کل رات میں چھت پر لیٹا تارے گن رہا تھا۔ اچانک میری چھت پر ایک گھوڑا اتر آیا۔ اور کہنے لگا۔ آئو تمہیں دنیا کی سیر کرائوں۔
کیسے میں نے اس سے پوچھا۔
تم میری پشت پر سوار ہو جائو۔ جہاں کہو گے لے چلو ں گا۔
عجیب بات ہے ۔ بیری کے درخت میں آم۔
کہو تو یہ بھی دکھا دوں۔
میا ں دنیا میں اب کوئی چیز تحیر انگیز نہیں رہی۔
چلو لاہور کی سیر کرائو۔
چلو آئو بیٹھو۔ میں گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ گھوڑا آہستہ آہستہ ہوا میں بلند ہونا شروع ہوا۔ یار تم گھوڑے ہو یا ہوائی جہاز۔
تمہیں کیانظر آتا ہوں۔ گھوڑا ہوں بھائی گھوڑا۔ لیکن ایک بات سنو! تم نے لاہور کی سیر کا کیوںکہا۔ میںتمہیں، لندن ، پیرس، نیو یارک وغیرہ گھما سکتا ہوں۔ میں پہلے داتا کو دیکھنا چاہتا ہوں۔
معاف کرنا۔ میں صرف تمہیں داتا کی نگری دکھا سکتا ہوں۔ داتا کو دکھانا میرے اختیار سے باہر ہے۔
اچھا ۔ ایک بات بتلائو۔ وہ نہر کے کنارے جو کنالوں میں بنی کوٹھیاں ہیں وہ تم نے دیکھی ہیں۔
ہاں۔ وہ سب نے دیکھی ہیں۔ بڑی بڑی کشادہ، ہائے کیا خوبصورت نظارہ ہوتا ہے۔ وہاں۔ نظارہ ۔ کاہے کا۔ ارے بھائی یہ ساری کوٹھیاں شرفاء کی ہیں۔ بڑی محنت سے بے چاروں نے بنائی ہیں۔ یہ کوٹھیاں دیکھ کر تو امریکی سفیر بھی حیران رہ گیا تھا۔
چلو۔ مجھے کسی ایسی کوٹھی میں اتارو۔ جو تمہارے جاننے والے کی ہو۔
میں گھوڑا ہوں۔ گھوڑا۔ انسانوں سے مجھے کیا واسطہ۔ ہاں میرے آقا کے کچھ دوست رہتے ہیں۔
تمہارا آقا کون ہے۔ ابھی تو تم سیر کرو یہ باتیں بعد میں ہوںگی ۔
میں تمہیں پھر کنی آپا کی کوٹھی میں اتارتا ہوں۔ آکر تمہیں لے جائوںگا۔ ٹھیک ۔ہاں ٹھیک۔ مگر کل آجانا۔ آئوں گا بھئی آئوں گا۔ میں دو ماہ تک تمہاری ڈیوٹی کرونگا۔ سمجھے۔ دو ماہ بعد کیا ہوگا مجھے نہیں معلوم۔
وہ دیکھو۔ لاہور۔ میناروںکا شہر۔ نظر آرہا ہے۔ وہ جو سفید کوٹھی ہے۔ وہ پھر کنی آپا کی ہے۔ پھر کنی آپا۔
اتنی بڑی کوٹھی میں اکیلی رہتی ہیں بے چاری باقی افرادِ خانہ کیا ہوئے۔
میاں۔ بیٹے پڑھ لکھ کر امریکہ میں سکونت پذیر ہو گئے۔ دو سال قبل ان کے شوہر کا انتقال ہو ا ہے۔ شوہر کا انتقال ہوگیا۔ پھرکنی آپا خاصی مدت سے سماجی طور پر خود کفیل ہیں۔ ان کے شوہر کو گھڑ سواری کا بڑا شوق تھا۔ پولو کے بھی کھلاڑی تھے۔ ایک دن ریس کورس میں گھوڑا دوڑا رہے تھے۔ گھوڑا ٹھوکر کھا کر گرا۔ اور دوسرے گھوڑے انہیں روندتے ہوئے گزر گئے۔ ساری پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ اللہ بخشے مرحوم بڑے اچھے جاکی تھے۔ میں نے بھی دو ماہ ان کی ڈیوٹی کی ہے جناب۔
ارے ۔ گھوڑے میاں۔ ایک بات تو بتلائو۔ تم جس کی ڈیوٹی کرتے ہو وہ کبھی بچا بھی ہے۔ میاں۔ اللہ کی مہربانی سے سب بچ جاتے ہیں۔ بس کبھی کبھی کوئی اکا دکا اناڑی ہی جان سے ہاتھ دھوتا ہے۔ عقلمند ہمیشہ بچ جاتے ہیں اور تم تو خاصے عقل مند ہو ۔ فکر مت کرو۔
