(Last Updated On: )
جان رسکن
مترجم: سلیم آغا قزلباش
گھاس کا ایک پات لیجئے اور ایک منٹ کے لیے اس کی باریک تلوار ایسی بانسری نما سبز چھال کا بغور مشاہدہ کیجئے، اس میں آپ کو بظاہر کوئی اچھائی یا خوبصورتی نظر نہیں آئے گی۔ اس میں آپ کو نہایت معمولی استقامت اور نہایت ادنیٰ قد و قامت ملے گا اور چند نازک لمبی لکیریں ایک نقطے پر مرتکز ہوتی دکھائی دیں گی… یہ نقطہ ایک مکمل نقطہ نہیں ہو گا بلکہ کند اور نامکمل نظر آئے گا جو فطرت کی صناعی کا کوئی قابل قدر یا بظاہر قابل توجہ نمونہ نہیں ہو گا۔ یوں لگے گا جیسے یہ اس غرض سے تخلیق کیا گیا ہے کہ اسے آج بھی قدموں تلے روندا جائے اور کل بھی اور پھر اسے تنور میں جھونک دیا جائے۔ یہ پات ایک زرد رنگ کا اندر سے کھوکھلا ڈنٹھل ہوتا ہے، کمزور اور چپٹاساجو اس کی ریشہ دار ہلکے بھورے رنگ کی جڑوں تک اترا نظر آتا ہے اور اس کے باوجود اس کے بارے میں بغور سوچیں اور فیصلہ کریں کہ وہ تمام چمکدار پھول جو موسم گرما کی فضا میں دمکتے ہیں اور وہ تمام تنو مند اور خوش اندام شجر جو آنکھوں کو طراوت بخشتے یا غذا مہیا کرتے ہیں۔ مثلاً سرو قد پام اور صنوبر، تنویر مند ایش اور شاہ بلوط، خوشبو دار گلگل اور لدی پھندی انگور کی بیل… کیا ان میں کوئی ایسا بھی ہے جس سے انسان نے اتنی محبت اور خدا نے جس کی اتنی قدر کی ہو جتنی کہ ایک ہلکے سبز رنگ کے اس مختصر سے نقطے کی (یعنی گھاس کے پات کی)۔ میرے نزدیک یہ بات خاص اہمیت کی حامل ہے کہ ہمارا خداوند جب معجزہ دکھانے کو تھا تو یوں لگتا ہے جیسے لوگوں کے جم غفیر کے لیے اس کے پاس سب سے زیادہ متاثر کن ’روٹیوں والا معجزہ‘ تھا… اس نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ ٹکڑیوں کی صورت میں ’سبز گھاس کے اوپر‘ بیٹھ جائیں۔ وہ در اصل انھیں بحر و بر کی بنیادی غذا عطا کرنے والا تھا یعنی انسانی غذا کا سادہ ترین نمونہ! اس نے انھیں جڑی بوٹی کا بیج عطا کیا، انھیں اس جڑی بوٹی کے اوپر بیٹھنے کا حکم صادر فرمایا جو ان کی خوشی اور آرام کے لیے اپنی موزونیت کی بنا پر اتنا ہی بڑا انعام تھا جتنا کہ اس کا پھل ان کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے تھا! چنانچہ یہ اکلوتا حکم اور عمل پوری طرح سمجھ میں آ گیا کہ کس طرح خداوند نے ہر کہہ و مہ کی آسودگی، تشفی اور غذا کے معاملے کو روئے زمین کی جملہ پتوں والی انواع میں سے اس سادہ ترین اور بظاہر سب سے حقیر شے کو مرحمت فرمایا تھا اور پھر اس نے اپنے مقصد کو بخوبی پایۂ تکمیل تک پہنچایا بھی تھا۔ اس پر غور کیجئے کہ ہم اس چراگاہ کے کس قدر دست نگر ہیں اور اس سیاہ زمین پر پھیلی ہوئی چمک دار تہہ کے انگنت نازک اور امن پسند نیزوں یعنی گھاس کے بھی! ’یہ کھیت!‘ لحظہ بھر کے لیے اس سب کچھ کا خیال کیجئے، جسے ہمیں ان دو لفظوں میں پہچان لینا چاہیے تھا۔ ساری کی ساری بہار اور گرمی ان میں موجود ہے … خاموش خوشبو دار راستوں پر سیر… دوپہر کی تپش میں استراحت، گایوں، بھیڑوں کے ریوڑوں کو دیکھ کر خوشی … چرواہوں کے اسلوب حیات کی قوت اور استغراق… اس دنیا پر اترنے والی زمردیں دھاریوں کے نیلے سایوں کی صورت میں خورشید کی ضو (جس نے ہر کہیں سیاہ خاک یا جھلسانے والی گرد کو روک رکھا تھا)… رواں دواں سبک رفتار ندیوں کے ساتھ ساتھ چراگاہیں … کوتاہ قد پہاڑیاں اور نازک کنارے … نیچے کے ترچھے ڈھلانوں کے اوپر اٹھی ہوئی سمندر کی نیلی لکیر… تازہ سبزہ زار، صبح کی شبنم پاشی سے دھندلائے ہوئے، یا نیم گرم شام کو رکی ہوئی سورج کی روشنی میں نرم و گداز، مستی بھرے قدموں سے سلوٹ زدہ … جو محبت بھری آوازوں کو ملائم کر دیتے ہیں … ان سب کا لب لباب ان دو سادہ الفاظ میں موجود ہے، اور یہی سبھی کچھ نہیں ہے، ہم اپنی ہی سرزمین پر رستے بستے ہوئے اس سماوی انعام کی وقعت کا پورے طور پر اندازہ نہیں لگا سکتے۔ پھر بھی اگر ہم اس چراگاہ کی خوشبو دار لا محدودیت پر ذرا سی دیر کے لیے غور کر لیں تو شیکسپیئر والا مخصوص خط ہم پر زیادہ آشکار ہو جائے گا۔ ہرچند کہ قاشوں کی شکل میں ملے گا۔ بہار کے موسم میں ان چراگاہوں میں نکل جاؤ، جن کی ڈھلانیں سوئزرلینڈ ایسی جھیلوں کے کناروں سے لے کر پہاڑیوں کی زیریں جڑوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ جہاں دراز قد gentians اور سفید رنگ نرگس میں خط ملط ہو کر گھاس زیادہ گھنی اور فراواں صورت میں اگتی ہے؟ اور جب تم بل کھاتی پہاڑی پگڈنڈیوں پر محراب دار شگوفوں سے لدی شاخوں کے نیچے سے گزرو… یعنی ان پگڈنڈیوں پر جو سدا سے سبز ساحلوں کے کناروں اور ٹیلوں پرسے ابھرتی اور ڈوبتی ہوئی نشیب کی معطر لہریلی ڈھلانوں سے لے کر نیلے پانیوں تک پھیلی ہوتی ہیں اور جن پر یہاں وہاں تازہ تازہ کٹی ہوئی گھاس کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں جو ساری فضا کو مسحور کن مٹھاس سے لبریز کر دیتے ہیں … تو تم بلند پہاڑیوں کی جانب نگاہ اٹھا دیکھنا جہاں ہمہ وقت ہرے بھرے سبزے کی لہریں صنوبر کے سایوں کے درمیان اپنے طویل ناکوں سے گزرتی ہوئی خاموشی سے جھوم رہی ہوتی ہیں۔ تب ہم شاید بالآخر انجیل کے ۱۴۷نمبر کے گیت کے ان پر سکون الفاظ کے مطلب کو جان لیں کہ ’’اس نے گھاس کو تخلیق کیا کہ وہ پہاڑیوں کے اوپر اگے۔‘‘
اس موضوع سے منسلک اور بھی متعدد سبق ہیں، جنھیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے مثلاً دیکھئے کہ گھاس کی نرالی خصوصیات جو اسے خدمت خلق کے لیے موزوں قرار دیتی ہیں۔ عجز اور زندہ دلی میں! اس کی عاجزی اس بات میں ہے کہ اسے حقیر ترین خدمات کی بجا آوری کے لیے خلق کیا گیا ہے … یعنی پامال کیے جانے اور بطور چارہ استعمال کیے جانے کے لیے! گھاس کی زندہ دلی اس بات میں ہے کہ یہ ہر نوع کے تشدد اور اذیت کے دوران بھی خوش باش رہتی ہے۔ آپ اس پر بیلن پھیر دیں تو یہ اگلے روز پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے۔ آپ اسے کاٹ دیں تو یہ اپنی شاخوں کو فزوں تر کر لیتی ہے جیسے گویا آپ کی احسان مند ہو۔ آپ اسے پاؤں تلے روندیں تو یہ تیز تر مہک دیتی ہے۔ موسم بہار کی آمد پر یہ ساری دھرتی کے ساتھ مل کر جشن مناتی ہے … پھولوں کے بوقلموں شعلوں کے ساتھ تمتماتے ہوئے اور اپنی ثمر دار قوت کی نرم گہرائی میں لہراتے ہوئے۔ جب موسم سرما آتا ہے تو بھی یہ بدستور اگتی رہتی ہے مگر یہ اپنی روئیدگی سے اپنے ساتھی پودوں کا مذاق نہیں اڑاتی۔ یہ ان کی طرح سوکھ کر بے رنگ یا بے پات بھی نہیں ہوتی، بلکہ سدا ہری بھری رہتی ہے اور سفید بالوں والے کہرے کو خوش آمدید کہنے کے لیے مزید تاباں اور شاداں ہستی بن جاتی ہے۔
٭٭٭
تشکر: محمد اسد اللہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید