(Last Updated On: )
(مطبوعہ ’’کویت ٹائمز‘‘ اُردو سکشن)
غیاث کی قبر پر ایک پھول (غیاث متینؔ مرحوم)
٭٭
ایسے پلٹے کہ کوئی حرفِ وداعی نہ کہا!
کیا مرے دوست یہی وعدۂ ہم سفری تھا؟
ایک چھنآکے سے تصویر یہ کیا ٹوٹ گئی
اک نفس روک کے بدمست ہے کیوں تند ہوا
ایک مضبوط سی آواز یہ کیا ڈھ گئی ہے
کیسا سیلاب تھا جو لے گیا امکاں کو بہا
تم تو کیا شعر سناتے تھے کہ جاں جاگتی تھی
تم نے کیوں رشتۂ ترسیل کو یوں قطع کیا
سب کو سننی تھیں بہت اور بھی نظمیں غزلیں
دفعتاً سامعہ کا ربط یہ کیوں ٹوٹ گیا
اب بھلا کیا ہے اسلمؔ اے مرے دوست غیاثؔ
کہنے سننے کا یہ در تم نے ہے خود بھیڑ دیا
باغِ جنت میں رہو، تم پہ ہو مولیٰ کا کرم
اب یہی ہے دل مہجور کی پُر درد دُعا!
٭٭٭