پھر کنی آپا۔ کی کوٹھی آگئی ہے۔ میں کوٹھی کے لان پر اتر رہا ہوں۔ ذرا کوٹھی کا لان آکر دیکھو میرے خیال میں یہاں ہوائی جہاز بھی اتر سکتا ہے۔
گھوڑے بھائی جلدی مت کرو۔ ذرا آہستہ آہستہ تو یہ بتلائو۔ کہ آگے مجھے کیا کرنا ہے۔ میاں خربوزوں کے کھیت میں خربوزہ کیاکرتا ہے۔ جیسا دیس ویسا بھیس اور تم تو کافی عقل مند ہو۔
اچھا چلو۔ اترو۔
یہ لو۔ میں اتر گیا ہوں۔ اچانک گھوڑے نے اپنے کان کو اوپر کیا۔ سرچ لائٹ جیسی روشنی سے لان جگمگانے لگا۔ دفعتاً کوٹھی کا ایک دروازہ کھلا۔ ایک قبول صورت خاتون نے باہر نکل کر کہا۔ مجھے امید تھی کہ معزز مہمان آج ضرور آئیگا۔ ؛
میڈم ستارہ پھرکنی۔ پرنس گلاب خان آپ کے مہمان ہیں۔ اور میںان کی ڈیوٹی میں ہوں۔ ہیلو۔ میڈم ۔ کیاحال چال ہیں۔ میں نے کہا۔ مجھے ستارہ کہتے ہیں جی۔ اللہ کی رضا سے حال بھی ٹھیک ہے جی۔ ویسے آج کا موسم خاصا اچھا ہے۔
ہاں اسی لئے تو لاہور آئے ہیں کہ ایک تو آپ سے ملاقات ہو جائیگی دوسرا ذرا آب و ہوا بھی تبدیل ہو جائیگی ۔ ویسے جناب۔ آپ کا کاروبار کیا ہے۔
امپورٹ ایکسپورٹ ۔ اِدھر کا اُدھر۔
آ پ بہت اچھے ہیں گلاب خان۔ شکریہ !
میڈم آپ بھی بہت اچھی ہیں۔ شکریہ
میں ذرا آپ کے رات کے کھانے کا انتظام کروائوں؟اس تکلف کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ میڈم ستارہ۔ غالباً آپ نے ڈائمنڈ کا سیٹ پہنا ہوا ہے۔ جی۔ آپ بڑے جوہر شناس ہیں۔
نہیں۔ میرے پاس خود دو تین سیٹ ہیں۔ ایک آدھ آپ کو گفٹ کر دونگا۔ آپ بہت اچھے ہیں۔
بس آپ کی ذرہ نوازی ہے۔
مسٹر گلاب خان۔ گھوڑ ے نے مجھے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ میڈم ستارہ کے اسلام آباد میں کچھ معاملات حل طلب ہیں۔ آپ ان کی مدد کریں۔ اور ہاں سنو۔ میرے آقا کا پیغام آیا ہے۔ میں شاید کچھ دن تمہاری طرف نہیں آسکوں گا۔ جب تک میڈم ستارہ کے معاملات حل کر وانا۔ اچھا خدا حافظ۔ یہ کہتے ہی گھوڑے نے آسمان کی سمت بلند ہونا شروع کر دیا۔
میڈم ستارہ آپ بے فکر رہیں کل اسلام آباد چل کر آپ کے معاملات حل کروادیں گے۔
واقعی۔ جی ہاں۔
دوسرے دن میڈم ستارہ اور گلاب خان اسلام آباد کے مختلف سیکٹر عبور کرتے ہوئے پائے گئے۔ دونوں جہاں بھی جاتے ہر شخص ایک ہی بات کہتا یار رات عجیب بات ہوئی میری چھت پر ایک گھوڑا موجود تھا۔ ہاتھ لگاتے ہی گم ہو جاتا۔ آج کل یہ گھوڑا ہر چھت پر موجود ہے۔ انتہا یہ ہے کہ یہ گھوڑا ہر وقت ایوان کی چھت پر موجود ہوتا ہے۔
بھائی ۔ اپنے بھائی بندوں کی تلاش میں ہوگا۔ میں نے کہا۔ وقت ضرورت ہمارے گھوڑے بھی تو روپوش ہو جاتے ہیں۔ لاکھ ڈھونڈوں ملتے ہی نہیں۔ ملتے ہیں تو کروڑوں روپے لینے کے بعد ۔
ہاں۔ گم ہونا گھوڑوں کی عادت ہے۔ لوٹے جو ہو ئے۔
میڈم تم بھی کیا گھوڑوں کی بات لے بیٹھی ہو۔
ہمیں مستقبل کی پلاننگ کرنا ہے۔
میرے کاموں کا کیا ہوگا۔ گلاب خان۔
میڈم ستارہ۔ آپ کے سب کام ہو جائیں گے۔ آخر ہمارے بھی آدمی موجود ہیں۔ مگر مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی ۔ میرا گھوڑا کہاں گیا ہے ۔
