Food to eat and games to play.
Tell me why, tell me why.
Serve it out and eat it up.
Have a try, have a try.
– Brian Jacques
ممبئی آنے سے قبل کشیپ صاحب کی سوشل لائف کچھ نہ تھی۔ وہ کلب، پارٹی، سنیما، شادی بیاہ وغیرہ سے حتی المقدور دور رہنے کی کوشش کرتے تھے ، یہاں تک کہ وہ officer’s get-together میں بھی شاذ ونادر ہی شریک ہوتے تھے۔وہ ہندوستان کے کسی بھی شہر میں رہے، انھوں نے officer’s club کو بھی نظر انداز کیا۔ کیوں کہ اس بارے میں ان کی رائے صاف تھی کہ یہ کلب اور کچھ نہیں “Chirkut-opia“پھیلانے کے اڈے ہوتے ہیں۔ یہاں تو جوہر کے اصرار پر انھوں نے weekends میں آنا شروع کردیا تھا؛ اور وہ بھی صرف میرو کے لیے۔ کشیپ صاحب کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں تھا؛ میرو نے اپنا difficulty level اتنا بڑھا دیا تھا کہ ان کی B.E, M.Tech, Gold Medalist انا کو پوری طرح اپنے قابو میں کر لیا تھا۔ میرو کے چکر میں انھیں اپنے ساتھ اپنی بیوی کو بھی یہاں لانا پڑتا تھا جو ظاہر ہے کہ اکثر سب کے سامنے رسوائی کا سبب بھی ہوتا تھا۔ ’’اس عورت کو عقل کب آئے گی پربھو؟‘‘
انھوں چاروں طرف ایک نظر ڈالی۔ پارٹی اپنے عروج پر تھی؛ چاروں طرف لپ اسٹک ، غازے میں لتھڑے چہرے اور مصنوعی مسکراہٹیں، سگریٹ کا دھواں اور غیر ضروری شور ۔ کشیپ صاحب ان سب سے تھوڑا دور ہاتھ میں وہسکی کا گلاس پکڑے ایک قدرے اونچی جگہ پر کھڑے تھے جہاں سے وہ اپنی ’’ڈریم لیڈی‘‘ کو صاف طور پر دیکھ سکتے تھے۔ جوہر اور میرو اس وقت ڈانس کر رہے تھے اور ان کے چاروں طرف ان کے دوست ایک دائرے میں کھڑے ہوئے گا رہے تھے؛ ’’گورے گورے اور بانکے چھورے! کبھی میری گلی آیا کرو۔‘‘ کشیپ صاحب ایک ٹک میرو کو دیکھ رہے تھے اور وہسکی کی مدد سے اسے گویا نگل رہے تھے۔ پھر کسی دوسرے کنارے سے ایک شور بلند ہوا تو انھوں نے پلٹ کر دیکھا۔ ان کے چہرہ کڑواہٹ سے بھر گیا۔
کشیپ صاحب کی بیوی سمن بالکل دیہاتی انداز میں ڈانس کررہی تھی؛ ’’کنکریا مار کے جگایا…بلما تو بڑا وہ ہے۔‘‘ ان کو لگا کہ ابھی اسی وقت وہ اپنی بیوی کو گھسیٹتے ہوئے کلب سے نکل جائیں لیکن جوہر کی آواز نے انھیں محتاط کردیا؛ ’’ارے ان کے بلما کہاں ہیں؟ کشیپ صاحب؟‘‘
کشیپ صاحب نسبتاً ایک تاریک حصے کی جانب کھسک لیے۔ اب یہاں سے انھیں میرو نظر نہیں آر ہی تھی۔ وہ اندر ہی اندر اپنی بے بسی پرکڑھ رہے تھے کہ اچانک ان کے سامنے کچھ ایسا ہوا، جس نے انھیں گھپ اندھیرے میں گویا راستہ دکھادیا ہو ۔ پہلے تو انھیں کوئی خاص بات نظر نہیں آئی؛ پرانے لوگ جا رہے تھے، کچھ نئے لوگ آ رہے تھے۔ لیکن ان کی نظر پتہ نہیں کیوں نئے آنے والے ایک جوڑے پر پڑی ، جس کا ایک پرانا جوڑے نے گرم جوشی سے استقبال کیا۔ تھوڑی دیر تک ان کے درمیان رسمی گفتگو ہو تی رہی، پھر اچانک پرانے جوڑے کے شوہر نے معذرت کرتے ہوئے کہا؛ ’’سگریٹ ختم ہو گئی ، میں لے کر آتا ہوں۔ آپ انجوائے کریں۔‘‘
یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا، اس نے کشیپ صاحب کے دماغ کا ڈھکن کھول دیا۔ وہ آدمی جب سگریٹ لانے باہر جانے لگا تو نئے جوڑے کی بیوی نے آگے بڑھتے ہوئے کہا؛ ’’چلیے میں بھی چلتی ہوں۔ نزدیک ہی ایک پارسل پہنچانا ہے…بعد میں بھول جاؤں گی۔‘‘
وہ دونوں باہر نکل گئے۔ نئے جوڑے کے شوہر صاحب نے مسکراتے ہوئے پرانے جوڑے کی بیوی کی طرف دیکھا اور ایک خالی گیسٹ روم کی طرف اشارہ کیا جو پارٹی ہال کے دائیں طرف تھا۔ تھوڑی دیر تک پرانے جوڑے کی بیوی وہیں کھڑی رہی پھر اسی طرف چل دی جہاں نئے جوڑے کا شوہر گیا تھا۔ کشیپ صاحب کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ وہ زندگی میں پہلی بار ایسا نظارہ دیکھ رہے تھے۔ وہ تیزی سے بالکنی میں پہنچے اور نیچے جھک کر کچھ ڈھونڈنے لگے۔ آخر انھیں وہ نظر آ ہی گئے۔ جو شخص دوسرے کی بیوی کے ساتھ سگریٹ لانے باہر نکلا تھا، وہ اپنی کار کے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر اسے اندر بیٹھنے کی دعوت دے رہا تھا۔ عورت جب اندر بیٹھنے لگی تو مرد نے اس کے کولھے کو تھپتھپا یا۔ عورت کی ہنسی کی آواز کشیپ صاحب تک بھی پہنچی۔ کار جا چکی تھی لیکن وہ بالکنی میں بت بنے کھڑے رہے۔ اس وقت کلب میں ایک میوزک پلے ہو رہا تھا؛”Humpty Dumpty sat on a wall.”
