ہوا شہکار جب اس کا مکمل
وہ اپنے خون میں ڈوبا ہوا تھا
۔۔۔۔بے انت پھیلے ہوئے صحرا میں جب رات کا ایک پہر گزرنے کے باوجود کسی کو نیند نہ آئی تو چاروں درویش اٹھ کر بیٹھ گئے۔ پہلے درویش نے تجویز پیش کی کہ رات کاٹنے کے لئے اپنی اپنی کوئی کہانی سنائی جائے۔ سب نے اس تجویز سے اتفاق کیااور پہلے درویش سے کہا کہ وہ خود اپنی زندگی کی کسی کہانی سے ابتداکرے۔
لمبے بالوں والا پہلا درویش آگے کو جھکااور پھر یوں گویاہوا:
۔۔۔۔”میری کہانی گلاب شہزادے کی کہانی ہے۔
گلابی رنگ کو تم بخوبی پہچانتے ہو۔ خون سرخ رنگ کاہوتاہے۔ خون میں سفید رنگ ملادیں تو وہ گلابی بن جاتاہے لیکن اگر خون ویسے ہی کہیں جم جائے تو سیاہ ہوجاتاہے۔خیرتو میں کہہ رہاتھا میری کہانی گلاب شہزادے کی کہانی ہے۔ لیکن اس کے لئے مجھے عملاًبتانا پڑے گا“
یہ کہہ کر پہلے درویش نے اپنے تھیلے سے گلاب کی ایک قلم نکالی اور اسے ریت میں گاڑ دیا۔
”میری کہانی کا باقی حصہ اس قلم کے بڑھنے تک ادھورا رہے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ آپ لوگ باری باری اپنی کہانیاں سنالیں میں آخر میں اپنی کہانی مکمل کروں گا۔“
۔۔۔۔پہلے درویش کی اس بات پر دوسرے درویش نے اپنی کہانی شروع کی:
”میری کہانی عام سی ہے۔ میری بیوی نے اپنی آنکھوں کے جادو اور ہونٹوں کے منتر سے مجھے گدھا بنادیاتھا اور میں کئی صدیوں سے بوجھ اٹھاتا چلا آرہاتھا۔ پھر ایک دن مجھے بھی ایک اسم مل گیا۔ میں گدھے سے انسان بن گیا اورتب میں نے اپنے اسم کے زور سے اپنی بیوی کو گھوڑی میں تبدیل کردیا۔“
۔۔۔تیسرا اور چوتھا دونوں درویش اس کی کہانی بڑی دلچسپی سے سن رہے تھے جبکہ پہلا درویش گلاب کی اس قلم کو دیکھ رہا تھا جس کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے کانٹے سے چپکے ہوئے تھے قلم آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔
”اب مجھے صحیح طورپر یاد نہیں رہا کہ پھر میں نے اسے تانگے میں جوت دیا تھا،گھوڑدوڑ کے کلب میں لے گیا تھایا ویسے ہی اسے سرپٹ دوڑاتارہا یا پھر پتہ نہیں وہ خود ہی سرپٹ دوڑتی رہی دوڑتی رہی“
”پھر کیا ہوا؟“
تیسرے اور چوتھے درویش نے بڑے اشتیاق اور تجسس سے پوچھا۔
پہلا درویش ابھی تک گلاب کی اس بڑھتی ہوئی قلم کو دیکھ رہا تھا۔
”پھر؟“دوسرے درویش نے ذہن پر تھوڑا سازور دیا۔
”پھرجب میری بیوی اپنی پہلی تنخواہ لائی تھی تو اس کا چہرہ خوشی سے گلنار ہورہاتھا۔ اس نے اپنی آدھی تنخواہ گھر کے اخراجات میں ڈال دی اور بقیہ آدھی بچوں کے مستقبل کے لئے بنک میں جمع کرادی اور پھر ہمیشہ ہی اس کا یہی طریق رہا۔ میری اور اس کی تنخواہ سے ہمارا گھر خاصا خوشحال ہوگیا۔ البتہ وہ اپنے باس کی بہت تعریفیں کرتی رہتی تھی۔ وہ اس کا ضرورت سے زیادہ ہی خیال رکھتے تھے“۔
۔۔۔۔اچانک دوسرے درویش کی نظر گلاب کی اس قلم پر پڑی جو اس عرصے میں حیرت انگیز طور پر دو گنی ہوچکی تھی اور اب اس میں ننھے ننھے سبز پتے بھی پھوٹ رہے تھے۔ اسے یوں لگا جیسے کانٹوں میں لپٹی ہوئی گلاب کی پوری قلم کسی نے اس کے حلق میں ٹھونس دی ہو ۔
اس نے ایک جھرجھری سی لی اور پھر بے اختیارپکارا۔۔ ”پانی!“
پہلے درویش نے جلدی سے پانی کا کوزہ اس کے منھ سے لگادیا۔
گلاب کی قلم کچھ اور سرسبز ہوگئی اور سبز پتوں کے ساتھ ایک سرخ پتہ بھی ابھر آیا دوسرے درویش نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا اور دم توڑدیا۔
