بابا اسے کیو جانے دیا اسے پولیس کے حوالے کرنا چائے تھا وہ بہت بڑا چور لگ رہا تھا غلطی ہوئی اسکی ٹانگیں بھی توڑ دینی چائے تھی۔
بیٹا جوتے چرانے والا چور نئی مجبور ہوتاہے۔اسکے جوتے دیکھے تھے۔سارے پٹھے ہوئے تھے۔۔پیسے نئ ہونگے بیچارے کے پاس۔
ہا بیچارا۔۔۔۔۔۔۔۔آپ بھی نا ابو کمال کرتے ہو۔
گھر پہنچ کر اس لڑکی نے پرس کی جانب ہاتھ بڑھایا مگر پرس نہیں ملا وہ سمجھ گئی جب وہ اس چور کے پیچھے مارنے کیلئے تیزی س نکلی تھی تو وہاں گر گیا ہوگا ۔مگر اب وہاں جانا فضول ہے کیونکہ اس کمبخت نے اٹھا لیا ہوگا____
وہ سفر سے تھک چکی تھی اور اپنے کمرے میں جاکے سونے لگی۔۔۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اس کے گھر کا دروازہ کھٹکا ۔افروز اسکے ابو کا نام پوچھتے وہاں تک پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔
دروازہ پانچ سال کے بچے نے کھولا”’ آپ کون؟؟؟؟
جی یہ جہانزیب صاحب کا گھر ہے؟؟؟
جی انہی کا گھر کا ہے۔۔۔
یہ ان کی بیٹی کا پرس گر گیا تھا یہ ان کو دے دینا اور یہ 540 روپے بھی۔
انہیں کہنا کہ ڈاکٹر نے 60 روپے کی پٹی لگائی تھی اور یہ 40 روپے آپ کی امانت تھے۔ وہ بچہ پرس اور پیسے لے کر شیبہ آنٹی کے کمرے میں گیا ۔شیبہ آنٹی یہ کوئی لڑکا آپ کے 540 روپے اور پرس دے کر گیا ہے اور کہ رہا تھا کہ پٹی سے 40 روپے
بچ گۓ تھے وھ امانت بھی واپس کر رہا ہوں۔
لڑکی نے جلدی سے پرس کھولا اور ہکی بکی رہ گئ۔اس کی تمام چیزے اپنی اپنی جگہ پر موجود تھی۔وہ جلدی سے دروازے کی طرف لپکی۔افروز موٹرسائکل پر بیٹھا جانے ہی لگا تھا کہ پیچھے سے آواز ائی۔
اوۓ سنو۔۔۔!
افروز نے مڑ کر دیکھا۔
جی جی میڈم۔۔۔۔۔!
اگر تم چور نئی ہو تو جوتا کیو اٹھا رہے تھے؟
جی میڈم وہ عادت بن گئ ہے۔
عادت بن گئ ہے کیا مطلب میں کچھ سمجھی نہیں۔؟؟
آج سے 4 سال پہلے میں ایک مدرسے میں پڑھتا تھا وہاں جب کوئی مجھ سے لڑتا تھا تو میں اس کے جوتے چرا لیتا تھا کیونکہ میں ان سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔ وہاں میرا کوئی دوست نئ تھا اس لیے میں کمزور تھا ان سے لڑ کے بدلہ نئ لے سکتا تھا۔
تو تمھارے دوست کیوں نئی تھے؟؟
وہ میں غریب ہوں نا اور غریب کا کوئی دوست نئی بنتا۔
اچھا تمہارا نام کیا ہے جی میرا نام افروز ہے ابو کیا کرتے ہیں میرے ابو اس دنیا میں نہیں رہے اس لیے تو میں جوتےاٹهاتا ہوں کوئی بری عادتوں سے روکنے والا نہیں ہے ناں ۔۔۔۔۔۔
اچھا یہ ہزار روپے تم رکھ لو یہ میری طرف سے تمہاری نیکی کا انعام ہے۔۔۔۔
جی میں نے نیکی دریا میں بہانے کے لیے نہیں کی میں چلتا ہوں سکوٹر کسی سے مانگ کے لایا ہوں وہ انتظار کر رہا ہو گا۔۔۔
اچھا سنو اب جوتا نہیں چرائو گے ناں۔۔۔۔
جی اب تو قسم کھا لی ہے اور میں قسم نہیں توڑتا ہوں یہ کہتے ہی افروز وہاں سے چل پڑا۔۔۔
شیبہ نے دروازہ بند کيا اور فریز سے پانی کی بوتل نکالی اور وہی كهڑے بوتل کو منه لگا لیا ۔۔۔پھر وه اپنے کمرے مے جانے کے لیے سيڑهی چڑهه رہي تھي اسنے دوسرے فلور سے جب گلی مے دکھا تو افروز اپنی بائیک کو الٹا رہا تها ۔۔۔۔
شیبہ نے پھول کو کہا جاو اسے ادهر بلاوّ۔۔۔
افروز کی موٹرسائکل اسٹارٹ نی ہو سکی اس لۓ وہ اب اسے پیدل چلا کے گھر جانے لگا۔
پیچھے سے پھول نے آواز دی۔۔۔
سکوٹر والے انکل رکو۔۔۔۔۔!
