حور تمہارا کیا خیال ہے تمہارا دلہا کیسا ہونا چاہئے۔۔
وہ تینوں اس وقت یونی سے واپسی پہ ریسٹورنٹ بیٹھی ہوئیں تھی جب مشعل نے اچانک ہی سب سے اہم ٹاپک (جو صرف مشعل کی نظر میں ہے) اس کے بارے میں سوال پوچھا۔۔
امممم۔۔ مشعل کے سوال پہ اس کے چپس کھاتے ہاتھ اور منہ دونوں ایک پل کو رکے تھے لیکن صرف ایک پل کو۔۔ کیونکہ منہ پھر سے چپس کو چبانے میں مصروف ہو چکا تھا۔۔
دلہا یعنی ہزبنڈ۔۔ شہادت کی انگلی اوپر کرتی وہ جیسے کنفرم کر رہی تھی۔۔
بلکل۔۔ مشعل نے تائید کر دی تھی۔۔
کیرئنگ۔۔ گڈ لکنگ۔۔ اور ویل ورتھی یہ سب کوالٹیز تو مسٹ ہیں۔۔ لیکن اس کے ساتھ جو یونیکنس میرے دلہے میں ہو گی وہ یہ کہ وہ فوجی نہیں ہو گا۔۔ حور کی بات پہ جہاں دونوں کے منہ کھلے تھے وہاں ساتھ بیٹھے آہان کے کان بھی کھڑے ہو گئے تھے۔
لڑکی تم پاگل ہو۔۔ سب سے پہلے ہوش ردا کو آیا تھا۔۔
آج کل کے دور میں جہاں لڑکیاں فوجیوں کے پیچھے مرتی ہیں تم کہہ رہی ہو کہ تمہارا دولہا فوجی نہ ہو۔۔ ردا اور مشعل دونوں کی حیرت کسی صورت کم نہیں ہو رہی تھی۔۔
ہاں تو یہی تو یونیکنس ہے میرے دلہے میں۔۔ حور نے کہتے ساتھ ہی شرارت سے آنکھ دبائی۔۔ جبکہ قریب بیٹھے آہان کے لبوں پہ اب مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔۔
اور اسکی وجہ کیا ہے۔۔ ایک بار پھر سوال مشعل کی طرف سے تھا کیونکہ اس کو تو جنون کی حد تک کریز تھا فوج کا۔۔ ایسی توہین وہ کیسے برداشت کر سکتی تھی۔۔
یار تجھے پتہ تو ہے وہ کتنے سو کالڈ ڈسیپلنڈ ہوتے ہیں انکی ہر چیز میں ڈسپلن ہوتا ہے۔۔ اور میرا اور ڈسپلن کا دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں۔۔ اور دوسری بات کہیں شہید ہو گیا تھا تو میں تو ساری عمر روتی رہوں گی۔۔ جبکہ میں ایسا نہیں چاہتی۔۔ میں لائف کو ہنس کھیل کر کھل کر جینا چاہتی ہوں۔۔ آنکھوں کو میچتی وہ خیالوں میں اپنے بازو پھیلا رہی تھی یوں جیسے ابھی سے بادلوں پہ اڑ رہی ہو۔۔
لیکن افسوس اس پرواز کو پھر ردا کی چٹکی نے فورا ہی ڈھیر کر دیا تھا۔۔
آئیییی۔۔ کیا مصیبت ہے بھئی۔۔ اپنے بازو کو مسلتی وہ ردا کو کچاچبانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔
بہن ہوش کی دنیا میں آ جاؤ۔۔ کیونکہ ہمیں کافی ٹائم ہو گیا ہے آئے۔۔ اس سے پہلے کہ اماں تمہیں فون کر کے تمہاری کلاس لیں اب گھر جانا چاہیے ہمیں۔۔
بیگ کو سمیٹتے اس نے بر وقت حوش دلایا تھا۔۔
ہائے ظالم کیا یاد دلا دیا۔۔ کہاں میں آسمانوں میں اپنے پرنس کے ساتھ رقص کر رہی تھی۔۔ اور کہاں تم نے مجھے زمین پہ پٹخ دیا۔۔ وہ بھی اماں کے خیال سے۔۔ اب وہ بھی اپنا بیگ اٹھا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
