حمید: اوہ آفتاب
آفتاب : آداب انکل
حمید: جیتے رہو۔ کوئی نئی بات۔ خیریت یعنی گھر پر سب ٹھیک ہیں
آفتاب: مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی جب آپ کے پاس وقت ہو
حمید: بیٹھو بیٹھو۔۔ زیادہ ہوتا ہے تو گھر پر لے آتے ہیں۔ ہم دفتر یعنی آفس کا کام
آفتاب: آپ بہت مصروف ہیں
حمید: کچھ زیادہ نہیں۔۔۔ ہاں تو کیا قصہ ہے یعنی پرابلم کیا ہے
آفتاب : انکل مجھے کیا کرنا چاہئیے
حمید: ہوں کیا کرنا چاہئیے۔ یعنی کیا کام کرنا چاہئیے۔
آفتاب : میں کام کی تلاش میں ہوں
حمید: تمھارے نتیجے یعنی رزلٹ کا کیا رہا
آفتاب : جی وہ۔۔ اس سال میں نے۔۔ اس سال امتحان نہیں دیا
حمید: تیاری نہیں تھی۔
آفتاب : دراصل انکل گھر کے حالات۔۔ خرچ بڑھتا جارہا ہے اور ابو کی آمدنی وہی ہے
حمید: اور کوئی وجہ یعنی ریزن
آفتاب : میں چاہتا ہوں کہ ابو کا جو خواب ہے اس کو بھی پورا کروں۔ کسی نہ کسی طرح
حمید: خواب یعنی پرابلم تمھارے ابو کا۔۔۔ وہی زمینوں کی نئی زندگی
آفتاب: اب ان کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ خیال کو حقیقت سمجھنے لگے ہیں۔ انتہا یہ کہ انہوں نے ایک کمپنی سے چار ٹریکٹر خریدنے کی خط و کتابت کر لی۔ ان کا نمائندہ گھر پر آیا تھا۔
حمید: نمائندہ یعنی
آفتاب: جی ہاں۔۔ اسے تو خالو جان میں نے کسی نہ کسی طرح ٹال دیا مگر اسی وقت دل میں عہد کر لیا کہ جب تک ابو کی زمینیں درست نہیں ہو جائیں گی چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ مجھے کام چاہئیے کیسی بھی محنت ہو کر لوں گا۔
حمید: کہنا آسان یعنی کرنا مشکل یعنی
آفتاب : میں انکل زندگی میں آگے اور آگے میرا مطلب ہے اونچا اور اونچا
حمید : (ہنس کر) آگے اور آگے اور آگے۔۔ اونچا اور اونچا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے جو عزیزم یعنی مائی ڈئیر آفتاب
آفتاب : جی انکل
حمید: ہم نے اگر ترقی کی تو خود کو اس کا اہل بھی بنایا۔ اپنے کاموں میں دلچسپی لی۔ یہ نہیں کہ دفتر یعنی آفس گئے اور جیسے تیسے وقت یعنی ٹائم پورا کیا اور چل نکلے نہیں نہیں۔۔۔ تو۔۔ تو جب ملازمت کرتے ہیں تو کام بھی کرتے ہیں۔ پوری توجہ اور دلچسپی سے۔ تمام دوسرے کاموں سے زیادہ اس لئے کہ وہ روزی ہے اس سے روزی ملتی ہے۔ روزی جو زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے۔ دراصل زندہ رہنا ہی انسان کے لئے سب سے بڑا کام ہے۔ سب سے مقدس فرض ہے۔
آفتاب : جی انکل
