“ماہی تو پھر آج میں شو کی امید رکھوں۔”نومی نے گلے میں پڑی چین انگلی پر گھما کر مزے سے پوچھا۔
“ہاہاہاہا ۔۔۔بلکل بلکل تیار رہو۔آج تو مزہ ہی الگ انے والا ہے۔” ماہی کہ آج تیور ہی نرالے تھے۔۔
“چلو پھر تم شایان مجنون کا انتظار کرو۔میں ذرا کلاس کا ایک راؤنڈ لگا کر آتا ہوں۔”نومی سیٹی کی آواز پر کوئی دھن بجاتا،گنگناتا ہوا وہاں سے نكلتا چلا گیا۔۔
جبکہ ماہی کی نظریں صرف یونیورسٹی کے صدر دروازہ پر ٹکی ہوئی تھیں۔نا جانے آج شایان کو اتنی دیر کہاں لگ گئی تھی۔
” شایان کہاں ہو تم۔”ماہی اس کہ نمبر پر پیغام بھیج کر انتظار کرنے لگی۔۔
نوٹیفکیشن سے پہلے شایان اسے اپنے سامنے سے آتا نظر آیا تھا۔ماہی کی تو جیسے باچھیں کھل اٹھی تھیں۔
“ہیلو!!شایان ہنی کہاں رہ گئے تھے تم۔”ماہی ڈور کر اس کی جانب آئی تھی۔
“بس ٹریفک میں پھنس گیا تھا۔تم اب تک یہاں کیوں کھڑی ہو۔چلو کلاس میں چلتے ہیں۔”شایان مسکرا کر ہشاش بشاش لہجے میں بولتا اس کہ ہم قدم ہوا۔۔
ساتھ چلتی ماہی ایک میسج ٹآئپ کر کہ اپنے مطلوبہ نمبر پر بھیجتی شاطرانہ مسکرا کر شایان کہ ہاتھ میں ہاتھ ڈالتی کلاس کی جانب چل دی۔
_____________________
“دانین،دانین یار میرے ساتھ چلو۔مجھے ابھی نكلنا ہے۔شایان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔”سمبل کسی غیر شناسہ نمبر سے پیغام موصول ہوتے ہی یونیورسٹی کے باقی لیکچر نظر انداز کرتی دانین کے ہمرا بغیر کسی تصدیق کے اس کی یونیورسٹی کی جانب ڈور پڑی تھی۔یہ سوچے بغیر کہ اگر ایکسیڈنٹ ہوا بھی ہے تو اڈریس دینے والے نے ہسپتال کی جگہ یونیورسٹی کا پتہ کیوں بھیجا تھا۔
“سمبل آرام سے۔شایان بھائی کے بابت تمھیں کس نے اطلاح دی تھی۔”دانین نے سمبل کے حواس باختہ انداز پر رش ڈرائیونگ کرتے عجلت میں پوچھا۔
” مجھے نہیں پتہ یار۔۔بس شایان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور وہ وہیں یونیورسٹی میں ہیں۔تم جلدی چلو بس۔۔”سمبل کے آنسو تواتر سے جھرنے کی مانند گرتے ہی چلے جارہے تھے۔۔
“اچھا اچھا ریلیکس۔۔تم حوصلہ رکھو۔دیکھنا ضرور کسی نے مذاق کیا ہوگیا۔ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔جیسا تم سمجھ رہی ہو۔”دانین نے اس کا ہاتھ پکڑ کر تسلی بھرے انداز میں یقین دہانی کروائی۔جبکہ سمبل تو بلکل ہی ہاتھ پیر چھوڑ چکی تھی۔
“تم بس گاڑی تیز چلاؤ یار۔۔”سمبل دل ہی دل میں شایان کے لئے دعا کرتی اسے مسلسل گاڑی تیز چلانے کی تاقید کر رہی تھی۔۔
_________________
یونیورسٹی گراؤنڈ کہ عین وسط میں ایک پیر موڑ کر پروپوز کرنے کہ انداز میں ہاتھ میں پھول پکڑے بیٹھے شایان کے ارد گرد ایک جمع عفیر لگ گیا تھا۔سٹوڈنٹس کے گروہ کہ گروہ ان کہ ارد گرد آکر کھڑے ہو گئے تھے۔جبکہ اس کہ مقابل نیرو پینٹ پر ڈینم کی گھٹنوں تک آتی شرٹ پر لانبے بال پشت پر پھیلاۓ آنکھوں میں ایک انوکھی سی چمک لئے کھڑی ماہین شایان کو ہی دیکھ رہی تھی۔
ان دونوں کو اس طرح ایک دوسرے کہ مقابل آنکھوں میں محبّت لئے ایک دوسرے کو تکتا پاکر کتنی ہی نظریں تھیں جو رشک سے ان کی جانب اٹھ چکی تھیں۔ہجوم میں طرح طرح کی چہ مگوئيان ہونے لگی تھیں۔کس کی نظر میں رشک تو کس کی نفرت اور کسی کی نظر میں حقآرت سموئی ہوئی تھی۔۔اسی دوران کوئی جلن یا پھر کُھلے عام ہوتی اس بہودگی سے تنگ آکر ڈین کے آفس کی جانب ڈورا تھا۔۔
“Maheen fayyaz Will you marry me”
“ماہین فیاض کیا تم مجھ سے شادی کروگی۔”
شایان کہ اس جملے پر ارد گرد ایک شور سا مچ گیا تھا۔ہر طرف سے ہوٹنگ جاری تھی۔
شایان کی آنکھوں میں چھائی الوہی چمک اور اس کہ لرزا دینے والے الفاظ سامنے پریشانی سے ہجوم چیر کر آتی سمبل کی ہستی تک ہلا گئے تھے۔
ماہین ارد گرد سے آتی “say yes “کی آوازوں کو نظر انداز کرتی گردن اکڑا کر بڑے تفخر سے اپنے مد مقابل گھٹنوں کے بل بیٹھے شایان کو دیکھ رہی تھی.بلآخر آج وہ شایان خانزاده کو جھکانے میں کامیاب ہو ہی گئی تھی۔خانزادہ گھرانے کا لاڈلا اکڑ مزآج چشم و چراغ کیسے اس کہ حسن کے آگے آج گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا تھا۔
