آنٹی جو صبح لڑکی آئی تھی کیا وہی حازم کی کزن تھی جس سے وہ انگیج تھا۔
عنیزہ ان کی طرف رخ موڑ کے بولی۔ وہ صبح سے اب نیچے آئی تھی۔ عفت بیگم کو لاؤنج میں بیٹھا دیکھ کر وہ ان کے پاس ہی آ گئی تھی۔
جی وہ وہی تھی۔
وہ ہمیشہ کی طرح مطمئن سی بولیں۔
آنٹی اس کے ساتھ تو بہت برا ہوا ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے تھے۔
وہ رک رک کے آہستہ آواز میں بولی۔
شاید اس کے لیے حازم سے بھی کچھ بہتر ہو ۔ اللّه کے ہر کام میں کوئی نا کوئی بھلائی تو ضرور ہوتی ہے بیٹا۔
انہوں نے عنیزہ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے کہا۔
آپ بلکل ٹھیک کہ رہی ہیں آنٹی لیکن۔۔
وہ اتنا بول رکی۔
یہ تو نا انصافی ہوئی اس کے ساتھ۔
آپ لوگ ایسا کریں۔۔۔۔۔
اس نے بولنے سے پہلے عفت بیگم کی طرف دیکھا۔
کیسا؟؟
آپ اس کی شادی حازم سے کروا دیں۔ میں نہیں چاہتی کے میری وجہ سے آپ کے گھر میں لڑائیاں ہوں۔ مجھے تو ویسے بھی ایک دن چلے جانا ہے۔ اور میری وجہ سے آپ کے گھر کا سکون برباد ہو یہ میں ہرگز نہیں چاہتی۔
وہ بغیر عفت بیگم کی طرف دیکھے بول رہی تھی۔
عنیزہ آپ کو پتہ ہے آپ کیا کہ رہی ہو؟
مطلب سچ میں آپ کو کوئی مسلہ نہیں ہو گا اگر حازم شادی کر لے۔ پہلی بار کوئی ایسی لڑکی دیکھ رہی ہوں جو اپنا شوہر ہی شئیر کرنے کو تیار ہے۔ آپ کی وجہ سے کوئی لڑائی نہیں ہو رہی۔ بیٹیاں تو رحمت ہوتی ہیں۔ آپ بھی ہمیں نوال کی طرح عزیز ہو۔ اور چلے کہاں جانا ہے آپ کو؟
وہ حیرت زدہ سی بول رہیں تھیں۔
عنیزہ کچھ نا بولی۔
یہ آپ کا گھر ہے۔ اپنا گھر چھوڑ کر کہاں جائیں گیں۔ جب آپ خود ہی اپنا مقام چھوڑنے کو تیار ہیں تو دوسرے خودی ڈیرہ جما لیں گے۔ مجھے آپ سے ایسی باتوں کی قطعًا امید نہیں تھی۔ میں تو آپ کو بہت سمجھدار سمجھتی تھی۔ یہ بات کر کے آپ نے مجھے بہت ہرٹ کیا ہے عنیزہ۔ لڑکیاں تو اپنے شوہر کی طرف کسی کو دیکھنے بھی نہیں دیتیں اور آپ۔۔
وہ افسوس سے بول رہی تھیں۔
سوری آنٹی۔
میرا وہ مطلب نہیں تھا۔
میں تو۔۔
وہ نظریں جھکا کر شرمندہ شرمندہ سی بولیں۔
اٹس اوکے۔۔
سوری کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
پر آپ پرومیس کریں کے آئندہ ایسی کوئی بات منہ سے نہیں نکالیں گیں۔
جی پرومیس۔۔
وہ فورا بولی۔
جو آپ کا ہے وہ آپ کا ہی ہے۔ اپنے حق کے لیے لڑنا سیکھو نا کے خود با خود اپنے ہاتھوں سے ہی دوسروں کو سونپ دو۔
اوکے آنٹی میں خیال رکھوں گی۔
وہ ہلکا سا مسکرا کے بولی۔
آنٹی میں آپ سے کبھی نا کہتی لیکن مجھے لگا کے شاید میری وجہ سے ہو رہی ہیں یہ بدمزگیاں۔۔
کچھ نہیں ہو رہا آپ کی وجہ سے۔
یہ بات مائنڈ سے نکال دیں۔ اور یہ یاد رکھنا کے حازم کی وائف صرف اور صرف آپ ہو۔ اس کی ہر چھوٹی موٹی چیز کا خیال آپ کو رکھنا ہے۔ یہ گھر آپ کا ہے۔
اوکے آنٹی۔
میں آگے سے بہت خیال رکھوں گی۔
ویری گڈ بچے۔
وہ مسکرا کے عنیزہ کو پیار کر کے بولیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دکھ ہوا مجھے بھائی صاحب سے سن کر جو اس بچی کے ساتھ ہوا۔
ہمم مجھے بھی۔
حیدر صاحب کچھ سوچتے ہوۓ بولے۔
اتنی پیاری بچی اور تمیز دار بھی پر۔۔
بس کریں آپ لوگ۔
جب سے آئیں ہیں دونوں اسی کی باتیں کری جا رہے ہو ۔
میں بھی تو معصوم ہوں۔ میں آپ کو نظر نہیں آتی ہوں کیا۔ میرے ساتھ جو انہوں نے کیا اس کا تو آپ دونوں کو کوئی دکھ نہیں ہے۔ وہ جسے ملے آپ کو دو گھنٹے بھی نہیں ہوۓ وہ آپ کو اچھی لگنے لگ گئی۔
