"قاسم یار جلدی کرو پتہ کرو یہ نمبر کس اریا کا ہے”
مسلسل اپنے دوستوں سے فون پر رابطہ میں تھا لیکن ابھی تو نمبر ٹیراس نہیں ہوسکا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکنیں متواتر بڑھ رہیں تھیں
پھر سے فون آیا تھا نمبر کی لوکشن معلوم ہوچکی تھی اور طالش کا دل تھا کے ایک سیکنڈ میں پر لگا کر دیب تک چلا جائے ریش ڈراوئنگ کرتے ہوئے متوقع جگہ پر پہنچا جہاں دیب کا دور دور تک نشان نہیں تھا
وہ ڈابہ نما کمرہ تھا لیکن خالی جیسے پرسوں سے یہاں کوئی آیا ہی نہ ہی اور باہر سے تالا لگا ہوا تھا اب گٹھنوں کے بل بیٹھ کر سر اپنے ہاتھوں میں گرا لیا
"اللہ میری مدد کر ”
دل سے اہ نکلی کیوں کے جیتنا وہ خود کر سکتا تھا کیا تھا لیکن دیب نہیں ملی تھی
اچانک سے کسی کے سسکنے کی آواز کانوں میں پڑی تو سارا وجود پل میں کان بن گیا لیکن سمجھ نہیں آئی تھی آواز کہاں سے آرہی ہے
"دیب ۔۔۔۔۔۔۔۔دیب”
انتہائی اونچی آواز میں چلایا اور چاروں طرف کو دیکھا لیکن اگلی طرف سے جواب ندید تھا
ذہن میں کچھ کلک ہوا تو اُسی کمرہ کی پچھلی سائڈ کی طرف تیز قدم اٹھاتا ہوا گیا اور سامنے دیوار کے ساتھ لگی دیب جس کے سر سے خون بہہ رہا تھا ہوش و خرد سے بیگانہ پڑی تھی
"دیب میری جان ادھر دیکھو ”
پاس جاکر اُسکے چہرے کو تپتھپا لیکن اُسکو چھونا برف پر ہاتھ رکھنے کے برابر تھا اتنی سردی میں صرف ایک باریک سے شال جو سردی روکنے سے قصر جسم جیسے برف میں لگا ہو جلدی سے اُسے اپنے بازوں میں بھرا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر اُسے تقریباً لیٹا دیا اپنی جیکٹ اُترا کر اُسکے شانوں پر ڈالی پھرتی سے آگے آکر ہیٹر فل سپیڈ پر کیا ایک نظر اُسے دیکھا جس کا ہاتھ پیٹ پر تھا شاید بیہوش ہونے سی پہلے اُسے شدید درد تھا لیکن یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کے سر پر چوٹ کیسے لگی ہے
نزدیک ہی ایک چھوٹا سا ہاسپٹل تھا وہاں جانے کا اردہ تھا کیوں کہ وہ نہ ہی اپنی بیوی اور نہ بچہ کو کھونے کا حوصلہ رکھتا تھا
"سوری دیب مجھے نہیں پتہ کیوں لیکن میں تمہاری ہر بار حفاظت کرنے میں ناکام ہوجاتا ہوں”
صدمے سے دل میں سوچا
وہ کوئی فلم یہ ڈراما کا ہیرو تھوڑی نہ تھا جو عین موقعہ واردات پر پہنچ کر کُچھ غلط ہونے سے پہلے ہی بچا لیتا
جو بھی تھا اتنا یقین ہوگیا تھا کہ غلط عورت کی چال مضبوط سے مضبوط انسان کو بھی اُسکے عشق کے فرائض سے ڈگمگا سکتی ہے
اور یہی ثابت ہورہا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
