(Last Updated On: )
گھروندے ریت کے آب رواں پر جو بناتے ہیں
ڈبو کر ساری دنیا کو وہ خود بھی ڈوب جاتے ہیں
وہ ریزے سنگ کے سورج کو جو آنکھیں دکھاتے ہیں
انہیں راتوں کے سائے اپنی آنکھوں پر بٹھاتے ہیں
گلا ترک تعلق کا محبت میں نہیں واجب
بہت نازک جو ہوتے ہیں وہ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں
وہ ماضی کے امانت دار ہیں، فردا کے پیغمبر
نئی تعمیر جو بنیادِ کہنہ پر اُٹھاتے ہیں
نکالے تیرے دیوانوں نے پر پرزے خدا حافظ
ستاروں پر کمندیں پھینکتے ہیں، گرد اُڑاتے ہیں
یہ رازِ عشق بھی ہے نا شگفتہ پھول کی خوشبو
کوئی ہم سے چھپاتا ہے، کسی سے ہم چھپاتے ہیں
نفس کی آمد و شد کا ہے اب دار و مدار ان پر
خنک جھونکے ہوا کے جو دریچوں سے در آتے ہیں
ہوئی مدت کسی نے کر لیا زیرِ قدم لیکن
ضیا، ہم آسماں کو آج بھی سر پر اُٹھاتے ہیں
٭٭٭