(Last Updated On: )
یہ تو مجھے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ آپ کون ہیں کہاں سے آئی ہیں اور وہ غنڈہ آپ کو کیوں پریشان کر رہا تھا ۔میں تو اک عام انسان ہوں وہاں پارک کے قریب سے گزرتے ہوئے مجھے چیخنے چِلا نے کی آواز آئی تو اس طرف جا کے دیکھا کہ آپ کسی سے بچ کے بھاگ رہیں تھیں اور اک غنڈہ آپ کے پیچھے بھاگ رہا تھا میں نے آپ کو اکیلے گھبرائے ہوئے دیکھا تو بھاگ کر آپ کے پیچھے آیا اور اسے تب تک پیٹا جب تک وہ بے ہوش نہیں ہو گیا ۔
اس سے پہلے کہ میں آپ سے کوئی سوال کرتا آپ بے ہوش ہو کر گر گئیں اور مجھے مجبورًا آپ کو اپنے گھر لانا پڑا ۔اب آپ بتائیں کون ہیں آپ اور کوں بچ کے بھاگ رہی تھیں اس غنڈے سے ؟؟؟
میں بس پارک میں بیٹھی تھی مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کب وہ غنڈہ میرے پیچھے آیا اور اچانک سے مجھے پریشان کرنے لگا ۔اصل گھبراہٹ مجھے تب ہوئی جب میں نے دیکھا کہ میرے اور اس غنڈے کے علاوہ پارک میں اور کوئی نہیں اور رات کے اندھیرا پھیل رہا ہے ۔میں اس سے بچ کر بھاگنے لگی اور وہ میرا پیچھا کرنے لگا بھاگتے بھاگتے اچانک میرا پاؤں پھسلا اور میں گر گئی اور وہ میرے سر پر پہ پہنچ گیا ۔میں بہت ڈر گئی تھی پر آپ کی میں شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے بروقت بچا لیا میں ہمیشہ آپ کی احسان مند رہوں گی بھائی ۔
جی آپ نے کیا بولا ؟؟؟اس شخص نے پوچھا ۔
یہی کہ میں آپ کی احسان مند رہوں گی ۔
نہیں اس کے بعد کیا کہا ؟؟؟
اس کے بعد کیا بولا میں نے عجوہ سوچ میں پڑ گئی ۔ہاں ہاں یاد آیا بھائی بولا میں نے ۔کیوں آپ کو برا لگا کیا؟؟؟ارے نہیں مجھے بلکل برا نہیں لگا دراصل آج سے پہلے کسی نے مجھے اس مان بھرے لفظ سے نہیں پکارا اس لئے جہاں عجیب لگا وہاں بہت اچھا بھی لگا آپ مجھے بھائی بلا سکتی ہیں اس شخص کے مسکرا کر کہنے پر جانے کیوں عجوہ کو وہ انجان شخص اپنا اپنا سا لگا ۔۔۔۔
اے پنکی کیا کر رہی ہے؟؟؟ بچہ تو کب کا سو گیا اسے لیٹاتی کیوں نہیں کیوں دیوانوں کی طرح دیکھ رہی ہے اس کو ؟؟؟ زویا جو کب سے کھڑی پنکی کو دیکھ رہی تھی بولے بنا نہ رہ سکی ۔
کچھ نہیں بس دیکھ رہی ہوں پنکی نے اک ٹھنڈی آہ بھر کہ کہا ۔کیا دیکھ رہی ہے ؟؟؟ زویا نے حیران ہو کر پوچھا ۔
بس یہی دیکھ رہی ہوں کہ کیا کمی ہے اس میں اتنا حسین اور صحت مند ہے اک اک نقش اللّہ پاک نے کتنا پیارا بنایا ہے اور بس اک کمی نے اس بد نصیب کو ہم بد نصیبوں میں لا کر پھینک دیا جنہیں نہ تو کبھی ماں کی گود نصیب ہوتی ہے نہ ہی باپ کی شفقت ملتی ہے ۔ملتی ہے تو صرف ذلت ,کوئی عزت کی نظر سے نہیں دیکھتا ۔لوگ ہمارا مذاق ایسے بناتے ہیں جیسے ہم کوئی لطیفہ ہوں ۔ظالم سماج نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ ہم بھی انسان ہیں ہمیں بھی دکھ پہنچتا ہے ان کے رویوں سے ہمارا بھی دل دکھتا ہے ۔