بہت اچھے۔ اولاد کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں نا۔
سحر یہ کونسا لہجہ آپ استعمال کر رہی ہیں؟ آپ اپنے پیرنٹس سے مخاطب ہو نا کے چھوٹے بہن بھائیوں سے۔
وجیہہ بیگم اسے ڈانٹ کے بولیں۔
آپ کو تو میں ہی بری لگتی ہوں۔ کاش میں پیدا ہوتے ہی مر جاتی۔ آپ لوگوں کی زندگی میں سکون تو رہتا۔
انف سحر۔۔
کیا آپ بڑوں سے بات کرنے کی تمیز بھی بھول گئی ہیں۔ سارے مینرز کیا انگلینڈ ہی چھوڑ آئیں ہیں۔ آپ تو یہاں آ کر یہ تک بھول گئی ہو کے کون بڑا ہے اور کون چھوٹا۔ زندگی ایک ہی شخص پر ختم نہیں ہو جاتی۔
نہیں ہوا حازم سے تو نا سہی۔ اور دنیا کونسا ختم ہو گئی ہے۔ پر آپ نے تو ایسے واویلہ مچایا ہوا ہے جیسے پتہ نہیں کیا ہو گیا۔
آج میں نے آپ کو اتنی بدتمیزی کرتے دیکھ لیا آئندہ میں دیکھوں نا۔
حیدر صاحب کہ کے گھر کے اندر چلے گئے۔
وجیہہ بیگم بھی افسوس کرتی ان کے پیچھے ہوئیں۔
حیدر صاحب اور وجیہہ بیگم دونوں لنچ سے واپس آئے تھے تو عنیزہ کی باتیں کرنے لگ گئے۔ سحر نے جانے سے انکار کر دیا تھا کے وہ نہیں جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنیزہ؟؟
جی۔
یار ایک کپ چائے کا ہی لا دو۔
حازم لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہوۓ بولا۔
اچھا۔
کہ کے وہ بیڈ سے اٹھتی جوتا پہن کر کمرے سے باہر چلے گئی۔
اوہ۔۔
مطلب سچ میں۔
حازم حیرت سے بولا۔
آج تو ایک منٹ میں ہی چلے گئی۔ اللّه خیر کرے۔
اس نے دل میں سوچا۔
عنیزہ نیچے آئی تو اسے سارا گھر خالی نظر آیا۔
کچن کی بھی لائٹس اوف تھیں۔
لگتا ہے سب سو گئے ہیں۔
تو اب چائے کون بنائے گا؟
وہ کھڑی ہو کر سوچنے لگ گئی۔
ایسا کرتی ہوں میں ہی بنا دیتی ہوں۔ اب اتنے سے کام کے لیے آنٹی کو تو ڈسٹرب نہیں کر سکتی نا۔
وہ سوچتے ہوۓ کچن کی طرف بڑھ گئی۔
ابھی تک چائے لے کر ہی نہیں آئی یہ لڑکی۔
حازم گھڑی کی طرف دیکھ کے بولا۔
اسے گئی کو کم از کم آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا۔
میں خود ہی نیچے جا کر دیکھتا ہوں۔ ابھی وہ اٹھتا کمرے میں عنیزہ داخل ہوئی ۔ اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی۔ ایک چائے کا کپ اور باقی کچھ سنیکس تھے۔
وہ ٹرے بیڈ پر ہی لے آئی۔
اس کے سامنے رکھ کے وہ دوسری سائیڈ پر جا کے بیٹھ گئی۔
تھینک یو۔
حازم اس کی طرف دیکھ کے مسکرا کے بولا۔
اٹس اوکے۔
دو لفظی جواب دے کر وہ چپ ہوئی۔
اس نے رخ مور کے عنیزہ کی طرف دیکھا۔
ایوری تھنگ از اوکے؟
لیپ ٹاپ سائیڈ پر کرتا اس نے عنیزہ سے پوچھا۔
ہمم۔۔۔
وہ پھر اتنا ہی بولی۔
یار سب ٹھیک ہے نا؟ کیا کسی نے کچھ کہا ہے۔
حازم نے اسے کندھے سے ہلا کر پوچھا۔
ہاں سب ٹھیک ہے۔
چائے پیو ٹھنڈی ہو رہی ہے۔
وہ جھنجھلا کے بولی۔
مجھے لگتا ہے اتنا چپ تم ساری زندگی نہیں رہی ہو گی۔ جتنی آج خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
کیوں تمھے سکون اچھا نہیں لگ رہا؟
وہ حازم کے بے تکے سوال پر منہ بسور کے بولی۔
نہیں۔۔
جب سے تم زندگی میں آئی ہو سکون عجیب سا لگتا ہے۔
وہ مسکرا کے بولا۔
ویری فنی۔
وہ منہ کے زاویے بناتی بولی۔
تمہاری چائے کدھر ہے؟
حازم اپنا کپ منہ کو لگاتے بولا۔
میں چائے نہیں پیتی۔
یہ چائے کس نے بنائی ہے؟
حازم ایک سپ لے کر بولا۔
کیوں کیا ہوا؟
اچھی نہیں ہے کیا؟
عنیزہ نے جواب دینے سے پہلے سوال کیے۔
بتاؤ تو سہی!!
