“مجھے نا سچ مچ بڑی خوشی ہو رہی ہے میری بچی گھر آئی ہے
بیٹا تم سموسے لو نا”
خالہ اور خالو کنول اور ربان کے آگے جھکے چلے جا رہے تھے
ربان اتنی بناوٹی محبتوں پر کوفت زدہ تھا اور اپنی کوفت چھپا بھی نہیں رہا تھا مگر کنول جبراً مسکراتی رہی
“ہاہاہاہا آپ نے پہلے ہاتھ بڑھا لیا ربان بیٹا ورنہ کنول کو تو میں اپنے وقاص کے لیئے لینے والی تھی”
خالہ کی بات پر کنول سر جھٹک کر رہ گئی وہ جانتی تھی ایسا نا ممکنات میں سے تھا
پوش علاقے میں گھر لینے کے بعد سے خالہ خالو غریب رشتے داروں کی طرف سے آنکھیں بلکل ہی پھیر لی تھیں
یہ وقاص ہی تھا جو ہر کسی سے بغیر فرق کے ملتا تھا
مگر خالہ کی یہ بات سن کر ربان کی بھنویں تن گئیں
اور منہ مزید بگڑ گیا
“کیا بات ہے ربان بیٹا ؟
سموسے اچھے نہیں لگے ؟”
“نہیں سموسے تو ٹھیک ہیں
کھلانے والے ٹھیک نہیں لگ رہے”
ربان نے خالو کو جواب دیا تھا اس پر سب ہی کی آنکھیں پھیل گئیںں
“ہاہاہا”
کنول نے زور سے مسنوعی قہقہ لگایا
“یو آر سو فنی ربان
خالو ان کی مزاق کی بہت بری عادت ہے”
“کچھ زیادہ ہی بری عادت یے”
خالو نا سمجھ نہیں تھے
ربان کی نا پسندیدگی نوٹ کر رہے تھے
انہیں بھی ربان پسند نہیں آیا تھا
“پیسے والوں پر نخرے اچھے بھی لگتے ہیں وقاص کے ابا”
خالہ نے شوہر کو ٹہوکا دے کر کہا
ربان کی بڑی سی گاڑی دیکھ چکی تھیں نا وہ
“دیٹس وے آپ لوگوں پر سوٹ نہیں کر رہے”
ربان کی اس بات پر کنول نے ٹھیک ٹھاک زور دار کہنی ربان کے پیٹ میں مار کر اسے آنکھیں نکال کر باہر جانے کا اشارہ کیا
ربان منہ بنا کر اٹھ کھڑا ہوا
جاتے جاتے اس نے ایک بار پھر نا پسندیدہ نظر خالو پر ڈالی اور خالو نے اس پر
“تمہارے شوہر کے تو بڑے نخرے ہیں کنول
مانا کہ بڑا دولت مند ہے پر غریب ہم بھی نہیں ہیں”
خالہ نے اپنا نقلی بالوں والا جوڑا تھپتھپا کر کہا
“سو سوری خالہ
بس
خیر انہیں چھوڑیں میں آپ سے کچھ ضروری بات کرنے آئی ہوں”
“اس ہی غریب لڑکی سے رشتے کے بارے میں ؟
تو بی بی ہمارا جواب وہی ہے جو کل تھا
میرے بیٹے کے ساتھ کام کرتے کرتے اسے پھنسا لیا
ان غریب لڑکیوں کو میں خوب سمجھتی ہوں
معصوم صورتیں بنا کر مجبوریوں کی داستانیں سنا کر پھنسا لیتی ہیں امیر لڑکوں کو بد چلن کہیں کی”
خالہ کے انداز پر کنول کو بہت زیادہ افسوس ہو رہا تھا
کتنی غلط زبان استعمال کر رہی تھیں وہ
“خالہ
کیا میں بھی بد چلن ہوں ؟”
کنول کے نرمی سے پوچھنے پر خالہ اور خالو گڑبڑا گئے
“کیا مطلب ؟”
“مطلب یہ کہ میں بھی غریب تھی
