سمجھ نہیں آتا یہ اچانک سے کیسے ہوگیا۔۔۔
علی صاحب فکر مندی سے بولے۔۔۔
وہ سارے ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھے رات والے واقعے پر غوروفکر کر رہے تھے۔۔۔
رات کو سحر کے زور زور سے دروازہ بجانے پر علی اور سدرہ دونوں ہی گھبرا گئے تھے۔۔۔
سحر کی حالت دیکھ کر وہ ایک دم پریشان ہوگئے تھے۔۔۔
فق چہرہ اور آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو۔۔۔۔!
وہ کچھ کہے بغیر بس انہیں عالم کے کمرے کی طرف جانے کا اشارہ کر رہی تھی۔۔۔
جہاں سے آتے دھویں کی ناگوار خوشبو نے انکے اوسان خطا کر دئے تھے۔۔۔
ایک لمحے کی دیری کے بغیر وہ اسکی طرف لپکے تھے۔۔۔
السلام و علیکم۔۔۔۔!
شام نے چابیاں ٹیبل پر اچھالیں۔۔۔ اور صوفے پر نیم دراز ہوگیا۔۔۔
سحر ایک گلاس پانی لے آؤ۔۔۔
اسنے عافیہ بیگم کے ساتھ بیٹھی سحر کو۔دیکھ کر کہا۔۔۔
جو جوابا مسکرا کر پانی لانے کے لئے اٹھی۔۔۔
علی صاحب نے شام کو گھورا۔۔۔
سدرہ آپ جائیں عالم کے لئے پانی لے کر آئیں۔۔۔
اور سحر بیٹی آپ کمرے میں جاؤ۔۔۔
ریسٹ کرو۔۔۔
انہوں نے سحر کو کہا۔۔۔
جس کے چہرے کی مسکراہٹ پھیکی پڑ گئی تھی۔۔۔
ضرور بابا کو اپنی رسم یاد آ گئی ہوگی۔۔
شام نے دانت پیستے ہوئے سوچا۔۔۔
ہاں عالم بیٹا۔۔؟
کام ہوا۔۔۔۔؟ کب تک وہ اپنے مزدور بھیجیں گے۔۔۔؟
وہ کمرے کی مرمت اور نیا سامان لانے کا پوچھ رہے تھے۔۔۔
جی بابا۔۔۔آج شام تک پہنچ جائیں گے۔۔۔۔
اور فرنیچر میں نے آرڈر کر دیا ہے۔۔۔
اسنے گلاس تھام کر لبوں سے لگا لیا۔۔۔۔
ہمم۔۔۔گڈ۔۔۔!
انہیں کہو۔۔۔ہمیں دو تین دن میں کام مکمّل کروانا ہے ۔۔۔۔ یاد رکھیں۔۔۔۔
جی جی بابا۔۔۔ بے فکر رہیں۔۔۔۔
مما کھانا لگا دیں بہت بھوک لگی ہے۔۔۔۔
علی صاحب کو مطمئن کر کہ وہ سدرہ بیگم سے بولا۔۔۔
اور عافیہ بیگم سے پیار لیتا کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
لات مار کر اس نے دروازہ کھولا۔۔۔
اندر دھول مٹی نے اسکا استقبال کیا۔۔۔
چہرہ کالے کپڑے سے چھپاۓ وہ اندر داخل ہوا۔۔۔۔
اسکے چہرےپر فتح کے غرور کا سمندر ٹھاٹھے مار رہا تھا۔۔۔۔
اس کمرے میں بھینی بھینی سی خوشبو آج بھی تازہ تھی۔۔۔۔
گہری سانس لے کر اسنے اس خوشبو کو خود میں اتارا۔۔۔۔
چچ۔۔۔چچ۔۔اسنے ہاتھ جھاڑتے ہوئے افسوس سے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
کیا فائدہ اس پاکیزگی کا مورے۔۔۔ جو آپکو موت سے بھی نا بچا سکی۔۔۔۔
اسنے جھک کر اس جمے ہوئے خون پر ہاتھ پھیرا۔۔۔۔
جو مورے کے ماتھے پر چوٹ لگنے کی وجہ سے نکلا تھا۔۔۔۔
جب وہ بستر سے نیچے گری تھیں۔۔۔۔
آپکو مارنے کا افسوس آج بھی ہے۔۔۔۔
اسنے خلا میں گھورتے ہوئے کہا۔۔۔۔