سریش کی آواز دور سے آ رہی تھی؛ ’’لوگوں کی نظروں میں آپ کی ساری مہانتا کی وہی امیج ہے … ’انڈا‘۔‘‘ کشیپ صاحب کو محسوس ہوا جیسے وہ اور جوہر دو انسان نہیں بلکہ انسان نما انڈے ہیں جو دیوار پر بیٹھ کر اپنے اپنے ہاتھ دونوں عورتوں کے آگے بڑھا رہے ہیں۔پھر انھوں نے دیکھا کہ کشیپ نما انڈے نے میرو کی طرف دیکھ کر کہا؛ ’’بھابھی جان، آئیے! آج ہمارے ساتھ بیٹھیے۔‘‘ جوہر نما انڈے نے تو حد ہی کردی؛ ’’Lets have fun بھابھی جی! variety is the spice of life.”
کشیپ صاحب نے اپنی تصوراتی نظروں سے دیکھا کہ دونوں عورتیں ایک دوسرے کو ہکا بکا دیکھ رہی ہیں اور آخر کار اپنے اپنے چپل اتارکر سیدھا دونوں انڈوں کی طرف پھینکتی ہیں۔ میوزک جاری ہے؛ “Humpty Dumpty had a great fall.”انڈے ٹوٹ جاتے ہیں اور ان کے اندر سے ان کی زردی باہر آ جاتی ہے۔ کشیپ صاحب نے نوٹ کیا کہ ساؤنڈ ٹریک ایک خاص لائن پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے؛ “All the king’s horses, all the king’s men! couldn’t put Humpty Dumpty together again!”
کشیپ صاحب نے سر کو جھٹکا دیا؛ لگتا ہے آج پھر چڑھ گئی تھی ۔ انھوں نے دیکھا کہ لوگ blindfold gameمیں مصروف ہیں۔ آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر بیویاں اپنے شوہروں کو تلاش کر رہی ہیں؛ یہ الگ بات ہے کہ اکثر بیویاں ایسے موقعوں پر چوک جاتی ہیں۔ کشیپ صاحب نے اکتا کر اپنی نظریں دوسری طرف پھیریں اور اپنی منزل مقصود کو ڈھونڈنے میں کامیاب رہے۔ اس شور شرابے سے دور میرو ایک اسپاٹ لائٹ کے نیچے کسی دوسرے سیارے کی مخلوق دکھائی دے رہی تھی۔ کشیپ صاحب اسے ٹکٹکی لگائے دیکھتے رہے ، ان کا دھیان جوہر کی آواز سے بکھرا جو بالکنی میں شاید سگریٹ پینے آیا تھا۔
’’یہاں کیا کر رہے ہیں آپ؟ آپ تو سگریٹ بھی نہیں پیتے؟‘‘
’’ایک بڑے انٹرسٹنگ بھائی صاحب ملے آج پارٹی میں…ان ہی سے بات کررہے تھے۔‘‘کشیپ صاحب نے اچانک یوں بولنا شروع کردیا جیسے وہ اب تک اس کی تیاری کرتے رہے تھے؛ ’’ایک سول سرونٹ تھے۔ ہم سے ایک پرانا کنکشن نکل آیا تو لگے بتیانے۔ ایسی اسٹوری سنائی بھائی نے کہ مائنڈ ہلا کے رکھ دیا۔‘‘
جوہر نے سگریٹ سلگائی اور لاتعلقی سے ان کی طرف دیکھا۔ کشیپ صاحب اندر ہی اندر اسٹوری بُن بھی رہے تھے اور بغیر رکے سنا بھی رہے تھے؛ ’’جوہر صاحب! ہم انجینئر لوگ سوچتے ہیں کہ ہم سے شارپ کوئی نہیں ہو سکتا، لیکن سچ کہیں، یہ آئی۔اے۔ایس والے ہم سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ “Bloody genius!
’’کیا بات کررہے ہیں، کشیپ صاحب! maximum IAS toppers ہمارے اور آپ کے انجینئرنگ کالج کے ہی لونڈے ہیں۔‘‘جوہر کے پروفیشنل ایگو کو شاید ٹھیس پہنچی تھی لیکن کشیپ صاحب نے تو ابھی بس تمہید ہی باندھی تھی؛ ’’آپ نے اس کی اسٹوری نہیں سنی جوہر صاحب…ورنہ آپ بھی اس کے سامنے ’جہاں پناہ تحفہ قبول کرو‘ کہتے۔ ‘‘
’’اسٹوری کیا تھی؟‘‘ جوہر نے یوں ہی پوچھ لیا۔
کشیپ صاحب کو اسٹوری بننے میں ذرا وقت چاہیے تھا، سو انھوں نے اس وقت کا استعمال جوہر کی دلچسپی کو بڑھانے میں لگا دی؛ ’’چھوڑیے! اسٹوری brilliant تھی۔ ایک average I.Q. والے انسان کو شاید unbelievable لگے…مگر کیا ہے نا، تھوڑی واہیات بھی تھی۔‘‘
’’ارے ، اب بتائیے بھی۔‘‘جوہر کی دلچسپی شاید بڑھنے لگی تھی۔کشیپ صاحب بھی اب اسٹوری سنانے کے لیے پوری طرح تیار تھے۔
’’ان صاحب نے بتایا کہ ان کے پڑوس میں ایک اور سول سرونٹ رہتے ہیں، ان کے بڑے گہرے دوست بھی ہیں۔ انھیں ان کی وائف اتنی اچھی لگی کہ سالے ان کے عاشق ہوگئے، وہیں ان کے دوست ان بھائی صاحب کی وائف پر لٹو تھے۔ سمجھ رہے ہیں نا آپ؟‘‘
’’مطلب دونوں دوست ایک دوسرے کی بیویوں کی فیلڈنگ میں لگے تھے؟‘‘
جوہر کی بد ذوقی پر کشیپ صاحب تھوڑا سا جھنجھلا گئے؛ ’’فیلڈنگ؟ اچھا وائف کیچنگ ؟ رائٹ!‘‘