حمید: جس محکمے میں جس مل میں کارخانہ میں فیکٹری میں کام کرتے ہو اس کی ایک ایک چیز کو دیکھو ایک ایک کام کو دیکھو۔ پورے نظام پوری مشینری کو دیکھو کہ یہ سب کچھ کس رخ ہوتا ہے اور اس کا کیا مقصد ہے دیکھو سوچو اور سمجھو۔
آفتاب : میرا ارادہ یہ۔۔ ہے کہ
حمید: ہمیں بات پوری کرنے دو۔ اپنا ارادہ یعنی بعد میں بتانا ہم اگر تم سے کہیں کہ دوسری منزل یعنی سیکنڈ فلور پر جاؤ تو کیسے جاؤ گے۔
آفتاب: جی انکل زینے سے
حمید : ایک ایک سیڑھی چڑھ کر۔۔ یہی نوکری میں یعنی سروس میں کرنا ہوتا ہے مگر تم چاہتے ہو کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسہ (اچانک) سیلز مین رکھوا دوں کسی دکان پر۔
آفتاب: جی وہ
حمید: جی وہ کیا۔۔ یعنی کاؤنٹر پر کھڑا ہونا بُرا لگتا ہے۔ لکھنے پڑھنے کا کام چاہئیے مگر یاد رکھو دنیا صرف قلم روشنائی اور کاغذ سے نہیں بنی ہے۔ اگر زندگی کو سمجھنا چاہتے ہو تو تمھیں یہ جاننا پڑے گا کہ دنیا کاہے سے بنی ہے۔ تمھیں کسی فیکٹری میں ہونا چاہئیے۔ کچے مال کی خوشبو پہچانو۔ سردی میں ٹھٹھرے ہوئے بارش میں بھیگے ہوئے گرمی میں پگھلتے ہوئے محنت کرو تمھارا لباس میلا ہونا چاہئیے۔ محنت کش کا لباس مگر تم تو ٹھہرے سفید پوش۔ داغ دھبے والے لباس کی ملازمت کیا جانو۔
آفتاب : میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں سب کچھ برداشت کروں گا کام کروں گا محنت کروں گا تاکہ ابو کا خواب۔۔۔ ابو کا خواب پورا کر سکوں
رضیہ : (آتے ہوئے) ہیلو ڈیڈی۔۔ اوہ آفتاب ہاؤ ڈو یو ڈو
آفتاب: تھینک یو رضیہ۔۔ میں ٹھیک ہوں
حمید: بیٹی ان کے لئے کچھ چائے وغیرہ
رضیہ : شاپنگ کرنے گئی تھی۔ چائے میں نے بھی نہیں پی ہے تو آفتاب میرے ساتھ آؤ
آفتاب: جی وہ
حمید: تمھارا اپنا گھر ہے
رضیہ : اور ڈیڈی آپ
حمید: ہمارے لئے یہیں بھجوا دینا۔ ابھی کئی فائل دیکھنے ہیں
رضیہ : آؤ آفتاب
(قدموں کی آواز)
رضیہ : آج کتنے زمانے کے بعد تمھیں دیکھا ہے تم تو بھول ہی گئے ہم لوگوں کو
آفتاب : اپنے عزیزوں کو کون بھولتا ہے۔ مگر بس یہ ہے کہ آنا ہوا نہیں
رضیہ : لو اس صوفے پر بیٹھو۔۔ ہاں اب کہو کیا ہم لوگ تمھیں یاد نہیں آتے
آفتاب: امی نے کئی دفعہ تمھارا ذکر کیا
رضیہ : امی کو نہیں میں تمھیں پوچھ رہی ہوں تم کہاں رہتے ہو کس دنیا میں رہتے ہو
آفتاب : کیا مطلب کس دنیا میں، بس اسی دنیا میں یہی جو دنیا ہے
رضیہ : کم سے کم ایک سینچری۔ سو سال پہلے پیدا ہونا چاہئیے تھا تمھیں۔ تمھارا تھکا تھکا سا یہ انداز۔ آج کی تیز رفتار زندگی کا ساتھ نہیں دیتا۔ یہ جیٹ اور راکٹ کا زمانہ ہے اور تم۔۔ تم دقیانوسی شہزادیوں کی طرح پالکی میں بیٹھ کر زندگی کے دیوان عام سے گزرنا چاہتے ہو۔
