ارحم آج شام کو تمہاری خالہ لوگوں نے ہمیں گھر بولایا ہے انکے گھر کی پہلی شادیاں ہیں تو بچیاں ذرا انجوئی کرنا چاہتی ہیں اسی لیے ہمیں بھی بولایا ہے اگر تم کھو تو ہم چلے جایئں ؟
امی اپ مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہیں مجھے بھلا کیا اعترض ہوگا ضرور جایئں بلکہ میں ہی اپ لوگوں کو چھوڑ آؤں گا”
بیٹا مجھے لگا تم انکار ہونے کی جا سے اپنی خالہ لوگوں سے ناراض ہوگے بس اسی لئے پوچھ لیا ”
نہیں امی اس میں ناراض ہونے والی تو کوئی بات نہیں جب ہماری طرف سے انکار ہوا تھا تب خالہ تو ناراض نہیں ہوئی تھیں تو اب ہم کیوں ہوں”
شاباش! میرا بیٹا نہ صرف شکل و صورت بلکہ دل کا بھی بہت اچھا ہے ماشاللہ انہوں نے ارحم کا ماتھا چوم لیا
اچھا امی میں ذرا افس سے ہو آؤں اپ اور نانی شام میں تیار رہئے گا”
ٹھیک ہے جلدی آ جانا بیٹا الله حافظ
————————————————–
کہاں غائب تھا تو یار کچھ بزنس کا ہی خیال کر لے صابر نے اسے اتنے دنوں بعد افس میں دیکھا تو گلہ کر بیٹھا
ای ایم سوری یار بس کچھ پروبلمز تھی جن میں الجھا ہوا تھا لیکن آیندہ تجھے شکایت کا موقع نہیں دوں گا بےفکر ہوجا”
کیا ہوا سب خیریت تو تھی نہ اب تو کوئی پرابلم نہیں ہے نا”
نہیں اب تو بات ہی ختم ہو گئی ہے ارحم اداسی سے بولا
یار تو صاف صاف بتا نہ اداس کیوں ہے اور کیا بنا تیرے رشتے کا ؟ زویا مان گئی نا
ارحم نے سر نفی میں ہلایا
اچھا تو فکر نہ کر میں تیری طرف سے بات کر لوں گا ہم یقیناً انہیں منا لیں گے”
اب کوئی فائدہ نہیں ہے پرسو اسکا نکاح ہے اسکے کزن کے ساتھ پر”
اسنے انکار کیوں کیا ؟ تو تو کہتا تھا وہ تجھ سے محبت کرتی ہے
میرا خیال ہے اس نے انکار اپنے بھائی کی وجہ سے کیا ہے اسے ہی مسلہ تھا مجھ سے ارحم نے غصے سے دانت پیسے
اب تو کیا کرے گا ؟
میں کچھ نہیں کر سکتا جب تک زویا خود میرا ساتھ نہ دے اسی سے بات کرنے کی کوشش کروں گا مجھے پتا ہے وہ میرے علاوہ کسی اور کے ساتھ خوش نہیں رہی گی اور نہ ہی میں اس کے بغیر خوش رہ سکوں گا”
———————————————-
اس ڈرائیور کے بچے کو تو آج ہی جا کر نکالوں گا اتنے پیسے دیتا ہوں پر پھر بھی گاڑی میں فیول نہیں ڈلواتا وہ جھنجلا کر گاڑی سے باہر نکل آیا اور کسی ٹیکسی کو ڈھونڈنے کے لئے ادھر ادھر دیکھنے لگے
ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کے اک گاڑی اسکے پاس آ کر رکی اور اک شخص گاڑی سے نکل کر اسکی سمت آیا
افہام فوراً ہی اسے پہچان گیا اور خوشدلی سے اسکی جانب بڑھ کر مصافحہ کیا خیریت تو ہے یہاں ایسے کیوں کھڑا ہے”
کیا بتاؤں یار گاڑی کا فیول ختم ہوگیا ہے ٹیکسی کا اتنظار کر رہا تھا
دفع کر ٹیکسی کو میں چھوڑ دیتا ہوں تمھیں”
نہیں یار تجھے زحمت ہوگی”
مانا کے ہم بہت عرصے بعد مل رہے ہیں پر اچھے دوست اگر سو سال بعد بھی ملیں تو تکلف نہیں برتنا چاہیے سمجھا کچھ”