’’میں سمجھ گیا۔ اسے وائف کیچنگ نہیں، wife swapping کہتے ہیں، ‘‘ جوہر نے کشیپ صاحب کو ہمدردی سے دیکھتے ہوئے کہا؛ ’’دراصل آپ چھوٹے شہر سے آ رہے ہیں، اس لیے آپ کو brilliant لگی۔ یہاں ممبئی میں عام بات ہے…ہائی سوسائٹی میں یہ سب چلتا ہے۔‘‘
’’چھوٹے شہر‘‘ والا طنز کشیپ صاحب کو محسوس تو ہوا لیکن وہ اس وقت جھگڑے کے موڈ میں نہیں تھے؛ ’’نہیں بھائی! ان کے کیس میں وائف سوئپنگ ناممکن تھا کیوں کہ ان کی بیویاں typical
پتی ورتا مائنڈ سٹ والی تھیں۔ ان کو ان کے ارادے کی بھنک بھی لگ جاتی تو مار چپل کے ان کا بھرتا بنا دیتیں۔‘‘
’’اس معاملے میں میرو بھی بڑی خطرناک ہے یار۔‘‘ پتہ نہیں اس وقت جوہر کو میرو کی یاد کیوں آگئی۔
’’سمن کو آپ کیا سمجھ رہے ہیں؟‘‘ کشیپ صاحب نے چبھتی ہوئی نظروں سے جوہر کو دیکھا۔
جوہر نے پارٹی ہال میں نظریں دوڑائیں اور میرو کو مصروف دیکھ کر انھوں نے اطمینان کی سانس لی۔ کشیپ صاحب کا گلاس لے کر وہسکی اپنے حلق میں انڈیلا اور دوبارہ اسے کشیپ صاحب کے پاس رکھتے ہوئے پر تجسس انداز میں پوچھا؛ ’’پھر؟‘‘
’’پھر کیا؟ دونوں ہی سالے ٹاپ کلاس کے administrative brains تھے۔ ایک ایسا پلان بنا ڈالا کہ ان کے دل کے ارمان بھی نکل جائیں اور بیویوں کو پتہ بھی نہ چلے۔‘‘
جوہر کے چہرے سے تجسس اچانک ختم ہوگیا اور اس نے یوں سر ہلانا شروع کردیا جیسے وہ اس کہانی کے انجام تک پہنچ گیا ہو؛ ’’سمجھ گیا! کسی چیز میں نشے کی گولی دے کر بیویوں کو بیہوش کر دیا ہوگا اور…‘‘
کشیپ صاحب نے اس کے روایتی انجام پر پانی پھیرتے ہوئے جواب دیا؛ ’’نہیں بھائی! دونوں لیڈس ہمیشہ چوکس رہیں۔‘‘
’’Fully fake fiction ہے کشیپ صاحب!‘‘ جوہر شاید متوقع انجام نہ پا کر تھوڑا جھنجھلا گیا تھا؛ ’’ممبئی میں اس کو ماموں بنانا بولتے ہیں۔ وہ آپ کا آئی اے ایس دوست آپ کو ماموں بنا کر چلا گیا اور کچھ نہیں۔‘‘
کشیپ صاحب اس سر تاسر توہین پر تھوڑی دیر تک خاموشی سے خود کو سنبھالتے رہے پھر جب بولے تو ہر لفظ ان کے دانتوں کے درمیان سے پس کر نکل رہا تھا؛ ’’جوہر صاحب! ہم بہانے بنانے اور ماموں بننے والے phase سے اب بہت آگے نکل آئے ہیں۔ آپ بھی نکل آئیے۔ ان کے brilliant plot details اور thoughtful planning paradigm کو گہرائی سے سمجھ کے ہی ہمیں لگا کہ ان کی اسٹوری ایک believable and possible project کی کامیابی کی اسٹوری ہے۔ اور ہاں، یہ انھوں نے ایک بار نہیں کئی بار کیا اور اب بھی جب موقع ملتا ہے، کر لیتے ہیں۔‘‘ کشیپ صاحب اب حقیقت میں رنگ بھرنے لگے تھے۔ انھیں خود پر یقین نہیں آیا کہ وہ اتنی اچھی کہانی بھی اور بھی اتنی جلدی بُن لیتے ہیں۔
’’اور بیویوں کو آج تک پتہ نہیں چلا؟‘‘ جوہر نے حیرت سے دریافت کیا۔
’’یہی تو بیوٹی ہے ان کے پروجیکٹ کی۔‘‘ بولتے بولتے کشیپ صاحب اچانک رک گئے۔ کچھ اور لوگ وہاں سگریٹ پینے آگئے تھے۔
’’چلیے جوہر صاحب! یہ extraordinary لوگوں کی باتیں ہیں، ordinary لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئیں گی، چلیے۔‘‘
جوہر اب پوری طرح کشیپ صاحب کے شکنجے میں تھا؛ ’’آپ ٹیرس پر چلیے، میں ڈرنکس لے کر آتا ہوں، مجھے یہ اسٹوری پوری سننی ہے۔‘‘ جوہر تیز قدموں سے نکل گیا لیکن مسکراتے ہوئے کشیپ صاحب کی نظریں اس کا تعاقب کرتی رہیں۔
جس تیزی کے ساتھ جوہر گیا تھا، اسی حیرت انگیز رفتار سے وہ لوٹ بھی آیا۔ اس کے ہاتھ میں دو گلاس تھے۔ کشیپ صاحب کے لیے وہسکی کا ایک گلاس اور اپنے لیے orange juice ۔
’’تو کیا پلان بنایا ان لوگوں نے؟‘‘ آتے ہی اس نے سوال داغا۔
’’پلان تو سمپل تھا مگر اس کا execution اتنا ہی challenging۔ زبردست تیاری، صحیح ریہرسل اور intimate details جو انھوں نے ایک دوسرے سے شیئر کیے، وہ اتنے accurateتھے کہ رسک فیکٹر totally nil ہو گیا۔ سمپل سا پلان، جوہر صاحب! ایک سمپل سے پلان کو دو brilliant بندوں نے ایک exceptional success story بنا دیا۔‘‘ کشیپ صاحب نے پلان کی ایسی خوب صورت تمہید باندھی کہ جوہر کا دماغ چکرا سا گیا۔
