی دن کالج میں جب لڑکی کے مخالف سیاسی گروہ سے متعلق ایک مرد طالبِ علم لیڈر کمال جس کے سر بے شمار طلبہ کو گولی مار کر قتل کرنے کا خونی سہرا بندھا تھا، پرنسپل صاحبہ کے دفتر میں گھس آ یا تو وہ کسی سوکھے پتے کی طرح لرز رہی تھیں اور اس سے اس طرح احکامات لے رہی تھیںجیسے وہ پرنسپل ہو اور یہ خود کوئی معمولی چپراسن۔ اس کے جاتے ہی نائب پرنسپل اور دیگر اسٹاف پرنسپل کے کمرے میں پہنچے تو انھیں اطمینان سے بیٹھا دیکھ کر حیران رہ گئے۔ پرنسپل نے ایسا رویہ اپنایا تھا جیسے کہ کچھ بھی خلافِ معمول نہیں ہوا۔ جب کمرے سے سب لوگ چلے گئے سوائے صرف ایک کے جو ہر معاملے میں ان کی ہم خیال رہتیں۔ اور بقول دیگر اساتذہ کے ان کی چمچی،تو وہ بولیں، ’’کمال شیر کی طرح دھاڑ کر گیا ہے— کیا جوان ہے۔ اس کے آگے ان کے بکرے، بکر یاں کیا ٹکیں گے۔‘‘
’’اللہ کرے ایسا ہی ہو میڈم— ان سب کا صفایا ہو جائے اور ان کے پارٹی آفس، بینرز، وغیرہ سے ہماری جان چھٹ جائے۔‘‘ پرنسپل کی چمچی نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔
’’بس تھوڑے ہی دنوں کی بات ہے۔ اپنے کالج میں صرف اپنے ہی لوگوں کا پارٹی آفس ہوگا۔ پھر تم دیکھنا میں کس طرح پورے کالج میں اسٹو ڈنٹس اور اسٹاف سمیت ان لوگوں پر جھاڑو پھیرتی ہوں۔ منحوس۔ کمینیاں۔ ‘‘ پرنسپل نے دوسری پارٹی کے خلاف زہر اُگلا۔
’’پھر بھی آپ یہ تو بتایئے کمال سے آ پ کی میٹنگ کیسی رہی۔‘‘ چمچی نے تجسّس سے پوچھا۔
’’ایک دم فرسٹ کلاس۔ میں نے اس کی ہر اسکیم پر ’او کے‘ کر دیا ہے، لیکن تم ذرا ہوشیار رہنا۔ میں سب سے یہی کہنے والی ہوں کہ میں نے کمال سے دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ اگر اس نے اپنی سرگرمیاں بند نہیں کیں تو میں سخت سے سخت اقدامات سے بھی گُریز نہیں کروں گی۔‘‘ پرنسپل صاحبہ نے راز دارانہ انداز میں اپنی چمچی کو یہ بات بتائی۔
’’میڈم! آپ اطمینان رکھیے۔ میرا آپ کے ساتھ ٹھہرنا مخالفین کو پسند نہیں آئے گا۔ میں چلتی ہوں طالبات اور اسٹاف میں آپ کی غیرجانب داری کا چرچا کرنے۔‘‘ چمچی نے پرنسپل سے اجازت لیتے ہوئے کہا۔
میڈم مجبوری یہ ہے— مجبوری یہ ہے میڈم….. لڑکی رک رک کر، گھبرا کر، روتے ہوئے بولی، ’’میڈم آج مجھے ماردیا جائے گا۔‘‘ بڑی مشکل سے لڑکی نے جملہ پورا کیا۔
’’کیا بک رہی ہو؟ ہوش میں ہو— مار دیا جائے گا— پاگل— ہٹو گاڑی کے سامنے سے مجھے دیر ہو رہی ہے کل بات کرنا‘‘۔ وہ بریک سے پیر ہٹانے کے لیے بے تاب تھیں۔
’’میڈم— میڈم— یقین ما نیے مجھے آج مار دیں گے۔ کمال کبھی بھی غلط دھمکی نہیں دیتا۔ مجھے بچا لیجیے۔ میڈم مجھے بچا لیجیے۔ آپ کو اللہ، رسول کا واسطہ۔ آپ کو بی بی فاطمہ کا واسطہ۔ آپ کو آپ کی آل اولاد کا واسطہ!‘‘
پرنسپل نے ایک مرتبہ اس لڑکی کو گھور کر دیکھا، وہ سر سے پائوں تک التجا ہو رہی تھی۔ اس نے واسطے بھی بڑے بڑے دیے تھے۔ اولاد کا واسطہ بھی دیا تھا۔ وہ بے اولاد تھیں، لیکن انھوں نے اپنی بہن کی ایک لڑکی کو اپنی بیٹی بنا لیا تھا اس کا نام رخشندہ تھا اور وہ اس سے بے حد محبت کرتی تھیں۔ اپنی زندگی کے لیے گھگیا تی ہوئی لڑکی کی جگہ ایک لحظے کے لیے ان کو رخشندہ کھڑی نظر آئی۔ ان کا ہاتھ کسی ریفلیکس ایکشن کے تحت دروازہ کھولنے کو ہوگیا، لیکن دوسرے ہی لمحے انھوں نے اسے روک لیااور لڑکی سے اسی سخت لہجے میں بولیں، ’’اگر ایسا ہے بھی تو میں کیا کر سکتی ہوں؟‘‘