نور کو اپنے سینے پر لیٹے بازل پتہ نہیں کونسی راز و نیاز کی باتیں سنا رہا تھا جس وہ بہت ہی خاموشی سے سن رہی تھی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ لوگ فرانس آئے تھے اور مایا کو لگا تھا اِس انسان کو سمجھا کسی کے بس کی بات نہیں
ابھی بھی صوفے اور بیٹھی لیپ ٹاپ پر نوین کا میل اکاؤنٹ ڈھونڈ رہی تھی جو مل ہی نہیں رہا تھا اور ایک نظر بازل کو نور کو دیکھ لیتی جو تھوڑی دور بیڈ پر ماجود تھے بازل کا ایک ہاتھ جو اُسے نظر آیا تھا اُس پر ایک بینڈ سا بندھا ہوا تھا اور جس دن سے اُسے دیکھ رہی تھی وہ بینڈ اپنی جگہ سے نہیں ہٹا تھا شاید کوئی جدید تحقیق کا آلہ تھا لیکن مایا کی نظریں بار بار اُس پر ہی جاکر ٹھہرتی تھیں اُسکی سپید کلائیوں پر جیتنا وہ بلیک بینڈ ججتا تھا مایا کو اتنا ہی زہر لگتا تھا
"مام۔۔۔۔ ائی”
ابھی ان ہی سوچوں میں مصروف تھی جب نور نے اُسے مخاطب کیا تو نظریں اُٹھا کر دیکھا بازل شاہ سو چکا تھا تبی نور کو اُسکی یاد آئی جو اب ہاتھ ہلا کر اپنے پاس بولا رہی تھی
"پتہ نہیں کیا سمجھ رکھا ہے دونوں باپ بیٹی نے مجھے مجال ہے جو اپنی مرضی سے کہیں بیٹھنے بھی دیں”
یہ سب فتور تب سے تھا جب نور زبردستی اُسے اپنے باپ کے کمرے میں لےکر آئی تھی
"پتہ نہیں میری محنت سے اس فراڈ انسان نے کیا کیے ہونا میرے تو ہاتھ پاؤں ہی بندھ رکھے ہیں لیکن بہت جلد میں تمہارے چُنگل سے نکل جاؤں گی ”
اپنی فائل یاد آنے پر دل ہی دل میں اُسے کوسنے لگی کیا تھا اب اُسکے پاس نہ نکاح نما نہ شرائط نامہ نہ ہو اپنی فائلز جو مغل کو برباد کرنے کے لیے کافی تھیں
اچانک نظر نور پر پڑی جو مایا کا اپنی طرف دھیان نہیں ہونے کی وجہ سے اپنا نچلا ہونٹ باہر نکالے رونے کی تیاریوں میں تھی
سارا غُصہ ایک سیکنڈ میں غائب ہوا تھی ہی اتنی پیاری اُس پر کون غُصہ کر سکتا تھا
"نورِ ایماں ”
اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر غریب آگئی بس بیڈ سے دو قدم دور تھی
اب نور باقاعدہ اُسے بیڈ پر ہاتھ مار کر بیٹھنے کا کہہ رہی تھی جبکہ خود ابھی بھی بازل کے چوڑے سینے پر ماجود تھی ایک ہاتھ نازل کے بالوں پر تھا لیکن چھوٹے ہونے کی وجہ سے ہر منٹ بعد چھوٹ جاتے تھے
"نور آجاؤ ہم باہر کھیلیں گے”
ہاتھ بڑھا کر اُسے اٹھنا چاہا لیکن آگے شاید بھول رہی تھی کے بازل شاہ کی بیٹی تھی جو بس اپنی منوانا جانتا تھا