’’ مجھے تو اس میں کچھ بھی سمپل نہیں لگ رہا ہے۔‘‘
’’بہت سمپل ہے، دیکھیے‘‘ اب کشیپ صاحب تفصیل پر اتر آئے، ایک کے بعد ایک اس اسٹوری کے مناظر ان کے دماغ میں یوں اترنے لگے جیسے وہ فلم دیکھ رہے ہوں اور اس کی رننگ کامنٹری جوہر کے سامنے پیش کررہے ہوں۔ کہیں کوئی جھول نہیں، کہیں کوئی لکنت نہیں ؛ وہ بالکل کسی منجھے ہوئے اسکرپٹ رائٹر کی طرح مستقبل قریب کے اپنے پروڈیوسر پارٹنر کے سامنے ایک ایک سین رکھتے چلے جا رہے تھے۔
’’انھوں نے کوئی بھی ایک random دن فکس کرلیا۔ مان لیجیے کہ سٹر ڈے۔ تو اس رات کو، جیسا کہ عام طور پر سروس کلاس فیملی میں ہوتا ہے کہ میاں بیوی گیارہ ساڑھے گیارہ کے آس پاس سونے چلے جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہی جو نارمل روٹین ہوتا ہے، تھوڑی بہت بات چیت، کچھ پڑھائی لکھائی اور لائٹ آف۔ لائٹ بند ہوتے ہی، پتی کروٹ لے کر سوجاتا ہے۔ لیکن دراصل وہ صرف سونے کی ایکٹنگ کرتا ہے تاکہ بیوی اس رات کچھ ہونے کی امید چھوڑ دے اور وہ بھی سو جائے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر لگ بھگ ایک بجے کے آس پاس، اس تسلی کے ساتھ کہ بیویاں گہری نیند میں ہیں؛ پتی چپ چاپ بستر سے اٹھ کر، بنا کوئی شور کیے، پہلے تو بیڈ روم سے اور پھر main door کھول کر گھر سے باہر نکل آتے ہیں۔ اور باہر نکلتے وقت گھر کے دروازے کھلے چھوڑ دیتے ہیں۔ دونوں کے گھر ایک دوسرے کے بغل میں ہی تو تھے اور افسروں کی کالونیوں میں ویسے بھی راتوں کو سناٹا جلدی ہی ہوجاتا ہے۔ تو دونوں آرام سے ایک دوسرے کو کراس کر کے، دوسرے گھر ، دوسرے بیڈ اور دوسری عورت کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔‘‘
کشیپ صاحب پل بھر کے لیے رکے، انھوں نے کنکھیوں سے جوہر کے چہرے کا جائزہ لیا جو اندر ونی تمازت سے دہک رہا تھا۔ وہ اندر ہی اندر مسکرائے اور وہسکی کے گلاس سے ایک گھونٹ بھرا۔
’’آپ کے ہاتھ میں orange juice دیکھ کر لگ رہا ہے جیسے ہم کسی بچے کو adult story سنانے کا پاپ کر رہے ہیں۔‘‘
جوہر اس غیر متعلق ریمارکس پر جھنجھلا ہی تو گیا تھا، اس کی بے چینی دیکھنے کے لائق تھی۔ ’’ارے، چولھے میں ڈالیے پاپ۔پنیہ کو…یہ اورینج جوس نہیں وودکا ہے؛میرو کے چکر میں… آپ اسٹوری آگے بڑھائیے۔‘‘
’’ایک دوسرے کے گھروں میں انٹر کرنے کے بعد ان کی ہفتوں کی پریکٹس اور ریہرسل کام کرنا شروع کرتی ہے،‘‘کشیپ صاحب کو بھی کہانی سنانے میں مزہ آ رہا تھا ، کیوں کہ وہ جوہر کے علاوہ خود کو بھی تو سنا رہے تھے؛ ’’دونوں کو ایک دوسرے کے گھروں کی complete topography، مطلب all the coordinates of empty & filled spaces یاد تھے…باہر کے دروازے سے بیڈ روم تک کی دوری، number of steps ، سب اتنے calculated تھے کہ گھپ اندھیرے میں بھی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ بس بچوں کے کمرے کو پار کرتے وقت تھوڑا careful رہنا تھا، کیوں کہ ان کے کمرے کا دروازہ ہمیشہ آدھا کھلا رہتا تھا۔‘‘ کشیپ صاحب بے دھیانی میں اپنے گھر کا نقشہ کھینچنے لگے تھے۔ جوہر نے بھی بے خیالی میں ان کی تائید کردی۔
’’ہاں ، سالا بچے بھی تو ایک فیکٹر ہیں۔ مان لو کہ جاگ گئے اور اس دوسرے بندے سے چلا کر پوچھ ہی لیا’پاپا ! آپ ہیں کیا؟‘‘ جوہر کا تردد یوں تھا جیسے وہ خود کو اس جگہ تصور کررہا ہو۔
’’ارے بچے تو بچے، مان لیجیے اگر کسی ایک کی وائف اچانک جاگ گئی اور پوچھ لیا؛’ کہاں بھٹک رہے ہیں رات کو بھوتوں کی طرح؟‘ …تو؟ بھائی human enterprise میں human errorکے فیکٹر کو consider کیے بنا آپ optimum result کی امید کیسے کر سکتے ہیں؟ contingencies کے لیے ایمر جنسی پلان کے بنا آپ کیسے flawless executionکے بارے میں سوچ سکتے ہیں؟‘‘