وہ چاہ کر بھی یہ سب بھول نہیں پاتا تھا۔۔۔۔
بس انا اور بے حسی کا خول خود پر چڑھاۓ وہ خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی کوشش کرتا تھا۔۔۔
در حقیقت وہ مورے کو مار کر ایک لمحہ بھی چین نہیں پا سکا تھا۔۔۔۔
دماغ میں آتے سگنل پر وہ چونکا۔۔۔۔
اسے سحر کی شام کے ساتھ جاگتی محبّت کو بھی ٹھکانے لگانا تھا۔۔۔۔
جو زیادہ مشکل نہیں تھا۔۔۔۔
چہرے پر دلکش مسکراہٹ لئے وہ انگلی میں پہنی رنگ کو بار بار گھما رہی تھی۔۔۔
شام کا وہ نرم گرم اندر۔۔۔ وہ خوبصورت انداز میں اسے اپنی محبّت کا یقین دلانا …
یہ سب بہت دل فریب تھا۔۔۔
مسکراتے ہوئے وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی۔۔۔
اسے اپنے خیالات سے بھی شرم آ رہی تھی۔۔۔
شام کا سامنا کرنے کا خیال دل کو دھڑکا دیتا تھا۔۔۔۔
واہ بھئ واہ۔۔
نئی محبتوں کے ملنے کی اتنی خوشی ہے کہ
ماں کی موت کا درد اور صدمہ اتنی جلدی ختم ہوگیا ۔۔۔۔
آواز پر چونک کر اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹایا۔۔۔۔
جہاں آہن تالی بجاتا طنزیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
آآ۔۔۔۔۔آہن۔۔۔
وہ ہکلا گئی۔۔۔
اور وہ بھی وہ محبتیں جن کے رنگ دکھنے میں تو بہت رنگین اور خوش نما ہیں۔۔۔
مگر انکی حقیقت رات کی سیاہی جیسی ہے۔۔۔۔
وہ بات کو جاری رکھتا ہوا بولا۔۔۔
کک
۔۔کیا مطلب۔۔۔۔؟
سحر پریشان ہوگئ۔۔۔
پتا نہیں وہ کونسا لمحہ ہونا تھا جب اسکی زندگی میں مکمل سکون آ جانا تھا۔۔۔
اب تو اسے دور دور تک ایسا نہیں لگتا تھا۔۔۔
مطلب یہ کہ تمہارا نام نہاد شوہر جو تمھارے ساتھ پیار کی کہانیاں پڑھ رہا ہے۔۔۔
ان کہانیوں کا انجام کس قدر برا ہے۔۔۔ تم کیا جانو۔۔۔
وہ اپنے انداز میں درد اور خوف لاتا ہوا بولا۔۔۔
پہیلیاں کیوں بجھوا رہے ہو آہن۔۔۔
سچ سچ بتاؤ کیا بات ہے۔۔۔۔
وہ پریشان ہوگئی۔۔۔۔
کیا بتاؤں سچ تمھیں۔۔۔؟
کیا تم نہیں جانتی۔۔۔ کہ حقیقت کیا ہے۔۔۔۔؟کیا تم نہیں جانتی کہ مورے کو تمھارے شوھر نے مارا ہے۔۔۔۔
یہ اس قدر جابر اور ظالم انسان ہے۔۔۔
اس نے میری ماں کو تڑپا تڑپا کر مارا۔۔۔
مجھے شاید یہ سب پتا نا چلتا۔۔۔
اگر مورے مجھے خواب میں آ کر اب یہ سب نا بتاتیں۔۔۔
اب وہ با قاعدہ آنسوؤں سے رو رہا تھا۔۔۔
سحر سانس روکے اسکی باتیں سنے گئی۔۔۔
مم۔۔۔ میں کیسے یقین کر لوں کہ یہ سب سس۔۔ سچ ہے۔۔۔ ؟
اسکی آواز لڑکھڑا گئی۔۔۔
جو خواب اسنے ابھی دیکھنا شروع ہی کئے تھے۔۔۔
ان ادھورے خوابوں کی کرچیاں اسے اپنی آنکھوں میں چبتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔
تو اب تم مجھ سے ثبوت مانگو گی۔۔۔
آہن ہنسا۔۔۔!
