ادب میں مختلف اصناف مخصوص تہذیبی، سماجی اور ذہنی اثرات کے تحت قبولیت اور شہرت حاصل کرتی ہیں۔ غزل بھی خاص تہذیبی حالات میں پیدا ہوئی لیکن اس صنف نے وقت کی تبدیلی کے ساتھ خود کو بھی بدل لیا۔ شاید اس نے سب سے زیادہ سیاسی، سماجی تہذیبی اور ادبی انقلابات دیکھے ہیں۔ جب اور جہاں جیسی ضرورت ہوئی ویسی ہی شکل اس نے اختیار کر لی۔ گیتوں کی فضا میں گیتوں کی مدھرتا غزل نے اپنے اندر سمولی، تصوف کا زور بڑھا تو اسی کو خاص رنگ بنا لیا، داخلیت کا اظہار ہوا تو دل سے نکلی اور سیدھے دل میں اتر گئی خارجیت کا چلن ہوا تو سارے بندھن توڑ ڈالے۔ سماجی اور تہذیبی تبدیلی کے ساتھ وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے غزل اپنے دامن کو وسیع کرتی گئی اور مختلف مضامین اس میں جگہ پاتے گئے۔ فلسفیانہ مضامین کو بھی جگہ ملی، صوفیانہ خیالات بھی آئے، آلامِ روزگار اور فکرِ معاش بھی، زندگی کا شکوہ بھی اور شادمانی کا ذکر بھی۔ موضوعات کی اس رنگارنگی اور طرزِ ادا کے اس نشیب و فراز کے باوجود غزل کا موضوع بنیادی طور پر عشق و محبت ہی رہا۔
خطۂ کوکن میں غزل کی جمالیات کو نئی حقیقت پسندی سے روشناس کرانے، عصری زندگی کے مسائل اور تقاضوں پر نگاہ رکھنے اور لطیف رمزیہ انداز میں اپنے احساسات کا اظہار کرنے میں جن شاعروں نے اہم کردار ادا کیا ان میں سعید کنولؔ کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔ سعید کنولؔ کا تعلق شرگاؤں، رتناگری سے ہے لیکن وہ ایک عرصے سے ممبئی میں سکونت پذیر ہیں۔ انھوں نے اپنا تعارف یوں کرایا ؎
جس طرح عشق تاج محل کی شناخت ہے
حسنِ بیان جیسے غزل کی شناخت ہے
جذبات میرے میرا تعارف ہے اس طرح
ہر شعر ہی کنولؔ کا کنولؔ کی شناخت ہے
واقعی فن سے ہی فنکار پہچانا جاتا ہے اور ہم نے بھی سعید کنولؔ کو ان کے فن یعنی ان کی غزلیہ شاعری کے توسط ہی سے پہچانا۔
’’شناخت‘‘ سعید کنولؔ کا پہلا اور شاید آخری مجموعۂ کلام ہے جو ۲۰۰۵ء میں ممبئی سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے میں دو تین نظمیں بھی شامل ہیں لیکن زیادہ تعداد غزلوں کی ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ جیسا کہ ضمیر کاظمی، علی ایم شمسی، سلمان ماہمی اور محمودالحسن ماہر نے ان کے شعری مجموعے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ ’’شناخت‘‘ کی شاعری میں تخلیقی رعنائی اور دلکشی پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ سعید کنولؔ جو کچھ بھی بیان کرتے ہیں اس کا براہِ راست تعلق ان کے جذبات و احساسات اور تجربات سے ہوتا ہے۔ ان کے اکثر و بیشتر اشعار ان کے دل پر گزری ہوئی واردات کا اظہار ہیں جس میں زندگی کی حقیقت، سادگی اور صفائی کا بہت بڑا دخل ہے۔ چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ ہوں ؎
یہ کس وبا کی اڑنے لگی گرد شہر میں
چہرہ ہر ایک شخص کا ہے زرد شہر میں
۰۰۰۰
موم کی طرح پگھل جاتا ہے پتھر دل بھی
آنچ دے جاتی ہے احساس کی شدت کتنی
۰۰۰۰
کیوں جاتے ہو اس طرح سے تم راہ بدل کر
میں راہ کا پتھر ہوں، ہٹا کیوں نہیں دیتے
۰۰۰۰
میں روشنی میں تھا تو سبھی آس پاس تھے
جب چھا گیا اندھیرا تو سائے بھی ٹل گئے
۰۰۰۰
سب کے دل کو بھانے والا سب کا راج دلارا چاند
بادل بادل کھیل رہا ہے آنکھ مچولی پیارا چاند