’’آپ نے ہمارے من کی بات پڑھ لی۔‘‘ جوہر خوش ہو گیا۔
’’Great minds think alike, Mr. Johar‘‘ کشیپ صاحب نے جوہر کے ساتھ ساتھ اپنی پیٹھ بھی تھپتھپائی؛ ’’ تو ان کا ایمرجنسی پلان بھی غضب کا تھا۔ اس سچویشن میں، جو بھی ایمرجنسی میں ہوتا ، اسے ترنت دوڑتے ہوئے گھر سے باہر نکل جانا تھا اور اپنے گھر کے دروازے کی گھنٹی بجانی تھی۔ گھنٹی کی آواز دوسرے بھائی کے لیے سگنل تھا کہ بھیا سب کچھ چھوڑ کر اپنے گھونسلے میں واپس بھاگو۔ ایک باہر ، دوسرا اندر…ایک منٹ میں دونوں واپس اپنے اپنے گھر کے اندر۔‘‘
جوہر نے کشیپ صاحب کی طرف دیکھ کر لمبی سانس چھوڑی؛ ’’اور بیویاں بنائیں گی ان کا کچومر؛ کیوں؟‘‘
’’نہیں۔ نہیں۔‘‘ کشیپ صاحب تڑپ کر بولے۔
’’کیا نہیں نہیں؟ دروازے کی گھنٹی سنتے ہی پورا گھر جاگ جائے گا۔‘‘ جوہر کی اس بات نے کشیپ صاحب کے سامنے بھی ان کے منصوبے کی دھجی اڑا کر رکھ دی لیکن وہ بھی کراماتی تھے، جھٹ الہٰ دین کا چراغ اپنے دماغ کے خلیے میں گھسا اور پٹ حل کا جن ان کے سامنے موجود تھا۔
’’ارے گھر جاگ جائے تو جاگ جائے، کیا فرق پڑتا ہے۔ باہر سے اندر آتا ہوا بندہ بولے گا کہ میں دیکھنے گیا تھا کہ کون اتنی رات کو سالا بیل بجا رہا ہے۔ کوئی نہیں تھا، صبح سوسائٹی آفس میں بات کرتا ہوں، چلو سو جاؤ۔‘‘
’’اور دوسرا والا؟ وہ کیا بولے گا؟‘‘جوہر نے پوچھا۔
’’وہ بولے گا، کسی کو اس نے بنگلے کے باہر گھومتے دیکھا، وہ دیکھنے گیا تو وہ سالا بھاگ گیا۔ ہاتھ میں آتا تو ہڈی پسلی ایک کر دیتا سسرے کی۔ کیا پرابلم ہے اس اسٹوری میں؟‘‘
جوہر کے پاس اب بھی کچھ سوال تھے ؛ ’’اتنا تو خیر کوئی بھی ٹھیک ٹھاک IQ والا بندہ executeکر لے گا ۔ اصلی خطرہ تو ایک دوسرے کے بستر میں، ایک دوسرے کی بیویوں کے بغل میں لیٹنے کے بعد شروع ہوگا۔ ‘‘
’’لیٹتے ہی دونوں شروع…‘‘ کشیپ صاحب نے اپنی بات بھی ختم نہیں تھی لیکن جوہر نے ان کی زبان سے فوراً اچک لیا؛ ’’ایسے کیسے شروع؟ بیویاں تو سوئی ہیں نا؟‘‘
’’سوئی ہیں، بیہوش نہیں ہیں۔ یہ ہولے ہولے بڑے سلیقے اور ہوشیاری کے ساتھ ان کے sensitive areas…کیا بولتے ہیں انھیں؟‘‘
“Erogenous zones!”جوہر نے کشیپ صاحب کی مشکل آسان کی۔
’’ہاں! انھی پر کام شروع کردیتے ہیں اور جب تک بیویوں کو ہوش آئے ، تب تک تو آپ کو پتہ ہی ہے، feeling auto mode پر جا چکی ہوتی ہیں۔ دونوں ٹریک sync میں اور ٹرین پٹری پر…چھک ، چھک، چھک، چھک!‘‘کشیپ صاحب کے چہرے پر اس وقت وہی رنگ تھے جیسے وہ میرو کو ڈرائیو کر رہے ہوں۔
’’اتنا smooth چھک، چھک ، چھک، چھک کیسے possible ہوگا؟ مانا کہ feeling auto modeپر ہیں لیکن برین کا ٹوٹل بلیک آؤٹ تھوڑے ہی ہوا ہے؟ نئے بندے کے باڈی سائز سے ان کو اندازہ نہیں لگ جائے گا کہ ساتھ میں ان کا پتی نہیں ، کوئی اور ہے؟ اب یہ مت بولیے گا کہ دونوں بندے physically بھی ایک جیسے تھے۔‘‘
’’same نہیں تھے مگر قریب قریب دونوں کی قد کاٹھی ایک جیسی تھی۔ کلین شیوتھے، ہیئر اسٹائل بھی almost similiar کر رکھی تھی…یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ اب ہم دونوں کو ہی لے لیجیے…لگ بھگ ایک جیسی قد کاٹھی ہوگی ہماری؟‘‘ اسٹوری اب تصورات کی سیڑھیوں سے زمین پر اتر رہی تھی۔
’’ہائٹ کیا ہے آپ کی؟‘‘ کشیپ صاحب نے جوہر سے اچانک پوچھ لیا۔
’’5′ 11″‘‘ جوہر نے جواب دیا۔
’’ ہم 5′ 10″ہیں۔ مطلب ایک انچ کا insignificant difference ۔‘‘
’’اور ویٹ؟‘‘ جوہر نے کشیپ صاحب کو گھیرتے ہوئے پوچھا۔
’’82‘‘
’’میرا 74 ہے، اب بولیے۔‘‘ جوہر نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے چیلنج کیا لیکن کشیپ صاحب پر کوئی خاص اثر ہوتا ہوا نظر نہیں آیا، وہ اسی اطمینان بھرے لہجے میں کہنے لگے؛ ’’مطلب، ہم ایک آدھا کیلو گھٹا لیں اور آپ ایک آدھا کیلو بڑھا لیں جو اتنا مشکل بھی نہیں ہے، تو we are almost same.”