سحر کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گرا۔۔۔
تو ٹھیک ہے سحر بی بی۔۔۔
جا کر اس سے بات کرو۔۔۔وہ تمہیں دھتکار دے گا۔۔۔۔
وہ ایسا شخص ہے۔۔۔کہ تمھیں وقت گزاری کے لئے استعمال کرتا ہے۔۔۔
جب جی چاہا۔۔۔تم سے میٹھی باتیں کر کہ جی بہلا لیا۔۔۔ اور جب جی چاہا۔۔۔تمھیں پرے دھتکار دیا۔۔۔
کیا تمھیں مورے نے اسی لئے پال پوس کے بڑا کیا اتنی محبّت دی۔۔۔کہ اپنے دشمنوں کو محبّت دیتی بدلے میں ان سے ذلّت اور رسوائ کے تحفے لو۔۔۔
اب تمہاری مرضی ہے۔۔۔میری بات کا یقین کرو یا نا کرو ۔۔
میں چلتا ہوں۔۔۔
وہ اپنی طرف کا کام کر کہ پلٹ گیا۔۔۔
اسکے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔۔۔
سحر وہیں ساکت رہ گئی۔۔۔
کسی بت کی مانند۔۔۔!
اس نے کمرے میں جھانکا۔۔۔
جہاں شام صوفے پر بیٹھا پیر جھلاتا کانوں میں ہیڈ فون لگاے مگن تھا۔۔۔
بنا آہٹ کے وہ اسکی طرف بڑھی۔۔۔
دماغ میں آہن کی باتیں گونج رہی تھیں۔۔۔
وہ دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔ اب شام کا رویہ اسکے ساتھ کیسا ہے۔۔۔
کل رات کی طرح یا ہمیشہ جیسا۔۔۔
خاموشی سے وہ اسکے ساتھ جا کھڑی ہوئی۔۔۔
شام کو اسکی آمد کا پتا نہیں چلا تھا ۔۔
سحر نے اسکے چہرے پر نگاہ دوڑائ۔۔۔ جہاں اسے شدید تناؤ کی کیفیت دکھائی دی۔۔۔
شام۔۔۔۔!