ہماری بھی آنکھ بھر آتی ہے جب ہمیں تمسخر بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔
کیوں ہیں لوگ اتنے ظالم ؟؟؟ کیا انکے سینوں میں دل نہیں ہوتا کیوں ہنستے ہیں ہم پر کیوں؟؟؟بات کرتے کرتے پنکی کی آنکھیں چھلک گئیں زویا نے آگے بڑھ کہ فورًا اسے سینے سے لگا لیا ۔
ارے پگلی اسی کا نام تو دنیا ہے اللّہ ہے نا ہمارا
ہمیں ہر حال میں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔
ہم جیسے بھی ہیں شکر کرو مسلمان پیدا ہوئے اور آقا دو جہاں محمد عربی کی امّت ہیں اس پر ہی ہم جتنا شکر ادا کریں کم ہے ۔اور ہاں اب بند کرو یہ رونا دھونا آ ؤ کھانا کھائیں بچے کو لیٹا دو یہاں ۔
پنکی نے بچے کو لیٹایا اور دونوں کچن میں کھانا کھانے چل دیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجوہ کی کالج سے واپسی ہوئی تو دیکھا کے سامنے لان میں شہیر رحمان اور سمیر رحمان بیٹھے ہیں ۔وہ نظر بچا کر وہاں سے گزرنا چاہ رہی تھی کہ اسی لمحے شہیر رحمان نے اسے پکار لیا عجوہ بیٹا بات سنو۔
جی بابا بولیں عجوہ نے وہیں کھڑے کھڑے جواب دیا ۔
وہاں نہیں بیٹا ادھر میرے پاس آکر بیٹھو کچھ ضروری بات کرنی ہے ۔
اوکے بابا کہتی وہ ان کے پاس پڑی کرسی پر آکر بیٹھ گئی۔اس وقت وہ مکمل طور پر سمیر رحمان کو نظر انداز کئے ہوئے تھی ۔اور سمیر رحمان کو یہ بات شدت سے محسوس ہوئی تھی کہ عجوہ ہمیشہ اسے ہونہی نظر انداز کرتی ہے اور یہی بات انہیں اندر ہی اندر بہت دکھ دیتی تھی کیونکہ عجوہ سے انہیں بہت پیار تھا شاید اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر اسی لئے وہ بار بار کوشش کرتے تھے عجوہ سے بات کرنے کی پر انہیں ہر بار مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ عجوہ نے انہیں اپنی نظر میں بیگانہ کر دیا تھا اور وہ لاڈلی بھتیجی کے رویے سے ہمیشہ یونہی دکھی ہو جایا کرتے تھے۔
بیٹا آپ کے پیپرز کب تک ختم ہو رہے ہیں؟؟؟ شہیر رحمان نے پوچھا ۔
بابا بس ختم ہونے والے ہیں آج سیکنڈ لاسٹ پیپر تھا اور منگل کو لاسٹ پیپر ہے ۔
اچھا بیٹا میں نے آپکی پھپھو اور آپ کے چاچو نے سو چا ہے کہ آ پکے پیپرز کے بعد آپ کی اور اشہاب کی شادی کر دیں ویسے بھی پیپرز کے بعد آپ فارغ ہیں پڑھائی تو مکمل ہو ہی چکی ہے بس رزلٹ کا انتظار ہے اس کے بعد میری بیٹی خیر سے ڈاکٹر عجوہ شہیر کہلائے گی
اشہاب آپ کی ہر معاملے میں مدد کرے گا اس معاملے میں میری اور اشہاب کی پہلے سے بات ہو چکی ہے اس لئے آپ کو کسی بھی معاملے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔اب بیٹا آپ بتائیں آپ کا کیا فیصلہ ہے؟؟؟شہیر رحمان نے پوچھا۔
بابا آپ نے جو سوچا ہوگا بہتر ہی ہوگا جو آپ کو ٹھیک لگے کر لیں جھکے سر کے ساتھ کہہ کر عجوہ وہاں رکی نہیں تھی۔۔۔۔
