زاویار نے اس کے لیئے فرنٹ ڈور کھولا مگر وہ نظر انداز کرتی بیک سیٹ پے بیٹھ گئی۔۔
وہ اسکی جکڑ لینے والی شخصیت سے بھاگ رہی تھی۔ مگر وہ نہیں جانتی کہ وہ اسکے حصار میں جکڑی جا چکی ہے۔۔۔
زاویار کو اسکی اس حرکت پہ غصہ تو بہت آیا مگر ضبط کر گیا۔۔۔
وہ زاویار جسکے ساتھ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھنے کو لڑکیاں اپنا اعزاز سمجھتی تھیں اسے ایک معمولی سی لڑکی نے نظر انداز کیا تھا تو پھر غصہ تو آنا ہی تھا نہ۔۔۔
خیر اسکا بدلہ تو وہ بعد میں بہت اچھے سے لے سکتا تھا۔۔
ابھی وہ ڈرائیونگ سیٹ پہ آیا اور خاموشی سے ڈراؤ کرنے لگا۔اور اسی خاموشی سے اسے اسکے گھر ڈراپ کر دیا۔
باصفا جتنا اُسے نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہی تھی اتنا ہی اسے سوچے جا رہی تھی۔
گھر آ کر بھی وہ اسکے حصار سے نکل نہیں پائی۔آج یوں لگ رہا تھا جیسے نیند آنکھوں سے روٹھ گئی ہو وہ ساری رات زاویار کے بارے میں ہی سوچتی رہی۔۔۔
جب کافی دیر کروٹیں بدلنے کے بعد بھی نیند نا آئی تو خود پے ہی غصہ آنے لگا۔۔۔
“اف یہ مجھے کیا ہو گیا ہے مجھے نیند کیوں نہیں آ رہی اور میں اسے اتنا کیوں سوچ رہی ہوں”
مگر کوئی جواز سمجھ میں نہ آیا۔
خیر خود سے لڑتے جھگڑتے آخر نیندآ ہی گئی۔
رات چونکہ وہ دیر سے سوئی تھی اس لئے صبح دiر سے اٹھی۔ حیا نے بھی آج نہیں آنا تھا تو اسنے بھی چھٹی کر لی۔۔۔
بوا۔۔۔
جی بٹیا۔۔
بوا رات کو بھائی نے میرا پوچھا تو نہیں؟؟؟
جب وہ ناشتہ کرنے نیچے آئی تو سب سے پہلے بوا سے بھائی کا پوچھا۔۔
نہیں حمزہ بیٹا تو خود رات کو دیر سے آیا تھا اور آتے ہی اپنے کمرے میں چلا گیا کھانا بھی نہیں کھایا۔۔۔۔
یہ سن کہ باصفا نے سکون کا سانس لیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے اگلے روز جب وہ کالج گئی حیا ملتے ہی بولی۔۔۔
“اففف لڑکی تم نے جانے زوئی پہ کیا جادو کیا ہے اس نے تمہارا پوچھ پوچھ کر میرا دماغ کھا لیا ہے”۔۔۔
باصفا فوراً گھبرا کر بولی۔۔۔ “نہیں تو میں نے تو کچھ نہیں کیا”۔۔۔
ہائے صدقے جاؤں اس معصومیت پہ۔۔ وہ اسکے رخصار کو چھوتے ہوئے بولی۔۔۔
ایویں ہی تو نہیں میرا بھائی تمہارے عشق میں دیوانہ ہوا جا رہا۔۔۔
شرم کرو حیا کیا بکواس کیے جا رہی ہو۔۔
باصفا اسکی باتوں پہ جھینپتے ہوئے بولی۔۔۔
بکواس نہیں میری جان یہ سچ ہے۔۔۔
حیا۔۔۔ باصفا نے اُسے گھورا۔۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔
ویسے وہ تمہارا نمبر مانگ رہا تھا۔۔۔ میں نے کہا تمھارے پاس تو سیل ہی نہیں ہے۔ تو کہ رہا تھا کہ اگر تمہیں برا نہ لگے تو وہ لا دے گا۔۔۔
مھر حیا انہوں نے ایسا کیوں کہا۔۔۔
اگر میرے پاس سیل ہوتا بھی تو میں انہیں اپنا نمبر ہر گر نہیں دیتی۔۔۔ بتا دینا انہیں میں ایسی لڑکی نہیں ہوں۔۔۔تمہارا کیا مطلب ہے وہ تم سے فلرٹ کر رہا ہے نہیں باصفا تم غلط سمجھ رہی ہو زوئی ایسا لڑکا نہیں ہے۔۔