اسنے پکارتے ہوۓ جھٹکے سے اسکے کانوں سے ہیڈ فونز کھینچے۔۔۔
شام نے ہڑبڑا کے اسے دیکھا۔۔۔
وہ اس وقت شدید ٹینشن میں تھا۔۔۔
اور سحر کا اسے اس طرح ڈرا دینا اسکے غصّے کو ہوا دے گیا۔۔۔
کیا تکلیف ہے۔۔۔۔؟
وہ نہایت ناگواری سے بولا۔۔۔
سحر کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔۔۔
کک۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔ وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔۔۔
اور گہرا سانس لے کر اپنی آنکھوں میں امڈتے نمکین پانیوں کو دھکیلا۔۔۔
تو میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔ جاؤ یہاں سے۔۔۔۔
ہیڈ فون کانوں پے لگاۓ وہ نہایت بدتمیزی سے بولا۔۔۔
سحر کچھ کہے بغیرتیزی سے بھاگ کر وہاں سے نکل گئی۔۔۔
آہن ٹھیک کہتا تھا۔۔۔۔
میں ہی بیوقوف تھی۔۔۔پاگل تھی۔۔جو اسکی میٹھی باتوں کے جال میں پھنس گئی۔۔۔
بند دروازے کو دیکھتے ہوئے وہ نم لہجے میں بڑبڑائ۔۔۔
شام پر بھی اسکے دل کے دروازے بنا آہٹ کے بند ہو گئے تھے۔۔۔
برتن دھو کر اس نے ٹاول سے ہاتھ خشک کئے۔۔۔
اور دودھ کا ڈبّا اٹھا کر ایک کپ دودھ ابلتے ہوئے قہوے میں ڈالا۔۔۔۔
اب چھوٹے موٹے کاموں میں وہ سدرہ بیگم کا ہاتھ انکے نا نا کرنے کے با وجود بٹا لیتی تھی۔۔۔
کل اسکا ولیمہ تھا۔۔۔ اس کے اندر کوئی جذبات جنم نہیں لے رہے تھے۔۔۔اپنے ان جذبات کو وہ دفن کر چکی تھی۔۔۔۔ جو شام کیلۓ اسکے دل میں پیدا ہونے لگے تھے
اپنے ادھورے خوابوں کو پورا کرنے کی خواہش بھی ادھوری رہ گئی تھی۔۔۔
آہن دوبارہ اس سے ملنے نہیں آیا تھا۔۔۔۔
وہ اسکے انتظار میں تھی۔۔۔وہ آتا تو وہ اسکے ساتھ یہاں سے چلی جاتی۔۔۔
اپنے گھر جا کر رہتی۔۔۔جہاں اس اور مورے کی پیاری یادیں تھیں۔۔۔جہاں اسکے دوست تھے۔۔۔
جہاں اسے کوئی غم نہیں ملنا تھا۔۔۔۔بس خوشیاں ہوتیں۔۔۔
وہ انہی سوچوں میں گم تھی۔۔۔
کہ شام کی آواز پر چونکی۔۔۔
چاۓ۔۔۔۔۔!؟
سحر نے چاۓ کی طرف نگاہ ڈالی۔۔۔۔
جو ابل ابل کر آدھے سے زیادہ سوکھ چکی تھی۔۔۔۔
شام کو اگنور کئے وہ اپنا کام کرنے لگی۔۔۔۔
ایک کپ ہمیں بھی مل سکتا ہے۔۔۔۔؟
وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔
وہ خاموشی سے اپنا کپ اٹھاۓ وہاں سے جانے لگی۔۔۔۔
سوری سحر میں اس دن بہت پریشان تھا۔۔۔۔اور غصّےمیں تمھارے ساتھ بہت برا کر گیا۔۔۔۔
وہ اسکا ہاتھ تھامے ندامت سے بولا۔۔۔۔
میں اب تمھارے جال میں نہیں پھنسنے والی۔۔۔
وہ نفرت سے اپنا ہاتھ جھٹکے سے چھڑواتی ہوئی بولی۔۔۔۔۔
اور تیزی سے وہاں سے چلی گئی۔۔۔
شام اسکی بات سن کر حیران رہ گیا۔۔۔۔
یہ جال میں پھنسنے والی بات وہ کیا کر رہی تھی۔۔۔۔
بیوٹیشن نے اسکے میک اپ کو آخری ٹچ دیا۔۔۔
اور پیچھے ہو کر اسکا مکمّل جائزہ لیا۔۔۔
پنک شرٹ اور نیچے بھاری کام والا سکن شرارہ زیب تن کۓ گہرے سیاہ کرلی بال اور نفیس سے میک اپ نے اسکے حسن کو چار چاند لگا دئے تھے۔۔۔۔
واؤ۔۔۔ یو آر لکنگ سو پریٹی۔۔۔۔!
وہ ستائشی لہجے میں بولی۔ ۔
سحر بنا جواب سپاٹ چہرے کے ساتھ بیٹھی رہی۔۔۔
اسی اثنا میں سدرہ بیگم عافیہ بیگم کی وہیل چیئر گھسیٹتی ہوئ اندر آئیں۔۔۔
ماشاءاللّه۔۔۔!