حازم میں نے اپنی طرف سے بلکل ٹھیک بنائی ہے۔ مجھے نہیں پتہ کدھر سے خراب ہوئی۔ میں نے فرسٹ ٹائم بنائی ہے تو مجھے نہیں پتہ ٹھیک ہے یا نہیں۔
وہ اپنی صفائی دینے لگی۔
کام ڈاؤن۔۔
تمھے کس نے کہا چائے اچھی نہیں ہے۔
بہت مزے کی ہے۔ اسی لیے تو میں نے پوچھا۔
حازم کو لگا جیسے وہ ابھی رو دے گی۔ اس کا ہاتھ دباتا پیار سے بولا۔
پکا نا۔۔۔۔
اس نے کنفرم کرنا ضروری سمجھا۔
ہمم پکا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنیزہ ٹرے نیچے رکھ کے آئی تو حازم دوبارہ سے اپنے کام میں مشغول ہو چکا تھا۔
وہ بھی جا کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
تم کیا کر رہے ہو؟
میں تھوڑا سا کام کر رہا ہوں۔ اگر تم نے سونا ہے تو میں بالکونی میں چلا جاتا ہوں تم سو جاؤ۔
حازم لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلاتے ہوۓ بولا۔
نہیں تم یہاں ہی رہو۔
کیا میں بھی دیکھ سکتی ہوں۔
عنیزہ اس کی طرف دیکھ کے بولی۔
ہاں دیکھ لو۔
اس میں کیا ہے۔
عنیزہ اس کے قریب ہو کر بیٹھ گئی اور لیپ ٹاپ کی طرف دیکھنے لگی۔
کچھ ہی ٹائم گزرا تھا جب حازم کو اپنے کندھے پر کچھ محسوس ہوا۔ اس نے نظریں مور کے دیکھا تو عنیزہ کا سر تھا وہ سو چکی تھی۔
حازم نے لیپ ٹاپ کو سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور اس کا سر بیڈ کی پشت کے ساتھ ٹکایا۔
اٹھ کے دوسری سائیڈ پر گیا اور تکیہ ٹھیک کر کے اسے لٹا دیا۔
منہ پر آئے ہوۓ بالوں کو پیچھے کرتا وہ اس کے معصومیت سے پر چہرے کو دیکھ کے مسکرا دیا۔
“YOu are One Of the best decisiOn of my life..”
وہ اس کی طرف دیکھ کے بولا اور آگے بڑھ کے اس کے ماتھے کا بوسہ لیا۔
لیمپ اوف کرتا وہ لیپ ٹاپ اٹھا کے بالکونی کی طرف چلا گیا۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حازم واک سے واپس آیا تو اسے کمرہ خالی نظر آیا۔ بیڈ پر اس کا یونیفارم سمیت تمام چیزیں موجود تھیں۔ اسے دیکھ کے حیرت ہوئی۔
شاید ماما نے رکھ دیا ہو۔
وہ بڑبڑایا۔۔
وہ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے اپنا فون اٹھا کر صوفے پر بیٹھ گیا۔
اسے بیٹھے چند منٹ ہی گزرے تھے کے عنیزہ کمرے میں انٹر ہوئی۔
اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی۔
آگے بڑھ کے ٹرے حازم کے سامنے رکھی۔
حازم فون سائیڈ پر رکھتا حیرانگی سے اسے دیکھنے لگا۔
کیا ہے؟
وہ اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتا پا کر بولی۔
تم ٹھیک ہو نا؟
مطلب تمہاری طبیعت تو خراب نہیں۔
حازم اس کے مقابل کھڑا ہو کر بولا۔
کیا مطلب؟
میں تو بلکل ٹھیک ہوں۔
وہ نا سمجھی سے بولی۔
نہیں نہیں ایک منٹ رکو۔
فیور بھی نہیں لگ رہا۔ حازم نے اس کے ماتھے کو چیک کر کے کہا۔
ایسا کرو یہ جوس پیو تمھارے کچھ حواس بحال ہوں۔
اس نے جوس اٹھا کے عنیزہ کی طرف بڑھایا۔
کیا ہے؟
وہ چیخی۔۔۔۔
میں بھی تو وہی پوچھنا چاہ رہا ہوں کیا ہے؟
یہ جوس مجھے آنٹی نے بنانا سکھایا تو وہ کہ رہی تھیں کے میں تمھے دے دوں۔
میں نے تمھے دے دیا سمپل۔۔
اس نے تفصیل بتائی۔
اچھا پھر ٹھیک ہے۔
اتنی بیویوں والی حرکتیں کرو گی بندے کو شوک تو ہوتا ہی ہے۔
حازم نے اس کی طرف دیکھ کے کہا۔
بیویوں والی سے کیا مراد ہے تمہاری؟
کیا اور بھی ہیں؟
وہ آنکھیں اچکا کے بولی۔
ہاں تم ہی سو کے برابر ہو۔ تم تو پہلے پوری بیوی بن جاؤ پھر کسی اور کے بارے میں سوچا جا سکتا۔
کہ کے حازم بیٹھ کے جوس پینے لگ گیا۔
پتہ نہیں کیا کیا۔۔
وہ منہ بنا کے بولتی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔
اور یہ میرا یونیفارم وغیرہ بھی تم نے نکالا ہے؟
ہممم۔۔
اس نے اتنا کہنے پر ہی اختفاع کیا۔
گریٹ۔۔۔۔
کیسا تھا جوس؟
اس کو گلاس ٹیبل پر رکھتے دیکھ عنیزہ فورا بولی۔
بس ٹھیک تھا۔
حازم نے سنجیدگی سے کہا۔
عنیزہ اسے دیکھ کے رہ گئی۔
وہ منہ بناتی ٹرے لے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
بہت اچھا تھا۔۔
اس کے کمرے سے باہر نکلنے سے پہلے ہی وہ بولا۔
جھوٹی تعریف نہیں کرو۔
وہ کہ کے کمرے سے نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتہ کر کے حازم واپس کمرے میں آ گیا تھا۔
عفت بیگم نے عنیزہ کو اس کے پیچھے بیجھ دیا کے حازم کو کسی چیز کی ضرورت نا ہو۔
وہ بیڈ پر بیٹھ کے اپنے فون پر لگ گئی۔ جب سے کمرے میں آئی تھی حازم فون پر مصروف تھا۔ اور پولیس سٹیشن جانے کے لیے تیار بھی نہیں ہوا تھا۔
حازم کا فون بند ہوا تو وہ گھڑی پر وقت دیکھتا ورڈروب کی طرف بڑھ گیا۔
بلیو کلر کی پنٹ اور وائٹ شرٹ نکال کے وہ چینج کرنے چلا گیا۔
آج یونیفارم نہیں پہننا کیا؟
عنیزہ نے دل میں سوچا۔
پتہ نہیں۔۔
وہ بڑبرائی۔
حازم چینج کر کے آ کر میرر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
اپنے بال برش کر کے ہاتھ پر ریسٹ واچ لگاتا شوز پہن کے دوبارہ ورڈروب کی طرف گیا۔ وہاں سے بلیو کوٹ نکال کر پہنا۔
عنیزہ بظاہر تو اپنے فون میں لگی ہوئی تھی پر اس کا دیہان حازم پر ہی تھا۔
دوبارہ میرر کی طرف آیا اور اپنے اوپر پرفیوم اسپرے کی۔
تیار تو ایسے ہو رہا ہے جیسے آج اس کا ولیمہ ہو۔
عنیزہ سوچتے ہوۓ فون سائیڈ پر رکھتی حازم کی طرف آئی۔
کہاں جا رہے ہو اتنا تیار ہو کے؟
عنیزہ اس کے پیچھے کھڑی چہرے پر سنجیدگی سجائے بولی۔
پولیس سٹیشن جا رہا ہوں اور کہاں۔
حازم آخری نظر خود پر ڈال کے بولا۔
یار اب میرے سے تو نا چھپاؤ۔۔
کیا نا چھپاؤں؟
وہ دوبارہ نا سمجھی سے بولا۔
کے اتنا تیار ہو کے کس گرل فرینڈ سے ملنے جا رہے ہو۔ مجھے تو بتا ہی سکتے ہو۔ میں کونسا کسی کو بتاؤں گی۔
وہ آنکھیں مٹکا مٹکا کے اپنی ہی دھن میں بولی۔
عنیزہ بی بی۔
جب بھی تم مجھے کچھ سمجھدار لگنے لگتی ہو تب ہی کوئی بچوں والی حرکت کر دیتی ہو۔
حازم نے اس کی طرف مڑ کے کہا۔
ہاہاہاہا۔۔۔
بہت ہنسی آئی۔
اب سچ بتاؤ۔
پہلے تو کبھی اتنا تیار ہو کر نہیں جاتے۔ آج تو یونیفارم بھی نہیں پہنا۔ اور دوسری بات فون پر فون بھی آ رہے ہیں۔
سچی بتا دو نا۔
قسم سے میں کسی کو نہیں بتاؤں گی۔
وہ اس کی طرف دیکھتی حلق پر ہاتھ رکھتی بولی۔
اففففف۔۔
حازم كراه کے رہ گیا۔
ایسے تو کوئی اپنے ولیمے میں بھی تیار ہو کر نہیں جاتا جیسے تم جا رہے ہو۔
عنیزہ اس کی طرف دیکھ کے بولی۔
وہ سلیقے سے بال سیٹ کیے ، ہلکی بڑھی ہوئی شیو میں چہرے پر سنجیدگی لیے کھڑا تھا۔
اس کی بات سن کر وہ مسکرایا۔
میری ٹینشن نا لو۔
اکیلے تو ولیمہ کرنے سے میں رہا۔
جب کروں گا تو تم بھی ہمراہ ہی ہو گی۔
اور ان شاءاللّه بہت جلد وہ دن آئے گا۔
حازم اس کا چہرہ تھپتھپا کے بولا۔
تمھے شرم تو نہیں آتی اپنی وائف سے ایسی باتیں کرتے ہوۓ۔
عنیزہ تیکھے تیور لیے بولی۔
اوہ شکرن!!
