"طالش آپ مت جائیں نہ میں کیا کروں گی گھر پر”
پیچھے کھڑی رو رہی تو کئی مرتبہ نہ جانے کی فریاد کر چُکی تھی آواز میں درد تھا ایک بار پھر دور ہونا کا وسوسہ
"دیب میری جان بچوں کی طرح نہیں کروں میں پرسوں تک آجاؤں گا ۔۔۔اور اِس طرح رو گی تو کیسے جاؤں گا میں”
پرفیوم کا چھڑکاو کرکے اُسکی طرف گھوما جو ابھی سوں سوں کر رہی تھی گٹھنوں تک آتی فروزی رنگ کی شرٹ جس کی چوڑی دار پاجامہ جس میں چھوٹی سی گڑیا لگ رہی تھی آنکھیں رو رو کر ایک بار پھر سوجھ چُکی تھیں جبکہ ہاتھوں کو مسلسل مسل رہی تھی
"نہ جائیں نا پلیز ”
دل عجیب طرح گھبرا رہا تھا اوپر سے رخسار کا خوف اُسے بزدل بنا رہا تھا اب اُسکا ہاتھ پکڑ کر کھڑی تھی جیسے بچے ضد کرتے ہیں کسی چیز کو لینے کے لیے
"اچھا ادھر آؤ ”
اُسے اپنے ساتھ لگا کر بیڈ تک لے کر آیا اور اُسے بیٹھا کر خود گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گیا دونوں ہاتھ طالش کے ہاتھوں میں تھے آنکھوں میں محبت چھلک رہی تھی جبکہ خود دل پر پتھر رکھ کر دور جارہا تھا لیکن وہ اُسکی کمزوری بن رہی خود بھی تو اُسکے بغیر بدن روح کے بغیر ہی محسوس ہوتا تھا
"دیب میری جان کیا ہوا ہے اتنا رو کیوں رہی ہو”
اُسے خود اچھا نہیں لگ رہا تھا اِس طرح اُسے چھوڑ کر جانا لیکن مجبوری تھی
"مجھے ڈر لگتا ہے ”
نیچے جُھک کر اُسکے سینے سے لگ کر دوبارہ پھر اونچی اونچی رونا شروع کر دیا طالش نے کرب سے آنکھیں بند کیں
"اچھا جیسے ہی کام ہوجائے گا میں فوراً آجاؤں گا بلکہ تم سے بات کرتا رہوں گا ”
اُسکی کمر سلہاتے ہوئے تسلی دینے کی کوشش کی
"ٹھیک ہے ”
آنسو صاف کرتی ہوئی پیچھے ہوئی اُسے لگے تھا بات مان لے گا لیکن مان ٹوٹ گیا تو جلدی سے پیچھے ہوکر آنکھیں صاف کرنے لگ گئی چہرے اور وہی معصومیت اور ساتھ میں ناراضگی کی رمض بھی ماجود تھی
طالش کو بھی لگا تھا کے ناراض ہوگئی ہے لیکن آکر منانے کا سوچ کر اُٹھ کر کھڑا ہوا
"چلو اب مجھے اچھا سا سی آف کرو ”
باہیں کھول کر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو آہستہ سے عندلیب نے اُسکے گرد بازو حائل کیے اور آنکھیں ایک مرتبہ پھر چھلک پڑیں لیکن جلد ہی آنسوؤں کو اندر دھکلا اور طالش نے اُسے خود میں بھینچ لیا پھر اُسکی لزرتی پلکوں پر اپنے ہونٹ رکھے
"اپنا بہت سارا خیال رہنا پاؤں پر پانی مت گرے اور کمرے سے باہر بھی مت جانا زیادہ سوالنگ ہوجائے گی ۔۔۔۔۔رات کو ہیٹر بند کرکے سونا اور دو کمبل لینا ۔۔۔۔کھانا بھی بہت سارا کھانا پہلے ہی کمزوری ہوئی ہے تمھیں اور سب سے اہم بات جب بھی ڈر لگے مجھے کال کر لینا اور اگر ان پیاری سی انکھوں پر رو کر ظلم کیا تو سزا دونگا پھر میں”
لمبی سی فہرست ھدایات کی دے کر اُسکی طرف دیکھا اور ہلکا سا مسکرایا جسکا دور دور تک پیچھے ہونا کہ ارادہ نہیں تھا ایسے ہی اُسکے محبت بھرے لمس کو محسوس کرنا چاہتی تھی
"طالش وہ آجائے گا ”
بھری آواز میں بولی
"وہم ہے یہ تمہارا شونے اب ایسا نہیں سوچنا ۔۔۔۔۔اب ٹائم کم رہ گیا ہے فلیٹ میں ”
پھر اُسکے بالوں پر لب رکھے اور دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر پیچھے کیا
"چلو جی اب کیوں رو رہی ہو ۔۔۔اچھا جاؤ میری فائل سٹڈی روم سے لے کر اؤ بھول گیا ہوں شاید”