تو ذرا نہیں بدلہ یار، اچھا ٹھیک ہے میں گاڑی لاک کر کے اتا ہوں”
گاڑی لاک کر کے افہام اسکے ساتھ اسکی گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا
کہاں غائب تھا تو اتنا عرصہ یونیورسٹی کے بعد تو تو کبھی ملا ہی نہیں ؟ راستہ سمجھانے کے بعد افہام نے پوچھا
بس یار اک دوست کے ساتھ بزنس سیٹل کرنے میں لگ گیا تھا پھر وقت ہی نہیں ملا کسی سے رابطہ کرنے کا تو سنا تیری کیا مصروفیت رہی شادی وادی کی کے نہیں ؟ بڑے موقه پر سوال پوچھا ہے تو نے بس پرسو نکاح ہے”
بہت بہت مبارک ہو پھر تو تمھیں”
خالی مبارک سے کام نہیں چلے گا تجھے شرکت بھی کرنی ہے ”
میں پوری کوشش کروں گا انے کی”
کوشش سے بھی کام نہیں چلے گا تجھے آنا ہے سمجھا
اچھا بابا آ جاؤں گا ویسے تو بھی نہیں بدلہ ابھی بھی اپنی ہی منواتا ہے افہام مسکرا دیا
بس آ گیا میرا گھر ینھی روک دے افہام نے گھر کے سامنے آ کر کہا
ڈراپ کرنے کا بہت شکریہ یار”
اب پھر تو تکلف برت رہا ہے
اچھا بابا معاف کر دے آیندہ خیال رکھوں گا لیکن اب تو تکلف نہیں برتے گا اور اندر چلے گا میرے ساتھ ”
ارے نہیں یار میں سیدھا افس سے آ رہا ہوں اور بہت تھکا ہوا ہوں”
پھر تو ضرور تجھے اندر آنا پڑے گا تجھے اچھی سی چاۓ پلواؤں گا چل”
اف یار کبھی تو دوسرے کی بھی سن لی کر اس نے گاڑی سے باہر نکلتے ہووے کہا افہام ڈھٹائی سے مسکراتا ہوا اسے اندر لے آیا
———————————————
ارحم بیٹا تم بھی اندر آؤ نا خالہ کو سلام کر لینا جی نانی اپ لوگ چلیں میں گاڑی کھڑی کر کے اتا ہوں
زویا آؤ نہ یار ہم سب مل کر انجوئی کر رہے ہیں حمنہ اسے کھنچتی ہوئی ہال میں لے ای جہاں سب جمع تھے
آؤ زویا بیٹا یہاں مناہل کے ساتھ بیٹھ جاؤ دادی نے کہا تو وہ خاموشی سے مناہل کے پاس نیچے آ کر بیٹھ گئی
ابو اور بھائی کہاں ہیں؟ اس نے اک نظر سب پر ڈال کر مناہل سے پوچھا افہام کے کوئی دوست آے ہیں انہی کے ساتھ بیٹھے ہیں وہ ،اور تمہارے اور میرے ابو چونکے شور و غل سے گھبراتے ہیں اسی لئے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے ہیں
” چلو جی سب متوجہ ہو جاؤ میں گانا شروع کرنے لگی ہوں”
حمنہ نے ڈھولک بجا کر اونچی آواز میں سب کو متوجہ کیا
وہ جو افہام کے ساتھ اندر آ رہا تھا حمنہ کی اس حرکت پر مسکرا دیا حمنہ اور باقی سب بھی افہام کے ساتھ کسی اجنبی کو دیکھ کر انہی کی طرف متوجہ ہو گئے
دادی یہ میرا بہت ہی اچھا اور قریبی دوست ہے صابر یہ اپنی بھابی کو دیکھنا چاہتا تھا اسی لئے اسے یہاں لے آیا
افہام کی بات سن کر مناہل اپنی جگہ شرم سے سمٹ گئی
اسلام و علیکم دادی جی ! صابر نے نہایت احترم سے انکے سامنے سر جھکایا دادی نے مسکراتے ہووے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا
جیتو رہو بیٹا اچھا کیا افہام جو اسے بھی اپنے ساتھ لے آے آؤ بیٹا بیٹھو نہ تم بھی انہوں نے سنگل صوفے کی طرف اشارہ کیا