یہ اپنی رام کہانی چھوڑو اور بتاؤ میم رخشندہ کی اسائنمنٹ کا کیا کرنا ہے۔۔ وہ تینوں بل پے کر آگے پیچھے باتیں کرتی ریسٹورنٹ سے نکل رہی تھی۔۔ جبکہ آہان وہی پہ بیٹھا اس ٹٹیبل کو دیکھ رہا تھا جہاں وہ بیٹھی تھی۔۔
حور۔۔ بن آواز لب ہلے تھے۔۔ اور شاید ویسے ہی محبت بغیر آواز پیدا کیے آہان کے دل میں بیٹھ گئی تھی۔۔
@@@
کہاں تھیں تم۔۔ وہ ابھی اندر داخل ہوئی ہی تھی کہ اماں خدائی فوج دار بنے سامنے ہی کھڑیں تھیں۔۔
اللہ اماں ڈرا دیا۔۔ ایسے تو کوئی جن بھی اتنی اچانک سامنے نہیں آتا جتنی اچانک آپ سامنے آئیں ہیں۔۔کچھ تو خیال کریں اماں۔۔ ننھا سا دل ہے میرا چڑیا جتنا۔۔ ایویں ہارٹ اٹیک سے بند ہو گیا تو۔۔ دل پہ ہاتھ رکھے وہ ڈرے رہنے کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔۔
منحوس شرم نہیں آتی ماں کو جن سے تشبیہ دیتی ہے۔۔ اسکی کمر پہ دھپ رسید کرتی وہ اور گرجی۔۔
ہائے او ربا میں مر گئی۔۔ اماں کچھ تو خیال کریں نازک جان ہوں میں۔۔ آپ کا سمیٹڈ ہاتھ نہیں سہا جاتا۔۔ دہائیاں دیتی وہ صوفے پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھی۔۔
کھوتے جتنی ہو گئی ہے میری اولاد پر تمیز چھو کر نہیں گزری۔۔ نیچے دیکھے نہیں جاتے کہ دھلے کپڑے پڑے ہیں۔۔ اسے زبردستی اٹھاتی نیچے سے کپڑے اکٹھے کر کے سائڈ پہ رکھے۔۔
لوگوں کی بیٹیاں آتی ہیں کالج یونی سے تو انکی مائیں ٹھنڈا جوس کا گلاس پیش کرتی ہیں۔۔ ادھر ایک ہم ہیں آئیں تو آگے سے دھپوں اور صلواتوں سے سواھگ ہوتا ہے۔۔ کیا زندگی ہے۔۔ کیا کر سکتی تھی اب وہ سوائے جھوٹے آنسو بہانے کے۔۔ لیکن سامنے بھی اماں تھی جن کا جھوٹے تو کیا سچے آنسوؤں سے بھی دل نہ پگھلنے والا تھا۔۔
بس کر دو۔۔ یہ مگر مچھ کے آنسو بہانا۔۔ یہ سارے چونچلے نہ اپنے میاں کو دکھانا۔۔ وہاں سسرال میں تو ہزاروں سن بھی لیں گی اور کام بھی سارے کریں گی۔۔ ایک ادھر ماں کچھ کہہ دے تو آنکھوں سے دریا بہنے شروع ہو جاتے ہیں بس۔۔۔ کپڑے سائڈ پہ رکھ کر وہ کچن کی جانب مڑی تھی۔۔ لیکن کھڑکی سے اسے بتانا نہ بھولیں تھی کہ اس کے ان دوغلے آنسوؤں کا ان پہ کوئی اثر نہیں۔۔
ٹھیک ہے۔۔ ایک دن چلی جاؤں گی نا تو دیکھنا بہت یاد کریں گی۔۔ اب ان آنسوؤں کا اثر تو تھا نہیں اس لیے انہیں صاف کر کے وہ اوپر کمرے کی جانب بڑھی لیکن جاتے جاتے بھی ایموشنل بلیک میل کرنا نہ بھولی تھی۔۔
بس ناول پڑھ پڑھ کر دماغ خراب ہوا ہے۔۔ وہی ساری باتیں مجھ پہ بھی آزماتی ہیں۔۔ یہ نہیں جانتی کہ میں ماں ہوں انکی۔۔ وہ کچن میں کام کرتے کرتے بھی مسلسل بڑبڑا رہی تھی۔۔
