شاعر: مصطفی شہاب
یہ کتاب ایک خوش کن حیرت سے ہمیں روشناس کرتی ہے۔ اردو کے کیسے کیسے قادر الکلام اور پر مغز سوچ والے ادیب و شاعر کس طرح اپنے آپ کو یا تو پوشیدہ کیے ہوئے ہیں یا بُعد مکانی انھیں پردۂ غیب میں رکھے ہوئے ہیں۔ مصطفی شہاب نے اگر یہ سو غزلیں ۱۹۹۰ء اور ۱۹۹۲ء کی تین سال جیسی قلیل مدت میں لکھی ہیں تو بلا شبہ اُن کے اندر ایک انتہائی رواں سوچ کا دریا چھپا ہوا ہے۔ اُن کی فکر میں تازگی بھی ہے اور مضامین میں نیا پہلو بھی ہے۔
مصطفی شہاب نے جب دکن سے سفر کیا تھا اُس وقت کی زبان و بیان کی تہذیب اُن کی شعری صلاحیتوں میں آج تک پس منظر کا کام کر رہی ہے۔ اس لیے تراکیب، تشبیہات اور شاعری کی زبان میں مستعمل موضوعات اُسی لب و لہجہ پر مبنی ہیں گرچہ نئی فکر اُن کو نئے زاویے عطا کرتی نظر آتی ہے۔
مصطفی شہاب کی شاعری میں جو استعارے ہیں وہ تشبیہات سے قریب تر ہیں اور جو تشبیہات استعمال ہوئی ہیں وہ ترقی پسند تحریک میں اکثر و بیش تر رائج رہی ہیں۔ مثلاً سفر، منزلیں، فاصلہ، کھنڈر، بال و پر، سایہ شجر وغیرہ۔ اب آپ خود ہی دیکھیں کہ اس خلاق شاعر کے کلام میں ان موضوعات نے کیا روپ بدلے ہیں:
…
جب تک میں نہ ہو کے گزرا کتنی سنسان رہ گزر تھی
اب تو اک شور سا مچا ہے ہر طرف آہٹوں سے دیکھا
…
خالی خالی لگ رہا تھا اس کے جانے سے مکاں
ویسے تو سامان سے کمروں کے کمرے تھے بھرے
…
ہر دام رفاقت سے بچا لے گیا مجھ کو
تنہائی آدم کا وہ احساس پرانا
…
عمر اندھی تھی کہ اُس نے تیری
شوخیاں دیکھیں نہ زیور دیکھا
…
مصطفی شہاب نے اپنے اندر شاعر کو بسا کر رکھا ہے لیکن لگتا ہے کہ انھوں نے سنجیدگی سے اپنے آپ کو شاعر کی طرح متعارف کرنے کی کوشش نہیں کی حالاں کہ مندرجہ بالا اشعار ان کی فکر کی ندرت کے گواہ ہیں۔ اچھا شاعر، ہمیشہ پہچانا جا سکتا ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ مصطفی شہاب اس فن میں اور ارتقائی منزلیں طے کریں گے۔ کتابت اور طباعت، گٹ اپ اور پیش کش معیاری ہیں۔
ناشر: ’’مکتبۂ شعرو حکمت‘‘ سوماجی گوڑہ، حیدرآباد۔ ۵۰۰۰۸۲،
صفحات: ۱۳۴، قیمت: سو روپے، (مشمولہ ’’سب رس‘‘ ۱۹۹۷ء)
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...