باقی تینوں درویشوں نے دیکھاکہ بے انت پھیلے ہوئے صحرانے خود کو خاصا سمیٹ لیا ہے۔
رات کا دوسرا پہر گزر چکا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔تیسرے درویش نے ایک گہرا سانس لیا اور اپنی کہانی شروع کی:
”جیسا کہ آپ جانتے ہیں تاریخ اور جغرافیے سے مجھے گہری دلچسپی ہے اور مرا تعلق بھی آثارقدیمہ سے ہے تین بچوں کی پیدائش کے بعد میری بیوی نے مجھے مشورہ دیاکہ میں خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کروں۔ چنانچہ میں نے غبارے استعمال کرنا شروع کردےئے مرا گھر خاصا چھوٹا اور تنگ سا ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ استعمال کے بعد میں نے غبارہ نالی میں پھینکنے کی بجائے کونے میں پڑی بڑی میز کے پیچھے پھینک دیا۔ میز کے نیچے پڑے ڈھیر سارے کباڑ میں وہ غبارہ چھپارہتا۔ پھر کبھی خیال آتا تو اسے اٹھا کر نالی میں پھینک دیتا۔“
چوتھادرویش اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہاتھا۔
۔۔۔۔”ایک دفعہ کسی کھنڈرسے کئی ہزار سالہ پرانی کھوپڑی دریافت ہوئی تو اس کے مطالعہ کے لئے مجھے بلایاگیا۔ کھوپڑی کے مطالعہ کے بعد جب میں گھر آیاتو اپنی میز کے نیچے کباڑ میں سے کوئی چیز ڈھونڈتے ہوئے مجھے ایک سوکھا ہوا مڑاتڑاسا غبارہ مل گیا۔ میں نے اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کھوپڑی اس غبارے میں موجود ہو اور وہ کھوپڑی مرے اپنے بیٹے کی ہو۔“
چوتھادرویش اس کی کہانی میں خاصی دلچسپی لے رہا تھا۔
پہلا درویش گلاب کی اس مسلسل بڑھتی ہوئی قلم کو دیکھ رہا تھا جس میں سے اب شاخیں بھی پھوٹنے لگی تھیں۔
”میں خوف سے کانپ اٹھا۔ مجھے لگامیں نے اپنے بیٹے کو قتل کرکے اس کے سرکو محض کھوپڑی بنادیاہے۔ میںنے اپنی بیوی کو اپنا خوف بتایا۔ پہلے تو اس نے شور مچادیا ”خاندانی منصوبہ بندی ختم نہیں کرنے دوں گی۔ مری صحت پھر تباہ ہوجائے گی“ لیکن بالآخر مرا خوف اس کی ضد پر غالب آگیا۔
جس دن اس نے مجھے خوشخبری سنائی مجھے یوں لگا جیسے ہزاروں برس پہلے کھوجانے والی مری کوئی قیمتی چیز مجھے دوبارہ ملنے والی ہے۔“
۔۔۔۔تیسرے درویش کی نظر گلاب کی اس قلم کی طرف اٹھ گئی جو اَب گلاب کے چھوٹے سے پودے میں ڈھل گئی تھی۔
اسے یوں لگا جیسے گلاب کا پودا اس کے اندر ہے اور کوئی اُسے اُس کے حلق سے باہر کھینچ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ خوف سے چلّایا:”پانی!“
پہلے درویش نے جلدی سے پانی کا کوزہ اس کے منھ سے لگادیا۔
گلاب کا پودا کچھ اور پھیل گیااس کے سبز پتوں میں ایک اور سرخ پتہ ابھرآیا۔
تیسرے درویش نے خوفزدہ آنکھوں سے یہ منظر دیکھااور دم توڑدیا۔
باقی دونوں درویشوں نے دیکھا کے بے انت پھیلے ہوئی صحرا نے خود کو آدھا سمیٹ لیا ہے رات کا تیسرا پہر گزر چکاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔چوتھے درویش نے مشکوک نظروں سے پہلے درویش کو دیکھا اور قدرے چوکنّا ہوکر اپنی کہانی بیان کرنے لگا:
”یہ کہانی دراصل مری نہیں۔مرے ایک دوست کی ہے۔ میں اسے اسی کی زبان میں بیان کروں گا“
چوتھے درویش نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔
”مرابھائی گہری نیند سویا ہواتھا میں اس کے کمرے میں بیٹھاکوئی کام کررہاتھا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ مرے بھائی کی ناک سے شہد کی ایک مکھی نکلی قریب ہی پانی کا ایک ٹب پڑاتھا۔ جس میں لکڑی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تیر رہا تھاجو شاید کسی بچّے نے ڈال دیا تھا شہد کی مکھی اڑ کر لکڑی کے اُس ٹکڑے پر جا بیٹھی۔ کچھ دیر بعد پھر اُڑی اور مرے بھائی کی ناک میں داخل ہوگئی میں یہ منظر بڑی حیرت سے دیکھ رہاتھا“۔