آنسو صاف کرتا ہوا بولا جبکہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی عندلیب اسٹڈی روم تک گئی لیکن وہاں کُچھ نہیں تھا واپس آئی تو وہ بھی نہیں تھا جلدی سے کارٹن اُٹھا کر باہر دیکھا تو گاڑی گیٹ تک چلی گئی تھی پھر وہیں بیٹھ کر رونے لگ گئی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"بیا جی ہم پاکستان جارہے ہیں کچھ دونوں کے لیے وہاں اتنی سردی نہیں ہوگی نور کے کپڑے ہیں ”
کافی پیتے ہوئے پوچھا جبکہ نظریں نور پر ہی تھیں جو اُسکے موبائل پر کارٹون دیکھتے ہوئے کبھی کبھی جوش میں موبائل بھی نیچے مار دیتی اور کبھی منہ میں ڈال کر کھانے کی کوشش کر رہی تھی
"نہیں بازل بیٹا وہاں بھی سردی ہی ہوگی لیکن تھوڑی کم لیکن پھر بھی نور کے لیے کپڑے اور دوسری چیزیں تو لینی پڑے گیں”
وہ نور کے کھلونے سمیٹ رہیں تھیں جو سارے لاؤنچ میں پڑے تھے ۔۔۔اور ساتھ بازل سے بات بھی حیرانی نہیں ہوئی تھی اُنہیں کیوں کے جب بھی وہ کسی دوسرے ملک جاتا تھا دونوں ساتھ ہی جاتی تھیں بس فرق اتنا تھا کے فلیٹ الگ ہوتی تھی
کبھی بھی باہر نور اور بازل اکھٹے نہیں گے تھے جانے کے اوقاوت مختلف گاڑیاں مختلف اور یہاں تک کے نور کا نام بھی ابھی تک رجسٹر نہیں تھا کسی بھی ملک میں وجہ اُسکے دشمن تھے جو اُسکی کمزوری پر جھپٹنے کے لیے ہر وقت تیار تھے
امپائر کے ملک کے علاوہ کسی کو یہ خبر نہیں تھی کے بازل شاہ اِس بلڈنگ میں رہتا ہے اور ملک کو اتنا پتہ نہیں تھا کے فلیٹ کے اندر کون ہے کیوں کہ نور کو کبھی باہر نکالا ہی نہیں گیا تھا بس جب جانا ہوتا تھا تو وہاں لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمرے کو ہیک کر لیا جاتا تھا
"بابا شی”
اب موبائل پھینک کر صوفے پر بیٹھنے کی کوشش میں تھی اور مدد کے لئے اُسے پکارا تھا
"میرے شیر بیٹا ”
اُنگلی کا سہارا دیا اور وہ انگلی پکڑ کر اوپر آنے میں کامیاب ہوگئی تو بازل نے اُسے اُٹھا کر گود میں بیٹھا لیا اور اب نور پھر سے اُسکے بالوں پر حملہ کر چُکی تھی بازل کے بالوں کو کھینچنا اور پھر اُسکے منہ پر تاثرات دیکھنا اُسکے من پسند کاموں میں ایک تھا
بازل نے جان بوجھ کر چہرے پر دُکھ ظاہر کیا تو بال چھوڑ کر اُسکے منہ اور چھوٹی چھوٹی سی پپیاں دینے میں معروف ہوگئی اُسکے ہر عمل اور بازل کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہورہی تھی
"اُسکی زندگی کہ سکون تھی بے وجہ سی زندگی کو خوبصورت بنا دیا تھا اُسنے ”
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"امی آج دامل اور اُسکی بھابھی آئیں گے ۔۔۔۔پلیز کُچھ مت کہیے گا اُنکو”
سامنے بیٹھی منت کرنے کے انداز میں کہہ رہی تھی
"ٹھیک ہے لیکن پیسے میں اپنی مرضی کے لونگی”
اُسنے لحاظ مروت کے بغیر کہا سامنے بیٹھی مہر کو دیکھا جو دُبلی پتلی سی آنکھوں کے گرد ہلکے رنگت سانولی سی آنکھیں کانچ جیسی براؤن لیکن پھر بھی پُر کشش شکل کی ملک تھی
"امی میں بعد میں دے دونگی نہ آپکو لیکن ایسے پیسے مت منگیائے گا ”
نہ چاہتے ہوئے بھی اُنکے پاؤں پکڑ کر بیٹھی تھی
"ہیں کیوں نہ مانگو اتنی دیر جو تمہارے اوپر ہم نے اپنی کمائی لگائی تمہاری وجہ سے میری بیٹیاں بوڑھی ہونگی اُن کو کوئی اچھا رشتا نہیں ملا ہر کوئی تمہارے( پتہ نہیں جائز ہے یا ناجائز ) کے بارے میں سوال کرتا تھا وہ تو میرا ہی صبر تھا تو تجھ جیسی نہ مراد کو پلے سے باندھ کر رکھا ”
