یہ جو پٹریوں کے سامنے مکان دیکھ
رھے ہیں نہ آپ لوگ ۔۔۔جی یہ چائنا کٹنگ۔۔۔بس اسی گھر کی کہانی ہے۔۔۔قمر صاحب کی بیوہ رہتی ہیں اس ایک منزلہ گھر میں اپنی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ۔۔۔۔
بیٹا یعنی مصدق میاں اوپر والے پورشن میں اپنی بیوی کے ساتھ مقیم ہیں۔۔یعنی بیوی کو پیارے ہیں۔۔۔۔
اور نیچے قمر صاحب کی بیوہ شمع اور بیٹیاں سارا اور حسنہ رہتی ہیں۔۔۔۔
شمع کی قسمت میں کوئی امید کی شمع نہیں ہے۔۔۔یہی شمع کا رونا ہے۔۔۔۔وہ ایک بیوٹیشن بھی ہیں مگر ماہر نہیں۔۔۔
سارا ایک کمپنی میں جاب کرتی ہے چوبیس سال کی عمر میں وہ اپنی ماں کی گھر چلانے میں بھرپور مدد کرتی ہے۔۔۔۔۔۔مگر جتانا کبھی نہیں بھولتی۔۔۔
حسنہ کو صرف حسن نکھارنے کا شوق ہے ۔۔۔شاید نام کا اثر ہے۔۔۔عمر بائیس سال۔۔۔دو دفعہ بی اے کی سپلی لگا چکی نتیجہ صفر۔۔۔۔مگر اس بار حسنہ کو پوری امید ہے کے چار میں سے تین ہی رکیں گے ایک تو نکل ہی جانا ہے۔۔۔
نکڑ کی کمیونیکیشن کی شاپ پر کھڑی حسنہ دوپٹے کی گرہ کھولنے میں مصروف تھی۔۔۔
باجی پہلے کام بتا دو دوپٹے سے بعد میں جنگ کرنا ۔۔۔دکان پر کھڑا چھوٹی عمر کا لڑکا چڑ گیا تھا۔۔۔۔وہ کافی دیر سے پلو میں بندھے پیسے کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔مگرگرہ بہت ہی کس کے ماری تھی اب کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔
صبر نہیں آ رہا کیا۔۔۔پیسے نکال لوں پھر نمبر لکھواتي ہوں۔۔۔حسنہ نے دانتوں سے گرہ کو کھینچا۔۔ بلآخر وہ کھل ہی گئی۔۔۔۔
لو پکڑو۔۔۔پچاس کا نوٹ کاؤنٹر پر پٹخا۔۔۔اور جلدی سے بیلینس بھیجو۔۔۔نمبر بتا کر وہ تیزی سے گھر کی طرف بڑھی۔۔۔اگر امّاں کو پتہ چلتا کے وہ دکان گئی تھی تو اُس کو جوتیاں پڑنی تھیں۔۔
۔نالیاں پھلانگ پھلانگ کرابھی آدھی گلی ہی پہنچی تھی کہ ایک بائک والا تیزی سے اُس کے برابر سے گزرا۔۔۔گندے پانی کے چھینٹےاُس کے کپڑوں پر آگئے۔۔۔
ہائے ستیاناس جائے تیرا۔۔۔کمبخت ۔۔۔منہوس آدمی۔۔۔حسنہ کا غصے سے بُرا حال ہو گیا۔۔۔
وہ گھر پہنچی تو امّاں ابھی تک واپس نہ آئی تھیں وہ پڑوس والی سروری باجی کا فیشل کرنے گئی ہوئی تھیں۔۔۔
سارہ دفتر گئی ہوئی تھی۔۔۔بھابی کو سیڑھیاں اترنے کی توفیق نہیں ہوئی کبھی۔۔۔۔
وہ آرام سے کپڑے صاف کر کے فون لے کے بیٹھ گئی۔۔۔فون پر شہلا کی مسڈ کالز دیکھ کر اُس نے شہلا کو مسڈ کال دی۔۔۔۔
