امیراں نے وہاں موجود تمام لڑکیوں کو ہر طرح کی آزادی دی ہوئی تھی جس نے کچھ کھانا ہوتا وہ اس سے کہہ دیتی اور وہ اپنی ملازمہ سے منگوالیتی، کسی نے خریداری کرنی ہو تو وہ بھی اس کی ملازمہ کے ساتھ جاکر کرلیتی، مگر روبی کبھی نہیں گئی تھی نا ہی اس نے کبھی کوئی فرمائش کی تھی، امیراں نے اک دو دفعہ کہا بھی تھا مگر اس نے انکار کردیا۔۔۔۔۔ مگر امیراں نے اسکو چند جوڑے منگواکر دے دیے تھے، وقت گزرتا رہا روبی کی محفل ہر رات سجتی تھی، جس کی وجہ سے وہاں آنے والوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا تھا۔۔۔۔۔ روبی کو جب علم ہوا تھا کہ بائی نے خود منع کردیا کہ کوئی روبی کے قریب نہیں جائے گا تو اسکی بھی ہمت بڑھ گئی تھی اور اس نے بھی یہ باور کروادیا کہ وہ رقص کرے گی مگر کسی کے لیے خود کو میسر نہیں کرے گی اس دوران کئی خریدار بھی آئے روبی کے مگر امیراں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ دو سال سے پہلے روبی یہاں سے نہیں جائے گی۔۔۔۔ اک لڑکے نے بھی محفل کے بعد امیراں سے کہا تھا کہ وہ روبی سے بات کرنا چاہتا ہے مگر امیراں نے اسکو بھی انکار کردیا۔۔۔۔ روبی کا شمار بہترین رقاصہ میں ہونے لگا تھا۔۔۔۔۔ دو سال کا عرصہ کیسے گزرگیا پتہ نہیں چلا۔۔۔۔ اس رات محفل ختم ہونے کے بعد اک شخص نے روبی کا سودا کرلیا امیراں نے سودا قبول کرلیا اسکے قول کے مطابق دو سال پورے ہوچکے تھے۔۔۔ وہ شخص روبی کو پنجاب سے اندرون سندھ لیکر جانا چاہتا تھا اسنے ٹکٹ کروالیے تھے اور امیراں سے کہا۔۔۔ ” کہ کل صبح میں روبی کو لینے آجاؤں گا سات بجے کی ٹرین ہے۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔۔۔ امیراں نے اسکے جانے کے بعد روبی کو بلایا اور کہا۔۔۔۔” اپنا سامان باندھ لو تم نے کل صبح یہاں سے جانا ہے۔۔۔۔۔ روبی نے پوچھا کہاں جانا ہے۔۔۔؟؟؟ امیراں نے کہا کہ دو سال پورے ہوگئے تمہارے پہلے بھی بہت خریدار آئے تھے مگر میں نے انکار کردیا اب وقت پورا ہوگیا کل صبح تم جارہی ہو۔۔۔۔!!! روبی نے مزید کچھ نا پوچھا اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔ وہ شکر ادا کررہی تھی۔۔۔۔ اسکی آزادی کا پروانہ آگیا تھا۔۔۔۔ اس دلدل سے نکلنے کا وقت آگیا تھا۔۔۔۔ اسکا ارادہ شروع سے یہی تھا کہ وہ یہاں سے نکل کر دوبارہ ایسی جگہ پہ قدم نہیں رکھے گی