تم نے مانا تو سہی کے تم میری وائف ہو یار۔
اس نے لمبا سانس لے کر کہا۔
عنیزہ کچھ نا بولی۔
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کے کیا جواب دے۔
اب چپ کیوں ہو؟
بولو بھی۔۔
حازم نے اس کے سامنے ہاتھ ہلایا۔
ہا ہاں۔
میں نے پہلے کب کہا کے میں نہیں ہوں۔
وہ جلدی جلدی بولی۔
کہا تو نہیں۔
پر کبھی فیل بھی تو نہیں کروایا کے تم ہو۔
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کے بولا۔
جاؤ تم لیٹ ہو رہے ہو۔
وہ ویٹ کر رہی ہو گی۔
عنیزہ اس کے سامنے سے ہٹ گئی۔
ہمم جا رہا ہوں۔
وہ سچ میں میرا ویٹ کر رہی ہو گییییی۔۔۔۔
اس نے گی کو لمبا کیا۔
فون پکڑتا وہ کار کی چابی لے کر باہر نکل گیا۔
آج تو اللّه حافظ بھی نہیں کہا۔
وہ دروازے کی پشت کو گھورتے ہوۓ بولی۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وجیہہ یہ تو سحر کا اپنا گھر ہے وہ بلا جھجھک یہاں رہ سکتی ہے۔
عفت بیگم ہمیشہ کی طرح چہرے پر مسکراہٹ سجائے اپنے مخصوص انداز میں بولیں۔
ہم نے تو اسے کہا ہے کے ساتھ ہی آ جاؤ ۔ شاید ہمیں ایک دو دن لگ جائیں۔ پر یہ بضد ہے کے میں نے نہیں جانا۔
وہ بتا کے چپ ہوئیں۔
اچھی بات ہے چچی جان۔
سحر آپی ہمارے پاس رہیں۔ ہم گھومیں پھیریں گے اور انڈر اسٹینڈنگ بھی بڑھتی ہے آپ ہو آئیں۔
پاس بیٹھی نوال نے بھی حصّہ ڈالا۔
سحر ایک سائیڈ پر صوفے پر بیٹھی فون میں مصروف تھی۔
فواد صاحب اور حیدر صاحب دونوں باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ چائے پی رہے تھے۔
عنیزہ سو کے اٹھ کر نیچے آئی تو اسے کچن اور لاؤنج میں کوئی نظر نا آیا۔ وہ ڈرائنگ روم کی طرف بڑھی کے شاید وہاں ہوں سب۔
ڈرائنگ روم میں سب کو بیٹھا دیکھ کے اس نے بلند آواز سلام کیا۔
السلام علیکم!!
وعلیکم السلام!!
سب نے ہم آواز جواب دیا۔
کیسے ہیں آپ لوگ انکل آنٹی؟
وہ کھڑے کھڑے ہی بولی۔
الحمداللہ ہم ٹھیک۔۔
آپ سناؤ بیٹا؟
حیدر صاحب بولے۔
الحمداللہ میں بھی ٹھیک۔ وہ مسکرا کے بولی۔
آپ کھڑی کیوں ہو یہاں آ جاؤ۔
وجیہہ بیگم نے اپنے پاس صوفے پر اشارہ کر کے کہا۔
اچھا جی۔
سحر عنیزہ کو ایک نظر دیکھتی نخوت سے سر جھٹک کے ویسے ہی بیٹھی رہی۔
بہت دیر بعد چکر لگایا آنٹی آپ نے؟
آ جایا کریں نا۔
عنیزہ ان کے ساتھ بیٹھتے بولی۔
جی جی کیوں نہیں۔
اصل میں ملنے ملانے والے بہت آ رہے تھے تو اس لیے ٹائم نہیں ملا۔
وہ اس کی طرف دیکھ کے بولیں۔
اچھا جی۔
آج تو رات یہاں ہی روکیں گی نا؟
نہیں بیٹا۔
آج مجھے اپنے بھائی کی طرف جانا ہے وہاں سے آ کر آپ کے پاس ضرور رکوں گی۔
وہ دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دے رہی تھیں۔
ان شاءاللّه ضرور۔
آپ کیسی ہیں سحر؟
ان کو جواب دے کر وہ سحر کی طرف متوجہ ہوئی۔
جسٹ شٹ اپ۔۔۔
اپنے تک ہی رہو۔ میرے ساتھ مراسم بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور نا ہی مجھے تم سے بات کرنا پسند ہے۔ اپنے تک ہی رہنا۔ آج تو میں نے برداشت کر لیا نیکسٹ میں نہیں کروں گی۔ تھرڈ کلاس لوگ۔۔
سحر بغیر سوچے سمجھے بول رہی تھی۔
وہاں سب دھم سادے اسے سن رہے تھے۔
اتنا کچھ سن کے عنیزہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کبھی اس سے کسی نے اتنی بد تمیزی نہیں کی تھی۔
وہ وہاں سے اٹھ کر چلے گئی۔
یہ کیا حرکت تھی سحر؟
آپ کو بات کرنے کی تمیز نہیں ہے کسی سے؟
حیدر صاحب اونچی آواز میں چلائے۔
میں نے اس سے کہا نہیں تھا میرے سے بات کرے۔ اور نا ہی مجھے اس سے بات کرنا کچھ خاص پسند ہے۔
