اردو کی غزلیہ شاعری پر حالیؔ کے اعتراضات اور اُن کی تنقید سماجی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے ہے۔ انھیں شکایت ہے کہ ہماری غزلیہ شاعری کا حقیقت سے کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا ہے۔ اس میں عموماً تین طرح کے مضامین باندھے جاتے ہیں :
۱۔ عشق مجازی کے مضامین
۲۔ خمریات یعنی شراب نوشی کے مضامین
۳۔ فقہا اور زہاد پر طنز و تعریض کے مضامین
حالیؔ کا خیال ہے کہ مذکورہ تینوں صورتوں میں ہمارے شعرا حقیقت سے بہت دور جا پڑے ہیں۔ جہاں تک عشق مجازی کا تعلق ہے اس کی جو صورتیں ہماری غزلیہ شاعری میں ملتی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ کسی عفیفہ سے اپنے عشق کا بیان
۲۔ کسی زن بازاری سے عشق کا بیان
۳۔ کسی خوب صورت کم سن لڑکے سے عشق کا بیان
حالیؔ کے نقطۂ نظر سے اگر واقعی شاعر کسی کے عشق میں مبتلا ہے تو اس کے بیان کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن صرف اس وجہ سے اپنے اوپر عشق کی تہمت لگانا کہ یہ غزل کی روایت کا حصہ ہے مناسب نہیں۔ لیکن اس صورت میں بھی ہمارے یہاں عشقیہ مضامین جس طرح سے بیان ہوتے ہیں اور اُن میں کنگھی، چوٹی، مسّی اور موباف وغیرہ کا اور معشوق کی اداؤں کا جس طرح سے بیان ہوتا ہے وہ مناسب نہیں ہے۔ اُن کے الفاظ میں :
’’اگر معشوقہ کوئی منکوحہ یا مخطوبہ ہے تو اُس کے حُسن و جمال کی تعریف کرنی اور اس کے کرشمہ و نازو انداز کی تصویر کھینچنی گویا اپنے ننگ و ناموس کو اپنوں اور پرایوں سے انٹروڈیوس کرانا ہے۔ ‘‘
دوسری صورت میں اگر معشوق کوئی زن بازاری ہے تو اس سے تعلق کا اظہار کرنا اپنی نالائقی اور بددیانتی کا ثبوت دینا ہے۔
تیسری صورت مرد کا مطلوب مرد کو قرار دینا ہوسکتا ہے جو خلاف فطرت انسانی ہے۔ اس لیے بقول حالی:
’’یہ ایک ایسا قبیح اور نالائق دستور ہے جو قومی اخلاق کو داغ لگاتا ہے۔ لہٰذا اس کو جہاں تک جلد ممکن ہو ترک کرنا چاہیے۔ ‘‘
اس پوری بحث سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ:
’’محبت کچھ ہوا و ہوس اور شاہد بازی و کام جوئی پر موقوف نہیں ہے۔ بندے کو خدا کے ساتھ، اولاد کو ماں باپ کے ساتھ، ماں باپ کو اولاد کے ساتھ، بھائی بہن کو بھائی بہن کے ساتھ، خاوند کو بی بی کے ساتھ، بی بی کو خاوند کے ساتھ، نوکر کو آقا کے ساتھ، رعیت کو بادشاہ کے ساتھ، دوستوں کو دوستوں کے ساتھ، آدمی کو جانور کے ساتھ، مکیں کو مکاں کے ساتھ، وطن کے ساتھ، ملک کے ساتھ، قوم کے ساتھ، خاندان کے ساتھ غرض کہ ہر چیز کے ساتھ لگاؤ اور دل بستگی ہوسکتی ہے۔ پس جب کہ عشق و محبت میں اس قدر احاطہ اور جامعیت ہے اور جب کہ عشق کا اعلان کم ظرفی اور معشوق اک پتہ بتانا بے غیرتی ہے تو کیا ضرور ہے کہ عشق کو محض ہوائے نفسانی اور خواہشِ حیوانی میں محدود کر دیا جائے۔ اور ایسے سرّمکتوم کو فاش کر کے اپنی تنگ ظرفی اور بے حوصلگی ظاہر کی جائے۔ ‘‘
اس لیے حالیؔ کی رائے یہ ہے کہ:
’’غزل میں جو عشقیہ مضامین باندھے جائیں وہ ایسے جامع الفاظ میں ادا کیے جائیں جو دوستی اور محبت کی تمام انواع و اقسام اور تمام جسمانی اور روحانی تعلقات پر حاوی ہوں۔ اور جہاں تک ہوسکے کوئی لفظ ایسا نہ آنے پائے جس سے کھلّم کھلّا مطلوب کا مرد یا عورت ہونا پایا جائے۔ ‘‘
خمریات کے سلسلہ میں بھی حالیؔ کا نقطۂ نظر یہی ہے کہ اسے اصلیت پر مبنی ہونا چاہیے۔ صرف روایت کے اتباع میں یا فیشن پرستی میں یہ مضامین نہیں باندھنا چاہیے۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
’’چوں کہ شاعری کا جزو اعظم یہ ہے کہ اس میں جو خیال باندھا جائے اس کی بنیاد اصلیت پر ہونی چاہیے اس لیے اصول شاعری کے موافق شراب و کباب کے مضمون باندھنا صرف اُن لوگوں کا حق ہونا چاہیے جو یا تو خود اس میدان کے مرد ہوں یا اپنے اصلی خیالات، خمریات کے پیرایے میں بطور مجاز و استعارے کے ادا کر سکتے ہوں۔ ‘‘
فقہا اور اہلِ ظاہر پر طنز و تعریض کے سلسلہ میں بھی حالیؔ نے یہی رویہ اختیار کیا ہے۔ اُن کے خیال میں جن لوگوں کو واقعی اُن سے کوئی اختلاف ہو انھیں اس کا بیان کرنا چاہیے لیکن بغیر کسی اصولی اختلاف کے صرف روایت پرستی یا فیشن پرستی کے طور پر ایسا کرنا مناسب نہیں۔ حالیؔ کے الفاظ میں :
’’واعظ و زاہد وغیرہ کو لتاڑنا اور اُن پر نکتہ چینی کرنی، انہی لوگوں کو زیبا ہے جن کو فی الواقع اُن کے ساتھ کوئی وجہ مخالفت کی ہو۔ ہاں باوجود نہ ہونے کسی قسم کی مخالفت کے ، صرف ایک صورت سے واجبی طور پر ایسے مضامین باندھے جا سکتے ہیں۔ یعنی نکتہ چینی ایسے طریقے سے کی جائے جس سے معلوم ہو کہ محض ریا و مکر و سالوس کی برائی بیان کرنی مقصود ہے نہ کہ زُہّاد اور واعظین کی ذات پر حملہ کرنا۔ ‘‘