گلا ب خان۔ تمہارا گھوڑا؟؟ ابھی اس کا مالک موجود ہے۔ اس کل کے گھوڑے کو اپنا کہہ رہے ہو۔ مت بھولو۔ یہ گھوڑا دو ماہ کے لئے تمہاری دسترس میں دیا گیا ہے۔ براہِ کرم اس کا صحیح استعمال کریں۔
میڈم آپ جہاں دیدہ خاتون ہیں۔ آپ بتلائیں۔ اس کل کے گھوڑے کا صحیح استعمال کیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ ہمیں باہمی دلچسپی کے امور کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔ میں نے اپنے مرحوم شوہر کواک مشورہ دیاتھا۔
کیا۔۔ ۔ میں نے بے تابی سے کہا۔
گلاب خان۔ اچھی اور سوشل لائف گزارنے کیلئے پیسے کی بڑی اہمیت ہے۔ جب تمہارا گھوڑا آئے تو اک چکر امریکہ کا لگا آئو۔
کیوں۔ پیسے کیلئے۔۔۔۔ پیسہ ہمارے سماج کی شرافت کی واحدنشانی ہے۔ پیسے پیسے پیسے کیا مطلب ہے آپ کامیڈم ستارہ۔ بس اک چکر۔ کل بیس کلو۔ سفید پائوڈر۔ میری کوٹھی میں موجود ہے۔
بس تم امریکہ پہنچادو۔ اچھا۔میرا گھوڑا آجائے۔ ۔ تم تیار ہو۔ منافع میں ففٹی ففٹی۔ ٹھیک۔ گلاب خان ۔ اور دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لئے۔
میڈم ستارہ اور گلاب خان نے اپنے تمام معاملات اور مسائل حل کر لئے تھے۔ دونوں گھوڑے کے انتظار میں تھے اور لان پر بیٹھے کافی مزہ لے رہے تھے اچانک گھوڑا لان پر اتر آیا۔
گلاب خان۔ کیا امریکہ چلنا ہے؟
ہاں ۔ہاں ۔ہاں۔ گلاب خان نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
چلو۔ تیار ہو جائو۔
اچھا ایک بات تو بتلائو۔ تمہیں کیسے پتہ لگا کہ مجھے امریکہ جانا ہے۔ ارے بس اتنی سی بات۔ میں تو یہ بھی جانتا ہوں کہ تم کیا لے کر امریکہ جائو گے۔ اچھا۔ ٹھہرو گلاب خان میں تمہارا سامان لے آئوں۔ میڈم ستارہ نے کہا۔ پھر کنی آپا۔ وزن پندرہ کلو سے زیادہ نہ ہو۔
اچھا جی۔
اے بھائی گھوڑے۔ تم گھوڑے ہو یا جاسوس ۔ ہماری اندرونی باتیں تک تمہیں معلوم ہیں۔
گلاب خان نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
گلاب خان۔ اس سوال کا جواب میرا آقا دیگا۔ سنو۔
مسٹر گلاب ۔ امریکہ آئو۔ اپنا مال بیچو۔ مفت میں ہمارے گھوڑ ے کی سیر کرو۔
آپ کون ہیں؟۔۔۔ سپر پاور نئے ورلڈ آرڈر کا خالق۔ میں تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔
کیا خدا بن گئے ہو۔۔۔ گلاب خان نے ہنستے ہوئے کہا۔ آدمی ۔ دیکھو گلاب خان ۔ تم امریکہ سے جب واپس آئو گے تو ایک اور تمہارے ساتھ ہوگا۔ تم اس پھیرے میں بہت زیادہ رقم کمائو گے۔
اور یہاں دوبارہ آکر آرام سے رہو گے۔ میڈم ستارہ بھی شاید تمہاری ہو جائیگی کیونکہ بے چاری بہت اکیلی ہے۔ ڈائمنڈ کا سیٹ تو تمہارے پاس ہے ہی۔ ہماری دعا ہے کہ تم خوب پھلو پھولو۔ عیش کرو۔ بس ہمارے مہمان کو کوئی تکلیف نہ ہونے دو۔ ہم نے اسے تمہارے سپرد کیا ہے۔ ہمارا دوست جوتمہارا مہمان ہوگا۔ جڑی بوٹیوں پر ریسرچ کر رہاہے۔ فوٹو گرافی کا بھی اسے شوق ہے۔ بس بولتا بہت کم ے۔ اس کا خیال رکھنا۔ اس بات کا بھی خیال رکھنا۔ کہ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی تمہیں امریکہ جانے دے رہے ہیں۔