ہر طرف سے حامی بھرلینے کی صدائیں عروج پر تھی۔شایان اب تک یونہی بیٹھا ہوا تھا۔جبکہ سمبل کی آنکھوں میں بے یقینی سی بے یقینی تھی۔اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ شایان خانزادہ جو اپنے گھر کی عورتوں کو سات پردوں میں رکھنا پسند کرتا ہے۔وہ ایسی گری ہوئی گھٹیا حرکت کر سکتا ہے۔یاچیپ انداز میں کسی نامحرم لڑکی کے سامنے جھک جائیں گئے۔
“شایان میں تم سے دل سے معذرت چاہتی ہوں۔وہ کیا ہے نا کہ تم سے پہلے کل ہی میراکزن میرے گھر والوں کے سامنے میرا رشتہ مانگ چکا ہے ۔جس پر میں نے اپنے ماں باپ کی مرضی کا بھرم رکھتے ہوۓ اس رشتے کہ لئے حامی بهرلی ہے۔”ماہین شایان کے قریب دو قدموں کہ فاصلے پر ركتی بڑے ہی پیار سے شایان خانزادہ کی عزت خاک میں ملا چکی تھی۔ہجوم میں موجود لوگوں کا جوش یکدم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔جب کہ شایان کہ سر پر تو جیسے آسمان ٹوٹ پڑا تھا۔وہ بے یقین سا آنکھیں پھاڑے ماہین کو دیکھ رہا تھا۔سمبل اس سارے ڈرامے میں شایان کی خالی سی آنکھوں پر ایک نظر ڈالتی تاسف سے نفی میں سر ہلاتی ہجوم چیر کر وہاں سے نکلتی چلی گئی۔جبکہ ماہین کی آنکھوں میں ایک الگ ہی جیت کا کی خوشی تھی جو شایان خانزادہ کو مات دے کر حاصل ہوئی تھی۔
آہستہ آہستہ رش چھٹنے لگا تھا۔سب اس پر ایک افسوس بھری نگاہ ڈال کرشایان کو دیکھتے اپنے اپنے راستے نکل پڑے تھے۔۔ماہین اس پر ایک مسکراتی ہوئی نگاہ ڈالتی سامنے کھڑے نومی کے ہمرا آگے بڑھ گئی۔جب کہ شایان۔بے یقین سا سر جھکاۓ ہنوز اسی پوزیشن میں خالی ہاتھ بیٹھا تھا۔کسی کی نظروں میں تمسخر تھا۔تو کسی کی نظر میں افسوس۔
“شایان آیڈمن آفس میں جا فوراً۔”اس کی شکایات موصول ہوتے ہی فوراً بلاوا آیا تھا۔ ”
شایان اپنے کلاس فیلو کی آواز پر متوجہ ہوتا ایک گہری سانس بھر کر کھڑا ہوا تھا۔ارد گرد میں نظر ڈالی ایسا لگ رہا تھا سب اسی کو دیکھ رہے تھے۔سب سے نظریں چراتا وہ وہ اس کہ ہم قدم ہوا۔۔
____________________
آج کل سوشل میڈیا کےدور میں اس بھاگتی ڈورتی زندگی میں ہم اس قدر مشغول یا حرف عام میں اگر کہا جائے کہ اس قدر برگر ہو گئے ہیں کہ ہم اچھے برے کی ہی تمیز بھول گئے ہیں۔محرم اور نامحرم کا ہمارے مذہب میں کتنا حساس مسلہ ہے۔یہ بات تقریب ہم سب ہی بھلا چکے ہیں۔معاشرے میں بڑھتے اس بیگاڑ کی سب سے بڑی وجہ تو انٹرنیٹ ہے۔جہاں اچھے برے کی تمیز ہی ختم ہوگئی ہے۔اور رہی سہی کسر الیکٹرانک میڈیا نے پوری کردی ہے۔ڈراموں فلموں میں کالج،یونیورسٹی میں لڑکے لڑکیوں کی بے جا دوستیوں کوجس طرح عام دکھایا جا رہا ہے۔ہمارا مسلم معاشرو قطعاًہمیں اس چیز کی اجازت نہیں دیتا۔آج کے دور کے جو ڈرامے یا موویز ہوتی ہیں۔ہماری نوجوان نسل کی ایک بہت بڑی تعداد شوق سے دیکھتی ہے۔اور جب سکرین پر اس طرح کے واہیات مناظر سکرین پر نظر اتے ہیں۔تو اکثر و بیشتر ہماری عوام سوچ کے کسی کونے میں اس سب کو سہی ماننے پر مجبور ہو جاتی تھی۔اور اس میں انہیں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔جب کہ اس قسم کی حرکات یہ سب ہمارے کلچر کا حصّہ ہر گز نہیں۔یہ سب گوروں کی حرکات ہیں۔جن کہ یہاں اچھے،برے،یا پھر محرم یا نامحرم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔جب کہ ہمارا کلچر اور ہمارا مذہب ہمیں اس بے ہودگی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ضرورت ہمیں اپنے کلچر کو یاد رکھنے کی ہے۔دین محض کتابوں یا پھر کسی بحث تک رکھنے کے لئے محدود ہر گز نہیں ہے۔زندگی کے ہر موڑ پر اسلامی تعلیمات کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔مگر افسوس آج کی نسل محض بہرہ روی کا ہی شکار ہے۔اور آج کہ دور کا سب سے بڑا بیگاڑ ہمارے آج کل کہ کچھ برگر بزرگ بھی ہیں جو” ان سب باتوں پر بچے ہیں یا پھر آج کل یہ سب چلتا ہے” کہ کر انہیں درست نصیحت کرنے کے بجاۓ انہیں مزید شے دے دیتے ہیں۔