اور یہ لازمی بات تھی کہ یہاں سے نکل کر اس نے دوبارہ ایسی ہی جگہ جانا تھا اور یہاں تو اسکی عزت محفوظ رہی مگر آگے کیا ہو وہ نہیں جانتی تھی۔۔۔۔۔ وہ ایسی جگہ پہ دوبارہ قدم نہیں رکھنا چاہتی تھی سو اسکو اپنے ارادے کی تکمیل کرنی تھی اور اسکے لیے اس نے خود کو تیار کرلیا تھا اور دعاؤں کا سہارا لیا۔۔۔۔۔ اس نے چپ چاپ رات کو اپنا سامان باندھا اور لیٹ گئی، نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔۔۔ بس وہ اپنے ارادے کی تکمیل کے بارے میں سوچ رہی تھی وہ اٹھی اس نے وضو کیا اور نفل پڑھ کے دعا کرنے لگی۔۔۔۔۔۔رات ایسی ہی گزرگئی فجر ہوگئی اسنے نماز پڑھی پھر اٹھ کر باہر آگئی
امیراں تخت پہ لیٹی ہوئی تھی مگر سو نہیں رہی تھی جاگ رہی تھی شاید روبی کی طرح اسکو بھی نیند نہیں آئی تھی رات بھر، اس نے جب روبی کو باہر آتے دیکھا تو اٹھ کر بیٹھ گئی اور پوچھا۔۔۔” تم اٹھ گئیں۔۔۔۔! ناشتہ کروگی۔۔۔؟ روبی نے سر نہیں میں ہلادیا۔۔۔۔ اسنے اپنے تخت پہ روبی کو بیٹھنے کو کہا۔۔۔ وہ بیٹھ گئی۔۔۔۔ امیراں نے اسکو دیکھا وہ نظریں نیچی کیے بیٹھی تھی امیراں نے اسکے چہرے کو غور سے دیکھا بغیر میک اپ کے سادہ اجلا چہرہ، جس پہ نماز پڑھنے سے نور تھا۔۔۔۔ امیراں کو دل میں رنج ہوا ناجانے کیا بات تھی جو وہ روبی کے معاملے میں سوچنے لگی تھی اسکا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ یہاں سے جائے مگر اس نے جانا تھا۔۔۔۔ اس صبح امیراں نے اعتراف کیا۔۔۔۔۔” روبی اک بات کہوں۔۔۔۔ ان دس سالوں میں کئی لڑکیاں یہاں آئیں ہر طرح کی لڑکی آئی شریف سے شریف لڑکی بھی مگر میں نے آج تک تمہاری جیسی اتنی پختہ ایمان والی اور اتنی مضبوط لڑکی نہیں دیکھی جس نے یہاں رہ کر بھی نماز نہیں چھوڑی۔۔۔۔۔ روبی اسکو دیکھ کر مسکرادی۔۔۔۔ امیراں نے ملازمہ سے کہہ کر ناشتہ بنوالیا تھوڑی دیر بعد ملازمہ ناشتہ لے کر آگئی۔۔۔۔ امیراں نے اس سے کہا آج یہاں آخری ناشتہ کرلو۔۔۔۔۔ پھر کل تم کہیں اور ہوگی۔۔۔۔ روبی نے چپ چاپ امیراں کے ساتھ ناشتہ کیا۔۔۔۔ روبی امیراں کی زندگی کی پہلی ایسی لڑکی تھی جو اسکے دل میں اپنی جگہ بناچکی تھی اور اسکے جانے کا اسکو بہت دکھ تھا مگر وہ زبان کی پکی تھی اسکو اپنے قول سے مکرنا نہیں آتا تھا۔۔۔۔۔۔ پھر آخر وہ گھڑی آگئی جب روبی کا مالک اسکو لینے آگیا۔۔۔۔۔ وہ اٹھ کر اندر کمرے سے اپنا سامان لینے چلی گئی اندر موجود لڑکیاں سو رہیں تھیں سوائے بانو کے وہ اس سے ملی اور باہر آگئی۔۔۔۔ امیراں نے اسکو گلے لگایا اور اسکے ماتھے پہ پیار کیا اسکی آنکھوں میں آنسو تھے،وہ جانتی تھی کہ روبی اب بھی ایسی ہی جگہ جائے گی مگر ناجانے کیوں اور کیسے اسکی زبان سے یہ الفاظ نکلے۔۔۔۔” روبی میری دعا ہے کہ رب تمہاری عزت کی حفاظت کرے۔۔۔” روبی کو بہت حیرانی ہوئی اسکے ان لفظوں سے، عزت کی حفاظت کی دعا وہ بھی امیراں جیسی عورت کے منہ سے۔۔۔۔ اسکو یقین نا آیا۔۔۔۔ مگر یہ مقدر کا کھیل ہے اللّٰہ اس کے ہاتھوں اس انسان کی حفاظت کرواتا ہے جس سے امید بھی نہیں ہوتی۔۔۔۔ جب فرعون کے ہاتھوں موسٰی کی پرورش ہوسکتی تھی تو اک کوٹھا چلانے والی عورت اک طوائف کو دعا کیوں نہیں دے سکتی۔۔۔۔۔ روبی اس سے مل کر اپنا سامان اٹھا کر جانے لگی اسکا مالک اسکا انتظار کررہا تھا وہ جاتے جاتے پلٹ کر امیراں کے پاس آئی اور کہا کہ جب سے یہاں آئی ہوں کوئی فرمائش نہیں کی سوائے یہاں سے جانے کے مگر وہ پوری نا ہوسکی مگر مجھے اللّٰہ پہ پورا یقین تھا کہ میں یہاں سے اک روز ضرور جاؤں گی اور اک ارادہ بھی کیا تھا کہ یہاں سے نکلنے کے بعد دوبارہ ایسی جگہ کی طرف دیکھوں گی بھی نہیں۔۔۔۔۔ امیراں اسکو دیکھنے لگی۔۔۔ روبی نے اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہا آج جبکہ میں یہاں سے ہمیشہ کے لیے جارہی ہوں تو اک التجاء کرنا چاہتی ہوں آپ سے۔۔۔۔۔ امیراں پوری توجہ سے اسکی بات سن رہی تھی۔۔۔۔ وہ کہنے لگی۔۔۔ زندگی بہت مختصر ہے ناجانے کب موت کا پروانہ آجائے ہم نہیں جانتے۔۔۔۔۔ اسلیے زندگی میں کچھ ایسا کرلیں کہ آخرت سنور جائے ہوسکے تو یہ کام چھوڑ دیں اور گناہوں سے توبہ کرلیں۔۔۔۔۔۔ امیراں حیرت زدہ ہوکر اسکی بات سن رہی تھی، امیراں کے ہاتھ روبی کے ہاتھوں میں تھے روبی نے ان ہاتھوں کو ہلکا سا تھپتھپایا اور اپنی بات مکمل کرکے مسکرادی۔۔۔۔۔ امیراں کو گلے لگایا اور الوداع کہا۔۔۔۔ پھر وہاں سے چلی گئی کبھی نا واپس آنے کے لیے۔۔۔۔۔ اسکے جانے کے بعد امیراں وہیں تخت پہ بیٹھ گئی اسکے کانوں میں روبی کی کہی ہوئی باتیں گونج رہیں تھیں۔۔۔۔۔ کیا تھی وہ۔۔۔۔۔ اک نازک سی لڑکی۔۔۔۔۔ بس۔۔۔۔۔ مگر کیا کہہ گئی۔۔۔۔۔ جو اس سے آج تک کبھی کسی نے نہیں کہا وہ لڑکی اسکو اک الگ ہی احساس دلا گئی۔۔۔۔ اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے اور وہ پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی۔۔۔۔۔ اک پچاس سالہ عورت جو دس سالوں میں کئی لڑکیوں کی عزتوں کا سودا کرچکی تھی جس کو صرف پیسہ کمانے سے غرض تھی۔۔۔۔۔ کسی لڑکی کی معصومیت اور شرافت نے اسکی ذات پہ کوئی اثر نہیں کیا تھا کسی کے آنسو اس کے دل پہ نہیں گرے تھے جو صرف رلانا جانتی تھی وہ عورت ان دس سالوں میں آج پہلی دفعہ رو رہی تھی وہ بھی اک نیک سیرت اور معصوم لڑکی کی کہی گئی باتوں پہ۔۔۔۔۔۔۔