ایسے مت تڑپاؤ میرے بھائی کو۔۔۔ تم نے حمزہ بھائی سے فون کا نہیں کہنا مت کہو میں زوئی سے کہوں گی تمہیں فون لا دے۔۔
نہیں حیا تم ان سے ایسا کچھ نہیں کہو گی۔
نہیں کہتی اگر تم وعدہ کرو تم حمزہ بھائی سے بات کرو گی۔۔۔
اچھا بابا ٹھیک ہے میں آج ہی کرتی ہوں بات۔۔۔
یہ ہوئی نہ بات۔۔۔ گڈ گرل۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو جب بھائی گھر آئے تو وہ ڈرتے ڈرتے انکے روم میں گئی۔۔
وہ ناک کرتی اندر آئی۔۔
وہ اپنے
laptop
پہ کام کر رہے تھے۔۔۔
بھائی وہ۔۔۔ وہ مجھے کچھ بات کرنی تھی۔۔۔
ہوں بولو۔۔۔ مصروف سا جواب آیا۔۔۔
وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ بھائی وہ۔۔
کچھ بولو گی یا وہ وہ ہی کرتی رہو گی۔۔
وہ انکے انداز پہ گڑبڑا گئی اور جلدی سے بولی۔۔۔
وہ آپ مجھے موبائل فون لے دیں گے۔۔۔
وہ کچھ لمحے خاموشی سے اُسے دیکھتے رہے۔۔ وہ سر جھکائے کھڑی رہی۔۔۔
باصفا کو یہ ہی لگا کہ وہ انکار کر دیں گے مگر اسکی توقع کے خلاف ہوا۔۔۔
ٹھیک ہے میں لا دوں گا۔۔۔
“Thank you bhai”…
وہ دلی خوشی کو چھپاتی شکریہ کہتی باہر آ گئی۔۔۔۔
اگلے دن اسنے حیا کو بتایا کہ بھائی مان گئے تو وہ بھی بہت حیران ہوئی۔۔۔
حیرت ہے ویسے یہ تمیارا کھڑوس بھائی مان کیسے گیا۔۔۔
اے خبردار جو میرے بھائی کو کچھ بولا تو۔۔۔ بھائی جیسا بھی تھا اسے بہت عزیز تھا۔۔۔
اچھا اچھا آئی بڑی میرے بھائی کو کچھ مت بولو۔۔حیا اسکی نکل اتارتے بولی۔۔۔ ویسے تم آم کھاؤ نا گٹلیاں کیوں گنتی ہو۔۔ ہاں یہ بھی ہے۔۔ اور وہ ہاتھ پہ ہاتھ مارتی ہنس دیں۔۔۔
باصفا۔۔۔۔
ہوں۔۔۔
وہ زاویار تم سے بات کرنے کو بڑا بے چین ہے۔۔ اسنے مجھے کہا تھا کہ میں ایک دفعہ اپنے فون سے تمہاری بات کروا دوں۔۔۔
مگر حیا انہیں مجھ سے کیا بات کرنی ہے۔۔
یہ تم اسی سے پوچھنا۔۔۔
لیکن مجھے انسے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔
اففف ہو ایک دفعہ اسکی بات سن لینے میں آخر حرج ہی کیا ہے۔۔
مگر یہاں کیسے بات ہو گی اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟؟؟۔ وہ حیا کو ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔ مگر لگتا تھا آج وہ بھی اسکے ہر اعتراض کا حل ڈھوند کر ہی آئی ہو۔۔۔
تم اس کی فکر نہ کرو۔ آؤ میرے ساتھ۔۔۔
وہ اسے لئے واش رومز کی بیک سائیڈ پے آ گئی جو ذرا ہٹ کے بنے ہوئے تھے۔۔۔ اور وہاں ٹیچرز کا آنا ناممکن تھا۔۔۔
وہاں پہ اور بھی لڑکیاں تھی جو فون پہ محوِ گفتگو تھیں۔۔ اسے ایسے لڑکیاں بالکل بھی اچھی نہیں لگتی تھیں مگر آج وہ خود ایسی لڑکیوں میں شامل ہونے جا رہی تھی۔۔۔
وہ نہں جانتی تھی اب سے وہ ایسے کام کرے گی جسے کرنے کا اسنے پہلے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔۔۔
حیا بھی وہیں اس سے کچھ فاصلے پہ بیٹھی تھی۔۔۔ اُس نے حیا کو دھیان رکھنے کا بولا تھا کے کہیں کوئی آ نہ جائے۔۔۔