__________________
“سمبل یار۔کام داؤن۔ریليكس ہوجاؤ۔کیوں خود کو اذیت دے رہی ہو۔اور پھر تم ہی نے تو کہا تھا کہ نکاح نامے میں لکھی شرط کہ مطابق شایان بھائی تمہاری اجازت کے بغیر دوسری شادی نہیں کر سکتے۔”دانین نے ڈرائیونگ کے دوران ہی مسلسل آنسوں سے روتی سمبل کو دیکھ کمزور سی تسلی دی۔
“اس شرط سے کیا فرق پڑتا ہے۔جب وہ پوری دنیا کہ سامنے اس لڑکی کو شادی کی پیشکش کر رہے تھے۔”سمبل کو رہ رہ کر اپنی پسند پر افسوس ہو رہا تھا۔
“تو یار انہیں تو کسی ایسی شرط کا علم نہیں ہے نا یہ تو آغا جان نے لکھوائی ہے۔اور ویسے بھی اس لال بالوں والی چڑیل نے تو منع کر دیا۔پھر کس بات کی ٹینشین لے رہی ہو تم۔”دانین کو اس کی یہ حالت تکلیف پہنچا رہی تھی۔۔
“شایان نے شادی کی افر کی۔اسنے منع کردیا۔اب اس سب سے کیا فرق پڑتا ہے۔اس سارے قصّہ میں میں کہاں ہوں۔میری ذات کہاں ہے۔میرا تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے۔شایان خانزادہ نے تو۔میں نے ہاتھ پیر تو نہیں جوڑے تھے ان کہ اس کہ باوجود۔میرے ساتھ ایسا سلوک۔آخر قصور کیا ہے میرا۔۔۔”سمبل اذیت کی انتہا کو چھوتی مسلسل اس سے جواب طلبی کر رہی تھی۔
“اچھا تم رونا تو بند کرو یار۔۔”دانین نے گاڑی اس کہ فلیٹ کہ آگے روک کر کہا۔۔
“میں بھی اؤں تمہارے ساتھ۔”دانین نے اسے گاڑی کا دروازہ کھولتے دیکھ اس کی حالت کے پیش نظر کہا۔
“نہیں۔۔میں کچھ دیر اکیلے رہنا چاہتی ہوں۔”سمبل سپاٹ تاثرات کہ ساتھ بولتی بلڈنگ کی سیڑھاں چڑھنے لگی۔
دانین تاسف سے نفی میں سر ہلاتی اپنی گاڑی آگے بڑھا لے گئی۔۔
____________________
“یہ کیا بہودگی ہے ہے شایان خانزادہ۔آپ یہاں پڑھنے اتے ہیں یا یہ سب حرکتیں کرنے۔جواب دیجئے مجھے۔”شایان ڈین کے افس میں سر اور نظریں جھکاۓ بلکل خاموش کھڑا تھا۔جب کہ موبائل سکرین پر اس کی چند منٹوں پہلے کی ویڈیو چل رہی تھی۔جہاں وہ ماہین کے مقابل آنکھوں میں ایک الگ ہی جہاں آباد کئے بیٹھا اس کہ جواب کا منتظر تھا۔
“اب آپ خاموش کیوں ہیں۔جواب دیجئے مسڑ خانزادہ۔یا پھر میں آپ کہ بڑے بھائی سے رابطہ کروں۔”
پرنسپل صاحب نے اسے سخت نگاہوں سے گھورا تھا۔جو ابھی تک صدمے کی حالت میں تھا۔۔
شایان کہ جھکے سر کو سخت نظروں سے دیکھتے بیل بجائی۔
“مس ماہین کو کہیں۔وہ فورا افس میں آئیں۔”پرنسپل کہ حکم پر پیون فوری جانے لگا تو شایان بیچ میں بول اٹھا۔
“سوری سر اس سارے قصّہ میں ماہین کی کوئی غلطی نہیں۔یہ میرا آئیڈیا تھا۔اور مس ماہین مجھے ریجیکٹ کر چکی ہیں۔تو پلیز آپ انہیں یا پھر ان کی فیملی کو اس قصّہ سے دور رکھیں۔میں اپنے کئے پر نادم ہوں۔”شایان نے سر جھکا کر ابھی بھی ماہین کا دفعہ کیا تھا۔وہ اسے اپنی عزت ہی سمجھتا تھا۔مگر ماہین۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“شکر کیجئے مسڑ خانزادہ میں نے آپ کہ گھر کال کر کہ آپ کہ کارناموں کے بارے میں آپ کہ آغا کو آگاہ نہیں کیا۔جایئے اور آپ آپ کو مزید یونیورسٹی تشریف لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔کچھ دن میں پیپرز ہیں۔آپ یونیورسٹی سے اپنی ڈگری لیجئے۔اور اپنی لائف انجوۓ کیجئے۔”پرنپسل صاحب نے طنزیہ لہجے میں بولتے اسے باہر کا راستہ دکھایا۔
یہ ریایت بھی اسے صرف یونیورسٹی کا ایک ہونہار طالبہ علم ہونے کے باعث دی جا رہی تھی۔اور یہ ایکٹ کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی۔۔یونیورسٹی میں یہ شغل عام سی بات تھی۔بس شایان کی شکایت کسی نے جیلسی میں افس میں کر دی تھی۔ورنہ معملہ تو کب کا رفع دفعہ ہو چکا ہوتا۔۔۔۔
________________________
“آغا بھائی آپ۔۔اندر آیئے نا پلیز۔۔”سمبل جو کافی دیر تک رو دھو کر اب فریش ہو کر بیٹھی تھی کہ دروازہ پر بجتی بیل پر سامنے آغا کو کھڑا دیکھ بھوکلا کر رہ گئی تھی۔۔
“کیسی ہو بچہ۔۔”آغا نے اس کہ سر پر ہاتھ پھیرا ۔
“بلکل ٹھیک۔آپ کیسے ہیں، خالہ جانی۔اور حویلی میں سب کیسے ہیں۔”سمبل نے ایک ہی سانس میں سارے سوال پوچھ ڈالے تھے۔آغا اس کی جلد بازی پر قہقاہ لگا اٹھے۔
“سب ٹھیک ہیں بچہ۔سب تمھیں اور شایان کو بہت یاد کرتے ہیں۔”۔۔نرمی سے جواب دیا۔