نور نے سر نہ میں ہلایا تو مشکل سے مایا کنارے پر بیٹھ گئی پست بازل کی جانب تھی جانے اُسے کیوں لگ رہا تھا کے وہ سو نہیں رہا لیکن اُسکی سانس لینے کی رفتار سے یہی ظاہر تھا کے وہ گہری نیند میں ہے بیٹھی سامنے دیوار کو دیکھا رہی تھی اب اتنا تو نہیں کر سکتی تھی کے بازل کے سینے پر ماجود اُسکی بیٹی کو کھیلا سکے یہ تو انا کا مسئلہ تھا
یکدم سے نورنے اپنے پورے زور سے اُسے بال کھنچے تو سنبھلنے کا موقع ملے بغیر ہی پیچھے کی طرف گری تو سر پوری زور سے بازل کے شانے سے ٹکرایا
اب منظر یہ تھا کہ نیچے بازل اُسکے اوپر نور جبکہ اُسکے کندھے اور بازو پر مایا تھی
یکدم سے دھڑکنوں کا شور پورے کمرے میں گونجا لیکن یہ دھڑکنیں بس مایا کی ہی نہیں تھی ان میں کوئی بھی دھڑک رہا تھا جس سے مایا بےخبر تھی اِس سے پہلے کے وہ اُٹھتی نُور میڈم بہت سکون سے بازل کے سینے سے مایا تک کر سفر کر چکی تھی مایا کے پیٹ پر بیٹھی آگے کی طرف جُھک کر اُسکے گال پر گیلا سا پیار کا اظہار کر رہی تھی اور ساتھ ہی اُسکی کلکاریاں پورے کمرے میں گونج رہی تھیں
مایا کنگ تھی کے اتنا وزن یکدم اپنے اوپر آنے پر بھی وہ چالاک انسان گہری نیند کیوں سو رہا ہے یہ تو مردوں سے شرط لگا کر لیٹا ہے یہ پھر خود مُردوں میں شمار ہو چکا ہے
"دونوں میرا قیمہ بنا دو”
با آواز بولی تو نور کی قلقاری ایسے گونجی جیسے وہ اُسکا مطلب سمجھ گی ہو
بازل نے کروٹ لی تو مایا اُسکے شانے سے بازو پر آگئی نور اُس کے گلے میں بازو ڈالے اُسکے اوپر لیٹی ہوئی تھی جبکہ بازل شاید مایا کو نور سمجھ کر دوسرا بازو اُسے کے گرد حائل کر چُکے تھا
اُسکی اس حرکت پر مایا کا دل کیا پسٹل سے گولی مار دے یا پھر زہر دے دے اس چھچھورے انسان کو دن میں تو اسکو ہاتھ نہ لگانے کی قسمیں کھاتا ہے اور اب ایسے پھیل رہا ہے جیسے اُسکی جاگیر ہو
"بیغرت انسان ہٹو پیچھے”
اب ہمت جواب دے گئی تو غریائی
"مام”
نور اب اپنے ہاتھوں سے اُسکے گال کھینچ رہی تھی ساتھ ساتھ سمائیل بھی دے رہی تھی سیدھی بات پورا مسکا لگا رہی تھی کے وہ یہاں سے نہ ہلے
اب غُصہ سے نور کو پیچھے کیا اور خود تھوڑی سی سیدھی ہوئی تو ایک ہاتھ آناً فنانّ ہی بازل کے دل کے مقام پر لگا تو اُسکی دھڑکنیں تو آسمان کو چھو رہی تھی کسی خیال کے تحت پہلے مرتبہ غور سے اُسکا چہرہ دیکھا کُچھ شانشہ سا تھا جیسے وہ پہلے بھی یہ نقوش دیکھ چُکی ہو لیکن نہیں اتنا مغرور انسان اُسکی زندگی میں کہیں نہیں تھا
کافی دیر اُسی سمت بیٹھی دیکھتی رہی اتنا خوبصورت مرد پہلے تو کبھی نہیں دیکھا تھا کتنا مکمل سا انسان تھا مایا کی دھڑکنیں خود با خود تیز ہورہیں تھیں غیر ارادہیں طور پر اُسکے ہاتھ بازل کے بالوں تک گے جو ابھی بھی ماتھے پر اپنی حکمرانی جمائے ہوئے تھے