آفتاب: نہیں یہ بات تو نہیں۔۔۔ ابھی انکل سے میں نے وعدہ کیا ہے کہ محنت کروں گا۔
رضیہ : (ہنستی ہے) محنت کرو گے۔۔ اچھا تو پہلا کام یہ ہے کہ کافی بنا کر خود بھی پیو اور مجھے بھی پلاؤ۔
آفتاب : مگر
رضیہ : تو۔۔ تو۔۔ آج میں تمھارے ہاتھ کی کافی پیوں گی۔ لڑکے اچھی کافی بناتے ہیں۔ اشرف تو ایسی کافی بناتا ہے، جی چاہتا ہے پیتے چلے جاؤ۔۔۔ میں جانتی ہوں تم بھی لاجواب کافی بناؤ گے۔ یہ جو تمھاری انگلیاں ہیں لامبی لامبی۔ ایسی انگلیاں بینجو بنانے، ٹائپ کرنے اور کافی بنانے میں لاجواب ہوتی ہیں۔
آفتاب : (ہنستا ہے) یہ مجھے آج ہی معلوم ہوا۔ ابھی بناتا ہوں۔
رضیہ : شاباش۔۔ سوچتی ہوں زمین کے گرد چکر لگاؤں موٹر بوٹ میں۔ یہ میرا پروگرام ہے، کیوں کیسا آئیڈیا ہے۔
آفتاب: (تھوڑے فاصلے پر) زمین کے چاروں طرف پہلا چکر لگانے کی کوشش میجی لین نے کی تھی۔
رضیہ : بالکل ٹھیک اس کے نام پر ایک چکر ہم بھی لگائیں گے۔
آفتاب : (ہنستا ہے) یا افریقہ کی کسی دور دراز وادی میں بحری قزاق کے دفن کئے ہوئے خزانے کی تلاش پرانے نقشوں کی مدد سے
رضیہ : جھوٹی سچی کہانیوں والی باتیں۔۔ خزانے کی تلاش نہیں، زمین کے گرد چکر ٹھیک ہے۔ مگر اس کے لئے مجھے کم سے کم ایک ساتھی کی ضرورت ہے تم چلو گے۔
آفتاب : سوچوں گا
رضیہ : اس میں سوچنے والی کیا بات ہے۔ پرانے لوگ سوچا کرتے تھے۔ سوچتے سوچتے ہی زندگی کا ڈراپ سین ہو جاتا تھا۔ اب سوچنے کا نہیں کر گزرنے کا زمانہ ہے۔ انسان کو ہونے کی ضرورت ہے ایکٹیو اسمارٹ
آفتاب : مجھے کنفیوز مت کرو
رضیہ : کنفیوژن کہیں تمھارے اندر ہے۔ میں نے تو سیدھی سادی بات کہی ہے میرے ساتھ دنیا کی سیر سے واپس آؤ گے تو۔۔۔ ہیرو بن جاؤ گے۔
آفتاب: شکریہ
رضیہ : اوہ ہو یہ تو میں بھول ہی گئی تھی۔۔۔ کہاں گیا میرا بریف کیس۔۔ ہاں یہ رہا۔۔۔ آں۔۔ یہ دیکھو
آفتاب : رکارڈ
رضیہ : بالکل نیا ہے۔۔ دھوم مچی ہوئی ہے شہر میں اس کی۔ ریکارڈ پلئیر پر لگاؤ۔ ہاتھوں ہاتھ بک گیا، ڈھونڈنے سے نہیں ملتا بازار میں
(مغربی موسیقی کا ریکارڈ)
ایسی میوزک کہ سننے والے کا بدن خود بخود تھرکنے لگے۔ پاگل ہو رہے ہیں لوگ اس ریکارڈ کے لئے۔ بالکل میڈ۔۔ تمھارا پاؤں بھی ہلا۔۔ شرط لگاتی ہوں ابھی اٹھ کر ناچنے لگو گے۔ کیا سوچنے لگے ناچو آفتاب۔۔۔ کم آن آفتاب
(میوزک)
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...