آخر کو اللہ نے اولاد ہی ایسی افلاطون دی تھی بچاری کرتی بھی تو کیا۔۔ ماہا توسمجھدار تھی سلجھی تھی لیکن حور تو توبہ توبہ تھی۔۔ جوانی میں ہی بیوگی کے بعد انہوں نے ہی ماں اور باپ دونوں بن کر پالا تھا۔۔
ماہا تو خیر سمجھدار تھی معاملے کی نزاکت کو سمجھتی اور ہمیشہ ان کا ہاتھ بٹاتی پر حور۔۔ اس کی شرارتوں سے تنگ تو نہیں البتہ پریشان ضرور تھی۔۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ محترمہ حور صاحبہ کا بغیر رکے اور بغیر سوچے بولنا تھا۔۔
وہ اسکو کتنا بھی سمجھاتی لیکن وہ بہت عقلمندی سے دائیں کان سے سن کر لبیک کہتی اور بائیں کان سے نکال کر اللہ حافظ۔۔
@@@
کمرے میں آتے ہی اس نے بیگ زور سے بیڈ پہ پھینکا تھا اور خود کو بھی بیڈ پہ سیدھا گرایا تھا۔۔
یہ کیا طریقہ ہے حور۔۔ ایسے تھوڑی نہ لیٹتے ہیں بچے۔۔ ماہا جو کمرے کی سیٹنگ کر رہی تھی اور بیڈ شیٹ کو سیٹ کر کے سیدھی ہوئی تھی۔۔ اپنی محنت کے ضائع ہونے پہ تاسف سے حور کو دیکھا۔۔
یہ اماں مجھ سے خائف کیوں رہتی ہیں۔۔ چھت کو گھورے وہ۔ اتنے سنجیدہ۔ انداز میں پوچھ رہی تھی کہ ماہا۔ کو تشویش ہوئی۔۔
ایسا کیوں کہہ۔ رہی ہو حور۔۔ اور اماں تم سے خائف نہیں رہتی بس تم انہیں تنگ مت کیا کرو۔۔ جو کہتی ہیں مان لیا کرو۔۔ تابعداری کرو گی تو کیونکر خائف رہیں گی تم سے۔۔ پیار سے اسے بالوں میں ہاتھ پھیرتی وہ اسے سمجھا رہی تھی۔۔
یاررررر۔۔ (وہ بیڈ پہ آٹھ کر بیٹھی)۔۔ میں کر تو لوں تابعداری۔۔ پر جو اماں کو چھیڑنے کا سویگ ہے نا اسکا چارم ہی الگ ہے۔۔ ایک آنکھ دباتی وہ ماہا کو ہنسنے پہ مجبور کر گئی تھی۔۔ وہ جو سمجھی تھی کہ وہ سنجیدہ ہے تو یہ محض ماہا کی خام خیالی ہی تھی۔۔
تو اور نہیں تو کیا۔۔ جب وہ غصے سے بولتی ہیں اور اس پہ ان کے گال جب گلابی ہوتے ہیں۔۔ آئے ہائے کیا کمال لگتی ہیں۔۔ منہ پہ ہاتھ رکھ کر وہ ایسے شرما رہی تھی جیسے یہ قصیدہ وہ کسی لڑکے کی شان میں بول رہی ہو۔۔
ماہا جو تب سے مسکرا کر سن رہی تھی اسکی آخری بات سے اس کو قہقہہ لگانے پہ مجبور کر دیا تھا۔۔
حور۔۔ بازآ جاؤ۔۔ اب مجھے سمجھ آیا ہے تم ٹھیک اماں سے ڈانٹ کھاتی ہو۔۔ چلو شاباش اب اپنی باتوں کو بریک لگاؤ اور نیچے لنچ کی تیاری کے لیے آ جاؤ۔۔ روم کو فائنل ٹچ دے کر وہ نیچے کی جانب آ گئی تھی جبکہ پیچھے حور “اوکے باس” کہتی منہ ہاتھ دھونے کی غرض سے واشروم کی جانب بڑھی۔۔
@@@
گھر کی بربادی کے آثار نظر آتے ہیں۔۔
بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں۔۔