اف افہام بھائی بھی پتا نہیں کس کو اٹھا لاۓ ہیں میرا گانا شروع ہونے سے پہلے ہی روک دیا حمنہ نے مونہ بنا کر آہستہ سے ردا کو کہا
مگر اسکی آواز افہام اور صابر دونوں تک بخوبی پہنچ گئی کیوں کے دونوں انکے سر پر جو کھڑے تھے
افہام نے نیچے کشن پر بیٹھی حمنہ کو زبردست گھوری سے نوازا اس نے شرمندہ ہو کر نظریں چرا لیں
نہیں دادی جی اپکا بہت شکریہ پر میں اب چلتا ہوں افس سے سیدھا یہیں آ گیا تھا اسی … اسلام علیکم ! تابندہ اور نرگس بیگم دونوں اک ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں اور انہی کے پیچھے پیچھے ارحم
وہ تینوں صابر کو وہاں دیکھ کر حیران ہووے اور صابر انکو دیکھ کر
وعلیکم اسّلام کہاں رہ گئی تھی اما اپ لوگ” زرینہ بیگم اٹھ کر انکے گلے لگ گیں ارے کچھ نہیں بیٹا بس یہ ارحم ذرا افس سے لیٹ ہوگیا تھا اسی لئے ہم بھی دیر سے پہنچے وہ صوفے پر نگہت بیگم کے ساتھ آ کر بیٹھ گئیں
صابر بیٹا بھی آیا ہوا ہے انہوں نے مسکرا کر صابر کی طرف دیکھا
اسلام و علیکم نانی وہ انکے سامنے بھی اسی طرح جھک گیا جس طرح دادی کے سامنے جھکا تھا
خوش رہو بیٹا انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا
تو یہاں کیا کر رہا ہے ؟ ارحم نے آہستہ سے پوچھا
اپ لوگ اسے جانتے ہیں ؟ افہام سے رہا نہ گیا اسی لئے نانی سے پوچھ لیا
ہان بیٹا یہ ارحم کا دوست ہے بہت ہی اچھا بچا ہے مشاللہ ارحم اسی کے ساتھ تو کام کرتا ہے
افہام نے حیرت سے ساتھ کھڑے ارحم اور صابر کو دیکھا
” یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے صابر تو افہام کا بھی قریبی دوست ہے” نگہت بیگم نے بتایا
آستیں کے سانپ یعنی تو مخالف پارٹی کا بندہ نکلا ارحم نے سب سے نظر بچا کر اسکی پیٹھ پر اک دھپ دے ماری
اف یار ہاتھ ہولا رکھ میں خود کونفویز ہو گیا ہوں کے میں کس پارٹی کے ساتھ ہو “صابر نے پیٹھ سہلای
آؤ بچو بیٹھو نا تم لوگ بھی دادو نے انہیں کھڑا دیکھ کر بیٹھنے کا کہا
وہ تینوں نیچے ہی کشونس پر بیٹھ گئے کچھ اس طرح کے صابر بیچ میں بیٹھا تھا اور اسکے دائیں طرف ارحم جبکہ بائیں طرف افہام تھا
چلو جی اب میری ٹیم بھی پوری ہوگئی تو کیوں نہ مقابلہ ہو جائے سعد نے کھلے عام حمنہ کو چلینج کیا
اچھا بچو ہم سے پنگا لو گے اب! ابھی زمین سے تو پورا نکل لو”
کیوں ڈر گئی کیا ؟
ڈرتی ہے میری جوتی تمھیں اور تمہاری اس ٹیم کو تو منٹوں میں ہرا دوں گی میں اس نے کہتے ساتھ ہی ڈھولک سنھبال لی
یہ وادیاں یہ پربتوں کی شہزادیاں
پوچھ رہی ہیں کب بنے گی تو دلہن
میں کہوں جب آے گے میرے ساجن
میرے ساجن چلا بھی آااا چلا بھی آ
اف یار گانے سے پہلے احتیاطی تدابیر تو بتا دیتی کے سب اپنے اپنے کانوں میں روی ٹھونس لیں یا پھر اپنے کانوں کی سلامتی کے زمیدار اپ خود ہیں قسم سے درد ہوگیا کانوں میں سعد کی ڈرامہ بازی شروع ہو چکی تھی