جوہر لا جواب ہوچکا تھا لیکن اس کی وجہ کشیپ صاحب کا دانش مندانہ جواب نہیں بلکہ میرو کی آمد تھی جسے کشیپ صاحب سے پہلے جوہر نے آتا ہوا دیکھ لیا تھا۔
’’منّا! یہاں کیا کر رہے ہو؟ میں کب سے پاگلوں جیسی آپ کو ڈھونڈ رہی ہوں۔‘‘
’’ارے کچھ خاص ڈسکشن کرنا تھا، نیچے بہت شور تھا اس لیے یہاں…‘‘
’’خاص ڈسکشن کرنا تھا تو مجھے کیوں ساتھ میں لائے تھے؟ میں اور سمن دیدی بنا کسی ایڈرس کے پوسٹ کارڈ جیسے بھٹک رہے ہیں پارٹی میں۔ چلیے جلدی، ہم لوگ کھڑے ہیں نیچے پارکنگ میں۔‘‘میرو تیزی سے وہاں سے نکل گئی۔
“She called you Munna, Johar Sahab?”کشیپ صاحب نے حیرت سے پوچھا۔
’’ ہاں بس وہ…چلیے انھیں گھر چھوڑ کر بعد میں ملتے ہیں انکلیو میں۔‘‘ جوہر کے لہجے میں تھوڑی سی شرمندگی تھی ، وہ سر جھکا کر تیزی سے پارکنگ کی طرف نکل گیا۔
کشیپ صاحب کے دماغ سے لفظ ’’منا‘‘ نکل ہی نہیں رہا تھا جسے میرو نے اپنے پتی جوہر کے لیے استعمال کیا تھا۔آخر ایک بیوی اس بدتمیزی سے اپنے شوہر کو کیسے مخاطب کرسکتی ہے۔ وہ اس وقت بھی شش و پنج میں تھے جب انکلیو کے باہر سڑکوں پر وہ جوہر کے ساتھ چہل قدمی کر رہے تھے۔
’’لوگ کہتے ہیں، Atlantic between New York to Portugal is the most turbulent ocean in the world…میں کہتا ہوں عورتوں کےMood swings اس کے بھی باپ ہیں۔ اف!!‘‘
کشیپ صاحب نے جوہر کی سنی ان سنی کرتے ہوئے ایک بار پھر ان سے پوچھا؛ ’’یہ تو خیر سمجھ گیا مگر آپ کی وائف آپ کو منا کہہ کر بلاتی ہے؟ منا؟ یہ سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘
’’ارے یار، آپ نے ایک word کیا سن لیا، اسے پکڑ کے بیٹھ گئے۔‘‘ جوہر کی شرمندگی جھنجھلاہٹ میں بدل گئی۔
’’لیکن جوہر صاحب! بیوی اپنے پتی کو منا بولے، یہ بات کچھ…‘‘
’’آپ تو یار؟ یہ trend ہے آج کل…سب بولتے ہیں…منا، بابو، بے بی، بچہ…تھوڑا cute لگتا ہے اور کچھ نہیں۔‘‘ جوہر نے وضاحت کی۔
کشیپ صاحب نے اپنی لاعلمی کو چھپاتے ہوئے صفائی دی؛ ’’اوہ ہ ہ ہ! اصل میں ہماری نظروں میں آپ کی امیج trendsetter کی رہی ہے، trend-follower کی نہیں، اسی لیے تھوڑا strange لگا…‘‘
’’ٹھیک ہے یار، آپ اپنی کہانی کمپلیٹ کیجیے۔‘‘جوہر اس غیر متعلقہ گفتگو سے شاید اکتا گیا تھا۔
’’ہماری کہانی نہیں ہے بھائی، کسی اور کی ہے۔ خیر، کہاں تھے ہم؟‘‘
’’بیڈ روم میں،‘‘ جوہر نے کشیپ صاحب کا جواب دیتے ہوئے کہا؛ ’’لگ بھگ ایک ہی ہائٹ اور ویٹ والے دو بندے ایک دوسرے کی بیویوں کے ساتھ…Let me tell you Kashyap Sahab, I am not buying the story، کیوں کہ ہائٹ اور ویٹ کے علاوہ کئی فیزیکل فیکٹر اور بھی ہوتے ہیں۔‘‘
کشیپ صاحب جوہر کا مطلب سمجھ نہ پائے؛ ’’آپ کا مطلب نین نقش، چہرہ وغیرہ؟ اندھیرے میں یہ سارے differences null and void ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’نہیں، میں اصل میں دوسرے vital organ کی بات کر رہا تھا۔ اس کا سائز تھوڑے ہی… سمجھ رہے ہیں نا؟‘‘جوہر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ یہ سوال کیسے پوچھے لیکن کشیپ صاحب کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ اس کی بات سمجھ گئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ جوہر کو جواب پیش کرتے، جوہر نے اپنے کنفیوژن پر مہر لگانا ضروری سمجھا؛ ’’ اب یہ مت کہیے گا کہ سبھی کے سائز بھی ایک جیسے ہوتے ہیں۔‘‘
’’بالکل‘‘ کشیپ صاحب نے جوہر کی تائید کی۔
’’اس دن انٹرنیٹ پر دیکھا تھا نا؟‘‘ جوہر نے انھیں یاد دلایا ’’Deodrant کی بوتل سے لے کر بھنڈی تک…differences کی رینج بہت vast ہے۔‘‘
’’آپ exception کی بات کر رہے ہیں جوہر صاحب۔ آپ برٹش جرنل آف یورولوجی کا 2007 والا سروے دیکھیے…one of the most accurate & scientific pieces of research on this subject…وہ کہتا ہے کہ 95% لوگوں کا سائز لگ بھگ سب کا same ہوتا ہے…ایک آدھ سینٹی میٹر اوپر نیچے بس…صرف 5% ہیں جو آ پ کی deoderant کی بوتل اور بھنڈی والی کیٹگری میں آتے ہیں۔ نہ یقین ہو تو آپ کسی تجربہ کار عورت سے پوچھ کر دیکھ لیجیے۔‘‘
کشیپ صاحب کے آخری جملے پر جوہرکی تو جل ہی گئی؛ ’’کیسے ؟یا پھر آپ کہیں تو [email protected]پر ایمیل کریں؟‘‘