مذکورہ بالا اشعار ایک فطری بہاو رکھتے ہیں جو شعری آرائش، صنعت کاری اور تصنع سے پاک ہیں۔ سعید کنولؔ کے یہاں شعری اظہار کسی ارادی منصوبہ بندی کا مرہونِ منت نہیں۔ وہ بعض کوکنی شعرا کی طرح شعر کو الفاط سے بوجھل نہیں بناتے۔ وہ آمد کے شاعر ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے باطن سے اشعار یوں برآمد ہوتے ہیں جیسے کسی پہاڑ کے دامن سے کوئی چشمہ پھوٹتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شعوری طور پر کسی موضوع یا مضمون مثلاً تاریخِ حالات، ذاتی واردات، عشق یا تصوف کو ہاتھ نہیں لگاتے بلکہ وہ ان کو شعری عمل سے دور رکھتے ہیں اور شعری عمل کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ سعید کنولؔ تخلیق کے لاشعوری عمل کو روا رکھتے ہیں، تخلیقی عمل میں وہ خارجی اور داخلی دنیا میں فرق نہیں کرتے، وہ شعور اور لا شعور کی حدوں کو پار کر جاتے ہیں اور شخصیت کی گہرائیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ ان سے ان کی شاعری ’’طبع رواں‘‘ کی صورت اختیار کر لیتی ہے جو ایک شعری کردار کی آواز ہے اور دور سے ہی پہچان لی جاتی ہے (کوکن کی حد تک)۔ یہ ایک حساس، درد مند اور مخلص شخصیت کی نمائندہ ہے۔ یہ آواز پر سوز اور مدھم ہے، یہ لہجے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ایک خاص دل کشی بھی رکھتی ہے۔ سعید کنولؔ نے اپنے پیش رو شعرا سے حاصل کردہ روایات میں اپنے علم و فضل سے کسب و اکتساب کر کے وہ سب کچھ شامل کر دیا ہے جس سے ان کی شاعری میں تخلیقی شان پائی جاتی ہے۔ ان کی زبان بھی شگفتہ ہے اور موضوعات بھی اہم ہیں۔ دیکھیے ؎
جنونِ شوق میں آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہوں
نگاہوں میں کوئی منزل کوئی سرحد نہیں رکھتا
۰۰۰۰
ہر سمت آگ، قہر، غضب، ظلم اور ستم
سہما ہوا ہے خوف سے ہر فرد شہر میں
۰۰۰۰
سفر طویل ہے کیا جانے کب اندھیرا ہو
اجالے روح میں دل میں حواس میں رکھیے
۰۰۰۰
اک مٹی کا دیا ہوں میری اوقات ہی کیا
وقت پڑ جائے تو حاضر ہوں جلا لو مجھ کو
۰۰۰۰
جیسے کوئی رہ گزر ہو دل سے چشمِ بینا تک
جس دل میں اچھائی ہو وہ سب کچھ اچھا دیکھے ہے
ان اشعار میں کچھ ایسے الفاظ بھی ہیں جو معنی و مطالب کی مختلف جہات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثلاً جنونِ شوق، مٹی کا دیا، آگ، فرد، شہر، سفر، اندھیرا، اجالا، اور چشمِ بینا وغیرہ۔ ان الفاظ سے سعید کنولؔ نے ایجاز و اختصار اور رمز و ایما کا کام بھی لیا ہے جس سے ان کے اشعار میں بڑی نغمگی اور موسیقیت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف صنعتوں کے استعمال سے الفاظ کی تکرار بھی غنائی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ یہ اشعار دیکھیے ؎
جلنے لگے ہیں اب تو یہاں تتلیوں کے پر
میرے چمن پہ ابر سلونا کب آئے گا
یہ دکھ کتنا بڑا دکھ ہے فساد آمادہ شہروں کا
سہانے خواب بچوں سے ہمارے چھین لیتا ہے
۰۰۰۰
اپنوں کے تغافل نے کچھ ایسا جھنجھوڑا ہے
بیگانوں میں پاتا ہوں اندازِ شناسائی
۰۰۰۰
بتلا رہی ہے صاف یہ چہرے کی سلوٹیں
ملبے میں اضطراب کے دب کر رہے ہیں آپ
۰۰۰۰
تم سے ملنے اور بچھڑنے کا خیال
ہو گیا وہ خواب، خواب اچھا لگا
ان اشعار سے اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ سعید کنولؔ کی فکر روشن بھی ہے اور دل کش بھی۔ ان کے یہاں جذبات اور تخیلات ایک جان دو قالب ہو جاتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ شاعری ہی نہیں کسی بھی فنِ لطیف میں جب جذبات اور تخیلات یک جا ہو جاتے ہیں تو فنکارانہ نقشِ گری کامیاب ہو جاتی ہے، شاعری نکھر جاتی ہے، دیکھنے اور پڑھنے میں ہی دل آویز محسوس نہیں ہوتی بلکہ دلوں میں اتر جاتی ہے، حافظے میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔ سعید کنولؔ کے یہاں اور کئی اشعار اس نوع اور اس مزاج کے مل جائیں گے کہ پڑھتے ہوئے قاری اپنے جذبات و تخیلات کو بھی دل آویز اور معطر پاتا ہے۔
مجموعی طور پر سعید کنولؔ کی غزل عصری حسیت، کلاسیکی اقدار اور حیاتِ انسانی کی زندہ تصویروں کو پیش کرنے کا فن جانتی ہے۔
٭٭٭
مطبوعہ : ہفت روزہ کوکن کی آواز مہاڈ، ۲ تا ۸ نومبر ۲۰۱۸ء
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...