”اچھا ۔پھر کیا ہوا؟؟“پہلے درویش کی مسکراہٹ بڑی سفّاک تھی، وہ اب بھی گلاب کے اُس پودے کو دیکھ رہا تھا جو مسلسل پھلتا پھولتاجارہا تھا۔
”پھر ۔۔پھر۔۔“ چوتھا درویش خوفزدہ انداز میں اِدھر اُدھر دیکھ کر بولا:
”پھر میرا بھائی بیدارہوگیا۔ اس نے اپناایک حیرت انگیز خواب سنایا اس نے بتایاکہ وہ کسی دریا کے کنارے کھڑا تھا کہ لکڑی کاایک بڑا سا تختہ تیرتا ہوا اس کے قدموں میں آگیا،وہ اس پر سوار ہوگیا۔ جب وہ تختہ اسے دوسرے کنارے پرلے گیا تو اس نے دیکھا کہ وہ جگہ خزانوں سے بھری پڑی ہے۔مگر وہ اکیلا یہ خزانے نہ اٹھا سکتا تھا، اس لئے دوسرے ساتھیوں کو لینے کے لئے واپس آگیا۔“
”حیرت ہے حیرت ہے!“ پہلا درویش بڑے مکّارانہ انداز میں بولا۔ اس کی نظریں اب بھی گلاب کے اس پودے پر گڑی تھیں جو اَب بڑی شان سے لہلہارہا تھا، چوتھا درویش گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا:
”میں بھائی کا خواب سمجھ گیا۔میں نے اسے قتل کردیااور وہ جگہ جہاں ٹب پڑا تھا اور شہد کی مکھی لکڑی کے ٹکڑے پر تیرتی رہی تھی، اسے کھود ڈالا وہاں واقعی خزانے تھے مگرمگر“
”مگرکیا؟“پہلے درویش کے لہجے میں تشویش کی ہلکی سی پرچھائیں ابھری۔
چوتھے درویش کی نظریں اس لہلہاتے ہوئے گلاب کے پودے پر پڑیں۔
اور پھروہی کیفیت
”پانی!“
پہلے درویش نے جلدی سے پانی کا کوزہ اس کے منہ سے لگادیا۔ مگر چوتھے درویش نے کوزہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔پانی پیا۔
پھر گلاب کے پودے میں ایک اور سرخ پتے کو ابھرتے ہوئے دیکھا۔
خوف سے جھرجھری لی۔
”مگر کیا؟“پہلے درویش نے اسے جھنجھوڑ کر پوچھا۔
”مگریہ کہانی مرے دوست کی نہیں مری اپنی ہے اپنی“ اور پھر چوتھے درویش نے بھی دم توڑ دیا۔
سارے صحرا نے خود کو سمیٹ کر پہلے درویش کے قدموں میں ڈال دیا۔
رات کاآخری پہر گزرچکاتھا۔
پوپھوٹ رہی تھی۔
پہلے درویش کے وحشیانہ قہقہے صحر امیں گونجنے لگے۔
”ہاہاہا اب اس صحرائی علاقے کی تیل کی دولت کا میںتنہا مالک ہوں۔ ایٹمی جنگ میں جتنے لوگ بھی بچ گئے ہوں گے سب مری رعایا ہیں اور میں اس نئے عہد کا حکمران عظیم حکمران ہا ہا ہا“
اچانک اسے شدید پیا س کا احساس ہوا۔ اس نے کوزے کو دیکھا۔ کوزہ خالی ہوچکا تھا۔وہ گھبراگیا۔اور پھر پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑنے لگا۔
وہ دوڑ تارہا دوڑتا رہا
اور سمٹاہوا صحراپھیلتارہا پھیلتارہا
سورج نصف النہار تک پہنچ گیا۔
ا س کے سامنے تیل کے چشموں کاذخیرہ تھا، کنووں کی بجائے چشمے!
مگر پانی؟۔۔۔۔۔
پیاس کی شدّت،
شدید تھکاوٹ،
اور مسلسل پھیلتاہوا صحرا،
وہ تیل کے چشمے پر ہی پیاس بجھانے کے لئے جھک گیا۔
٭٭
اس کا آدھا جسم باہر پڑا تھا۔ سرپانی کے چشمے میں ڈوبا ہوا تھا۔پھیلی ہوئی بانہیں آدھی سے زیادہ چشمے میں اور باقی باہر اور لمبے لمبے بال پانی میں لہراتے تیر رہے تھے۔
اس کی مردہ آنکھیں بھی پانی کے چشمے کو تیل کا چشمہ سمجھ رہی تھیں۔
گلاب کے پودے پر ایک بڑا سا پھول اُگ آیاتھا۔
گلاب کے اس پھول کارنگ غیر معمولی حد تک گہراسیاہ تھا۔
گلاب شہزادے کی کہانی مکمل ہوچکی تھی۔
مگر نہ کوئی اسے سنانے والا تھا، نہ سننے والا!
٭٭٭