بانو بھی سوگئی تھی بس امیراں جاگ رہی تھی وہ کافی دیر روتی رہی اسکی ملازمہ کسی کام سے اندر آئی اور اسکو روتا دیکھا تو پریشان ہوگئی اور اسکے پاس بیٹھ کر پوچھنے لگی۔۔۔۔” کیا ہوا بائی کیوں رو رہی ہیں۔۔؟؟؟ امیراں اس سے کیا کہتی اسکے پاس تو جیسے سب الفاظ ختم ہی ہوگئے تھے۔۔۔۔۔ وہ چپ تھی۔۔۔۔۔۔
*****
روبی اس آدمی کے ساتھ چل رہی تھی وہ اسکو لیکر اسٹیشن پہنچا وہ اسکے ساتھ چلتی چلی جارہی تھی ٹرین کھڑی ہوئی تھی وہ اس کے ساتھ اس میں چڑھ گئی مگر مسلسل اسکی زبان سے دعائیں جاری تھیں۔۔۔۔۔ روبی نے اس دن بھی ہمیشہ کی طرح سادہ لباس پہنا ہوا تھا جیسا وہ عام طور پہ پہنتی تھی بس رقص کے وقت کا مخصوص لباس پہنتی پھر بدل لیتی تھی، ہاتھ میں اپنے سامان کا بیگ اٹھائے جس میں چند جوڑے تھے وہ بھی اسنے مجبوری میں رکھے تھے اور اسکی اک چادر تھی جس کو بچھا کر وہ نماز پڑھتی تھی، دوپٹہ سر پہ تھا۔۔۔ ٹرین اپنے مقرر وقت پہ چل پڑی تھی۔۔۔۔ وہ شخص روبی کی سنگت میں بہت خوش تھا وہ بھی روبی کا دیوانہ تھا، وہ روبی کے برابر میں بیٹھنا چاہتا تھا مگر روبی نے سامنے کی برتھ اپنے لیے منتخب کی تھی وہ شخص یہ سوچ کے مطمئن تھا کہ اس شہر پہنچ کر وہ روبی کو حاصل کرلے گا ، مگر یہ اسکی سوچ تھی کیونکہ روبی تو کچھ اور ہی سوچے بیٹھی تھی اسکو معلوم تھا کہ اللّٰہ اسکے ساتھ ہے تو کوئی اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔۔۔۔۔ اسکا یقین اسکا حوصلہ بڑھا رہا تھا۔۔۔۔اور وہ اپنے ارادے کی تکمیل کے قریب تھی۔۔۔۔۔ ٹرین دو تین جگہ رکی مگر بس پانچ منٹ کے لیے اور پھر چل پڑی۔۔۔۔۔ مگر اک جگہ وہ پندرہ منٹ کے لیے رکی تھی اس نے دیکھا کہ اسٹیشن پہ کافی بھیڑ ہے۔۔۔۔ روبی کے پاس اس سے اچھا موقع اور کوئی نہیں تھا۔۔۔۔۔ اسکی مجبوری تھی اسکو ایسا انداز اپنانا پڑا۔۔۔۔۔ اس نے اس شخص سے اک ادا سے کہا۔۔۔۔ “سنو۔۔۔۔ مجھے اک کپ چائے تو لادو۔۔۔۔ سر میں درد ہورہا ہے چائے پی لوں گی تو بہتر محسوس کروں گی۔۔۔۔۔ اس شخص کے لیے روبی کا کہا ہوا حکم کا درجہ رکھتا تھا اس نے فورا حکم کی تعمیل کی اور اپنی جگہ سے اٹھ گیا روبی نے کہا تم چائے لے آؤ جب تک میں باتھ روم سے ہو آؤں۔۔۔۔۔ اس شخص نے گردن ہلادی اور نیچے اتر گیا۔۔۔۔۔۔ اسکے اترتے ہی روبی نے اللّٰہ کا نام لیا اور اپنے بیگ میں سے اپنی چادر نکالی اور اسکو اپنے گرد اچھی طرح سے لپیٹا اور منہ کو بھی ڈھانپ لیا اپنا سامان جو اسنے مجبوری میں ساتھ لیا تھا صرف اپنے ارادے کی تکمیل کے لیے وہ اس نے وہیں چھوڑ دیا تاکہ اس شخص کو کوئی شک نا ہو اور ٹرین سےنیچے اتر گئی۔۔۔۔۔ دوسری طرف پنجاب جانے والی اک ٹرین کھڑی تھی اسکی سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کرے اس نے اللّٰہ پہ بھروسہ کیا اور اوپر بریج کی سیڑھیاں چڑھنے لگی اور دوسری طرف اتر گئی وہاں کھڑی ٹرین میں چڑھ گئی
اس ٹرین میں اس وقت مسافر کم تھے، وہ اک سیٹ پہ بیٹھ گئی، جس وقت وہ چڑھی تھی اس وقت دوپہر کا وقت تھا وہ سیٹ پہ بیٹھی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کرے گی۔۔۔؟؟؟ کہاں جائے گی۔۔۔۔؟؟؟؟ کوئی بھی تو نہیں ہے اسکا۔۔۔۔۔ وہ اس ٹرین میں چڑھ تو گئی مگر اب۔۔۔۔؟؟؟؟ اسکو یاد آیا کہ اسکے پاس تو پیسے بھی نہیں ہیں۔۔۔۔ وہ ٹکٹ کے بغیر تو سفر نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔ ٹکٹ چیکر آیا تو کیا کرے گی۔۔۔؟؟؟؟ اتنے سارے سوال اسکے ذہن میں آرہے تھے مگر جواب کوئی نہیں تھا۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اسنے اک بار پھر دعا کی۔۔۔۔” اے اللّٰہ میری مدد کر جسے تو نے ہمیشہ میری مدد کی ایسے آج بھی اب بھی اور آگے بھی مجھے تیری مدد کی ضرورت ہے میں کیا کروں میرے لیے کوئی راستہ نکال دے۔۔۔۔۔ میری حفاظت فرما۔۔۔” دعا مانگتے ہوئے اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہورہے تھے۔۔۔۔ وہ جس سیٹ پہ بیٹھی تھی اسکے دائیں طرف والی برتھ پہ اک آدمی بیٹھا ہوا تھا عمر کوئی چالیس کے لگ بھگ ہوگی وہ شخص نماز کے لیے وضو کرنے اٹھا اور سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھا اسکے ہاتھ اسکے چہرے پہ تھے جس کی وجہ سے چہرہ چھپا ہوا تھا وہ اپنے ساتھ اک پانی کی بوتل لیکر باتھ روم گیا اور وضو کر کے آگیا وہ لڑکی جب بھی ایسے ہی بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔ وہ اپنی جگہ پہ بیٹھ گیا اور نماز شروع کردی۔۔۔۔۔ روبی نے چہرے پہ سے ہاتھ ہٹا دیے اور اپنی آنکھیں صاف کرنے لگی۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد اس شخص نے جب نماز مکمل کی تو روبی کو دیکھا اسکا چہرہ چادر سے ڈھکا ہوا تھا صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں اور وہ اپنے چہرے کو ٹرین کی کھڑکی سے ٹکائے کسی سوچ میں گم تھی۔۔۔۔ اس شخص کو وہ کچھ پریشان سی لگی۔۔۔۔ وہ اٹھا اور اسکے پاس آیا اور اس سے پوچھا بیٹا کیا بات ہے آپ کچھ پریشان ہو۔۔۔؟؟؟ روبی نے گردن اٹھا کر اسکو دیکھا اور اک دم گھبراگئی۔۔۔۔۔ اس شخص نے کہا دیکھو گھبراؤ نہیں اگر کوئی پریشانی ہے تو کہہ سکتی ہو ہوسکتا ہے میں تمہارے کسی کام آجاؤں۔۔۔۔۔ روبی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ انجان شخص اس پہ اتنا مہربان کیوں ہورہا ہے۔۔۔؟؟؟ روبی گھبرا رہی تھی پھر اس نے کہا۔۔۔۔” نہیں کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔!!! اس شخص نے کہا دیکھو مجھے تم پریشان لگی اسلیے میں نے پوچھ لیا۔۔۔۔ تم میری بیٹی کی عمر کی ہو۔۔۔۔۔ بیٹی کا لفظ سن کر روبی کی آنکھیں بے اختیار نم ہوگئیں۔۔۔۔ کتنا عرصہ ہوگیا تھا اپنے لیے بیٹی کا لفظ سنے۔۔۔۔ وہ رونے لگی۔۔۔۔ روبی کو روتا دیکھ کر وہ شخص گھبراگیا اور کہا بیٹی رو نہیں۔۔۔۔ اگر نہیں بتانا چاہتیں تو کوئی بات نہیں۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ جاکر بیٹھ گی
روبی کو یاد آیا کہ اسکے پاس پیسے نہیں نا ہی ٹکٹ ہے اگر یہ شخص کہہ رہا ہے تو میں اس سے اس معاملے میں مدد مانگ سکتی ہوں۔۔۔۔۔ وہ اٹھی اور اسکی برتھ کے پاس آئی اور کہا۔۔۔۔ ” وہ۔۔۔ ” اس شخص نے اسکو دیکھا اور کہا کیا ہوا۔۔؟؟؟ کچھ کہنا ہے؟؟ روبی نے سر ہاں میں ہلادیا پھر کہا اصل میں میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے اور نا پیسے ہیں۔۔۔۔ وہ شخص حیران ہوا اور کہا پھر ٹرین میں کیسے۔۔۔۔؟؟ روبی پریشان ہوکر سوچنے لگی کہ اس نے غلطی تو نہیں کردی اس سے کہہ کر۔۔۔۔ روبی کو پریشان دیکھ کر اس نے کہا اچھا تم پریشان نہ ہو یہیں بن جائے گا تمہارا ٹکٹ۔۔۔۔۔ روبی نے اسکا شکریہ ادا کیا اور جانے لگی۔۔۔۔ تو اس شخص نے اسکو آواز دی اور کہا۔۔۔” بیٹا تمہارے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے اور نا تمہارا سامان ہے۔۔۔؟؟ کیا بات ہے؟؟؟ روبی کیا بتاتی اس انجان آدمی کو مگر پتہ نہیں کیوں اسکا دل چاہا کہ وہ سب بتادے مگر اک انجان اجنبی پہ بھروسہ بھی تو نہیں کیا جاسکتا اور پھر اسکا گزرا ہوا کل ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ بتاسکتی۔۔۔۔۔ ٹکٹ چیکر آیا تو اس شخص نے روبی کا ٹکٹ بنوادیا۔۔۔ روبی اسکا بہت شکریہ ادا کرنے لگی۔۔۔۔۔ اس نے کہا بیٹیاں شکریہ نہیں کہتیں۔۔۔۔!!!! روبی نم آنکھوں سے مسکرادی۔۔۔۔ اس نے پوچھا کیا میں یہاں بیٹھ جاؤں۔۔۔۔؟ اس آدمی نے کہا ہاں بیٹا ضرور۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس آدمی نے خود ہی اپنا تعارف کروایا۔۔۔۔ میرا نام حسن ہے اور میں اک ہارٹ سرجن ہوں۔۔۔۔ کراچی میں رہتا ہوں۔۔۔ روبی نے پوچھا آپ کی کتنی بیٹیاں ہیں۔۔۔؟