ربان کے گھر کام کے سلسلے میں جاتی تھی
پھر میری ربان سے شادی ہو گئی
مطلب آپ کا خیال ہوگا میں نے بھی ربان پر ڈورے ڈالے ہوں گے
انہیں مجبوریوں کی داستانیں سنائی ہوں گی معصوم صورت بنا کر ؟
بتائیں ایک بار کیا میں بھی بدچلن ہوں؟”
خالہ خالو چپ رہے
سچ یہی تھا کہ ان کا کنول کے بارے میں بھی یہی خیال تھا
“ہاں تو کچھ نا کچھ تو تم نے بھی کیا ہوگا
ایسے ہی کیوں کوئی رئیس زادہ تم سے شادی کرے گا ؟
بھلے دوسری ہی سہی
ہے کیا ورنہ تمہارے پاس صورت تک تو خوبصورت ہے نہیں”
کچھ دیر بعد خالہ نے زبان کے ایسے نشتر چلائے کہ ہ کنول حق دق رہ گئی اور پھر خاموشی سے اٹھ کر باہر نکل گئی
اس سے خدا حافظ تک نہیں کہا گیا تھا
باہر منتظر کھڑا ربان کنول کے اتنی جلدی باہر آنے پر حیرا ہو گیا
کنول کوئی بھی بات کیئے بنا باہر گاڑی میں بیٹھ گئی
“کیا ڈن ہو گیا سب ؟”
ربان نے اپنی سیٹ پر بیٹھ کر پوچھا
کنول نے اس بار بھی کچھ بولا نہیں اور نفی میں گردن ہلا دی
“تم رو رہی ہو ؟
وائے ؟”
“کچھ بھی نہیں ہوا آپ گھر چلیں”
کنول نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
“جب تک وجہ نہیں بتائو گی میں گاڑی نہیں چلائو گا”
اس بار ربان غصے میں بولا
“کوئی بات نہیں
میں خود چلی جائونگی ٹیکسی سے ”
“تم مجھے گاڑی سے اتر کر دکھائو”
ربان کے چیلج پر کنول جھنجلا گئی
“آپ اتنے بدتمیز کیوں ہیں ؟
خالہ خالو سے اتنی بدتمیزی کیوں کی ؟”
کنول ربان پر ہی چڑھ دوڑی
ربان اس کے بات بدلنے پر تلملایا
“مجھے بناوٹی محبتوں سے نفرت ہے”
“اور آپ اتنے پر یقین کیوں ہو جاتے ہیں ؟
اتنی جلدی کیوں جج کرتے ہیں لوگوں کو ؟
آپ کی نظر میں تو میں بھی بناوٹی محبت کر رہی تھی جان اور وانی سے
آپ کو اب بھی مجھ پر بیلیو نہیں ہوگا
مجبوری میں نبھا رہے ہیں نا ساتھ ؟”
کنول سوں سوں کر کے روتی ہوئی اچھی خاصی جزباتی ہو گئی اور خالہ خالو کا غصہ ربان پر نکال کر اسے ساری باتیں بھی بتا دیں
“انہوں نے یہ بکواس کی تم سے ؟”
ربان غصے میں بڑبڑایا اور پھر گاڑی سے نکلنے لگا تب کنول نے ربان کا بازو پکڑ کر روک لیا
اسے اندازہ ہو گیا کہ اس نے سب سچ بتا کر غلط کر دیا ہے
“غلطی آپ ہی کی ہے
آپ اتنی بدتمیزی نا کرتے تو وہ بھی یہ سب نا کہتیں”
“اوہ میڈم
انہوں نے جو کہا اس کا مطلب ان کا ہمیشہ سے یہی خیال رہا ہوگا کہ تم نے مجھے اٹریکٹ کرنے کی چیپ کوشش کی
انہوں نے ان ڈائرکٹ تمہارے کیریکٹر پر وار کیا ہے
اب دیکھو میں ان کا کیسا دماغ ٹھکانے لگاتا ہوں
تم بس دیکھنا”
🍁🍁🍁