وہ ایسا پہلی بار کر رہی تھی اس لیے بہت ڈری ہوئی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم۔۔۔۔
وَعلیکم السلام۔۔۔ کیسی ہو پیاری لڑکی۔۔۔
میں۔۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔۔ آ۔۔۔۔آپ کیسے ہیں۔۔۔
ہاۓ۔۔۔۔ ہم سے نہ پوچھیے حال ہمارا کہ ہجر میں آپکے تڑپ رہے ہیں۔۔۔
وہ پہلے ہی اتنا کنفیوز ہو رہی تھی۔۔ اوپر اُسکی باتیں اففففف۔۔۔۔
جانے کیا جادو کیا ہے لڑکی ہر طرف تم ہی تم نظر آ رہی ہو۔۔۔
اسکی ہنوز خاموشی پہ وہ بولا۔۔۔ اب کچھ بولو بھی۔۔۔
ج۔۔ جی میں۔۔۔ میں کیا بولوں۔۔۔
لو جی اب یہ بھی میں بتاؤں۔۔ اچھا بتاؤ فون بھیجوں تمہارے لئے۔۔
جی نہیں میں نے بولا تھا بھائی سے وہ لا دیں گے۔۔۔
آہاں۔۔۔
Thats great…
ٹھیک ہے پھر تم حیا سے میرا نمبر لے لینا اور فون ملتے ہی مجھ سے کونٹیکٹ کرنا۔۔ ٹھیک ہے۔۔
جی۔۔
چلو پھر اب تمھارے نمبر پے بات ہو گی۔۔۔ زیادہ انتظار مت کروانا اپنی حسین آواز سنانے میں۔۔۔
جی۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔ لگتا مجھے بس جی جی ہی سننے کو ملے گا۔۔۔
جی نہیں اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔۔۔
اچھا جی پھر کیسی بات ہے۔۔
مہ۔۔۔۔ میں اب فون رکھتی ہوں۔۔۔
اللہ حفظ۔۔۔۔
ٹھیک ہے پیاری لڑکی اپنا خیال رکھناامید ہے جلد دوبارہ بات ہو گی۔۔۔
باۓ۔۔۔
وہ فون بند کر کے حیا کی طرف بڑھی۔۔۔
ہو گئی بات۔۔۔ہاں ہو گئی۔۔
ارے ایسا کیا کہ دیا زوۓ نے جو تم یوں لال ٹماٹر ہو رہی ہو۔۔۔ آہاں لگتا ہے بڑی رومینٹک قسم کی گفتگو ہو رہی تھی۔۔۔
بکو مت۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔۔
چلو اب چلیں یہاں سے۔۔۔ وہ بات پلٹنے کو اسے وہاں سے لے گئی۔۔
باصفا نے حیا سے زاویار کا نمبر لے لیا تھا۔۔۔
اور فون ملتے ہی اس سے کونٹیکٹ کیا۔۔
اب تو بس باصفا ہوتی اور اسکا فون ۔۔۔ اس پہ کونسا کوئی نظر رکھنے والا تھا۔۔۔اسکا جب دل کرتا زاویار سے بات کرتی۔۔۔
“میں کیا کہوں کہ کیا ہو تم۔۔۔
جو پوری ہو سکے وہ دعا ہو تم۔۔۔
دعاسے مانگا تو لگا ایسے۔۔۔
جیسے رب کی میرے لئے رضا ہو تم۔۔۔”
زاویار جیسے مرد کیلیے باصفا جیسی لڑکی کو شیشے میں اتارنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ اسے لگا تھا باصفا اتنی آسانی سے اسکے قابو میں نہیں آئے گی۔۔۔ مگر وہ تو زاویار کی سوچ سے کہیں زیادہ بے وقوف نکلی۔۔۔
وہ اسے جتنی اتھری گھوڑی لگی تھی وہ اتنی ہی آسان حدف ثابت ہوئی تھی جواسکی دو چار باتوں سے ہی زیر ہو گئی تھی۔۔۔۔
باصفا کو زاویار بہت اچھا لگا تھا۔۔ جتنی تعریفیں حیا اسکی کرتی تھی وہ باسفا کو اس سے کئی گناہ زیادہ اچھا لگا۔اس کیلیے یہ سب بالکل نیا تھا۔۔ مما بابا کے بعد وہ ایک واحد شخص تھا جو باصفا کو اتنی توجہ دیتا تھا۔۔ وہ اگر روٹھتی تو اسکی جان پہ بن جاتی۔۔