“اچھا آغا آپ بتاۓ کیا لیں گے ٹھنڈا یا گرم۔”سمبل کو فوری مہمان نوازی یاد آئی۔۔
“کچھ نہیں یہ بتاؤ۔شایان ابھی تک نہیں آیا۔۔”اغا نے اس کی غیر موجودگی محسوس کرکہ سوال کیا۔۔
“نہیں۔بس انے والے ہیں۔آپ بیٹھیں۔میں آپ کہ لئے شربت لاتی ہوں۔”ان کہ منع کرنے کے باوجود وہ کچن کی جانب بڑھی۔
آغا بھائی بھی ریليكس انداز میں صوفے پر بیٹھتے اپنے موبائل میں مشغول ہوگئے۔جبھی واٹس آپ پر ایک نوٹیفکیشن آیا تو بغیر کسی دیری کے اسے ان کر چکے تھے۔۔
جیسے جیسے وہ ویڈیو دیکھ رہے تھے۔ان کہ غصّہ کا گراف بڑھتا جا رہا تھا۔یہ ویڈیو ان کہ ایک ساتھی دوست نے سینڈ کی تھی۔اتفاق سے ان کہ دوست کی بہن اسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی۔
“سمبل۔۔سمبل بچے یہاں آئیں۔”آغا نے غصّہ میں سمبل کو پکارا۔کیوں کہ بنانے والے نے جس انداز میں ویڈیو بنائی تھی۔اس میں ایک جانب سمبل صاف کھڑی نظر آرہی تھی۔اور یقیناً یہ آج ہی کی ویڈو تھی۔
“جی جی آغا۔”سمبل ہڑ بڑا کر کچن سے باہر آئی تھی۔
“یہ سب کیا ہے۔”اانہوں نے موبائل سکرین اس کہ سامنے کی تھی۔سمبل کا چہرہ سامنے چلتے مناظر دیکھ فق رہ گیا تھا۔۔
شایان تمہارے ساتھ یہاں یہ سب کچھ کرتا پھر رہا ہے۔اور تم نے ہمیں بتانے تک کی زحمت نہیں کی ۔کیا ہم تمہارے لئے غیر ہیں۔یا پھر تم ہمیں اپنا بڑا ہی نہیں سمجھتیں۔”آغا جان نے اس کہ آنسو سے تر چہرے کو دیکھ شفقت سے افسوس بھرے لہجے میں پوچھا۔۔
سمبل یکدم نفی میں سر ہلاتی زور زور سے رونے لگی۔
“رو نہیں بچے ۔تم اٹھو اور اپنا سامان پیک کرو۔تم ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ حویلی چل رہی ہو۔”آغا کے حکم پر وہ کچھ سٹپٹا کر اٹھی تھی۔۔
“مگر شایان۔”سمبل نے کچھ کہنا چاہا۔۔
“دفع کرو اس بد بخت کو۔اس کا دماغ تو میں خود درست کرونگا۔”آغا نے اسکی نفی پر سخت لہجے میں کھا۔۔
مگر میری یونیورسٹی کے پیپرز۔۔سمبل نے کمزور سا جواز پیش کیا۔۔
“کب سے ہیں۔۔”انہوں نے متوازن لہجے میں دريافت کیا۔۔
“اگلے ماہ سے۔”سمبل نے آہستہ سی آواز میں کہا۔اس کا خود کا دل اب یہاں رکنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔
بس پھر ابھی تم میرے ساتھ حویلی چلو۔۔آغا کے حکم پر وہ بھی خاموشی سے اپناسارا سامان پیک کرتی۔کمرے میں ایک آخری نگاہ ڈالتی ان کہ ہمرا گاڑی میں بیٹھتی گاؤں جانے کے لئے نکل پڑی تھی۔۔۔
______________________
سارا دن سڑکوں پر گاڑی ڈورانے کے بعد شایان تھکا ہآرا سا فلیٹ میں داخل ہوا تو۔ہر سو خاموشی کا راج تھا۔شایان کو آج معمول سے ہٹ کر خاموشی محسوس ہوئی تھی۔سر جھٹک کر کچن کی جانب بڑھا۔وہاں کی لائٹ بھی بند تھی۔ایک بار پھر صاف ستھرے سے کچن میں نگاہ گھومائی ۔فرج سے بوٹل نکال کر پانی گلاس میں ڈالا اور ایک ہی سانس میں سارا چڑھا گیا۔ماہین نے جو آج اس کہ ساتھ کیا تھا شایان کو رہ رہ کر افسوس ہو رہا تھا۔اسے تو کسی پل چین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ اس کہ ساتھ ایسا بھی کر سکتی تھی۔۔۔
وہ سر جھٹک کر کمرے کی جانب بڑھا۔کمرے میں داخل ہوا تو وہ بلکل ایسا ہی پڑا تھا جیسا وہ صبح چھوڑ کر گیا تھا۔کسی غیر معمولی پن کے احساس کے باعث وہ قدم اٹھاتا سمبل کے کمرے کی جانب آیا آج آج کل اس کہ زیر استعمال تھا۔
“سمبل۔”شایان نے آواز دی مگر جواب ندار تھا۔۔۔
“سمبل کہاں ہو تم۔”شایان کو اب پریشانی ہونے لگی تھی۔۔
ارد گرد اس کا موبائل ۔اور پھر کمرے میں واپسی اکر الماری چیک کی۔جہاں سے سمبل سے کے روز مرہ پہننے کے کپڑے غائب تھے۔۔۔
یکدم اسے پریشانی نے اپنے حصار میں لیا تھا۔منہ پر ہاتھ پھیر کر جیب سے موبائل نکالا جو صبح سے اف تھا۔ابھی موبائل ان کر کہ وہ سمبل کے نمبر ڈائل کرنے ہی لگا تھا کہ آغا کی جانب سے موصول ہوتے پیغام کو کھول کر جیسے ہی دیکھا۔ایک بار پھر خود پر غصّہ انے لگا۔۔