وہ مطمئن سی بولی۔
ڈوب کے مرنے کا مقام ہے آپ کے لیے۔ کیا فائدہ آپ کی اتنی اسٹڈیز کا جب آپ کو پتہ ہی نہیں چلا کے کس سے کیسے بات کی جاتی ہے۔ افسوس ہے مجھے آپ پر۔
وہ بول کے غصّہ ضبط کرتے وہاں سے اٹھ کے چلے گئے۔
وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اس کے چہرے پر کوئی شرمندگی کا آثار نہیں تھا۔
عفت بہن میں آپ سے معافی مانگتی ہوں۔
وجیہہ بیگم شرمندہ سی بولیں۔
یہ کیا کہ رہی ہیں آپ؟
کوئی بات نہیں بچی ہے۔ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی آہستہ آہستہ۔
عنیزہ بھی تو بچی ہے۔ اس کو کتنا برا لگا ہو گا۔۔
وہ سحر کی طرف دیکھ کے غصّے سے بولیں۔
ہماری بیٹی بہت اچھی ہے میں اسے سمجھا دوں گی تو وہ ٹھیک ہو جائے گی۔
عفت بیگم نے ایک نظر سحر کو دیکھ کے کہا۔
انھیں بھی اس کا بولنا اچھا نہیں لگا تھا پر وہ کیا کہ سکتی تھیں۔
فواد صاحب بھی وہاں سے اٹھ کے چلے گئے۔
۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنیزہ کمرے میں آ کر بیڈ پر بیٹھ کے رونے لگ گئی۔ اس کا دل کر رہا تھا کمرے کی ہر چیز تہس نہس کر دے پر اسے حازم کی بات یاد آ گئی کے ان چیزوں کا کیا قصور۔
وہ چپ چاپ بیٹھ کے رونے لگ گئی۔
ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا جب دروازے پر دستک ہوئی۔
ٹھک ٹھک۔۔۔
دروازہ نوک ہوا تو وہ کچھ نا بولی۔
وہ کسی سے بات کرنا نہیں چاہتی تھی۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے آنے والے کی طرف دیکھا تو فورا آنسو صاف کرتی بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
آپ مجھے نیچے بلا لیتے۔
وہ مدھم آواز میں بولی۔
بیٹھو بیٹھو بیٹا۔
فواد صاحب اس کی طرف آ کر بولے۔
آپ بیٹھیں بابا۔
وہ ان کو بیڈ کی طرف اشارہ کر کے بولی۔
آپ بھی بیٹھو میں بھی بیٹھتا ہوں۔
وہ پیار سے بولے۔
بیٹا میں آپ سے سحر کی طرف سے بہت معذرت کرتا ہوں۔ ہمیں سب کو پتہ ہے کے اس نے آپ سے بہت بدتمیزی کی ہے پر وہ مہمان ہے اسے ہم کچھ کہ تو نہیں سکتے نا۔ حیدر نے اسے بہت ڈانٹا ہے۔
وہ نادم نادم سے بولے۔
آپ میرے بڑے ہیں بابا جان۔
آپ کو معذرت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور بابا بیٹیوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہوتے ۔ بابا تو آرڈر کرتے اچھے لگتے ہیں نا۔ ریکویسٹ کرتے ہوۓ نہیں۔
مجھے برا لگا تھا لیکن اب میں ٹھیک ہوں۔
وہ مودب سی بولی۔
شاباش بچے۔
اسے ہی اچھی تربیت کہتے ہیں۔
وہ عنیزہ کے سر پر ہاتھ رکھ کے بولے۔
اور تربیت کا پتہ تب ہی چلتا ہے جب سامنے والے کا منہ کھلتا ہے۔
پھر ہی پتہ چلتا ہے کے دوکان سونے کی ہے یا کوئلے کی۔
وہ سنجیدگی سے بولے۔
جی آپ ٹھیک کہ رہے ہیں۔
عنیزہ ان کی طرف دیکھ کے بولی۔
اللّه آپ کو خوش رکھیں ۔ ہمیشہ ہنستی مسکراتی رہیں۔ آمین۔
وہ کھڑے ہو کر بولے۔
شکریہ بابا جان۔
شکریہ تو آپ کا بچے۔
وہ مسکرا کر کہتے باہر چلے گئے۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنیزہ عنیزہ۔۔
حازم کمرے میں آیا تو اسے وہ کہیں نظر نا آئی۔
وہ اپنا کوٹ چابی اور فون بیڈ پر رکھ کے اسے بلند آواز میں پکارنے لگا۔
جی۔
وہ بالکونی سے کمرے میں آ کر بولی۔
وہاں کیا کر رہی تھی موسم بھی ٹھنڈا ہو رہا ہے تم بیمار ہو جاتی۔
وہ ایک ہی سانس میں بولا۔
اچھا۔
کیا کہنا تھا؟
وہ اس کی طرف دیکھ کے آہستہ آواز میں بولی۔
کچھ ہوا ہے کیا؟
حازم نے اس کے پاس آ کر سنجیدگی سے پوچھا۔