وہ کھڑکی سے ٹیک لگائے حور کو سوچ کر مسکرا رہا تھا جب فائق اسکا روم میٹ اور بیسٹ فرینڈ ہاتھ میں چائے کے دو کپ لیے موقع کی مناسبت سے شعر پڑھتا کمرے میں داخل ہوا۔۔
ہاہاہاہا۔۔ اس کے شعر پہ وہ قہقہہ لگائے بنا نہ رہ سکا۔۔
یار تم بھی نہ۔۔ ایسی کوئی بات نہیں۔۔ اسکے ہاتھ سے کپ لیتا وہ تھوڑی سنجیدگی سے بولا۔۔ لیکن سنجیدہ ہو نہیں پایا۔۔ کیونکہ جب محبت چپک جاتی ہے تو کہاں ہونٹوں سے مسکراہٹ جاتی ہے۔۔ بن بات کے بھی ہنسی آتی ہے تب تو۔۔
پتر ساڈے نال ویر تے سیدھے سیدھے فیر۔۔ اس لیے جو بات ہے وہ سیدھی طرح بتا دو ورنہ پتہ تو میں خود بھی لگوا لوں گا۔۔ چائے کا سپ لیتے فائق نے جیسے اسے وارن کیا تھا اور آہان جانتا تھا کہ وہ ایسا کر بھی لے گا۔۔
بڑے ہی منحوس ہو تم قسمے۔۔ برا سا منہ بنا کر کہا گیا آخر فائق نے دھمکی ہی ایسی دی تھی۔۔
اب بتاؤ بھی۔۔ اس کے پاز لینے پہ فائق کو مزید تجسس ہو رہا تھا۔۔
ریسٹورنٹ میں دیکھا آج اسے۔۔ بلکل اپنے نام کی طرح خوبصورت تھی۔۔ گہرا سانس لے کر اس نے بات کا آغاز کیا پھر چپ کر گیا۔۔
اور نام کیا تھا۔۔ ایک اور سوال آیا۔۔
حور۔۔ لبوں نے جنبش کی۔۔
اوہوں۔۔ فائق کی ہوٹنگ پہ اس نے سخت چنوں سے اسے گھورا جس پہ اسکی “اوہوں” کو بریک لگی۔۔
لیکن ایک مسئلہ ہے۔۔ چائے پیتے اس نے دوبارہ وہی سے تسلسل جوڑا۔۔
کیا۔۔
اس کو فوجی پسند نہیں۔۔ ہائے کتنا دکھ تھا آہان کے لیجے میں کوئی اس سے پوچھتا۔۔
کیاااااا۔۔۔ آہان کی بات سن کر اس کے منہ سے بے اختیار چیخ نکلی تھی۔۔ کیونکہ پاکستان میں تو کم از کم ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی فوجیوں کو نا پسند کرتا ہو۔۔
ہممم۔۔ اسکے شاک پہ وہ بس اتنا ہی بولا کیونکہ وہ فائق کا ری ایکشن پہلے سے جانتا تھا۔۔
لیکن کیوں۔۔
یار ویسے والے نا پسند نہیں ہیں۔۔
اب یہ ویسے والے کی تعریف بھی کر دو۔۔ فائق کے پلے ککھ نہ پڑا۔۔
مطلب ایز آ ہزبنڈ نہیں پسند۔۔ ویسے پسند کرتی ہے۔۔ آہان نے اب سیدھی بات کر تو دی تھی لیکن فائق ابھی بھی شاکڈ تھا اسے ایز آ ہزبنڈ ناپسندیدگی والی بات بھی ہضم نہیں ہو رہی تھی۔۔
اور اسکی کیا وجہ ہے۔۔ ایک اور سوال
ہمارا ڈسپلن۔۔ آہان نے ٹھنڈی آہ خارج کی جبکہ فائق نے قہقہہ۔۔
بیٹا تیرا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔ دل آیا بھی تیرا تو کس پہ۔۔ وہ ہنستے ہوئے خالی چائے کے کپ لے کر کمرے سے باہر کی جانب بڑھا جبکہ آہان پھر سے کھڑکی پہ سر ٹکائے حور کو سوچ رہا تھا۔۔ جو اسکے دل کو تو بہت پاس محسوس ہو رہی تھی اسے پر قسمت سے دور تھی ابھی۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...