مگر صابر کو نجانے کیوں نورجہاں کا یہ گایا گانا آج کچھ زیادہ ہی اچھا لگا تھا
” بس بس ڈرامہ بازی بند کرو اور الف سے گانا سناؤ”
آنکھوں کو آنکھوں نے جو سپنا دکھایا ہے
دیکھو کہیں ٹوٹ جائے نہ
اتنے زمانوں میں جو لوٹ کر آیا ہے
پھر کہیں روٹھ جائے نا
سعد تمہاری آواز تو کافی اچھی ہے یار صابر نے کھلے دل سے تعریف کی
ہنہ پتا نہیں کچھ لوگوں کی چوائس اتنی بری کیوں ہوتی ہے” حمنہ نے مونہ بنا کر ذرا اونچی آواز میں پاس بیٹھی ردا سے کہا
مجھے لگتا ہے ارحم مخالف پارٹی سے جلنے کی بو آ رہی ہے صابر نے باقاعدہ ناک سکوڑی
ہنہ حمنہ نے اک تیکھی نظر صابر پر ڈال کر مونہ ردا کی طرف کر لیا
ردا اب تم سناؤ کچھ اور پلیز اب نخرے مت کرنے بیٹھ جانا ”
اچھا ٹھیک ہے سناتی ہوں اس نے پہلے اک نظر اسفند پر ڈالی جو فون پر خود کو مصروف ظاہر کر رہا تھا مگر وہ جانتی تھی اسکا دھیان ادھر ہی ہے
” بھلا دینا مجھے
ہے الودہ تجھے
تجھے جینا ہے میرے بنا
اسکی نظریں اسفند پر ٹیکیں تھیں جو اسکا مطلب اچھے سے سمجھ رہا تھا پل پل اسکا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا اچانک اسنے فون سے نظریں اٹھا کر ردا کو دیکھا بس اک پل کے لئے دونوں کی نظریں ملیں اور پھر وہ اٹھ کر چلا گیا
ارحم اب تو کچھ سنا دے صابر نے اسے ٹوکھا دیا اچھا ٹھیک ہے سناتا ہوں اسنے خاموش بیٹھی زویا پر اک نظر ڈال کر گانا شروع کیا
نگاہیں ملا کر بدل جانے والے
مجھے تجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے
یہ دنیا بڑی سنگدل ہے یہاں پر
کسی کو کسی سے محبت نہیں ہے
ارے تم کہاں جا رہی ہو ؟ مناہل نے اسے اٹھتے دیکھ کر پوچھا میں سب کے لئے چاۓ بنا کر لاتی ہوں وہ بہانا بنا کر اٹھ گئی
چلو بچو اب تھوڑا ریسٹ کر لو اتنا اونچا گا گا کر گلے خراب نہ کرلینا زرینہ بیگم نے مسکراتے ہووے کہا
میرے ساتھ ذرا باہر چل مجھے بات کرنی ہے تجھ سے ارحم نے سبکو باتوں میں مصروف دیکھ کر صابر کو کہا اور اسے لے کر ٹی وی لونج میں آ گیا
اب بتا تیری افہام سے دوستی کب ہوئی ؟
اہ تو تجھے کب سے یہ بےچینی لگی تھی مجھے پتا ہے تو جیلنس ہو رہا ہے پر یار تو فکر نہ کر تو ہی میرا سب سے اچھا دوست ہے صابر بکواس بند کر اور سیدھے طریقے سے بتا ارحم نے دانت پیسے
ارے یار وہ میرے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا تبھی سے ہم اچھے دوست تھے لیکن پھر یونیورسٹی کے بعد وہ اپنے دنیا میں مگن ہو گیا اور میں اپنا بزنس سیٹل کرنے میں لگ گیا اسکے بعد رابطہ ہی نہیں ہوا آج اچانک ہم ملے تو وہ مجھے اپنے ساتھ ہی گھر لے آیا مجھے تو اندازہ ہی نہیں تھا کے تم اس زویا یعنی افہام کی بہن کی محبت میں گرفتار تھے، کاش مجھے پہلے پتا چل گیا ہوتا تو میں تمہارے لئے ضرور کچھ کرتا کمزکم افہام کو ہی سمجھا دیتا”
ہنہ افہام اور کوئی بات سمجھ لے ناممکن وہ صرف اپنی ہی منواتا ہے خیر میں خود زویا سے بات کرنے کی کوشش کروں گا کیا پتا کوئی حل نکل آے