’’ تو پھر جو ہم کہہ رہے ہیں، وہ مان لیجیے اور پھر انجن میکانکس تو آپ مرین والوں کو بھی پڑھایا جاتا ہے۔ انجن اگر well lubricated ہو تو پسٹن کا سائز، اسٹروکس اور friction ؛ یہ سب neutralize ہو جاتے ہیں۔‘‘
جوہر بھی بھلا کہاں رکتا، ایک چیلنج اور پیش کر دیا؛ ’’کشیپ صاحب! میکانکس میں ہم نے set of customary and mehanically performed activities کے بارے میں بھی پڑھا ہے۔ Layman’s language میں جسے روٹین کہتے ہیں۔‘‘
’’تو؟‘‘
’’تو صاحب، ہر کوئی جانتا ہے کہ میاں بیوی جو برسوں سے ساتھ رہ رہے ہیں، ان کا ایک set routineڈیولپ ہو جاتا ہے…اور یہ recurrent اکثر unconscious pattern of behavior ہوتا ہے جو کہ acquired through frequent repetition ہے…مطلب یہ ہے کہ انجن کتنا بھی well lubricated کیوں نہ ہو، نئے اسٹائل والے نئے آپریٹر کو ایک سکنڈ میں پکڑ لے گا۔‘‘ جوہر نے کشیپ صاحب کی اسٹوری پر اپنی ایکسپرٹ رائے پیش کی جسے یہ کہہ کر کشیپ صاحب نے رد کردیا۔
’’روٹین کو replicate بھی کیا جا سکتا ہے جوہر صاحب! اگر ہر منٹ intimate detailکو آپس میں شیئر کر کے map out کر لیا جائے تو double digit IQ والے بھی routine replication کر لیں گے، یہ تو خیر 120 plus IQ والے تھے۔‘‘کشیپ صاحب نے جوہر کو اپنے دلائل سے چاروں شانے چت کردیا۔ پھر بھی جوہر منمنایا۔
’’مگر intimate details بڑے پرسنل ہوتے ہیں۔‘‘
’’یہ آپ نے کیسی منا، بے بی، بابو ٹائپ کی بات کردی؟ Don’t you realise yet, کہ یہ پورا کھیل ہی پرسنل ہے؟‘‘ کشیپ صاحب نے اس کی طرف حقارت سے دیکھا۔
’’ہاں۔ ہاں۔ ‘‘ جوہر خواہ مخواہ ہنسنے لگا؛ ’’I was just kidding‘‘
’’یہ کھیل kidding سے نہیں، آسکر ایوارڈ جیتنے والے پرفارمنس سے جیتا جا تا ہے۔ گریٹ ایکٹر کی طرح ایک بالکل نئے کیریکٹر کی کھال میں اتر جانا ہے۔ اگر ہم اسے ٹرائی کرتے تو سمجھیے اے۔کشیپ کو کے۔جوہر اور کے۔جوہر کو اے۔ کشیپ بننا پڑتا۔‘‘کشیپ صاحب نے تقریباً اپنے پورے پتے’’شو‘‘ کردیے۔
’’بہت مشکل ہے۔‘‘ جوہر بدبدایا۔
’’آسان ہوتا تو ہر کوئی IAS نہ بن جاتا۔‘‘
’’ہر کوئی IIT بھی پاس نہیں کرپاتا کشیپ صاحب۔‘‘ جوہرنے تڑخ کر اپنی تعلیم کا دفاع کیا۔لیکن کشیپ صاحب اس وقت جھگڑے کے موڈ میں قطعی نہیں تھے، انھوں نے جوہر کی بات سے اتفاق کرنا ہی مناسب سمجھا۔
’’وہ تو ہے مگر جوہر صاحب! اتنے sensitive and intimate game میں feelingکو ہر وقت کنٹرول mode پر رکھنا ضروری ہے کہ کہیں آپ جوش میں آکر improvise نہ کرنے لگیں…اس کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ باؤنڈ اسکرپٹ بنا کر اسے word-to-word followکرنا پڑتا ہے۔ ہم تو بھائی، اپنی ساری قابلیت طاق پر رکھ کر ان صاحب کے سامنے جھک گئے اور بولے’جہاں پناہ تحفہ قبول کیجیے۔ آپ لوگ مہان ہیں۔‘‘
جوہر کافی نروس نظر آ رہا تھا۔ وہ مسلسل سوچے جا رہا تھا۔
’’اگر پکڑے گئے تو لائف ٹائم کے لیے منھ کالا۔‘‘
’’ہر pioneer کے ساتھ یہ رِسک تو رہتا ہی ہے۔‘‘ کشیپ صاحب نے دلاسا دیا؛ ’’آپ کو پتہ ہے radioactive radiations سے مرنے والا پہلا انسان کون تھا؟‘‘
’’کون تھا؟‘‘
’’جس نے Radioactivity کو discover کیا تھا؛ خود مادام کیوری۔ یہ pathbreakingلوگ الگ ہی مٹی کے بنے ہوتے ہیں جوہر صاحب۔‘‘
جوہر صاحب کے پاس یوں بھی کوئی جواب نہ تھا لیکن میرو کی آواز نے ان کی توجہ کو اپنی گرفت میں لے لی۔
’’منا! ایک نظر گھڑی پر بھی ڈال لینا ذرا۔‘‘ میرو نے کھڑکی سے چلا کر کہا اور پھر اسے زور سے بند کردیا۔ کشیپ صاحب نے مسکرا کر جوہر کی طرف دیکھا تو اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ اس نے اپنی مردانگی دکھانے کے لیے کشیپ صاحب کو چیلنج کر دیا۔
’’یہ جو ان سول سرونٹ لوگوں نے کیا، کوئی اتنی مشکل چیز بھی نہیں ہے۔ ہم لوگ بھی کرسکتے ہیں اور ان سے بہتر کر سکتے ہیں، اگر چاہیں تو۔‘‘
کشیپ صاحب نے چنگاری میں پھونک ماری؛ ’’چھوڑیے صاحب! بہت رِسکی ہے۔‘‘
’’کشیپ صاحب! رسک لینا ہم Mariners کا favorite sport ہے۔ We believe that a man cannot discover new oceans unless he has the courage to lose sight of the shores….یاد رکھیے، the person who risks nothing, does nothing, has nothing, is nothing & becomes nothing.”