“اگر سمبل کو ڈھونڈ رہے ہو تو اپنی کوشش ترک کر کہ اس ویڈیو کو دیکھ لو۔اور پھر لعنت بھیجو اپنی ذات پر۔ہمارے خاندان کا نام ڈبو دیا ہے تم نے۔کیسے خان ہو تم جس کا خون اتنی تذلیل کے بعد بھی جوش نہیں مار رہا۔تف ہے تم پر تف شایان خانزادہ۔میں اپنی بہن کو اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں۔اب حویلی اپنی شکل اسی وقت لے کر آنا جب تم اپنے اور سمبل کے رشتہ کو لے کر سنجیدہ ہو۔ورنہ اپنی شکل یہاں لے کر انے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔”پیغام پڑھنے کے بعد جیسے جیسے اپنی ہی ویڈیو دیکھ رہا تھا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔ماہین نے بھری یونیورسٹی کہ سامنے اس کی ذات کا تماشہ ہی بنا کر رکھ دیا تھا۔۔پہلے خود ہی اسے یہ قدم اٹھانے کے لئے فورس کیا اور پھر خود ہی انکار بھی کردیا۔ویڈیو میں نظر اتے سمبل کے فق چہرہ کو دیکھ شایان کو ساری صورتحال سمجھ انے لگی تھی۔وہ وہاں کیسے آئی یا پھر اسے کس نے بلایا ہوگا۔ماہین کے برتاؤ کے بعد اسے یہ بات سمھنے میں ذرا دیر نہیں لگی تھی۔۔
“آہ ہ ہ ۔۔۔۔ماہین یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔کم از کم سمبل اور آغا کے سامنے میری ذات کا تماشہ بنا کر تو تم نے بلکل اچھا نہیں کیا۔تمہاری محبّت میں میں پوری یونیورسٹی کہ سامنے ہوئی تذلیل بھول سکتا تھا مگر اپنی فیملی کی نظروں میں اپنا امیج خراب ہوتا دیکھ میں بلکل بھی برداشت نہیں کر سکتا۔”شایان غصّہ میں خود سے مخاطب ہوتا غصّہ میں موبائل دیوار پر مار کر توڑ چکا تھا۔۔
اب کسی ہارے ہوۓ جواری کی طرح سر پکڑ کر بیڈ پر چت لیٹ گیا تھا۔ماہین نے صرف سمبل سے شادی کا بدلہ لینے کے لئے اس کا استعمال کیا تھا۔اور وہ کتنا بیوقوف تھا۔اس کہ ہاتھوں استعمال ہوتا چلا گیا تھا۔اس لڑکی کے باعث اس نے سمبل کا کتنا دل دکھایا تھا۔جو اس کی بیوی تھی اس کے نکاح میں تھی۔خاص کر وہ اس کہ ساتھ مخلص تھی۔اپنے سارے رشتے فراموش کئے ۔اس کہ ساتھ نباه کرنے کو تیار تھی۔مگر اس نے کیا کیا تھا۔اس کا مان ہی توڑ دیا تھا۔اس ویڈیو میں سمبل کے چہرے پر کس قدر ازیت تھی۔کتنی بے یقین تھی وہ۔آج تو اس کی ساری رات یقیناً آنکھوں میں ہی کٹنے والی تھی۔۔۔
____________________________
سمبل افسردہ سی شکل بناۓ لان میں چہل قدمی کر رہی تھی۔آج اسے حویلی آۓ، پورا ایک ہفتہ گزر چکا تھادل عجیب اداس سا تھا۔شایان نے اس تمام عرصے میں ایک بار بھی اس کی خبر نہیں لی تھی۔آغا جان کہ علاوہ حویلی کے کسی بھی شخص کو حقیقت کا علم نہیں تھا۔وہ غیر ارادی طور پر روز شایان کا انتظار کر رہی تھی کہ شاید پچھتاوے کی اگ اسے سمبل کی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہو جائے اور وہ اس طرف کھینچا چلا آۓ۔مگر شایان کو تو شاید واقعی سمبل سے محبّت تودور کوئی لگاؤ تک نہیں تھاجبھی اس نے اب تک پلٹ کر اس کی خبر تک نہیں لی تھی۔۔
“سمبل پھپھو آپ کو دادی جان بلا رہی ہیں۔”ابھی وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ یوسف بھائی کی چھوٹی بیٹی ڈور کر اس کی جانب آئی تھی۔
“اچھا تم چلو میں آتی ہوں۔”ایک آخری افسردہ نگاہ صدر دروازے پر ڈال کر نظریں پھیرتی خان بیگم کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔
_________________
“کیا مصیبت ہے۔۔”جب سے سمبل گئی تھی۔وہ اپنے سارے کام خود ہی کر رہا تھا۔۔
“اففف میرے خدا۔۔”ابھی وہ جلے ہوۓ انڈے کو ہی ایک طرف رکھ رہا تھا کہ چائے بھی ابل پڑی تھی۔۔
“شایان خانزادہ تم آدمی تو تھے بڑے کمال کہ مگر منحوس محبت نے نکما کر دیا۔”غالب کا شعر اس نے اپنے ہی انداز میں بڑبڑآیا تھا۔
“لو آج ہوگیا میرا ناشتہ۔”پچھلے ایک ہفتے سے اس پر عجیب ہی جهنجھلاہٹ طاری تھی۔یہ کوئی محبّت کا غم نہیں تھا۔بلکہ دو سے تین دن میں ہی اسے اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ ہوگئی وہ صرف وقتی لگاؤ تھا۔یا ماہین سے روز بات کرنے کی عادت مگر جو چھوڑ جائے اور دوسرے فریق کو کوئی غم تک نا ہو یہ تو محبّت نہیں ہوئی۔
“چل بیٹا شایان تو بھی مان لے کہ اب تیرا بھی گزارا تیری بیوی کے بغیر نا ممکن ہے۔بہتری اسی میں ہے کہ گزری باتوں پر مٹی ڈال اور سمبل کو منا کر گھر واپسی لے آ۔۔۔”شایان نے کچن کے بکھرے حال پر نظر ڈورا کر خود كلامی کی۔۔