’’میڈم مجھے گاڑی میں بٹھا لیجیے۔‘‘ لڑکی نے بھیک مانگنے کے سے لہجے میں کہا۔
’’نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی۔ احمق لڑکیوں کی احمقانہ باتوں سے میں متأثر نہیں ہوسکتی۔ تمھیں کوئی نہیں ما رے گا۔ گھر جائو۔ کل بات کرنا۔ مجھے جانے دو۔‘‘
یہ کہہ کر پرنسپل صاحبہ نے پیر بریک سے ہٹاکر ایکسی لیٹر پر رکھا، گاڑی کو گیئر میں ڈالا۔ لڑکی کے چہرے میں تغیر آگیا۔ وہ پتھر کا ہو رہاتھا۔ لڑکی کے ہٹتے ہی پرنسپل نے گاڑی کو ہوا میں اڑاناشروع کر دیا۔ اگرچہ کہ پرنسپل صاحبہ گاڑی ہمیشہ درمیانی رفتار سے چلانے کی عادی تھیں، لیکن آندھی اور طوفان کی رفتار سے گاڑی چلاتی ہوئی وہ اپنے بنگلے تک پہنچ گئیں۔ ان کا بنگلہ کالج سے تقریباً آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا۔
بنگلے پر پہنچتے ہی ان کی آ نکھوں کے سامنے رخشندہ کھڑی نظر آئی، لیکن رخشندہ وہاں نہیں تھی۔ وہ میڈیکل کالج کی طالبہ تھی اس کی واپسی شام سے پہلے ممکن نہ تھی۔ پھر ان کے سامنے زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے ان کی اپنی شاگرد کھڑی تھی۔ اگرچہ کہ وہ جس تنظیم کی کارکن تھی اس تنظیم کے لیے ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں تھا، لیکن پھر بھی پرنسپل نے یا ان کے اندر کسی اصل شخصیت نے اچانک کوئی فیصلہ کیا۔ گاڑی کے اسٹیئرنگ نے گردش کی اور گاڑی جس رفتار سے بنگلے کی سمت اڑتی آئی تھی، اسی رفتار سے کالج کی سمت اڑ گئی۔ کالج اور اس کے گردونواح کی گلیوں میں قدرے دھیمی رفتارسے گاڑی رینگتی رہی۔ ان کے کانوں میں لڑکی کی آواز گونج رہی تھی، ’’میڈم! یقین مانیے مجھے آج مار دیں گے، کمال کبھی غلط دھمکی نہیں دیتا۔‘‘
وہ بھی یہ بات اچھی طرح جانتی تھیں کہ کمال کبھی غلط دھمکی نہیں دیتا ہے۔ لڑکی کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔
’’اوہ میرے خدا کہیں…..‘‘ اس کے آگے سوچنے کی ان میں ہمت نہ تھی۔ ان کا ذہن قریب کے پٹرول پمپ کی طرف گیا، وہاں سے ٹیکسی اور رکشا گزرتے تھے۔ شاید ایک آدھ بس کا بھی ادھر سے روٹ تھا۔ ذہن کے اشارے پر پرنسپل نے فیصلہ کیا، فیصلہ بالکل درست ثابت ہوا۔
لڑکی پٹرول پمپ کے قریب کھڑی تھی، اس نے اپنے سر کو ڈوپٹے سے لپیٹ رکھا تھا اور اس طرح کھڑی تھی جیسے ’’ہونی‘‘ پر اپنے آپ کو چھوڑ دیا ہو۔ پلک جھپکتے پرنسپل کی گاڑی لڑکی کے پہلو میں پہنچ گئی۔ پرنسپل نے گاڑی کا در وازہ کھولا اور زور سے چلائیں، ’’اندر آجائو۔‘‘
لڑکی جیسے چونک سی پڑی۔ وہ تو کسی اور دنیا میں جا چکی تھی۔ اس کو تو گاڑی کے قریب آنے کا احساس بھی نہیں ہو ا تھا۔ پرنسپل کی آواز سے اس کے اندر جان سی آئی۔ وہ دنیا میں لوٹ آئی اور جھپٹ کر گاڑی کے اندر ہوگئی۔ گاڑی نے اڑان لی، لیکن جیسے ہی گاڑی پٹرول پمپ سے دور ہوئی اس پرگولیوں کی بوچھاڑ ہوگئی۔ گولیاں اور گولیوں کی تڑاخ پڑاخ بند ہوگئی۔ لوگ اِدھر اُدھر سے، چوکنا سے، خوف زدہ سے گاڑی کی طرف بڑھے۔ چلتی گاڑی رکی پڑی تھی۔ اس کو گیس پہنچانے والے پائوں جامد ہوچکے تھے۔ پرنسپل کا سر اسٹیئرنگ سے ٹکا ہوا تھا، لڑکی کا سر پرنسپل کی گود میں پڑا تھا۔ گولیوں نے دونوں جا نب سے گاڑی اور گاڑی میں بیٹھی ہوئی استاد اور شاگرد کے جسموں کو چھلنی کر دیا تھا۔ دونوں کے خون آپس میں گھل مِل رہے تھے۔ اس سے قطعِ نظر کہ دونوں مختلف اور متصادم لسانی اور سیاسی دھڑوں سے تعلق رکھتی تھیں۔