کیا تمہیں گرفتاری کا خوف نہیں۔ ہمارے یہاں قانون بہت سخت ہے۔ مگر تمہیں کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ ہم تمہارے دوست ہیں۔ اور میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہم تمہاری شہ رگ کے قریب ہیں۔ سمجھے۔ چلو گھوڑا تیار ہے۔ اپنا سفر شروع کرو۔
گلاب خان گھوڑے پر بیٹھ گیا اور سفر شروع ہو گیا۔ دس پندرہ دن بعد میڈم ستارہ کے لان پر ایک ساتھ دو گھوڑے اترے۔ میڈم ستارہ نے دونوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا۔ مرحبا گلاب خان تم واقعی بہادر ہو۔ اور ہاں مہمانِ گرامی کا بھی شکریہ آپ کے ساتھ آئے ہیں۔ میڈم ستارہ۔ یہ ہمارے دوست کے دوست ہیں۔ اب یہ یہاں ہی رہیں گے۔
نہیں گلاب خان۔ ہم اسلام آباد میں رہیں گے۔ پہاڑوں پر گھومیں گے۔
ٹھیک ہے جناب۔ گلاب خان اور میڈم ستارہ نے یک زبان ہو کر کہا۔
گلاب خان کو عیش و عشرت کے لمحات میں کوئی نہ کوئی آہستہ سے بتلا دیتا کہ مہمان پہاڑوں پر گھومتا رہتا ہے۔ سارا سارا دن تصویریں بناتا رہتا ہے۔ مگر گلاب خان سن کر خاموش رہتا۔ اور سوچتا یہ سپر پاور مجھ پر اتنا مہربان کیوں ہے۔ کیسے گھوڑے ہیں کہ ہر چھت پر اترسکتے ہیں۔ لوگوں کوملکوں ملکوں سیر کراتے ہیں۔ اپنے ملک میں منشیات بیچنے دیتے ہیں۔ لوگوں کی جیبیں بھر دیتے ہیں کیوں۔ اور ان کے لوگ یہاں سیاحت کرتے رہتے ہیں۔ بس سیاحت صرف سیاحت۔ یہ کیسا کھیل ہے۔ اس کا انت کیا ہوگا۔ میڈم ستارہ اس کو سمجھاتی ۔ گلاب خان پیسے کے بغیر ہماری کوئی عزت نہیں۔ یہاں عزت پیسے کی ہے۔ سمجھو۔ ایک چکر اور لگا آئو۔ بس پھر آرام کریں گے۔
میڈم ستارہ۔ اب گھوڑا نہیں آئیگا۔ کوئی دوسرا گھوڑے پر سوار اپنے ارمان پورے کر رہا ہوگا۔ بس یہی کافی ہے۔ شاید نئے ورلڈ آرڈر میں اتنا ہی دیا جاتا ہے کہ آدمی اپنی اوقات میں رہے۔ بس اتنا ہی کافی ہے۔ میڈم ستارہ کے اصرار پر گلاب خان یعنی میں نے بھی کوٹھی اسلام آباد میں بنا لی تھی۔ اور خوب مزے کی گزر رہی تھی۔ بڑے بڑے رئوسا اور جاگیر دار میرے دوست تھے۔ ایک دن مجھے ایک ٹیلی فون موصول ہوا۔ جسے سن کر میں پریشان ہو گیا۔ ٹیلی فون والے نے مجھے بتلا یا تھا کہ تمہارا دوست ممنوعہ علاقے کی تصویریں بنا رہا ہے۔ میں جا کر اسے لے آیا۔ اور اس سے کہا کہ ممنوعہ علاقے میں سیاحت ممنوع ہے۔
پاگل آدمی ۔ ہم اپنے شوق کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ منظر اور نظارے ہمیں بے کل کر دیتے ہیں۔ بس یہ بات یاد رکھو۔ باقی سب وہم ہے۔ سراب ہے۔ تم کیا جانو۔ زمین کی افادیت۔ ارے میاں یہ سونا ہے سونا۔ سراسر خوشحالی ۔