“اور اگر وہ نہیں مانی۔۔”کہیں دور سے ایک صدا آئی تھی۔شایان کہ کمرے کی جانب بڑھتے قدم راستے میں ہی ٹہر گئے تھے۔۔
“مان جائے گی۔اس عمر میں تو سب سے ہی غلطياں ہو جاتی ہیں۔مجھ سے بھی ہوگئی بس۔۔”شایان نے یک طرفہ سوچ کر سر جھٹکا۔۔
“مگر میں نے تو اس بیچاری کا بڑا دل دکھایا ہے۔۔”شایان کو اپنی غلطی کا احساس تھا۔اور فلحال یہی بہت تھا۔۔۔
“اف میں بھی کیا عورتوں کی طرح خود سے باتیں کر رہا ہوں۔حویلی جاؤں گا۔تو ہی کچھ بات بننے گی۔”شایان ایک دم سر جھٹک کر اپنے کپڑے لے کر واش روم میں بند ہوگیا تھا۔۔
______________
“آصف یہ والا ڈریس دیکھو۔یہ کیسا رہے گا۔۔”ماہین نے ایک خوبصورت سا برائیڈل ڈریس اس کہ سامنے کرتے بہت پیار سے پوچھا تھا۔
“بیسٹ ہے۔یہی لے لو۔”پسند ظاہر کرتے فوری مشورہ بھی دیا گیا۔
“چلو پھر یہی ٹھیک ہے۔”آصف کو مسلسل موبائل میں مصروف دیکھ۔ماہین نے بے دلی سے کہا۔کہیں دور کانوں میں آواز گونجی تھی۔
“شایان میں اپنی شادی کا جوڑا انڈین ڈیزائنر سے بناؤ گی۔اور شادی کی ساری شاپنگ ہم دبئ سے ہی کریں گے۔”آصف کی کسی بات پر وہ چونک کر ہوش کی دنیا میں آئی تھی۔
ماہین ایک گہری سانس بھرتی آصف کی جانب بڑھی۔جو بقول نومی کے صرف پیسے کمانے کی مشین تھا۔جس کا وقت اس قدر قیمتی تھا کہ وہ اس کہ آگے اپنا کھانا پینا تک فراموش کر دیتا تھا۔تو ماہین کیا چیز تھی۔اس کہ مطابق ماہین بہت جلد ہی اس زندگی سے اکتانے والی تھی۔جس میں آصف جیسا گھڑی کی سوئیوں پر چلنے والا روبوٹک انسان اس کا نصیب تھا۔۔
ابھی ماہین آصف کی جلدی جلدی پر جیولری شاپ سے ہی نکل رہی تھی۔جب سامنے سے اچانک شاپ میں داخل ہوتے شایان پر اس کی نظر آکر ٹہر گئی۔
جو اپنے مخصوص انداز میں اپنے حلیہ سے لاپروا سا۔ریبوک کی ٹی شرٹ پر ڈینم جین پہنے ماتھے اتے بالوں کو ہاتھ سے پیچھا کرتا ہمیشہ کی طرح ہینڈ سم لگ رہا تھا۔اس بات کو ماننے میں اسے کوئی ار نہیں تھی کہ شایان کو ٹھکرا کر اس نے گھاٹے کا سودا کیا تھا۔۔
شایان کی نظریں اس پر پڑتے ہی کرسٹل گرے آنکھوں میں ناگواری سی اتری تھی۔اس دن کہ بعد روبرو یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔
ماہین بغیر کسی تاثر کے یک ٹک اسے دیکھے جا رہی تھی۔جبکہ شایان اسے نظر انداز کرتا۔آگے بڑھ گیا تھا۔جب کہ ماہین اس کہ خاموشی سے جانا اور آنکھوں میں نفرت دیکھ پتھر کی ہو کر رہ گئی تھی۔وہ ان آنکھوں میں نفرت کیسے دیکھ سکتی تھی۔جو اسے دیکھ کر ہمیشہ روشن ہو جاتی تھیں۔
“یو ایڈیٹ۔۔اب بھی تک یہیں کھڑی ہو۔تمھیں پتہ بھی ہے میں اپنی کتنی اہم میٹنگ چھوڑ کر تمہارے ساتھ یہ فضول سی شاپنگ کرنے آیا ہوں۔نونسینس۔۔”شاپ سے باہر اتے شایان نے بڑی دلچپسپی سے یہ منظر دیکھا تھا۔جبکہ ماہین منہ پر اتے گهنگھریالے بالوں کو پیچھے کرتی شرمندہ ہوگئی تھی۔۔
“گڈ چوئس۔۔۔”شایان استہزایہ مسکراتا اس کہ کان میں قریب سے سرگوشی کرتا اپنے راستے ہو لیا۔جبکہ آصف اب تک غصّہ میں پتہ نہیں کیا کیا بولے جا رہا تھا۔ماہین یک ٹک اس کی پشت کو ہی گھور رہی تھی۔جو ہاتھ میں ایک چھوٹا سا شاپنگ بیگ تھامے پر وقار چال چلتا ہوا مال سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔ماہین فیاض کا چیپٹر شایان خانزادہ کی زندگی سے ہمیشہ کے لئے کلوز ہو چکا تھا۔۔۔
وہ شایان خانزادہ تھا۔اس میں اتنا ظرف تھا کہ اپنی غلطی مان سکے۔اور وہ جانتا تھا ماہین نے جو کیا اس میں غلطی اس کی بھی تھی۔کسی نامحرم لڑکی کی جانب قدم بڑھا کر اس نے کونسا اچھا کیا تھا جو وہ اس سے کسی بات پر باز پرست کرتا۔وہ اعلی ظرف تھا۔بدلہ لینا اس کہ خون میں ہی شامل نہیں تھا۔تو وہ کیسے ایک عورت سے بحث بازی پر اتر آتا۔یہ چیز اس کی شخصیت کو زیب نہیں دیتی تھی۔
____________________
آج سمبل کا آخری پیپر تھا۔اور آج شام ہی اس کی حویلی واپسی بھی تھی۔وہ پچھلے پندرہ دنوں سے یونیورسٹی کے پیپرز کے باعث آغا جان کے ہمرا ان کہ ذاتی فلیٹ پر رہ رہی تھی۔۔