ارحم بھائی چچی آپکو بولا رہی ہیں وہ دونوں باتوں میں اس قدر مصروف تھے کے حمنہ کے انے کی خبر ہی نہ ہوئی
ارحم اسکے بتانے پر اٹھ کر ہال میں چلا گیا
سنئیے ! صابر بھی اسکے پیچھے پیچھے جانے لگا تھا کے حمنہ کی آواز پر حیران ہوتا رک گیا
جی کہئے ؟
وہ اگر میں آپسے اک مدد مانگوں تو کیا اپ کریں گے” حمنہ نے اس قدر مصومیت سے پوچھا کے صابر کو اپنا دل بےقابو ہوتا محسوس ہوا
“جی کہیے نا”
میں نے آپکی اور ارحم بھائی کی باتیں سن لی ہیں لیکن اپ فکر نہ کریں میں کسی کو بھی نہیں بتاؤں گی” اس نے صابر کے چہرے پر پریشانی چاھتے دیکھ کر جلدی سے کہا
” زویا بھی ارحم بھائی کو پسند کرتی ہے پر میرے بہت پوچھنے پر بھی اس نے نہیں بتایا کے اس نے اسفند بھائی کے لئے ہان کیوں کی ہے”
تو آپکو مجھ سے کیا مدد چاہیے”
میں چاہتی ہوں کے ہم کوئی ایسی صورت حال پیدا کریں کے جس میں زویا ارحم بھائی سے اپنی پسند کا اظھار کر دے اور افہام بھائی یہ سب سن لیں شائد اس طرح یہ نکاح رک جائے”
مجھے لگتا ہے اپ کچھ زیادہ فلمیں دیکھتی ہیں اور ویسے بھی یہ کچھ زیادہ ہی فلمی صورت حال نہیں ہو جائے گی ؟ میرا خیال ہے اپ سیدھے طریقے سے افہام سے بات کر لیں ”
او ہیلو مسٹر اپ سے مدد مانگی ہے آپکے یہ شاندار مشورے نہیں اور میں کوئی فلمیں ولمیں نہیں دیکھتی صرف ناول پڑھتی ہوں اور ہان یہ جو اپ افہام بھائی سے سیدھے طریقے سے بات کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں نہ تو میرا خیال ہے اپ صرف انکے نام کے ہی دوست ہے ابھی ارحم بھائی نے بھی آپکو بتایا نہ کے وہ ذرا ٹیڑھی کھیر ہیں سیدھے طریقے سے نہیں مانیں گے مگر ٹھیک ہے اگر آپکو میری مدد نہیں کرنی تو نہ کریں ہنہ وہ غصے سے کہتی ہوئی واپس مڑ گئی
ارے سنیں تو مس ٹھیک ہے میں آپکی مدد کروں گا” وہ اسے جاتے دیکھ کر جلدی سے بولا
حمنہ چہرے پر اک فاتح مسکراہٹ لے کر پلٹی
” یہ ہوئی نہ بات”
ویسے اک بات ابھی بھی میری سمجھ نہیں ای ”
اب کیا ؟ حمنہ نے کھا جانے والے لہجے میں کہا
اپ یہ کام میری مدد کے بغیر بھی تو کر سکتی تھیں نہ”
کر سکتی ہوتی تو اس وقت گدھے کو باپ نہ بنا رہی ہوتی اس نے زیرے لب کہا
میں ارحم بھائی اور زویا کو تو بولا لیتی مگر اگر میں افہام بھائی کو بولانے جاتی اور پیچھے سے وہ لڑنے لگ جاتے اور افہام بھائی جب پہنچتے تو وہ لوگ لڑ رہے ہوتے تو ظاہر سی بات ہے بات اور بگڑنی تھی لہٰذا اپکا کام یہ ہے کے جب زویا اور ارحم لڑ نہ رہے ہوں اور زویا ارحم بھائی سے اپنی پسند کا اظہار کرنے لگے تب مجھے اشارہ کیجیۓ کا تبھی افہام بھائی کو لے کر آؤں گی، کچھ سمجھے مسٹر ؟
جی سمجھ گیا صابر نے مسکرا کر سر ہلایا
شکر ہے حمنہ نے باقاعدہ ہاتھ اٹھا کر کہا
————————————————–
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...