شہلا کا فوری فون آ گیا تھا۔۔۔۔کہاں مر گئی تھی حسنہ۔۔کب سے فون ملا رہی ہوں۔۔۔شہلا کے تیور بگڑے ہوئے تھے۔۔۔
بیلنس دلوانے گئی تھی نہ۔۔۔۔حسنہ نے بھی چلا کر جواب دیا ۔۔۔پھر ڈر کر اوپر کی طرف دیکھا اگر بھابی کو آواز جاتی تو وہ بھائی کو فوراً بتا دیتیں۔۔۔۔پھر حسنہ کو ذلیل ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔۔۔۔
رزلٹ چیک کیا۔۔۔شہلا سیدھے مدعے پر آئی۔۔۔نہیں کیا نہ ابھی۔۔۔نیٹ کیسے چلتا بیلنس نہیں تھا نہ اتنا۔۔۔۔اب کے حسنہ دھیرےدھیرے چیخ رہی تھی۔۔۔۔
اچھا میرا بھی کرنا۔۔۔شہلا نے مطلب کی بات کی۔۔۔
ہاں ہاں۔۔۔تو دعا کر اس سال پاس ہو جاؤں میں۔۔۔خالہ نے امّاں کو صاف کہہ دیا ہے وہ فراز کے لیے پڑھی لکھی بہو چاہتی ہیں۔۔۔حسنہ کا دل فراز میں اٹکا تھا۔۔۔
ہاں تو اور کیا۔۔۔ایم اے ہیں نے فراز بھائی۔۔۔۔اور تو بی اے میں دو دفعہ فیل۔۔۔شہلا ہنسی تھی۔۔۔
جا دفعہ ہو جا۔۔۔اب نہیں کروں گی تیرا ریزلٹ چیک۔۔۔وہ بھنّا گئی۔۔۔
اے میں تو مذاق کر رہی تھی بہنا۔۔۔شہلا نے پیار سے پچکارا۔۔۔۔
خالہ کی ڈیمانڈ تو بڑھتی جا رہی ہے روز بروز مہنگائی کی طرح ۔۔۔۔حسنہ جل کے بولی۔۔۔پہلے گوری کہا ۔۔۔پھر لمبی۔۔۔پھر امیر۔۔۔اور اب پڑھی لکھی۔۔۔۔بتاؤ ذرا ۔۔۔اُس نے خود کو الماری کے ٹوٹے شیشے میں دیکھا۔۔چھوٹا قد۔۔۔بی اے فیل۔۔۔یتیم۔۔۔بس ذرا رنگ ہی گورا تھا۔۔۔۔
گئی محبت پانی میں۔۔۔۔اُس کے دل نے صدا لگائی۔۔۔
حسنہ ڈر کے شیشے کے آگے سے ہٹ گئی۔۔۔
چیک کر لینا میرا بھی رزلٹ۔۔۔پلیز۔۔۔شہلا نے مکھن مارا۔۔۔
چل ٹھیک ہے شام کو گھر آ ۔۔۔پھر بتاؤں گی۔۔۔دروازہ کھلنے کی آواز پر اُس نے کال کاٹ دی۔۔۔موبائل کو تکیے کے نیچے دبا کے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔
شمع بیگم تھکی ہاری گھر لوٹیں تھیں۔۔۔۔صحن میں پڑی چارپائی پے ہی بیٹھ گئیں۔۔۔۔
کیا ہوا امّاں ٹھیک تو ہو۔۔۔حسنہ کو امّاں کی شکل دیکھ کر فکر لا حق ہوئی۔۔۔
کچھ نہیں سروری کا دماغ الٹ گیا ہے۔۔۔امّاں بڑ بڑانے لگیں۔۔۔کہتی ہے کاشف کے سلون جائے گی۔۔۔
کاشی کہا ہوگا۔۔۔حسنہ نے اپنے طور پر تصیح کی۔۔۔
امّاں نے غصے سے گھور کر دیکھا۔۔۔تجھے بڑا پتہ ہے حسنہ۔۔۔۔
وہ امّاں مارننگ شو میں آتا ہے نہ وہ ۔۔۔تبھی دیکھا ہے حسنہ گڑ بڑ ا گئی۔۔۔۔
چل دفعہ کر۔۔۔۔۔کمیٹی ڈالی ہے اُس نے کاشف سے جا کر فیشیل کروانے کے لیے۔۔۔۔یہاں تین سو روپے دینے میں بھی موت پڑتی ہے۔۔۔۔امّاں کو شدید غصّہ آیا ہوا تھا۔۔۔۔