ن نہیں تو۔
وہ نظریں جھکاتی بولی۔
پھر تمہارا چہرہ کیوں اترا ہوا لگ رہا ہے؟
نہیں۔۔
وہ بس اتنا ہی بولی۔
اچھا ٹھیک ہے۔ پانچ منٹ کے اندر تیار ہو جاؤ۔
حازم نے اس کی طرف دیکھ کے کہا۔
کیوں؟
کیوں کے ہم لوگ آج باہر ڈنر کریں گے۔
جلدی تیار ہو جاو میں ابھی نیچے سے ہو کر آیا۔
وہ کہتا دروازے کی طرف بڑھا۔
پر مجھے نہیں جانا۔
وہ منمنائی۔
مجھے کوئی ایکسکیوز نہیں سننا۔
وہ کہ کے باہر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما آج گھر میں کچھ ہوا تھا؟
حازم عفت بیگم کے پاس جا کر بولا۔
کیوں کیا ہوا؟
انہوں نے جواب دینے کی بجائے سوال کیا۔
مجھے عنیزہ کچھ ٹھیک نہیں لگی۔ مطلب صبح اس کا موڈ کافی اچھا تھا اور اب۔۔
اس کا چہرہ بھی اترا ہوا لگ رہا تھا۔
وہ ان کے پاس بیڈ پر بیٹھ کے بولا۔
وہ سحر نے۔۔۔
عفت بیگم اتنا کہ کے رک گئیں وہ آگے کچھ نہیں بولیں۔
کیا سحر نے اس کے ساتھ بد تمیزی کی ہے؟
اس نے خود ہی اندازہ لگایا۔
جی۔
عفت بیگم جی کہ کے چپ ہوئیں۔
لیکن کیوں؟
کیا ہم عنیزہ کو اس لیے یہاں لائے تھے کے کوئی بھی اٹھ کر اس سے بدتمیزی کرنے لگ جائے۔
اس کی کوئی سیلف ریسپیکٹ نہیں ہے کیا؟
وہ دھیمی آواز میں غصّے سے بولا۔
بیٹا وہ مہمان ہے ہم کیا کہتے اسے؟
ماما جان اگر وہ مہمان ہے تو اس کا مطلب وہ جس سے مرضی اٹھ کے بدتمیزی کرنے لگ جائے۔
آج اس نے عنیزہ سے کی کل وہ آپ سے کرے گی پھر بابا سے کرے گی کیا ہم چپ کر کے برداشت کرتے رہیں گے۔
وہ ان کی طرف دیکھ کے بول رہا تھا۔
غصّہ نہیں کرتے حازم۔
صبر سے کام لیتے ہیں۔
وہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بولیں۔
ماما میں اس کے بعد کچھ بھی برداشت نہیں کروں گا . یہ لاسٹ ٹائم تھا۔
آپ اسے بتا دیجئے گا۔ بہت ہو گیا اب۔
وہ کہتا اٹھ کے کھڑا ہو گیا۔
اور ایک بات میں بتانا بھول گیا ہم دونوں ڈنر کرنے جا رہے ہیں۔
اچھا بچے جاؤ۔
ایسا کرنا عنیزہ کو کچھ شاپنگ بھی کروا دینا شاید کچھ ختم ہوا ہو۔ ہمیں تو کچھ بتاتی بھی نہیں ہے۔
اچھا جی۔
وہ کہ کے باہر نکل گیا۔
کمرے کے باہر دوسری سائیڈ پر دیوار کے ساتھ کھڑی سحر سب کچھ سن چکی تھی۔
تم دونوں کا تو فرصت سے کچھ سوچتی ہوں۔
اگر تم میرے نہیں ہو سکے تو کسی اور کا بھی نہیں ہونے دوں گی۔
وہ خود سے بولی۔
۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بات بتاؤ عنیزہ؟
حازم کھانا کھاتے ہوۓ ہی اس کی طرف متوجہ ہوا۔
جی۔۔
وہ نیچے دیکھتے ہوۓ بولی۔
جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی تب تو تم مجھے پوری لڑاکا لگی تھی۔ لیکن اب کیا ہوا؟
تب تو نا ہوئی بات کو بھی تم اتنا سر پر سوار کر لیتی تھی پر اب مجھے لگتا ہے شاید میری صحبت کا اثر ہے جو اتنی اچھی ہوتی جا رہی ہو۔
اس نے آنکھیں اچکا کے کہا۔
ویری فنی!!
بہت حسی آئی۔
وہ اپنا تکیہ کلام بولی۔
ویسے تم بھی مجھے کچھ خاصے اچھے نہیں لگے تھے رشوت خور ہی لگے تھے۔ وہ منہ بنا کے بولی۔
اب میرے ساتھ رہ کے کچھ حد تک ٹھیک ہو گئے ہو۔ آگے بھی رہو گے تو اور بھی بہتر ہو جاؤ گے۔
اس نے سنجیدگی سجائے کہا۔
مجھے تو لگتا ہے میں پاگل ہو جاؤں گا۔
وہ بتیسی کی نمائش کرتا بولا۔
اوکے ٹھیک ہے۔
آج سے میرے کمرے میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اپنا سامان لینا اور جہاں مرضی ڈیرہ ڈال لینا۔
ایک تمہارا احساس کروں اور دوسرا باتیں بھی سنوں۔
بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔
اوہ واؤ!!