ان دونوں کے منہ سے بے اختیار نکلا۔۔۔
میری شہزادی۔۔۔۔!
سدرہ بیگم نے جا کہ اسے چٹا چٹ چوم ڈالا۔۔۔
میم۔۔۔انکا میک اپ خراب ہو جائے گا۔۔۔
بیوٹیشن کی جان پے بن گئی۔۔۔۔
عافیہ بیگم نے دعائیں دیتے ہوئے اسکے ماتھا چوما۔۔۔
اور اسکے ہاتھوں میں گجرے پہناۓ۔۔۔
وہ بے تاثر نگاہوں سے یہ سب ہوتا دیکھتی رہی۔۔۔
چلیں۔۔۔ اب دلہن کو لے چلتے ہیں۔۔۔
اسے سدرہ بیگم کی آواز سنائی دی تھی۔۔۔
اور پھر سارا دن لوگوں کا شور عجیب سی رسمیں۔۔۔۔ اسکے پاس جا کر عجیب سے سوالات کرنا۔۔یہ سب کچھ سہتے ہوۓ گزرا تھا۔۔۔
بیٹا ڈرو مت۔۔۔۔ وہ تمہارا شوھر ہے۔۔۔ کوئی غیر نہیں۔۔۔ تمھیں کچھ نہیں کہے گا۔۔۔۔
سدرہ بیگم نے اسکا فق چہرہ دیکھ کر اسے دلاسا دینے کی کوشش کی۔۔۔۔ وہ اسکی حالت پر حیران تھیں۔۔۔ مگر اسکی حالت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔۔۔۔ اچھا بیٹھ جاؤ۔ اتنے بھاری جوڑے کے ساتھ کیسے کھڑی ہو۔۔۔۔ انہوں نے اسے بٹھانا چاہا۔۔۔ مگر وہ انکے ہاتھ جھٹک گئی۔۔۔ آنکھوں میں وہی اجنبیت تھی۔۔۔۔ مما آپ فکر نا کریں میں سنبھال لوں گا۔۔۔ دروازہ کھلنے اور شام کی آواز سن کر جیسے اسے کرنٹ لگا۔۔۔ خوف سے اسے سانس لینا تک بھول گیا تھا۔۔۔ سدرہ بیگم اسکے رویے پر آنسو چھپاتی وہاں سے چلی گئیں۔۔۔ شام دروازہ بند کر کہ اسکی طرف پلٹا۔۔۔ سحر کے قدم اسکو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر لڑکھڑا گئے تھے۔۔۔ اسکے انگ انگ سے خوف جھلک رہا تھا ۔۔۔۔۔
ڈر کیوں رہی ہو۔۔۔؟
شام نے اپنی چال برقرار رکھی۔۔۔۔
وہ دیوار سے جا لگی۔۔۔
شام نے دونوں ہاتھ اسکے ارد گرد دیوار پے ٹکاۓ۔۔۔
اور اسکی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔
اس دن تم نے میری محبّت کو قبول کر لیا تھا ۔۔
اور مجھے اپنی محبّت کا احساس بھی دلایا۔۔۔ تو پھر میں اس ڈر اور دور بھاگنے کو کیاسمجھوں۔۔۔۔۔
وہ اس سے سوال کر رہا تھا۔۔۔
“نفرت”
سحر نے ایک ہی لفظ میں اسکے سوال کا جواب دے دیا۔۔۔
اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے۔۔۔!