آج بھی سمبل کا دل بہت اداس تھا۔اس کا کسی صورت اس شہر سے جانا کا دل نہیں کر رہا تھا۔اس ایک ماہ میں بھی شایان نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔اور اس کا انتظار محض انتظار ہی رہ گیا تھا۔۔
“سمبل بچہ ساری تیاری ہوگئی۔۔آغا جان نے لاؤنج میں سوفے پر بیٹھ کر پوچھا۔
“جی آغا۔۔”هلكی سی آواز میں جواب دیا۔
چلو تم دروازہ بند کر کہ ذرا آرام کر لو۔جب تک میں دو تین کام نبٹا کر آتا ہوں۔پھر شام میں حویلی کہ لئے بھی نكلنا ہے۔آغا کی ہدایت پر وہ ان کہ ہم قدم ہوتی دروازہ بند کر کہ شکستہ خور قدموں سے واپسی وہیں ٹی وی ان کر کہ بیٹھگئی۔اس کہ بیٹھنے کو دل بلکل نہیں چاہ رہا تھا۔۔
ابھی اسے بیٹھے کچھ ہی دیر گزری تھی۔جبھی اس نے کھٹکے کی آواز پر پیچھے موڑ کر دیکھا۔سامنے موجود شخص کو دیکھ حیرانی سے چونک کر کھڑی ہوگی تھی۔جبکہ شایان دروازہ بند کرتا بڑے ریليكس انداز میں قدم قدم چلتا اس کہ سامنے سوفے پر آکر بیٹھ گیا تھا۔۔
“کیا ہوگیا کوئی جن دیکھ لیا کیا۔اتنی حیران کیوں ہو بھئی۔میں ہوں شایان۔۔بیٹھ جاؤ۔”۔شایان
نے اس کا فق چہرہ دیکھ کر شرارت کہا۔سمبل اب بھی منہ کھولے اسے ہی تک رہی تھی۔۔
“منہ بند کرلو۔مکھی چلی جائے گی۔شایان نے کھڑے ہوکر پہلے اس کا منہ بند کیا اور پھر خود ہی ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بیٹھا دیا تو وہ جیسے ہوش کی دنیا میں آئی تھی۔۔
“آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟”سمبل نے ہڑبڑا کر ماتھے پر بل
ڈال کر پوچھا۔
یہ سوال تو میں بھی کر سکتا ہوں۔شایان نے مسکراتے لہجے میں کہا۔
“یہ میرے بھائی کا گھر ہے۔”سمبل نے ذرا تواقف کے بعد جتاتے لہجے میں کہا۔
“میرے بھی۔”اب وہ آرام سے بیٹھا اپنی کرسٹل گرے آنکھیں اسی پر گاڑے بیٹھا تھا۔جو مسلسل اسے غصّہ سے گھورے جا رہی تھی۔
“کیا نظر لگاؤ گی۔”جب سمبل مسلسل اسے گھورتی رہی تو اس نے ذرا آگے ہو کر پوچھا۔
سمبل نے ناگواری سے نظریں موڑ لیں اور خاموشی سے رخ پھیر گئی۔شایان فورا سنجیدہ ہوا تھا۔۔
“دیکھو سمبل میں جانتا ہوں۔ایک ماہ پہلے جو تم نے دیکھا۔وہ سب غلط تھا۔میری غلطی ہے۔مگر اب میں وہ سب بھولا چکا ہوں۔اور یہی چاہتا ہوں تم بھی وہ سب بھلا دو۔اور میرا ساتھ گھر واپس چلو۔۔”شایان نے بڑے ہی کم الفاظ میں اپنا دفعہ کیا تھا۔
“اؤ محبت نے لات ماری جبھی عقل نے دماغ پر دستک دی۔”سمبل کا لہجہ خاصا مزاقیہ خیز تھا۔۔
“سمبل ۔۔شایان کو اس کہ لہجہ ذرا برا لگا تھا۔۔
دیکھو میں جانتا ہوں کہ تم غصّہ میں ہو۔اسی لئے میں نے اس ایک ماہ میں تم سے کوئی رابطہ نہیں کیا تاکہ تم سکون سے اپنے پیپرز دے سکوں۔مگر اب یقین تم بھی کافی کچھ سوچ چکی ہوگی اور میں بھی۔تو میرا نہیں خیال ہمیں ان بیکار سی باتوں پر مزید اپنا وقت برباد کرنا چاہیے۔۔”شایان تو ہتھیلی پر سرسو جمانا چاہ رہا تھا۔
سمبل برو اٹھا کر طنزیہ مسکرائی مطلب صاحب بہادر سب کچھ خود ہی پہلے سے سوچ بھی چکے تھے۔اور عمل بھی کر ڈالا تھا۔۔
“آپ کو کیوں یہ غلط فہمی لاحق ہے کہ میں اب آپ کہ ساتھ رہوں گی۔”سمبل نے اسے ٹٹولنا چاہا۔۔
“مجھے یقین ہے ۔کیوں کہ ہمارے یہاں کی عورتیں ہمیشہ ہی قربانی دینا جانتی ہیں۔”شایان نے مسکرا کر کہا تھا۔
“ضروری نہیں جو چیز ہوتی آرہی ہے ابھی بھی ویسے ہی ہو۔”سمبل کا لہجہ عجیب چبھتا ہوا تھا۔۔
مگر محبّت کہ آگے تو سب ہی گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔شایان کہ لہجے میں ایک مان تھا۔۔
“خوش فہمی ہے شایان خانزادہ اور کچھ نہیں۔۔”سمبل نےسر جا۔۔
آغا اس واقعہ کہ کچھ دن بعد ہی اس کی طبعیت صاف کر چکے تھے۔جن کی ڈانٹ وہ سر جھکا کر سنتا رہا تھا۔انہی کہ کہنے پر اس نے ایک ماہ تک سمبل سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔اور نکاح نامے پر موجود شرط سے بھی آگاہ کر دیا تھا جس پر وہ سمبل کی اس کہ معملے میں حساسیت کو سراہے بغیر نہیں رہ سکا۔۔
