نواب غازی الدین حیدر ایک بسنتی دربار بسنت کے موسم میں کرتے تھے۔ یہ دربار موتی محل اور شاہ منزل خاص میں ہوتا تھا، جس میں ہر فرقے کے لوگ جمع ہوتے تھے۔ آپ کے دربار کا طریقہ یہ تھا کہ صبح نو بجے درِ دولت سے کوٹھی فرح بخش میں جلوس فرماتے تھے۔ کنارہ نہر بینڈ باجے سے سلامی ہوتی تھی۔ جب تخت شاہی پر متمکن ہوتے، دو چنور بردار مورچھل ہلاتے تھے۔ پہلے صاحب زادے سلام کو آتے تھے، پھر بھائی نواب نصیر الدولہ کاظم علی خاں، جعفر علی خاں، حسین علی خاں، مہدی علی خاں، کلب علی خاں نہایت ادب سے اپنی اپنی کرسی کے پاس کھڑے رہتے تھے۔ جب بادشاہ باشارۂ ابرو سلام قبول کرتے تو اپنی اپنی جگہ بیٹھ جاتے۔ بائیں طرف ڈاکٹر مکلوڈ صاحب بیٹھتے جن سے فارسی میں بات چیت ہوتی۔ کمرے کے ایک گوشے میں ایک انگریز مشک بجاتا تھا جو بہت سریلی ہوتی تھی۔ رجب علی، افضل علی خیال گاتے تھے۔ سہرو بائی دکن کی رہنے والی نے غضب کی آواز پائی تھی۔ جس وقت صبح کے وقت گاتی تھی ؏
اے نسیم سحر! آرام گہہِ یار کُجاست
سب کو وجد ہوجاتا تھا اور جھومنے لگتے تھے؛ خصوصاً مکلوڈ صاحب کی کیفیت کچھ نہ پوچھیے۔
جناب عالی کے سامنے ایک قد آدم آئینہ وسط میز پر رکھا جاتا تھا۔ آئینہ کے سامنے ایک بلوریں جھاڑ تھا، جس کے ہر پیالے میں دھنیا، الائچی، مسالہ وغیرہ خوشنمائی سے چُنا جاتا تھا۔ میز پر انگریزی اور ہندوستانی عمدہ عمدہ کھانے چُنے جاتے تھے اور گلدستے لگائے جاتے تھے۔ اہل دربار وہاں بیٹھ کر کھاتے پیتے اور آپس میں مذاق کرتے تھے۔ تمام مجرائی لال پردے کے باہر بیٹھے رہتے تھے، جب حکم ہوتا تھا سلام کو حاضر ہوتے تھے۔ نجم الدولہ رائے امرت لال، شیخ فتح علی سلام کر آتے تھے۔ اس کے بعد یہ دربار برخاست ہوتا اور جناب محل سرا میں تشریف لے جاتے تھے۔