مجھے دن بدن ایسی اطلاعات ملنے لگیں کہ میں سن کر حیران رہ جاتا۔ بظاہر معصوم اور بے ضرر انسان کیا کچھ کر سکتاہے۔ روز بروز مجھے اس کا اندازہ ہونے لگا۔ اور میرے بہت سے وہم یقین میں بدلنے لگے۔ ایک دن میں اپنی وسیع و عریض کوٹھی کے لان پر چہل قدمی کر رہا تھا کہ گھوڑا میرے لان پر اتر آیا۔ میڈم ستارہ دور سے بھاگتی ہوئی آئی اور کہنے لگی گلاب خان ایک چکر اور لگا آئو۔ بس ایک چکر۔
پھر کنی آپا۔ میرا آقا تم دونوں سے بہت ناراض ہے۔ تمہارے لوگ میرے آقا کے دوست کو کام نہیں کرنے دیتے۔ اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ میرے آقا سے بات کرو۔ گلاب خان۔ تم نے ہم سے وعدہ خلافی کی ہے۔ ہمارے دوست کو یہاں پریشان کیا جا رہا ہے لوگ سائے کی طرح اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ تم چپ سادھے بیٹھے ہو۔ ہمارے دوست کی مدد کرو۔ اس کی راہ کی تمام رکاوٹیں دور کرو۔ ہمیں دیکھو۔ ہم اپنے ملک میں تمہیں ہیروئن بیچنے دیتے ہیں۔ تمہارا دامن دولت سے بھر دیتے ہیں۔ یہ کوٹھیوں کا اگا ہوا جنگل ہماری دین ہے۔ ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ ہم تمہاری شہ رگ کے قریب ہیں۔ ہمارے دوست بنے رہو اسی میں تمہارا فائدہ ہے۔ ورنہ۔۔۔
سنو۔ نیو ورلڈ آرڈر کے خالق صاحب۔ تمہارا دوست ہمارے ممنوعہ علاقے کی تصویریں کھینچ رہاہے۔ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔ مگر وطن سے غداری نہیں کریں گے۔ میں نے بارہا تمہارے بار ے میں سوچا ہے ۔ تم دوست کی بھی جاسوسی کرتے ہو اور دشمن کی بھی۔ تمہیں صرف تمہارا مفاد عزیز ہے۔ سو ہمیں ہمارا مفاد عزیز ہے۔ وطن کی محبت ہر چیز سے بڑی ہوتی ہے۔ آپ اپنے دوست کو یہاں سے لے جائیں۔ ورنہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ اچھا تم اپنی جان کے بارے میں کیا کہتے ہو۔
میری جان کی مجھے خبر ہے۔ تم مجھے چیونٹی کی طرح مسل سکتے ہو۔
و ہ کیسے؟
جو بھی تمہارے گھوڑے پر بیٹھتا ہے تم اسے بے ہوش کر دیتے ہو میڈیکل ان فٹ کر دیتے ہو ۔ ایک نس میں پیوند کاری کرتے ہو جو دوشاخہ ہوتی ہے اس کی ایک شاخ تمہارے لئے جاسوسی کرتی ہے۔ اور دوسری ایک خطر ناک زہر سے بھری ہوتی ہے۔ جسے تم جب چاہو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے سے ہلاک کر سکتے ہو ۔
خوب بہت خوب اور۔
ہم نے بھی برسوں محنت کی ہے ۔ اب تمہارے گھوڑوں کو ہر چھت پر اترنے کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ ان کے لئے بھی ہم نے سرخ شعاعیں تیار کر لی ہیں۔ جو ان کے برقیاتی نظام کو تباہ کر دیں گی۔ اور ہم سب نے جو تمہارے گھوڑوں پر سیر کر چکے ہیں عہد کیا ہے کہ وطن کے لئے ہم سب اپنی جانیں نچھار کر دیں گے۔ تمہارا آرڈر۔ نہیں چلے گا۔
دیکھو۔ میں نے اپنی شہ رگ میں چھپی ہوئی تمہاری ربڑ کی کیل پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ میری جان تو جائیگی مگر تمہارا ریموٹ کنٹرول دھرا کا دھرا رہ جائیگا۔
دیکھ لو۔ وطن سے محبت کرنے والے اپنی جان کیسے نچھاور کرتے ہیں۔
اوہ مائی گاڈ۔ پاکی بیگرز۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...