امریکہ میں خانہ جنگی جاری تھی۔ اس نے کپاس کے نرخ بہت چڑھا دئے تھے۔ یہاں پر عثمانی وائسرائے محمد سعید پاشا نے موقع دیکھا۔ وہ ایک بہت بڑے جاگیردار تھے۔ انہوں نے اپنی زمینیں کپاس پیدا کرنے کے لئے مختص کر دیں۔ وہ دنیا کے سب سے بڑے کپاس کے کاشتکار بن گئے اور ان زمینوں میں مشقت جبر سے کروائی جاتی تھی۔ مصری دیہاتی اس کے لئے کافی نہیں تھے، ان زمینوں پر کام کرنے کے لئے سوڈانی غلام منگوائے گئے۔
مصر میں نئی ریلوے لائن، نئی نہریں اور نئے کاٹن پریس بنے تھے۔ 1864 میں مصرِ زیریں کی چالیس فیصد زرخیز زمین کپاس کے کھیتوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔ پانچ سالوں میں اس علاقے سے کپاس کی پیداوار پانچ گنا ہو گئی تھی۔ یہ اتنی بڑی تبدیلی تھی کہ مصر کی تاریخ میں انیسویں صدی کے اہم ترین واقعات میں ایک امریکی خانہ جنگی کو کہا جاتا ہے۔ اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ جب سعید پاشا امریکی خانہ جنگی کے دوران مانچسٹر گئے تو ان کا کسی ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا۔
برازیل، پیرو، چین، اناطولیہ اور میکسیکو نے بھی ان برسوں میں کپاس کی برآمد میں اضافہ کیا۔
امریکی خانہ جنگی کے سبب ہندوستان، مصر اور برازیل کی مغربی منڈیوں میں بڑے پیمانے پر آمد ہو گئی تھی۔
ایک بار بڑی مقدار میں یہ ان ممالک سے آنا شروع ہو گئی تو یورپی ممالک کا امریکی جنوب پر انحصار کم رہ گیا۔ کاٹن کی وہ لابی جو امریکہ میں غلامی کا ادارہ برقرار رکھنے یا امریکی علیحدگی پسندوں کی حمایت کرنے پر زور دے رہی تھی، کمزور پڑ گئی۔
جب سستی کپاس دوسرے ذرائع سے میسر تھی تو غلامی کا ادارہ ختم کیا جا سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں چالیس لاکھ غلام تھے۔ اپنے مالکوں کی کمزوری بھانپ لی تھی۔ کئی نے زمین چھوڑ دی، کئی نے یونین افواج کو معلومات فراہم کی، کئی نے ہتھیار اٹھا لئے، یہ ایک علاقائی جنگ کے بجائے آزادی کی جنگ میں بدل گئی۔ اور یہ غلام اس میں کامیاب ہو گئے۔ اس بغاوت نے یہ نظام ختم کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں اپریل 1865 کو بندوقیں خاموش پڑ گئیں۔ سابق غلام اپنی آزادی کا جشن منا رہے تھے۔ یورپی صنعتکار اور تاجر خوش تھے کہ اب فیکٹریاں مکمل کیپیسٹی پر چلیں گی۔ کپاس کی فراوانی ہو گی۔
تاجروں کے لئے یہ خوشی کی خبر نہیں تھی۔ امن کی افواہ سے کپاس کی مارکیٹ کریش ہو گئی۔ لیورپول میں panic تھا جو ممبئی تک پھیل گیا۔
قیمتیں گرنے کی وجہ سے عالمی کسادبازاری شروع ہوئی۔ اور اس نے سب کو دکھا دیا کہ دنیا کیسے ایک گتھے ہوئے جال میں ہے۔ ورجینیا کے گاوٗں میں لڑی جانے والی جنگ کی لہریں ہندوستان اور مصر کے چھوٹے دیہاتوں تک پہنچ جاتی ہیں۔
ممبئی میں جائیدادوں کی قیمتیں کریش ہو گئیں۔
دنیا یقیناً چھوٹی ہو چکی تھی اور کپاس نے عالمی معیشت کو اپنے ریشوں میں باندھ لیا تھا۔ سیاستدان سمجھ چکے تھے کہ ان پیداورای تانوں بانوں کا مستحکم رہنا معاشرے کے اور قوموں کے استحکام کے لئے کس قدر ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف، کپاس کی مانگ تو تیزی سے بڑھ ہی رہی تھی اور اس کی پیداوار کا ایک اہم طریقہ ۔۔ غلامی ۔۔ اختتام تک پہنچ چکا تھا۔ محنت کی تنظیمِ نو کی ضرورت تھی۔
امریکہ میں تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے غلامی کا خاتمہ 1865 میں کر دیا گیا۔