وہ اس سے اپنی ہر بات شیئر کرنے لگی تھی۔۔۔ وہ بابا کی طرح اس پہ بھی بھروسہ کرنے لگی تھی۔۔۔ مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ ہر کسی پہ بھروسہ نہیں کر لیتے ۔۔ ہر کوئی باپ کی طرح مخلص نہیں ہوتا۔۔۔
اور جب بھروسہ ٹوٹتا ہے تب اپکے پاس کچھ نہیں رہتا۔۔۔ نا پیروں تلے زمیں نہ چھت پہ آسماں۔۔۔ مگر اسے کون بتاتا ۔۔۔ اگر کوئی اسے سمجھانے والا ہوتا تو شائد وہ بھٹکتی ہی نہیں۔۔۔
مگر کہتے ہیں نہ وقت بہت بڑا استاد ہے وہ انسان کو سب کچھ سکھا دیتا ہے۔۔۔۔ اور اس معصوم سی لڑکی پہ بھی بہت جلد وہ وقت آنے والا تھا۔۔۔
زاویار کے سنگ دنیا کسی فیری ٹیل کی طرح لگ رہی تھی۔۔۔ایسے ہی وقت گزرتا گیا۔۔۔ اب وہ صرف بات ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ایک دو بار مل بھی چکے تھے۔۔۔
زاویار تو اکثر ہی باصفا سے ملنے کی ضد کرتا مگر وہ ہی ٹال جاتی اور پھر اسکے بے حد اصرار پہ اسے ملنا ہی پڑتا۔۔۔
وہ گھر سے کالج جاتی اور وہاں سے زاویار اسے پک کر لیتا۔۔۔ باصفا کو وقت وہ لمحے اس قدر حسیں لگتے کہ اسکا بس چلتا تو وہ وقت کو وہیں روک لیتی۔۔۔ زاویار کا آنچ دیتا لہجہ اسے لگتا وہ دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی ہے جسے زاویار جیسا ہینڈسم ایجوکیٹڈ لڑکا ملا۔۔۔۔
وقت بہت اچھا گزر رہا تھا اور پھر اسکی زندگی میں اک اور وجود کا اضافہ ہوا۔۔۔
وہ تھی اسکی بھابی ۔۔۔ حرم۔۔۔
بھائی نے اپنی سیکٹری سے شادی کر لی تھی۔۔۔
بھائی نے اس سے پوچھنا تو دور بتانا بھی پسند نہیں کیا تھا۔۔۔ اور حرم کو اسکے سامنے لا کھڑا کیا کہ یہ تمہاری بھابی ہے۔۔ خیر اسے کیا اعتراض ہونا تھا۔۔۔ وہ تو حرم کے آنے سے بہت خوش ہوئی تھی کہ چلو گھر کے خاموش ماحول میں اک خوشگوار تبدیلی آئے گی۔ وہ اور بھابی بہنوں کی طرح رہیں گی۔۔۔مگر یہ سب اسکی خام خیالی ہی رہی۔۔۔حرم نے چند دنوں میں ہی اسے باور کروا دیا کہ وہ اس سے اور اسکے معاملات سے دور رہے۔۔۔
ظاہر ہے جب بھائی کا سلوک ہی ایسا تھا تو بھابی کا بھی تو ایسا ہی ہونا تھا نا۔۔۔
باصفا اکثر نوٹ کرتی حرم کو اس گھر میں اسکا وجود برداشت نہیں ہوتا وہ اُسے عجیب نظروں سے دیکھتی۔۔۔ حرم کے آنے سے وہ اور زیادہ خود میں محدود ہو گئی۔۔۔
اب وہ کالج سے آتے ساتھ ہی اپنے کمرے میں چلی جاتی۔۔۔ خیر اسکی روٹین میں زیادہ کوئی فرق نہیں آیا تھا پہلے وہ زیادہ تر لان مین ہی رہتی تھی کمرے میں اسکا دل گھبراتا تھا مگر اب وہ اپنے کمرے میں ہی رہتی۔۔۔
زاویار سے اب بھی اسکی بات ویسے ہی ہوتی تھی۔
اسکے روم میں کونسا کوئی آتا تھا جو کوئی مسئلہ ہوتا۔
مگر پھر آہستہ آہستہ بھائی کا رویہ بھی تبدیل ہونے لگا۔ پہلے تو انہیں کبھی کوئی پرواہ نہیں ہوئی کہ وہ کیا کرتی ہے کیا نہیں۔
مگر اب وہ بات بے بات ٹوکنے لگے تھے۔