میری ماشاءاللّٰہ دو بیٹیاں ہیں دونوں شادی شدہ ہیں اک کی شادی کو دوسال ہوئے ہیں اور اک کی اک مہینہ ہوا ہے۔۔۔ حسن نے بتایا۔۔۔۔۔
روبی نے کہا مبارک ہو آپکو بہت بہت۔۔۔۔ اس شخص نے مسکرا کر خیر مبارک کہا۔۔۔۔۔ وہ شخص انجان تھا مگر بہت ڈیسینٹ طبیعت کا اور بہت اچھی شخصیت کا مالک تھا روبی اس سے جلدی گھل مل گئی اس نے پوچھا۔۔۔۔ ” کون کون رہتا ہے آپ کے ساتھ۔۔۔۔؟؟
میری بیوی میری ماں اورمیرے اک ماموں ساتھ رہتے ہیں مامی کی دیتھ ہوگئی تھی تو امی ماموں کو اپنے ساتھ لے آئیں تھیں۔۔۔۔ حسن نے تفصیل سے بتایا۔۔۔اور اس سے پوچھا اب تم بھی اپنے بارے میں بتاؤ۔۔۔۔ روبی گردن جھکا کے رہ گئی وہ کیا بتاتی۔۔۔۔ ” میرا ماضی بہت تلخ ہے حسن انکل میں کیا بتاؤں کچھ بھی بتانے کے قابل نہیں ہے اگر آپ سنیں تو شاید آپ مجھ سے نفرت کرنے لگیں مگر بس قسمت مجھے لے گئی تھی مگر قسمت نے میرا ساتھ بھی دیا کیونکہ مجھے اللّٰہ پہ بھروسہ تھا سو کوئی بھی میرا بال بیکا نہیں کرسکا۔۔۔۔۔ حسن کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔۔۔۔ دیکھو میں نے تمہیں بیٹی کہا ہے اور بیٹیوں سے نفرت نہیں کی جاتی وہ تو رحمت ہوتی ہیں بہت پیاری ہوتی ہیں انکی غلطیوں کو سنوارا جاتا ہے۔۔۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔۔
لیکن اگر آپکو مجھ سے نفرت ہوگئی تو۔۔۔۔؟؟؟؟؟ روبی نے پوچھا۔۔۔۔!
نہیں ہوگی۔۔۔۔!! حسن نے یقین سے کہا۔۔۔۔۔!!
روبی نے اک ٹھنڈی سانس بھری اور اپنی گزری زندگی کے بارے میں بتانے لگی۔۔۔۔۔۔ وہ دھیرے دھیرے اور سر جھکائے سب بتارہی تھی۔۔۔۔۔ حسن دم بخود اسکی ساری بات سن رہے تھے۔۔۔۔ بلکل چپ۔۔۔۔ بلکل خاموش۔۔۔۔۔ روبی نے بھی سر اٹھا کر نہیں دیکھا۔۔۔۔ وہ اپنی داستان زندگی سنارہی تھی۔۔۔۔۔اسنے اپنے ارادے کا بھی بتایا اور اس ارادے کی تکمیل کا بھی۔۔۔۔۔ اسکو اندازہ نہیں ہوا کہ اسکو سب بتانے میں کتنی دیر لگی ہے۔۔۔۔۔ اپنی زندگی کی کہانی سنا کر اسنے سر اٹھایا اور بھیگی آنکھوں کے ساتھ حسن کو دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ حسن بے تاثر چہرے کے ساتھ اسکو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ روبی کے دل کو کچھ ہوا وہ سوچنے لگی کہ اس نے کچھ غلط تو نہیں کردیا۔۔۔۔۔ مگر اب سوچنے سے کیا فائدہ اب تو وہ سب بتاچکی تھی۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...