میرا احساس۔۔۔
بہت شکریہ تمہارا یار۔
مجھے تو حقیقت ہی آج پتہ چلی ہے۔
تمہارا کمرہ۔۔
سچ میں جسٹ واؤ۔
اس کے علاوہ کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا۔
حازم اس کی بات کاٹ کے حیرت سے بولا۔
ہمم۔
اٹس اوکے۔
اب سوری نا کرنا۔
معاف کیا تمھے۔ پر یہ لاسٹ ٹائم تھا۔
اس نے وارن کیا۔
عنیزہ؟؟
سیکھتی کہاں سے ہو اتنی چالاکی؟
وہ آنکھیں سکیر کے بولا۔
ہاہاہاہاہاہاہا۔۔
حازم پلیز ایسا منہ نا بنایا کرو۔ میری ہنسی نکل جاتی ہے۔
وہ قہقہ لگا کے بولی۔
حازم اسے نظر انداز کر کے کھانا کھانے لگ گیا۔
اس نے صرف عنیزہ کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے باتیں شروع کی تھیں۔ اب اسے کافی حد تک اس کا موڈ ٹھیک لگ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر واپس آتے آتے انھیں کافی ٹائم ہو گیا تھا۔
عنیزہ کار میں ہی سو گئی تھی۔
عنیزہ اٹھو؟
وہ کار کے باہر کھڑا اس کا چہرہ تھپتھپا کے بولا۔
وہ ٹس سے مس نا ہوئی۔
عنیزہ؟؟
وہ پھر بولا۔
لگتا ہے کافی گہری نیند میں ہے۔
ایسا کرتا ہوں اٹھا کے لے جاتا ہوں۔
وہ سوچتے ہوۓ آگے بڑھا اور اسے ہاتھوں میں اٹھا لیا۔
پاؤں سے کار کا دروازہ بند کر کے وہ اندر کی جانب بڑھ گیا۔
سیڑھیاں پھلانگتا وہ اسے کمرے میں لے گیا اور بیڈ پر لٹا دیا۔
اس کا حجاب کھول کر سائیڈ پر رکھا اور جوتا اتار کے اس پر بلینکٹ دے دیا۔
ورڈروب سے اپنے کپڑے لے کر وہ چینج کرنے کی غرض سے واشروم چلا گیا۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جتنا گھوم پھر ہوتا ہے گھوم لو۔
جتنا ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہو آ جاؤ۔
بس تھوڑا سا صبر۔۔
پھر جو ہو گا وہ میرے حساب سے ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح عنیزہ کی آنکھ کھلی تو وہ زور سے انگڑائی لیتی بیٹھ گئی۔
آنکھیں کھولی تو سامنے صوفے پر حازم بیٹھا لیپ ٹاپ پر مصروف تھا۔
اس کی نظر فورا کلاک کی طرف گئی جہاں دس بج رہے تھے۔
تم ابھی گئے نہیں؟
منہ کے آگے ہاتھ رکھتی وہ جمائی کو روکتے ہوۓ بولی۔
جانا ہے تھوڑی دیر تک۔
وہ جواب دے کر دوبارہ کام میں مشغول ہو گیا۔
اچھا۔۔
تم نے ناشتہ کر لیا؟
اس نے پھر سوال کیا۔
ہاں کب سے۔
تو مجھے بھی اٹھا دیتے۔
وہ بیڈ سے کھڑی ہو کر بولی۔
حازم نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور کوئی جواب نا دیا۔
مرضی ہے تمہاری نا بولو۔
وہ کہ کے منہ دھونے چلی گئی۔
منہ دھو کے آ کر ٹول سے منہ صاف کرتی وہ حازم کے پاس بیٹھ گئی۔
ناشتہ نہیں کرنا کیا؟
وہ اسے بیٹھتی کو دیکھ کے بولا۔
نہیں ابھی بھوک نہیں ہے بعد میں کر لوں گی۔
اوکے۔۔
کہ کے وہ دوبارہ کام میں مگن ہو گیا۔
آدھا گھنٹہ گزرا تھا کے وہ منہ کے زاویے بناتے بولی۔حازم؟؟
ہوں۔۔۔
وہ اپنے دیہان کام میں مصروف بولا۔
میں بور ہو رہی ہوں۔
اس نے منہ بسور کے کہا۔
اچھا۔
اس نے اتنا کہنے پر ہی اکتفاع کیا۔
کیا مطلب اچھا۔
تم پوچھو تو سہی پھر کیا کیا جائے۔
عنیزہ تیکھے تیور لیے بولی۔
ہاں کیا کیا جائے۔
وہ لا پرواہ سا بولا۔
میں سوچ رہی تھی کے ہم بور ہو رہے ہیں تو۔۔۔
وہ رکی!!
تو؟؟
حازم نے اس کی طرف دیکھ کے پوچھا۔
تو کیوں نا۔۔
مجھے کیوں لگ رہا ہے کے پھر تم کچھ الٹا سیدھا سوچ رہی ہو۔
وہ اس کی بات کاٹتے ہوۓ بولا۔
نہیں تو۔
میں نے کیوں الٹا سوچنا۔۔
اچھا پھر بتاؤ۔
حازم میں سوچ رہی تھی کے ہم بہت بور ہو رہے ہیں تو کیوں نا بوریت دور کرنے کے لیے میں تمہارا میک اپ کروں۔
عنیزہ جلدی جلدی بول کے چپ ہوئی اور حازم کے چہرے کے تاثرات دیکھنے لگی۔
عنیزہ آر یو سیریس؟
مطلب سچ میں۔۔۔۔
حازم جھٹکے سے بولا۔
اسے تو اپنی بیوی کے خام خیالات سن کے جھٹکا ہی لگا تھا۔
ہاں نا۔
دیکھنا تم کتنے پیارے لگو گے۔
وہ خوشی سے بولی۔
عنیزہ تمہارا اور میرا ایسا کوئی مذاق ہے؟
حازم سنجیدگی سے بولا۔
نو۔۔
اور میں مذاق کے موڈ میں ہوں بھی نہیں۔
I’m seriOus..
وہ بھی اسی کے انداز میں بولی۔
تمہارا دماغ پھر گیا ہے۔
لڑکے بھی میک اپ کرتے ہیں بھلا؟
تم سچ میں ہل گئی ہوئی ہو۔
حازم افسوس سے اس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔
تم۔۔
وہ کچھ کہتے کہتے رکی۔
خبردار آج کے بعد مجھے نا بلانا تم۔
میں کچھ نہیں لگتی تمہاری۔
کبھی میری بات تو مانی ہی نہیں ہے۔
ایک نمبر کے زہر ہو۔
اور آئندہ میرے کمرے میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب میں واپس آؤں تو تم مجھے یہاں نظر نا آؤ۔
کہ کے وہ زور سے دروازہ بند کرتی باہر چلے گئی۔
مجھے تو سمجھ نہیں آتا یہ سچ میں معصوم ہے یا میرے سامنے ہی ایسی حرکتیں کرتی ہیں۔
حازم آنکھیں بند کر کے سوچنے لگا۔
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