“سارا دن اپنے کمرے کیوں رہتی ہو۔ حرم کو کمپنی دیا کرو۔ وہ سارا دن اکیلے کام کرتی ہے اسکا ہاتھ بٹایا کرو۔ہر وقت موبائل پہ مت لگی رہا کرو۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔”
وہ انکی باتوں پہ بہت حیران ہوتی۔ لو بھلا کام تھا ہی کیا جو حرم بھابی کرتیں تھیں۔ ہر کام کیلیے تو ملازم تھے۔
اور اسنے کیا انکو کنمپنی دینی تھی جو اسکی طرف دیکھتی بھی نہیں تھیں۔ اور موبائل تو پہلے بھی یوز کرتی رہی تب تو انھیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ پھر اکثر ہی اسطرح ہونے لگا۔ اکثر تو اسے ان باتوں پہ ڈانٹ پڑھتی جو اس نے کیا ہی نہیں ہوتا تھا۔۔۔
تب اسے سمجھ آئی کہ یہ سب بھائی سے کون کہتا ہے۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر حرم بھابی کو اس سے مسئلہ کیا ہے۔ وہ جب انکی کسی بات میں نہیں بولتی تو پھر بھی اسکا وجود انھیں کیوں کھٹکٹا ہے۔
وہ شائد کسی بھی طرح اسے یہاں سے نکالنا چاہتی تھیں اوراسکا بیسٹ سولیوشن اسکی شادی تھی۔۔۔ وہ شائد اکیلے اس گھر پہ راج کرنا چاہتی تھیں اس لیے اسے جلد از جلد یہاں سے نکالنا چاہتی تھیں۔ حالانکہ بیٹیاں تو ہوتی ہی پرائی ہیں آج نہیں تو کل انھیں جانا ہی ہوتا ہے۔
بھابی نے اپنے رشتہ دار میں کوئی رشتہ بتایا تھا بھائی کو اور انہوں نے بھی بغیر کوئی چھان بین کیے ہاں کہ دی تھی۔ اسکے اگزیمز کے بعد شادی کی تاریخ بھی رکھ دی گئی۔ اور جسکی شادی تھی اس سے کسی نے پوچھنا بھی پسند نہیں کیا تھا۔۔۔
باصفا کو جب شادی کا پتہ چلا تو بہت پریشان ہو گئی۔۔ وہ زوئی کے علاوہ کسی اور سے شادی کیسے کرتی۔
اور زاویارسے بھی کیا کہتی اب کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ وہ خود کو بہت بے بس محسوس کر رہی تھی۔۔۔
آخر بات کیا ہے باصفا تم مجھے بتاتی کیوں نہیں ہو۔۔ کیوں پریشان ہو۔۔۔ زاویار کئی بار باصفا سے پوچھ چکا تھا مگر وہ ہر بار ٹال دیتی۔۔
آخر اسکے بےحد اصرار پہ اسے بتانا ہی پڑا۔۔۔
زاویار بھائی اگزیمز کے بعد میری شادی کر رہے ہیں۔۔
What??????
کب ہوا یہ سب۔۔۔ اور تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟؟؟؟؟
باصفا نے ساری تفصیل زاویار کو بتا دی جسے سن کر وہ بھی پریشان ہو گیا۔۔۔پلیز زوئی کچھ کرو میں تمھارے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کروں گی۔
دیکھوں تم پریشان نہیں ہو میں ممی سے بات کرتا ہوں انھیں بھیجتا ہوں تمہارے گھر۔۔۔
زاوےار سچ میں پریشان ہو گےا تھا آکر کو اتنا وقت برباد کیا تھا اُس نے اس کڑکی پہ اور ابھی تک اپنا مقصد پورا نہ کر سکا تھا۔۔۔ وہ تو اپنے دوستوں کو بھی باصفا کا بتا چکا تھا۔۔۔
تم سمجھ نہیں رہے ہو زوئی وہ بھابی کے ریلیٹوز ہیں بھائی انہیں کبھی انکار نہیں کریں گے۔ ٹھیک ہے پھر اس سب کا ایک ہی حل ہے ہم کوٹ میرج کر لیتے ہیں۔۔۔زاویار کو اب اپنا مقصد پورا ہوتا نظر آ رہا تھا۔۔۔