"بابا ”
پیچھے سے نور کی چیخ سنائی دی تو ہوش کی دُنیا میں واپس آئی اور فوراً پیچھے مڑی نور بیڈ سے نیچے گر گئی تھی
"میری جان ”
اِس سے پہلے مایا اُسے اٹھاتی بازل اُسے ایک جھٹکے سے اُٹھ کر اپنے بازوں میں بھر چُکا تھا
آنکھیں ایک سیکنڈ میں لال انگارے جیسی ہوچکیں تھی
حیرت کی بات یہ تھی وہ کچھ کہے بغیر بھاگ کر نور کو باہر لے گیا
مایا کو ڈھیروں شرمندگی نے آن گھیرا اُسکی وجہ سے نور کو چوٹ لگ کیا ہوتا اگر دو منٹ اور اُسکا بازو اپنے گرد برداشت کی لیتی
ابھی اسی ٹنشن میں گھوم رہی سمجھ نہیں آرہا تھا کے باہر کیسے جائے ایک چیز اُسنے نوٹ کی تھی کے نور کو ڈاکٹر پاس لئے جانے کے لیے دو گاڑیاں گیں تھی ایک میں بس بازل دوسری میں بیا
"خیر امیر لوگوں کی چونچلے”
یہ بات کہہ کر اپنے وہموں سے جان چھڑائی لیکن اب کافی دیر ہوگئی تھی اُن لوگوں کو واپس ائے نور کے کھیلنے کے آوازیں تو آرہیں تھی لیکن وہ اُسے پکار کیوں نہیں رہی تھی یہ بازل کدھر تھا ابھی انہیں سوچیں میں گھوم رہی تھی جب دروازہ کھولا
تو سامنے اب وہ براؤن انکھوں میں غضب لیے کھڑا تھا سیاہ رنگ کی قمیض شلوار جس کے بازو کہنیوں تو فلوڈ کر رکھے تھے اتنا تو پتہ تھا کہ یہ انسان یہ لباس بہت کم ہی پہنتا ہے لیکن جب پہنتا ہے تو غضب ہی ڈھتا ہے
"مس مایا شیخ اگر تم بچی کو سنبھال نہیں سکتی تو کیوں اُسے اپنی طرف متوجہ کرتی ہو پتہ ہے تمہاری وجہ سے آج میری بیٹی کے پہلی بار چوٹ لگی ہے”
اب اُسے بازو سے پکڑ کر غرا رہا تھا مایا نے اُسکی اتنی اونچی آواز پر کانوں پے ہاتھ رکھے
"مسٹر بچے گرتے ہی ہوتے ہیں نور کو جان بوجھ کر نہیں گرایا ”
آگے سے اُس جتنی ہی آواز میں چلائی
"لوگوں کے بچے گرتے ہونگے وہ میری بیٹی ہے بازل شاہ کی جو کبھی نہ گر سکتی ہے نہ گرائی جاسکتی ہے ۔۔۔”
اب اُسے بیڈ پر دھکا دے چُکا تھا
"ایک اور بات اب تم دور ہی رہنا میں نہیں چاہتا کسی فالتو انسان کی وجہ سے میری بیٹی کی آنکھوں میں ایک بھی آنسو ائے”
مایا کو سخت چھوڑ کر چلا گیا تھا جبکہ مایا اُس انسان کے غرور کی انتہا دیکھ رہی تھی
"کاش میرا باپ بھی ہوتا تو تم سے اپنی بیٹی کے آنسوؤں کا بدلہ لیتا بازل شاہ”
بے دردی سے اپنے گال رگھڑے آواز اتنی اونچی تھی کے باہر سے سنا جا سکتا تھا بس وہیں لیٹی چھت کو گھورتی رہی جہاں تک کے نیند نے اُسے دُکھوں سے دور لے گئی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...