عجوہ کے آخری پیپر کے بعد گھر میں تیزی سے عجوہ اور اشہاب کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ حبیبہ صاحبہ کے تو خوشی سے قدم زمین پر نہیں ٹِک رہے تھے ۔عجوہ کی چچی فائزہ اور عجوہ کی کزنز بہن بھائی سب ہی تیاریوں میں بڑھ چڑھ کہ حصہ لے رہے تھے آخر گھر کی پہلی شادی جو تھی ۔لڑکیوں نے ڈھولک رکھ لی شادی سے چار دن پہلے۔لڑکیوں کو موقع کیا ملا انہوں نے خوب ہلّا گلّا کیا عجوہ ان سب کو دیکھ کر مسکراتی رہی۔دن میں نکاح کی رسم تھی اور رات میں مایوں کی۔ حبیبہ صاحبہ نے عجوہ کو مایوں کا دوپٹہ اوڑھایا اور اس کے ماتھے پر پیار کیا دوپٹہ اوڑھاتے ہوئے حبیبہ صاحبہ نے اپنا موبائل عجوہ کے پاس ہی رکھ دیا اور خود دوسری تیاریوں میں لگ کر موبائل کو بھول ہی گئیں ۔ عجوہ رات تک لڑکیوں کے جھرمٹ میں گھری بری طرح تھک گئی تو ماں کا موبائل اٹھا کر اپنے کمرے میں ساتھ ہی لے آئی ۔موبائل سائیڈ پر رکھ کر عجوہ خود منہ ہاتھ دھونے چلے گئی واپس آکر اس نے لیٹ کر آرام کرنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ حبیبہ صاحبہ کے موبائل کی بیل ہوئی اور عجوہ نے بند آنکھوں کے ساتھ بے دھیانی میں کال اٹینڈ کر لی ۔اسلام علیکم کون ن ن ن عجوہ نے نیند بھری آواز میں کہا وعلیکم سلام کیسی ہیں آپ دوسری طرف اشہاب کی گھمبیر آواز سن کر عجوہ نے پٹ سے آنکھیں کھولیں اور اچھل کے اٹھ بیٹھی جی ی ی ی میں ں ں ں ٹھیک آپ کی کال اس وقت خیریت؟؟؟کیوں میں اتنی رات میں کال نہیں کر سکتا حالانکہ اب تو میرا پورا حق ہے اپنی بیوی پر ۔۔۔دوسری طرف اشہاب شرارتی لہجہ کے ساتھ بول رہا تھا اور عجوہ کے لئے جواب دینا مشکل ہو رہا تھا ۔جی ی ی ایسی بات نہیں میں حیران ہوئی کے اس وقت پہلے آپ کی کال جو نہیں کبھی عجوہ کے سادہ سے لہجے پر اشہاب مسکرائے بنا
نہ رہ سکا ۔جی کیونکہ اس پہلے میں آپ کا شوہر جو نہیں تھا اشہاب نے بات کرتے کروٹ بدلی ۔اور ویسے بھی میں نے تو ممّو کو کال کی تھی کیا خبر تھی ہماری بیگم ہم سے بات کرنا چاہتی ہیں
جی نہیں ایسی بات نہیں وہ تو میں ۔۔۔عجوہ نے کان سے ہٹا کر موبائل کی طرف دیکھا تو اسے سمجھ آئی کہ نیند میں اس نے اپنی موبائل کی جگہ اپنی ماما کا موبائل اٹھا لیا جو وہ رسم سے فارغ ہو کر وہ اپنے ہی کمرے میں لے آئی تھی غلطی سے۔ جی وہ معذرت میں غلطی سے ماما کا موبائل میں کمرے میں اپنے لے آئی رکیں ابھی بات کرواتی ہوں آپکی عجوہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
ارے نہیں نہیں کوئی خاص بات نہیں بس یونہی کال کی تھی میں نے چلو اچھا ہوا اسی بہانے ہم نے اپنی بیگم کی آواز سن لی ۔
اشہاب کے اس انداز پر عجوہ جھینپ سی گئی اور بنا کچھ بولے کال کاٹ کر اک لمبی سانس خارج کی اس نے کہاں دیکھا تھا پہلے کبھی اشہاب کا یہ انداز اس کا گھبرانا تو بنتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