صلواتیں شروع ہوچکی تھیں لیکن اب مہر کو عادت تھی اپنے بارے میں یہ سب سنے کی۔
"امی نہیں میں بعد میں دونگی نہ وعدہ لیکن مانگنا مت”
اب پاؤں پکڑ کر بیٹھ گئی تھی تو اُسکی ماں نے جانے کا اشارہ کیا
وہ کیسے یہ گھٹیا حرکت دامل جیسے انسان کے ساتھ کرنے دے سکتی تھی اُسے ڈر تھا کہ وہ یہ نہ سوچے کے وہ پیسے کے لالچ میں اُسکی محبت کا مذاق بنایا تھا یہ سوچ کر ایک مرتبہ دل کانپ جاتا تھا
"شکر ہے خود ہی کوئی ڈھونڈ لیا اب اِس جیسی کالی کلوٹی لڑکی جو کسی طرف سے بھی پیاری نہیں کون کرتا اس سے شادی ۔۔۔اب پتہ نہیں کس کے نصیب پھوٹے ہیں ۔۔۔ہوگا کوئی عقل اور آنکھوں سے فارغ انسان ۔۔۔۔۔۔خود چاہے پاس پھوٹی کوڑی نہ ہو اِس کے پیسے کیا دے گا مجھے تو پہلے سے ہی یہ لڑکی گھاٹے کا سودا ہی لگتی تھی
سوچتی ہوئی خود ہی مجوس ہوکر دال چھننے لگ گئی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
منظر آنکھوں کے سامنے بھگاتے جارہے تھے گاڑی اب گاؤں کے راستے سے باہر نکل کر شہر کی حدود میں داخل ہوچکی تھی ہر چیز دسترس سے باہر ہی لگی تھی نیلے آسمان پر ماجود بادل جو ایک نظر دیکھنے پر غائب ہوجاتے دل کا کوئی کونا بہت مجوس اور اُمید سے خالی تھا باہر دیکھنے کی یہی وجہ کہیں تو اُسے وہ نظر آئے جسے دیکھ کر نظروں کی پیاس بج سکے لیکن قسمت مہربان نہیں تھی
دو دن ہوگے تھے طالش کو گے ہوئے آنا تو دور کی بات ایک بار کال کرکے بھی نہیں پوچھا تھا کے وہ زندہ ہے یہ مر گی ہے
رُخسار نے ایک ظلم انسان ہونے کا پورا فرض ادا کیا تھا سارا دن اُس سے گھر کا کام کرواتی کچن کا سارا کام بھی وہی کرتی تھی اور پھر اُسکے بنائے ہوئے کھانوں کو سب کے سامنے رد کر دینا رات کو دو دو گھنٹے تک اُس سے اپنے پاؤں دباتی اور الصبح ہی اُسے اُٹھا دیتی پاؤں کی چُوٹ اب بڑھ چُکی تھی پانی میں پاؤں ڈالنے کی وجہ سے پاؤں کافی حد تک سول ہوچکا تھا چلنے میں کافی مُشکِل پیش آتی لیکن اسکو ترس نہ آتا بلکہ دامل کو گھر آنے سے منع کر رکھا تھا کے گھر میں جوان بھابھی ماجود ہے لوگ کیا سوچیں گے
کھانے کے لیے کبھی پوچھا ہی نہیں اور کبھی خود کھانے کی جرت کر لیتی تو تھپڑ مارنے میں دیر نہ لگاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔جو نوکروں کی کھانے کے لیے ملتا وہی اُسکے آگے پھینک دیا تھا ۔۔۔یہ دو دن کس کرب سے گزرے تھے وہی جانتی تھی آنکھوں کے گرد گہرے ہلکے پڑے تھے رنگت زرد ہوگئی تھی دو دن میں ہی مرجھائی ہوئی کلی کی طرح ہوگئی تھی رات کو کتنی دیر وہ اسی آس کی وجہ سے نہیں سو پاتی تھی کہ وہ ائے گا تو انتظار نہ کرتا پا کر ناراض نہ ہوجائے لیکن وہ نہیں آتا تھا اور صبح بھی مجوسی ہی سامنا کرتی تھی
آج تو بخار کی وجہ سے بیہوش ہوگئی تو پتہ نہیں کیوں رحم آگیا تو دمل کے ساتھ شہر ڈاکٹر کو دکھانے بھیج دیا
اب عندلیب کی ضد کی وجہ سے ہی مہر کے گھر رشتا لے کر جارہے تھے کیوں کے دوبارہ تو رُخسار اُسے آنے نہیں دیتی
"دامل اپنے بھائی سے کہو نہ آجائے ”
آنکھوں سے ایک آنسو نکل کر گود میں گرا تو دامل نے بے بسی سے دیکھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...