شام کو اسکی بات سن کر شاک لگا۔۔۔۔
وہ اسکے غصّے کا اتنا غلط مطلب لے لے گی۔۔۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔
نہیں۔۔۔ اس نے اپنے خیال کی نفی کی ۔۔
اسکو ضرور کسی نے بھڑکایا ہے۔۔۔۔۔
اور یہ نفرت کرنے کے لئے کس نے مجبور کیا۔۔۔؟
وہ اپنی آواز کو نیچا رکھتا ہوا بولا۔۔۔
سحر ایک لمحے کے لئے گڑبڑا گئی۔۔۔
وہ مورے کی طرح آہن کو بھی نہیں کھونا چاہتی تھی۔۔۔
کک۔۔کسی نے بھی نہیں۔۔۔
وہ با مشکل کہ پائی۔۔۔۔
سچ سچ بتاؤ مجھے۔۔
کون ہے ہمارے بیچ۔۔۔؟
اور جو تمھیں مجھ سے بدظن کرتا ہے۔۔۔
وہ اس پر دھاڑا۔۔۔
سحر کی آنکھوں میں آنسو جمع ہونا شروع ہوگئے۔۔۔
تمھارے اس رویے نے۔۔۔
تمہارا میری مورے کو مارنا۔۔۔
اور مجھے عرش پر بٹھا کہ ایک لمحے میں فرش پر پٹخ دینا۔۔۔۔
یہ ہے میری نفرت کی وجہ۔۔۔۔
وہ روتے ہوئے چلائ۔۔۔
حد ہوگئی تھی۔۔۔اب یہ سب برداشت سے باہر تھا۔۔۔
دیکھو سحر۔۔۔۔
شام اسکی غلط فہمی دور کرنا چاہتا تھا۔۔۔
کہ باہر سے آنے والی آوازوں پر وہ دونوں چونک گئے۔۔۔
دروازہ زور زور سے بجانے پر شام تیزی سے دروازے کی طرف بھاگا ۔۔۔۔
سامنے سدرہ بیگم پریشان کھڑی تھیں۔۔۔ انکے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔۔۔
عالم بیٹا جلدی کرو۔۔۔
عافیہ بھابی کو پھر آج دورہ ہوگیا ہے ۔۔۔
ہم نے کوشش کی ہے۔۔۔ مگر انکی حالت نہیں سنبھل رہی۔۔۔۔
جلدی کرو انہیں ہوسپٹل لے کر چلنا ہے۔۔۔۔
وہ شدید پریشانی سے بولیں۔۔۔۔
عافیہ بیگم کو مرگی کے دورے اکثر پڑا کرتے تھے۔۔۔ مگر علاج کے باعث اب وہ ٹھیک رہنے لگی تھیں۔۔۔ مگر اچانک۔۔۔۔! وہ گھبرا گیا۔۔۔
جی جی۔۔۔۔امی چلیں ۔۔میں گاڑی کی کیز اٹھا کہ لایا۔۔۔
وہ تیزی سے واپس پلٹا۔۔۔۔ ٹیبل سے کیز اٹھائیں۔۔۔
اور معذرت خواہ نگاہوں سے سحر کو دیکھتا تیزی سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔
پیچھے وہ اکیلی کھڑی رہ گئی۔۔۔
ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔
وہ ہنس ہنس کے بے حال ہوا جا رہا تھا۔۔۔۔
بیچارہ۔۔۔ شام اپنی شادی کی رات منانے جا رہا تھا۔۔۔
اور جانا پڑ گیا اس بڑھیا کو لے کر ہسپتال۔۔۔۔!
اسکے بھدے مزاح پر اسکے ساتھی مل کر قہقہے لگانے لگے۔۔۔
اس بڑھیا پر تو میرے اتنے عملوں کا بھی اثر نہیں ہو رہا تھا۔۔۔
بڑی مشکل سے اسکے گرد حصار باندھا۔۔۔۔
بس آہن یوں ہی عید تک لگن سے کام کرتا رہ۔۔۔
کامیابی خود ہمارا مقدّر بنے گی۔۔۔
شیطان اسے شاباش دے رہا تھا۔۔۔۔
جو حکم آقا۔۔۔
وہ سرشاری کے عالم میں جھکا۔۔۔
آقا نے اسکی پیٹھ تھپتھپا کر اسے شاباشی دی۔۔۔
اب بس انکو انکے صبر انتظار اور محنت کا پھل ملنے والا تھا۔۔۔۔
جسکا ذائقہ نہایت کڑوا ہونا تھا۔۔۔