آپکو مری پھوپو بلا رہی ہی ۔۔۔۔
افروز اسکے پیچھے چل پڑا اور جب دروازے پر پونچا تو شیبہ نے کہا۔۔۔۔ بائیک مے پیٹرول نی هہ كيا۔۔۔
افروز نے ہاں میں سر ہلایا۔۔
تو پٹرول والی شاپ ساتھ ہی تو ہے نیا ڈلوا لیتے۔پیدل کیو جا رہے ہو۔
جی وہ پیسے نہیں ہیں ناں۔۔۔۔اور یہ ساتھ ہی فیصل ٹاؤن میں گھر ہے میرا بس تھوڑی دیر میں پہنچ جاؤ گا۔
نئ یہ 100 روپے رکھ لواور پٹرول ڈلوا لو۔۔۔۔
نئ میڈم پیدل چلا جاؤں گا آپ کی اس مہربانی کا شکریہ۔۔۔۔
۔ میں کہہ رہی ہوں یہ سو(١٠٠) روپے رکھ لو۔۔۔۔۔۔ا
اچھا آپ پچاس روپے دے دو وہ پٹرول کےلئے کافی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
اچھا یہ پچاس ہی رکھ لو۔۔۔۔
افروز نے پچاس کا پٹرول ڈلوایا اور گھر چلا گیا۔ شیبہ اپنے کمرے میں جا کے سو گئی۔ تین(٣) گھنٹے گزرے تھے کہ پھر دروازہ کھٹکا شیبہ بھی بیدار ہو چکی تھی اس بار دروازہ شیبہ نے ہی کھولا تھا۔۔۔۔
جی آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔?
ہاں میں۔۔۔۔یہ آپ کے پیسے لوٹانے کےلئے آیا تھا۔۔۔۔
مگر میں نے واپسی کےلئے تو نہیں دئے تھے۔۔۔
مگر میں نے واپسی کےلئے ہی لیے تھے۔۔۔۔۔اور سوری آنے میں تھوڑی دیر ہوگئی کیونکہ پیدل آنا پڑا۔۔۔
اچھا تمھارے ابو نہیں ہیں تو پیسے کون کماتا ۔۔۔۔۔
امی۔۔۔۔۔۔۔¡
امی مطلب۔۔۔۔۔
وہ امی کسی کے گھر کام کرنے جاتی ہیں نا۔۔۔
اور تم کیا کر تے ھو۔۔۔۔۔
میں غریبوں کی مدد کرتا ھو۔۔۔۔
غریبوں کی مدد۔۔۔۔۔۔۔۔میں کچھ سمجھی نہیں مجھے تو تم خود غریب لگتے ھو پهر غریبوں کی مرر کیسے کرتے ھو۔۔۔۔
جوتوں سے ۔۔۔۔
جوتوں سے مطلب____ وہ جی میں جو جوتے ا ٹھاتا ھو نا___تو جو همارے بھائ جھونپڑی میں رھتے ہیں وہ جنہے اپ اونچے لوگ فقیر کھتے ہو ان کی جھونپڑئ کے پاس رکھ دیتا ھو وہ صبح کے وقت جب اٹھتے ھیں تو جوتا ديكھ كے خوش ہو جاتے ۔۔۔
توتم جب جوتا اٹھاتے ہو۔۔۔۔اس وقت یه نہی سوچتے کہ بچارا وہ كتنا غریب ہو گا ۔۔۔۔
سوچتا ہو لیکن کبھی کسی غریب کا جوتا نہی اٹہاتا۔۔ہمیشہ کسی امیر کا ہی شکار کرتا ہوں۔۔۔۔۔ کیوں امیروں نے تمھارا کیا بگاڑا ہوا ہے۔۔۔۔۔ بگاڑا کچھ نہیں ہے بس انہیں اس بات کا احساس دلانا چاہتا ہوں کہ ننگے پاؤں چلنے سے کتنی شرم آتی ہے اور تپتی دھوپ میں کیسے پاؤں جلتے ہیں۔ انہیں ان لوگوں کی غریبی کا احساس دلانا چاہتا ہوں جنہون نے پیسے نا ہونے کی وجہ سے زندگی میں کبھی جوتے پہنے ہی نا ہوں کیا ان کو ننگے پاؤں چلنے سے شرم نہیں آتی کیا ان کے پاؤں نہیں جلتے یہ امیر زادے خود تو پانچ ہزار(٥٠٠٠) والے جوتے پہن لیتے ہیں مگر کسی غریب کو سو(١٠٠) کے چپل خرید کر نہیں دیتے۔ میں یہ احساس دلانے کےلئے کہ ان غريبو کے پاؤں بھی جلتے ہیں۔۔۔۔۔ میں امیروں کا شکار کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا تم یہ کام چار(٤) سالو ں سے کر رہے ہو مگرخود وہی پھٹے پرانے پہن رکھے ہیں۔ خود کوئی اچھا جوتا کیوں نہیں پہنتے۔۔۔۔
میڈم میں اللہ سے بہت ڈرتا ہوں سوچو جب میں قبر میں جاؤں گا۔تو اللہ میاں مجھ سے پوچھے گا تمھارے پاس ایک جوتا تھا پھر دوسرا کیو پہنا۔ وہ فلاں جگہ پر تمھارے جیسا ہی ایک لڑکا تھا اس کے پاس پھٹے پرانے جوتے بھی نئ تھے تو پھر میں کیا جواب دوں گا۔اس لیے میں اللہ سے بہت ڈرتا ھوں۔ تو جب تم جوتا چراتے ھو اس وقت اللہ سے نئ ڈرتے۔چوری بھی تو گنا ہے نا۔۔
۔ مگر میڈم میں چوری نئ کرتا ہوں۔اٹھاتا ہوں۔