“دیکھو سمبل۔کچھ بھی تم سے چھپا ہوا تو ہر گز نہیں تھا۔تم ہر بات سے پہلے دن سے آگاہ ہو۔مجھ سے شادی کی حامی تم نے خود ہی بھری تھی۔اور ساتھ مجھ سے پابندی بھی عآئد کی تھی۔مانتا ہوں غلطی ہوئی ہے۔مگر اتنی بڑی نہیں جس کا ازالہ نا مکن ہو۔ہر رشتہ میں مرجن دینا ضروری ہوتا ہے۔جیسے میں نے تمھیں دیا تھا۔مگر یہ فیصلہ بھی تمہارا اپنا تھا۔ماہین کے ہونے یا نا ہونے سے تمھیں کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔تم نے اس وقت میرا انتخاب کیا جب وہ میری زندگی میں شامل تھی اب تو وہ کہیں نہیں پھر یہ سب ڈرامہ بیکار ہے۔اوررر جبکہ تم آغا جان کہ ساتھ مل کر میری دوسری شادی پر بھی پابندی لگا چکی تو پھر کیسی ان سیکورٹی۔۔”شایان نے نرم لہجےمیں بولتے آخر میں ذرا مسکرا کر کہتے اسے گھورا۔تو سمبل بھی اس کی بات پر مسکرا پڑی۔۔
“سمبل تم یہ بات نہیں جانتی مگر اب ضروری ہے کہ تم سب جان لو۔خالہ جانی کا انتقال۔۔۔۔”شایان کہ لفظ ابھی ادھورے تھے کہ سمبل بیچ میں بول اٹھی۔۔
“میں سب حقیقت سے واقف ہوں۔آغا مجھے سب بتا چکے۔رہی امی کی موت کی بات کوئی انسان کسی کی جان نہیں لے سکتا جب تک وہاں سے بلاوا نا جائے۔انسان تو بس زریعہ بنتا ہے۔جبکہ زندگی اور موت کا فیصلہ تو اللّه کہ ہاتھ میں میں۔امو کینسر کی آخری اسٹیج پر تھیں ان کی زندگی اتنی ہی تھی۔اور انہیں اسی طرح دنیا سے جانا تھا خود کو قصور وار سمجھنا چھوڑ دیں۔۔”سمبل کہ لفظوں پر وہ کچھ پل تو تھم گیا پھر اس کی آنکھوں کا نرم تاثر دیکھ کر مطمئن ہوگیا۔اس خاندان کی عورتیں واقعی قربانی دینا جانتی تھیں۔جیسے سمبل سب بھلا کر آگے بڑھنے کی خواہش۔مند تھی۔خوش گوار زندگی کہ لئے ہر جگہ ہر رشتہ قربانی مانگتا ہے۔کہی معاف کر کہ کہیں معافی مانگ کر۔۔شایان کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا یہی بہت تھا۔اگر وہ اپنے عمل پر ڈٹا رہتا یا پھر ماہی سے شادی کر لیتا تو وہ کونسا اس کا کچھ بیگاڑ سکتی تھی۔جب وہ پلٹ آیا تھا تو وہ بھی ساری رنجشیں اور بد گمانیاں اپنے ذہن سے نکال کر اس کہ ساتھ قدم اٹھانا چاہتی تھی۔جہاں ایک خوبصورت زندگی اس کی منتظرتھی۔۔
“ویسے ماہین کے ریجیکٹ کرنے کا افسوس تو ہوگا آپ کو۔۔”سمبل اس کی باتوں سے ریلکس ہو چکی تھی۔جبھی شرارت سے پوچھا۔
“اس کا تو نہیں مگر تمہارے حویلی جانے کا بڑا افسوس تھا۔”شایان نے معصوم سی صورت بنا کر منہ لٹکا کر کہا۔تو سمبل دل ہی دل میں خوش ہوگئی۔کہ چلو اس نے بھی اس کی غیر موجودگی میں اسے یاد کیا۔۔
“وہ کیوں۔”بے تاثر چہرے کے ساتھ نک چڑھا کر پوچھا۔۔
“ایک مہینے سے ڈھنگ سے کھانا ہی نہیں کھایا۔باہر کا کھانا کھا کھا کر تھک گیا ہوں۔اب تو مجھ سے کوئی کام بھی نہیں ہوتا۔بس تم ابھی میرے ساتھ گھر چلو۔اب میں مزید باہر کا کھانا کھانا افورڈ نہیں کر سکتا۔۔۔”شایان کہ دکھ بھرے لہجے میں کہے الفاظ سمبل حیرانی سے سن رہی تھی۔جیسے اس تمام عرصے میں صرف اسی لئے اس کی کمی محسوس ہوئی تھی۔جبکہ وہ اب وہیں پھیل کر لیٹ گیا تھا۔۔۔سمبل نے تیش میں صوفہ کشن اٹھایا۔اور اچانک ہی اس پر حملہ کر دیا۔شایان بلند بانگ قہقاہ لگاتا اپنا بچاو کر رہا تھا۔۔
“چھا اچھا روکو تو تمہارے لئے کچھ ہے۔یکدم اٹھ کر بیٹھتے اپنی پاکٹ سے ایک جیولری باکس نکالا۔”سمبل کو بھی دیکھنے کا تجسس ہوا تووہیں اس کہ ساتھ بیٹھ گئی۔۔
“یہ تمہارے لئے لیا تھا کہ اگر تم میرے سوری سے نہیں مانی تو یہ دے کر منا لونگا۔مگر تم تو جیسے میرے انتظار میں بیٹھی تھیں کوئی نخرہ ہی نہیں دکھایا۔اوین فضول میں میرے پیسے برباد ہوگئے۔۔”وہ جو اشتیاق سے آنکھوں میں انوکھی سی چمک لئے ڈآئمنڈ کے موتی لگا ہوا پیارا سا بریسلیٹ دیکھ رہی تھی۔شایان کہ جملے پر چونک کر سر اٹھایا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
“یو۔۔نا شکرے انسان۔۔”سمبل تیزی سے بولتی ایک بار پھر کشن سے اس کی دھلائی کرنے میں مصروف ہوگئی تھی۔جو مسلسل قہقاہ لگا رہا تھا۔۔محبّت شایان کے دل پر دستک دے چکی تھی۔یقین تھا کہ آیندہ زندگی خوبصورت گزرنی تھی۔۔۔
The End
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...