’’ یہ آپ نہیں، بلکہ آپ نے جو بیوی کے ڈر سے اورینج جوس میں جو وودکا (Vodka) ملا رکھی تھی، وہی بول رہی ہے۔‘‘ کشیپ صاحب نے ایک چرکہ اور لگایا؛ جو جوہر کو مزید سلگا گیا۔
’’ڈر والی کوئی بات نہیں ہے کشیپ صاحب، let’s do it …ہم ان سول سرونٹ لوگوں کو out-perform نہ کردیں تو بولیے گا۔‘‘
کشیپ صاحب بالکل جلدی میں نہیں تھے، ایک مشاق کھلاڑی کی طرح وہ اپنی چال چل رہے تھے؛ ’’That’s a tough task…انھوں نے پرفارمنس کے standards بہت بڑا کر رکھا ہے…صبح وودکا اترے گی تو آپ realize کریں گے۔ جائیے، بھابھی جی! اپنے منا کے لیے پریشان ہو رہی ہیں۔ گڈ نائٹ۔‘‘کہتے ہوئے کشیپ صاحب آگے بڑھ گئے۔جوہر کی بے چینی اب اس جگہ پہنچ چکی تھی جہاں کشیپ صاحب اسے پہنچانا چاہتے تھے۔ جوہر کشیپ صاحب کے پیچھے لپکا؛ ’’ارے وہ مجھے منا بولتی ہیں تو میں منا ہو گیا کیا؟ آپ خود بکواس کر رہے ہیں، اور مجھے بولتے ہیں کہ چڑھ گئی ہے۔‘‘
’’گڈ نائٹ!‘‘ کشیپ صاحب بولتے ہوئے اپنے بنگلے کی طرف بڑھ گئے۔ جوہر بھی اپنے گھر کی جانب مڑ گیا۔ وہ اس وقت کافی تناؤ میں نظر آ رہا تھا۔ کشیپ صاحب نے پلٹ کر اس کی طرف نظر ڈالی، جوہر تیز تیز قدموں سے اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ کشیپ صاحب مسکرائے کیوں کہ ان کا چلایا ہوا تیر سیدھا ترازو ہوگیا تھا۔
یہ تو پتہ نہیں کہ جوہر کی رات کیسی بیتی لیکن اس کا کچھ اندازہ کشیپ صاحب کو صبح سویرے ہی ہو گیا۔ ان کی بیوی سمن بچوں کو اسکول کی بس میں چھوڑ کر جب واپس لوٹی تو اس نے ناشتہ کرتے ہوئے کشیپ صاحب کو بتایا کہ باہر ’’بھائی صاحب‘‘ انتظار کر رہے ہیں۔ کشیپ صاحب ایک پیشگی مسکراہٹ کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ سمن کی بڑ بڑاہٹ شروع ہوگئی۔
’’لونڈوں جیسے بال، چھچھوروں جیسے کپڑے…آپ کے یہ بمبئی والے روپ کی کاپی لگ رہے ہیں۔ ایک بار تو ہم کو لگا کہ یہ آپ ہی ہیں۔‘‘
سمن کا تبصرہ بالکل درست تھا۔ کشیپ صاحب نے جب باہر نکل کر جوہر کو دیکھا تو ہکا بکا رہ گئے۔ کلین شیو، مختلف ہیئر اسٹائل، پھول دار شرٹ اور رنگین جینزمیں جوہر مسکرارہا تھا۔
’’ جینیس بندے صرف IAS کالونی میں ہی نہیں ، انجینئرس انکلیو میں بھی مل جاتے ہیں کشیپ صاحب!‘‘
’’سینٹی کر دیا آپ نے بائی گاڈ۔ لگتا ہے دل پر لے لی آپ نے ہماری بات۔‘‘ کشیپ صاحب بولے بنا رہ نہیں پائے۔
’’دل پر لگے گی تبھی تو بات بنی گی کشیپ صاحب۔ سینٹی میو جیتے۔‘‘
معاہدہ ہو چکا تھا۔ دونوں نے پہلے ہاتھ ملائے پھر ایک دوسرے کے گلے لگ کر اپنے اس مشترکہ منصوبے کو صاد بھی کردیا۔ کشیپ صاحب کی نظر میرو پر پڑی جو جوہر کے لان میں مصروف نظر آئی۔ وہ اس طرح مسکرائے جیسے انھوں نے باقاعدہ میرو۔ہرن کرلیا ہو۔
بھٹ صاحب نے لپکتے ہوئے جوہر کو کشیپ صاحب سمجھ کر ٹوکا جو اپنے بنگلے کی طرف جا رہا تھا؛ ’’مسٹر کشیپ! ایک منٹ۔‘‘
جوہر بغیر مڑے اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا۔بھٹ صاحب نے یہ دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا کہ ان کا مخاطب کون تھا؛ کشیپ صاحب یا ان کے گیٹ اپ میں جوہر؟
’’وہ ڈونیشن والی محترمہ کے حادثے کے بعد آپ سے اکیلے بات کرنے کا موقع نہیں مل پایا۔ اس دن وہ مسٹر جوہر آپ کے ساتھ چپکے ہوئے تھے، اس لیے کھل کر بول نہیں پایا۔ مسٹر کشیپ! اس دن وہ گنا اور گڑ والی بات آپ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی نا؟ میں کھول کر سمجھا تا ہوں۔‘‘
اب جو جوہر پلٹا، تو بھٹ صاحب کے ہوش اڑ گئے۔جوہر نے انھیں غور سے دیکھا۔
’’I know everything about sugarcane & jaggery, Bhatt Sahab!…اگر کشیپ صاحب کو کوئی کنفیوژن ہے تو وہ ادھر ہیں۔‘‘
بھٹ صاحب نے پلٹ کر دیکھا تو وہ اپنے گیٹ پر کھڑے مسکرارہے تھے۔
’’کیسے ہیں بھٹ صاحب؟‘‘
بھٹ صاحب مکمل طور پر حواس باختہ ہو چکے تھے۔ ان کا سر اسپرنگ کی طرح جوہر اور کشیپ صاحب کے درمیان دائیں بائیں ناچ رہا تھا۔ کچھ پل یہی ہوتا رہا ، پھر انھوں نے ایک خارج از بحر شعر پڑھا
’’ دوریاں اس قدر مٹ گئیں اب پیار میں
شکل بھی اپنی اب ملنے لگی ہے یار سے
ہرے رام! ہرے کرشنا! ہرے ہرے! بے چاری ان کی بیویاں ! Good Ladies with gud men?‘‘
کشیپ صاحب اور جوہر کے لیے یہ اطمینان بخش بات تھی کہ بھٹ صاحب بھی انھیں پہچاننے میں دھوکا کھا گئے۔اس بات نے ان کے اند ر مزید خود اعتمادی سرایت کردی۔